موسمیاتی تغیرات پر فکشن نگاروں نے ہونٹ کیوں سی لیے ہیں؟
(انتخاب و ترجمہ: یاسر چٹھہ)
تعارفی نوٹ: امیتاو گھوش (Amitav Ghosh) بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ بھارت میں پیدا ہوئے یہ ان صاحب کی کتابوں کے بیس سے زائد زبانوں میں تراجم کئے گئے ہیں، ان کی ہر کتاب کی بہت سے ایوارڈوں سے پذیرائی کی گئی۔(ان ایوارڈوں کی تفصیل کے لیے یہاں کلک کیجئے۔) آپ ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کی چند قابل ذکر کتابوں میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
The Circle of Reason
The Shadow Lines
In An Antique Land
Dancing in Cambodia
The Calcutta Chromosome
The Glass Palace
The Hungry Tide
The Ibis Trilogy
Sea of Poppies
River of Smoke
The Great Derangement: Climate Change
and the Unthinkable
آپ بھارت اور امریکہ کی ممتاز یونیورسٹیوں میں درس و تدریس سے بھی منسلک رہے؛ ان یونیورسٹیوں میں دہلی یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی، کوئینز کالج، اور ہارورڈ یونیورسٹی شامل ہیں۔ 2007 میں آپ کو بھارتی صدر کی جانب سے اعلی ترین سول ایوارڈ، پدما شری سے نوازا گیا۔ 2010 میں انہیں کوئینز کالج، نیویارک اور سوربارن، پیرس کی جانب سے الگ الگ اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے نوازا گیا۔ آپ کے مضامین نیویارک ٹائمز، نیویارکر، نیو ریپبلک اور گارڈین، لندن جیسے معروف اخباروں اور جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ زیر نظر مضمون جس کا ایک روزن ترجمہ پیش کررہا ہے، گارڈین، لندن میں حالیہ دنوں (28 اکتوبر 2016) میں شائع ہوا۔ اصل مضمون کے جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں، لیکن موجودہ ترجمہ ایک روزن کی دانشی امانت ہے۔
____________________________________
(امیتاو گھوش)
یہ سادہ سی حقیقت ہے کہ عصر حاضر کے انگریزی فکشن میں موسمیاتی اور آب و ہوا کی تبدیلیوں کا ذکر نا ہونے کے برابر ملتا ہے۔ ان تبدیلیوں کا کہیں زیادہ ذکر تو نان فکشن کی صنف میں موجود ہے۔ بلکہ فکشن کے مقابلے میں تو عمومی بحثیں ہی موسمیاتی تبدیلیوں کا زیادہ ذکر کرنے میں آگے بڑھی ہوئی ہیں۔ اس بات کے ثبوت کے لیے ہمیں دور جانے کی ضرورت ہر گز نہیں: آپ صرف ادبی مجلوں، اور کتابوں پر تبصروں کی ذیل میں مختلف جگہوں پر صرف ورق گردانی کر لیجئے۔ جب بھی موسمیاتی اور آب و ہوا کی تبدیلیوں کا مضمون چھڑا ملتا ہے، ایسا تقریباً ہر بار نان فکشن کی ذیل ہیں میں ہوتا ہے۔ یوں کہنا مبالغہ پر محمول نہیں ہوگا کہ، یوں لگتا ہے ناول اور افسانے کے لکھاریوں کو تو اس موضوع کے قریب پھٹکنا بھی گوارا نہیں؛ اگر کوئی اور کہیں ذکر ملتا بھی ہے تو، نا ہونے کے برابر۔ در اصل ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ فکشن جو موسمیاتی تبدیلیوں کی ذیل میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کی حیثیت اور نوعیت بھی ایسی ہے کہ اسے سنجیدگی سے لینا امر محال ہے۔ محض ان کے موضوعات کو سرسری سے انداز سے ہی ذہن میں لائیے؛ آپ با آسانی کہہ سکیں گے کہ یہ جو تھوڑی سی تعداد میں ناول اور افسانے ملے انہیں تو سائنس فکشن کی صنف کی ذیل میں ڈالنا چاہئیں۔ ان کا موسمیاتی تبدیلیوں سے محض حاشیائی سا تعلق ہے۔ ان افسانوں اور ناولوں کو دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ادیبوں کے تخیل اور ان کی سوچوں میں موسمیاتی تبدیلیوں پر بحث کرنا بالکل ایسے ہی سمجھا جا رہا ہے جیسے خلائی مخلوقات، یا بین السیاراتی اسفار کا ذکر کرنا۔
