(جنیدالدین)
گاؤں کے سکول میں سائنس ٹیچر نہ ہونے کے سبب (جو کہ آج بھی نہیں ہے) والدین ہمیں نزدیکی ایسے گاؤں میں بھیج دیتے جو بظاہر تو پسماندہ تھا مگر سائنسی مضامین کے اساتذہ ہونے کی بدولت پورے علاقہ کا آکسفورڈ سمجھا جاتا تھا. گردونواح کے علاقوں کا اس طرف رحجان ہونے کے باعث ساتھ والے ایک گاؤں سے بس سروس شروع کر دی گئی. زیادہ تر اساتذہ شہر سے آتے تھے چنانچہ وقت کی پابندی لازمی شرط ہو گئی اور تھوڑے عرصہ میں وہاں کی سڑکیں باقاعدہ ایک روٹ کی شکل اختیار کر گئیں. وہاں سے گاؤں جانے کہ دو راستوں میں ایک کچا جبکہ دوسرا ٹوٹی پھوٹی پکی سڑک تھی. انہی ایام میں سائیکل باقاعدہ کلچر کا حصہ تھے جن کی ڈیمانڈ آج کی 70 سے کسی طور کم نہ تھی. ہم بھی سائیکل پہ سوار اسی پکی سڑک پہ جاتے جہاں سے وہ بسیں چلتی تھیں. ایسے ہی ایک دن کسی لڑکے نے سامنے سے آنے والی بس کو موت کہہ دیا اور کہا کہ “موت سے بچ کے”. یہ کافی مضحکہ تھا کہ بس کو موت سے تشبیہ کس طرح دی جا سکتی ہے.
خیر کچھ دن بعد ایک ایسا واقعہ ہوا کہ اس بات کے پیچھے چھپی سچائی پہ یقین آگیا .جب گاؤں کا ایک کمہار اپنے ریڑھے کو کھیتوں سے سڑک پہ لانے کیلئے زور لگاتا ہوا اچانک کسی سمت سے آتی ہوئی بس کے آگے آگیا جس نے اسے کچل دیا. ہاں یہ موت ہی تھی جو اچانک اس سے آ ملی تھی. اس کے بعد کئی اور حادثات رونما ہوئے اور دیکھے گئے. جیسے پچھلے سال شیخوپورہ سے مظفرگڑھ جاتے ہوئے گڑھ موڑ کے نزدیک اسی طرح کی ایک اور بس سڑک سے نیچے اتر گئی. گو کہ کوئی جانی نقصان نہ ہوا مگر پورا راستہ ذہن میں یہی کھٹکا رہا کہ ابھی لگی کہ ابھی لگی. اس لئے کہ ڈرائیور موصوف ہر دو گھنٹے بعد بس کھڑی کر کے چرس پینے لگ جاتے.
اگر آپ لاہور سے فیصل آباد یا کسی بھی ایسی جگہ پر سفر کریں جہاں ایسی موت بسیں چلتی ہیں تو پورا راستہ آپ بس یہی دعا کرتے رہیں گے کہ اللہ بس ان بسوں سے بچا لے کیونکہ کب انہیں گاڑی چلاتے ہوئے آپ کی یا کسی بھی دوسری بس پہ سوار ڈرائیور کی کوئی بات ناگوار گزری اور کب انہوں نے اپنی دھواں دار ڈرائیونگ کا مظاہرہ شروع کر دیا. اور یہی وجہ حالیہ پیش آنے والے واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے جہاں خانپور کے نزدیک دو بسوں کے ٹکرانے سے تیس افراد لقمئہ اجل بن گئے. لیکن اس واقعہ کے بعد مذید سوالات جنم لیتے ہیں جیسے یہ واقعات یا اس طرح کے خطرناک حادثات جنوبی پنجاب یا مشرقی سندھ میں ہی کیوں پیش آتے ہیں. ؟
ہر بڑے روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ موت بسیں ہی کیوں ہوتی ہیں.؟ حادثہ ہونا کسی کے بس کی بات نہیں مگر فرسٹ کلاس اے سی کوچز کے حوادث کی شرح اتنی کم کیوں ہے.؟
نان اے سی یعنی موت بسوں کے ڈرائیوروں کی ایک بڑی تعداد چرس کیوں پیتی ہے؟ حالیہ ٹرین کے کرایوں میں اضافہ کس حد تک اس میں عمل پزیر ہے؟ کیا اس سارے عمل کے پیچھے بھی تاریخی مادیت ہی تو اثر انگیز نہیں؟
تاریخی مادیت اگر چہ سب سے آخر میں لکھا گیا ہے مگر درحقیقت یہ تاریخی مادیت ہی ہے جو ان تمام عوامل کی ذمہ دار ہے اور تاریک راہوں میں مارے جانے والے یہ مسافر اس سے بے بحرہ ملک عدم سدھار جاتے ہیں, شاید وہ بھی جنہوں نے ساری زندگی تاریخی مادیت یعنی مارکسزم کو الہادی نظام سمجھ کر اسکی مخالفت کی ہوتی ہے.
