(شیخ محمد ہاشم)
فروری2011 کو کینڈا کی چیف جسٹس بیورلے میک لیکلن نے اپنے حکمرانوں کو تنبیہ کی تھی کہ انصاف کی رسائی صرف امیر وں تک محدود ہو گئی ہے، کیونکہ متوسط اور غریب طبقوں کو انصاف اور اُن کے حقوق کی صفوں سے نکال دیا گیا ہے۔ اس بیان کے ساتھ ہی کینڈا میں جیسے بھونچال آ گیاہو۔ اور تب وہاں کے حکمرانوں نے فوراً اپنی ترجیحات کی سمت کو درست کیا۔
اپنی تقاریر کے ذریعے کئی مقامات پر بلند و آہنگ آواز میں طبقہ اشرفیہ کو تنبیہ اور عام افراد کو آزاد نامہ دینے والے سابق چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی بھی بلاشبہ کئی دفعہ برملا اسی پہلو کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر چکے تھے۔ لیکن ہمارے پیارے ملک میں نہ ہی کوئی بھونچال آیا اور نہ ہی حکمرانوں نے اپنی ترجیحات کی سمت کو تبدیل کیا۔ بلکہ اُن ترجیحات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیاجس کا تعلق برائے راست اُمرا، جاگیرداروں، وڈیروں، اور خانان سے وابستہ ہیں، تا حال بے بس اور لاچارغریب ومتوسط طبقے کونہ صرف انصاف کی فراہمی سے محروم کیا جا رہا ہے، بلکہ اُن کے حقوق کی پامالی انتہائی بے دردی سے کی جا رہی ہے۔ اس کے عوض بڑھتی ہوئی بے روزگاری، دہشت گردی، تعصب، فرقہ واریت، تعلیم کا فقدان، مہنگائی اور مزی دکئی عفریتوں کی شکار متوسط و غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی عوام کو مرے پہ سو دُرے کے مصداق اُن کے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
انصاف اور حقوق کی رسائی غریب اور متوسط طبقے تک کیوں کر نہیں ہو پا رہی ہے؟ کیوں کہ قانون کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ قانون کو معزول کیا جا رہا ہے۔ قانون سازی اپنے مفاد ات کے حصول کے لئے کی جا رہی ہے۔ کون کر رہا ہے قانون کو معزول یا قانون کی بے حرمتی؟ اس کا جواب تو بیورلے میک لیکلن اور جناب انور ظہیر جمالی دے چکے تھے اور اب تو اس کا جواب روز روشن کی طرح عیاں بھی ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا کام کسی بھی لحاظ سے تسلی بخش نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جن بلوں کو قانون کی شکل دی جاتی ہے، اس پر سنجیدگی اور توجہ سے بحث ہی نہیں کی جاتی۔ نتیجہ وہی” ڈھاک کے تین پات” اُس کے نتیجے میں قانون کی ایسی شکل سامنے آتی ہے جس کا کوئی بھی متوازن قانونی نظام اجازت نہیں دیتا۔ سیکیورٹی ادارے خود قانون کی پامالی کر رہے ہوتے ہیں، جو کہ وفاق اور صوبے کے وزراء کے زیر اثر کام کر تے ہیں۔ مجبوراً سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ “سیکیورٹی ادارے اگر قانون کے پابند نہیں تو دفاتر پر داعش کے جھنڈے لہرا دیں۔”
یہ ہی خط پرکار ہے ملک کو پنپنے نہ دینے کا۔ سیکورٹی ادارے قانون کی دھجیاں اس طرح سے بکھیر رہے ہوتے ہیں، جس سے یہ پیغام تسلسل سے دیا جا رہا ہوتا ہے کہ ہم ہی قانون کے رکھوالے ہیں، ہم ہی قانون شکن۔ کیونکہ ہم طاقتور ہیں، غریب ومتوسط طبقہ کمزور و لاغر ہے ،
پھرسابق چیف جسٹس نے اپنے ایک خطاب میں حکمرانوں کو تنبیہ اور عوام کو جگانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ “جمہوریت کے نام پر کچھ گروہ ملکی وسائل پر قابض ہیں،عام آدمی کو دو وقت کی روٹی ملنا محال ہو رہا ہے۔ معاشرے سے خوف خدا اورحرام و حلال کا فرق ختم ہوتا جا رہا ہے” چیف جسٹس صاحب معاشرے کی تباہ حالی کی عکاسی اور اس کے ذمہ داروں کا درست تعین کر رہے تھے۔ آج بھی عوام شب و روز اس کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی سوئس کیس کے نام سے تو کبھی وکی لیکس اور اب پنامہ پیپرز لیکس ،آف شور اکاونٹس اور کمپنیوں کے نام سے۔ لیکن صد افسوس نہ تو حکمرانوں نے ترجیحات کی سمت کو تبدیل کیا اور نہ ہی پاکستانی عوام نے سابق چیف جسٹس صاحب کے پیغامات کو سنجیدگی سے لیا۔
ممتاز دانشور جناب جون ایلیا مرحوم اپنی تحریر میں فرماتے ہیں کہ”حکمرانوں سے کہو کہ عام آدمی سے سمجھوتہ کریں۔ جو قانون ہم نے بنایا ہے اس کا احترام ہم بھی کرتے ہیں تم بھی کرو۔ اور جب عام آدمی کو قانون کا پابند بنا دیاگیا ہوتو پھر خاص آدمیوں کو بھی اس کا پابند ہو نا ہو گا۔ اگر قانون کی دو طرفہ رعایت نہیں کی گئی اور اس کی حرمت کو برقرار نہیں رکھا گیا تو پھر ان بستیوں میں جنگل سے درندے ہی آکر آباد ہونگے۔”
جناب جون صاحب آپ نے درست فرمایا ہماری بستیوں میں ہمارے شہر میں جنگل کے درندے ہی آکر آباد ہو رہے ہیں۔ جو ایک موبائل کی خاطر کسی کی جان لینا گناہ نہیں سمجھتے۔ یہ درندے ہمارے پارکوں میں ہماری مسجدوں میں حملے کر تے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کو اپنا تر لقمہ سمجھتے ہیں۔ اور یہ سب متوسط و غریب طبقے کو انصاف کی فراہمی سے محروم رکھنے کے سبب ممکن ہوا ہے۔ قانون کی معزولی اور اس کی بے حرمتی اورغریب و متوسط طبقے کو انصاف کی صفوں سے نکال دیئے جانے کے سبب ہمارا معاشرہ “نقش بر آب ” ہوتا جا رہا ہے۔ میرے منہ میں خاک کہیں نقش بر آب نہ ہو جائے۔ اللہ کرے اس سے قبل میری صدا میری گونج، میری فریاد ہر طول و عرض تک پہنچ جائے۔ “ہے کوئی دانشور، ہے کوئی علم و حکمت و دانائی سے مالا مال،جو اس زہر کا تریاق دریافت کرسکے۔ تمھارے، میرے اور آنے والوں کے لئے نجات کا راستہ تلاش کر سکے۔”