قارئین اور عوام کی جانب سے موصول ہونے والا فیڈ بیک اور رد عمل بھی تو بڑی غضب ناکیوں سے عبارت ہے۔ اس چلن کو کسی طور پر بھی سنجیدگی نہیں کہا جاسکتا، جو زمین پر زندگی کے وجود کو اس قدر خطرے میں ڈالنے والے حالات کا ادراک کرنے سے قاصر ہو۔ فرض کیجئے کسی معاملے کے جلد از جلد حل طلب ہونے کا ادراک کرنا ہی کسی مسئلے کو سنجیدہ سمجھ لینے کا ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آب و ہوا میں آنے والی تبدیلیاں زمین پر زندگی کے مستقبل کے امکانات پر کس طرح کے خطرناک اثرات کی حامل ہوسکتی ہیں، تو یہ بات ہی دنیا کے مختلف گوشوں میں موجود ادیبوں اور مصنفوں کی ذہن و دل کی جملہ وابستگیوں کو اپنی طرف کھینچنے کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن جتنا میرا فہم ہے ایسی صورتحال کے قریب قریب کی کیفیت بھی نہیں مل رہی۔ لیکن، ایسا کیوں ہے؟
موسمیاتی اور آب و ہوا کی تبدیلیوں کا جس قدر اثر دنیا پر پڑ رہا ہے، ادب پر اس کے برعکس یہی اثر اس قدر کم کیوں ہے؟ کیا یہ کوئی ایسی مشکل اور طغیانی کا شکار ندی ہے کہ جو عصر حاضر کی بیانیاتی دسترسوں کی کشتی سے پار نہیں ہو پاتی؟ لیکن آج سچ یہ ہے کہ ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہوچکے ہیں جب کئی طرح کے منھ زور اور سرکش حالات اب معمول کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ ادبی اصناف میں سے کوئی ایک بھی اگر ان جیسے حالات کو اپنے ادراک اور بیان کی گرفت میں لینے سے قاصر ہے تو اس سے بڑی ناکامی کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے: ایک وسیع تر تخیلاتی اور ثقافتی منطقوں کی ایسی ناکامی جس کی موسمیاتی تبدیلیوں کے بحران میں نوعیت البتہ مرکزی اہمیت کی ہے۔
اس بات میں کسی قسم کی کوئی گنجلک نہیں کہ ایسی صورتحال معلومات کی کمی کا شاخسانہ تو کسی صورت قرار نہیں دیا جا سکتی۔ لا ریب، شاید ہی دنیا کے کسی گوشے میں کوئی ادیب ہوگا جو پوری دنیا کے موسمیاتی نظاموں میں ہونے والی گڑبڑوں سے کسی نا کسی طور آگہی نا رکھتا ہو۔ مگر یہ بڑا عجب مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی ناول نگار موسمیاتی اور آب وہ ہوا کی تبدیلیوں پر قلم اٹھانے کا ارادہ کر ہی لیتا ہے ( یا کر لیتی ہے) تو اس کا یہ عمل عموما فکشن کی صنف سے باہر کے علاقے میں ہی سر انجام پاتا ہے۔ اروندھتی رائے کی ہی مثال لے لیجئے: آپ نا صرف ہمارے ان وقتوں کی نہایت عمدہ نثری اسلوب نگارش کی مالک لکھاری ہیں، بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے متعلقہ معاملات سے جوش و خروش سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس بابت گہرے فہم، شعور، اور معلومات کی حامل ہیں۔ مگر ان کی موسمیاتی تبدیلیوں اور بحران کے متعلقہ تمام تحریریں نان فکشن کی ذیل میں ہیں۔
جب میں ایسے ادیبوں کو دیکھنے کے لیے نظر دوڑاتا ہوں جن کی تخلیقی کاوشوں نے ماحولیات کے کسی خاص پہلو سے متعلق تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا احاطہ کیا ہے، تو ایک شدید احساس زیاں میرے دامن گیر ہو جاتا ہے۔ انگریزی میں ادبی ناول لکھنے والے چند ایک نام ہی تو ذہن و نظر کے سامنے آتے ہیں۔ ان میں مارگریٹ ایٹ وڈ، کرٹ وانیگٹ جونیئر، باربرا کنگسالور، ڈورس لیسنگ، کارمک میکارتھی، آئن میکیوان، اور ٹی کوراگیسن بوائل شامل ہیں۔ اس فہرست میں البتہ کچھ اور لوگوں کے نام بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ اس فہرست میں لکھاریوں کی تعداد سو کے عدد تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن ایسی کسی تعداد کے باوجود بھی ادیبوں کا مرکزی دھارا کسی بھی دوسرے معاملے میں جو طرح کی پوری تندہی سے منسلک ہو جانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا رہا ہے، یہی مرکزی ادبی دھارا ہماری دہلیز پر دستک دیتے ماحولیاتی بحران سے البتہ آنکھیں چراتا دکھائی دے رہا ہے۔