ہیگل کی تاریخی جدلیات کے برعکس مارکس کی تاریخی مادیت کے مطابق حال تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والی مادی طاقتوں کے مسلسل محرکات اور باہمی ٹکراؤ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور یہی مادی قوتیں انسان کے مستقبل کا تعین کرتی ہیں.
جیسے سب سے پہلا نقطہ کہ یہ حادثات جنوبی پنجاب اور مشرقی سندھ میں ہی کیوں پیش آتے ہیں اور اس کی بنیاد سوموار کو پیش آنے والے واقعہ پہ رکھتے ہیں. دور دراز علاقوں میں سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ کراچی سے لاہور یا فیصل آباد سے کراچی جانے والی بسیں عموماً رات کو چلتی ہیں اور آٹھ نو بجے روانہ ہونے والی بس صبح جب بارہ گھنٹوں بعد جنوبی کے اختتام اور مشرقی سندھ کے آغاز تک پہنچتی ہیں تو مسلسل سفر اور تھکن کے باعث ڈرائیور خود کے حواس پہ ٹھیک طرح سے قابو نہیں رکھ پاتا اور تھوڑی سی بھی کوفت کی وجہ سے سارا زور گاڑی کو جلد سے جلد منزل تک پہنچنے کی جدوجہد میں رفتار کو تیز کرنے میں لگا دیتا ہے. یہی وجہ اسے فرسٹ کلاس بسوں سے علیحدہ کرتی ہے جہاں کچھ عرصہ بعد ایک نیا ڈرائیور سیٹ سنبھال لیتا ہے جبکہ اول الذکر میں ایک ہی ڈرائیور نے سارا کام کرنا ہوتا ہے اور یہیں سے قدر فاضل اور مادیت کا آغاز ہوتا ہے.
فرسٹ کلاس ٹریول سروسز کے برعکس موت بسوں کے ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کیلئے باقاعدہ تنخواہ کا کوئی حقیقی تصور نہیں ہے. آجر صرف ایک بس خریدتا ہے. اس کیلئے ایک روٹ لیتا ہے اور بے روزگاری و افراط زر کی بدولت کوئی بھی شخص چوبیس گھنٹوں کیلئے اس کا ڈرائیور بن جاتا ہے جس نے اگلے چوبیس گھنٹوں کے بعد اس کو ایک مناسب رقم دے دینی ہوتی ہے جو سارے اخراجات نکال کر چھ ہزار تصور کر لیتے ہیں. اگر بالفرض ڈرائیور اتنی رقم نہیں کما سکتا تو اسکو باقی پیسے اپنی جیب سے ادا کرنے پڑتے ہیں. اسی چکر میں اگر گاڑی کی روانگی اور آمد کا وقت چوبیس گھنٹے ہو تو اس کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ تئیس گھنٹے اڈے پہ کھڑا رہ کر مسافروں کا انتظار کرے اور اگلے ایک گھنٹہ میں یہ سارا فاصلہ طے کر لے یا خالی بس لیکر پہنچ جائے. اسی لئے ان گاڑیوں کی روانگی کا کوئی خاص وقت متعین نہیں ہوتا اور سواریوں کے انتظار میں دیر کر دی جاتی ہے اور پھر مقررہ حد سے تیز گاڑی بھگائی جاتی ہے جو ان حادثات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ سخت ترین پریشانی اور تھکن میں مبتلا یہ لوگ سکون کی خاطر نشہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں. اس کے برعکس فرسٹ کلاس ٹریول سروسز اپنے عملہ کو اس ٹھیکہ کے برعکس مناسب تنخواہ پہ رکھ لیتے ہیں. اور زائد کرایہ دینے کے بدلے ان کے مسافروں کو اطمینان رہتا ہے کہ ان کا ڈرائیور اس پریشانی سے بالکل آزاد اپنا فرض ادا کر رہا ہے اور زندگی بھی محفوظ ہاتھوں میں ہے.
غور کیا جائے تو یہ چھوٹا سا نظام اپنے اندر سرمایہ داری کا گھناؤنا نظام معیشت سمیٹے ہوئے ہے اور درپردہ دونوں رویے سرمایہ دارانہ نظام کا چیچک زدہ چہرہ ہیں. اول الذکر قدر فاضل کا تعین کرتے ہیں جس کے تحت سرمایہ دار ایک بس کے بدلے تین بندوں کو خرید لیتا ہے. جو بیگانگی ذات کے تحت اپنی ساری طاقتیں اس کو قدر فاضل مہیا کرنے میں صرف کر دیتے ہیں. یہ تین بندے ڈرائیور, کنڈکٹر اور چھوٹا ہوتے ہیں. اور اس سارے دورانیہ میں انہوں نے اپنا منافع اس کے منافع کو علیحدہ کر کے کمانا ہوتا ہے. اگر سفر کے اختتام پر بالفرض وہ بارہ ہزار روپے کماتے ہیں تو انہیں چھ ہزار مالک کو دینے ہوں گے اور باقی چھ ہزار آپس میں تقسیم کرنا ہوں گے. اگر ان میں سے ہر ایک دو ہزار لے جیسا کہ کبھی نہیں ہوتا تب بھی ایک کے مقابلے میں اسے دو بندوں کی کمائی بچ جاتی ہے اگر وہ اپنے چھ ہزار میں سے ایک حصہ بس کے اوپر لگنے والے اخراجات کی مد میں نکال لے. اور یوں ایک عام مزدور کی ماہانہ تنخواہ وہ فقط چار روز میں نکال لیتا ہے اور باقی چھبیس روز تک اتنے بندوں سے زیادہ منافع اپنی جیب میں ڈال کر انہی پیسوں سے سرمائے کو ترقی دیتا رہتا ہے.
مؤخرالذکر نظام بھی سارا اختیار ریاست سے چھین کر فقط چند ایک سرمایہ داروں کی آزاد تجارت کے نظریہ اور اس سے پھیلنے والے کینسر کے سپرد کر دیتا ہے. کمیونسٹ ریاست عوام سے وسائل تو لے لیتی ہے مگر اس کے بدلے انسان کو بہتر زندگی کی ضمانت بھی دے دیتی ہے. جیسے کمیونسٹ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو سفر کی بہتر سہولیات فراہم کرے اس لئے کہ ان کے وسائل معاہدہ عمرانی کے تحت ریاست کے پاس گروی ہیں. جبکہ سرمایہ دارانہ ریاست میں عوام کا تعلق ریاست سے کٹ کر فقط حکومتوں اور مفاد پرست سیاستدانوں تک محدود ہو جاتا ہے. اسی وجہ سے کسی بھی خاص تہوار خاص طور پر عیدین کے موقع پر کرائے بڑھ جاتے ہیں اس لئے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے پرزے وہ سیاستدان انہی بسوں کے مالک ہوتے ہیں اور یہ کڑی مفاد در مفاد بنتی جاتی ہے. فرسٹ کلاس بسوں کے یہی مالکان عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ کچھ ہی زیادہ پیسوں کے عوض آپ صیح سلامت گھر پہنچ سکتے ہیں اور حکومت ایک طرف بیٹھ کر لوگوں کی جان مال کو ان کے سپرد کر دیتی ہے. اور یہی چھوٹا سا طبقہ جو اس کرائے کا بار سنبھال سکتا ہے کسی نہ کسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب رہتا ہے. نیز اول الذکر بس مالکان بھی سفر کیلئے مؤخرالذکر بسوں پہ سفر کرتے ہیں.
جبکہ تمام تر ٹیکس وصول کر لینے کے بعد بھی ٹرینوں کا کرایہ مزید بڑھتا جا رہا ہے. اوپر سے ہمیشہ دیر سے پہنچنے کی ٹرینوں کی روایت بھی لوگوں کو کسی نہ کسی طرح چوبیس گھنٹوں میں پہنچنے والی گھمن گھیریوں میں ڈال کر بسوں کے استعمال کی طرف راغب کیے جا رہی ہے.
اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو عنقریب عوام سرمایہ داروں کے جعلی پروپیگینڈوں سے نکل کر اس استحصالی نظام کا خاتمہ کر دیں گے جو پہلے ہی حالت نزع کو پہنچ چکا ہے. پرولتاریہ مسافرو ایک ہو جاؤ.