خود میری جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں کے معاملے پر توجہ مرکوز رکھنے کے باوجود، میری اپنی تصانیف میں یہ معاملہ صرف بالواسطہ انداز سے ہی سامنے آ سکا ہے۔ میں اس حقیقت کو مان گیا ہوں کہ اس طرز کی خرابی ذاتی محض ذاتی پسند و پسند کا نتیجہ ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ ان خاص طرح کی مزاحمتوں کا شاخسانہ ہے جو آج کل کے سنجیدہ فکشن کی شناخت کے حامل ادب کو موسمیاتی اور آب وہ ہوا کی تبدیلیوں کے ہاتھوں درپیش ہیں۔
…
اپنے ایک بنیاد گذار مضمون، The Climate of History میں دیپیش چکربرتی یہ کہتے کہ اس anthropocene عہد میں تاریخ دانوں کو اپنے بنیادی مفروضے اور طریقہ ہائے کار پر نظر ثانی کرنا ضروری ہوجائے گا؛ یہ عہد ایسا ہے کہ جس میں انسان خود ارضیاتی عامل بن گئے ہیں۔ انسان اب زمین کے بنیادی نوعیت کے جاری طبعی عوامل کو بدلتے جا رہے ہیں۔ مجھے ایک قدم آگے بڑھ کے کہنے دیجئے کہ anthropocene عہد نے نا صرف علوم انسانی اور فنون کو نئے چیلنجوں سے دوچار کردیا ہے، بلکہ اب ہماری فہم عامہ بھی اس کے نشانے پر ہے؛ حتی کہ اس کا اثر اس سے بھی آگے بڑھتے بڑھتے ہماری موجودہ عمومی ثقافت تک اس کی زد میں ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسا چیلنج عام طور پر اس تکنیکی نوعیت کی زبان کی پیچیدگیوں سے جنم لیتا ہے جو ماحولیاتی اور آب ہوا میں آنے والے تغیرات کے حوالے سے ہماری سمجھنے کی کوششوں کا نکتئہ آغاز بنتا ہے۔ لیکن اس بات کے متعلق بھی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ چیلنج انسانی علوم و فنون کے تخلیق اور پیش کاری کی جملہ روایات اور مفروضوں سے بھی جنم لیتا ہے۔ اس بات کا سراغ اور کھوج لگانا کہ ایسا کیونکر ہوتا ہے، میرے خیال میں اس وقت کا سب سے اہم اور فوری سوچ بچار کا متقاضی کام ہے۔ اس چیز کا جواب ڈھونڈنے کا عمل کسی ایسی دریافت اور سمجھ بوجھ حاصل کرنے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے کہ آخر کار ایسی کون سی چیز ہے جو موجودہ ثقافت کی جانب سے موسمی تغیرات کے معاملے کی برت کے کام کو محال کردیتا ہے۔ درحقیقت، شاید یہ کسی بھی عہد کا ایک انتہائی اہم سوال ہے؛ اس درپیش سوال کے سلسلے میں وسیع تر تناظر میں کلچر سے معاملہ بندی کرنا اشد ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارے لیے کسی قسم کی لغزش کا موقع بالکل نہیں ہے: آب و ہوا کے تغیرات کا بحران ہماری ثقافت کا بھی بحران ہے، اور آگے بڑھتے ہوئے کہنے دیجئے کہ یہ ہمارے تخیل کا بھی بحران ہے۔
ثقافت خواہشوں کو جنم دیتی ہے۔ یہ خواہشیں کاروں اور روز مرہ کے استعمال کے برقی آلات کے لیے ہوسکتی ہیں؛ یہ خواہشیں مختلف انواع کے باغیچوں اور رہائشی عمارتوں کے لیے ہوسکتی ہیں؛ اور یہی سب چیزیں ہی تو ہیں جو کاربن بنیاد معیشت کے ستون ہیں۔ کوئی ایسا ایندھن جو جلد از جلد انجن کو درکار توانائی میں بدل جانے کی خصوصیت کا حامل ہو، ہماری دھات اور کروم سے کسی خاص لگاؤ کی وجہ سے خوشی کا باعث نہیں بنتا، نا ہی اس میں لائی گئی کسی انجینئرنگ کی تجرید کے باعث ہم میں کسی قسم کی جوش والی کیفیت ابھارتا ہے۔ یہ ہمارے لیے اس وجہ سے خوشی اور جوش کا باعث بنتا ہے کہ اس سے ہمارے ذہن میں کسی قدیم زمانے کے کھلے میدان کے اندر سے تیر کی طرح سیدھی نکلتی سڑک کی تصویر کا عکس بنتا ہے؛ ہم خود کو آزادی کی ایک نئی جہت سے بہرہ ور سمجھنے لگتے ہیں، اپنے بالوں میں سے گزرتی ہوا سے اچھا اچھا محسوس کرتے ہیں؛ ہمارے ذہن میں دور افق کی طرف دوڑیں لگاتے جیمز ڈین اور پیٹر فانڈا آن ٹپکتے ہیں؛ ہمارے خیالوں کی سر زمین میں جیک کروئیک اور ولادیمیر نوبوکاف آ جاتے ہیں۔
جب ہم ایسا اشتہار دیکھتے ہیں جس کا ایک لفظ کسی ٹراپیکل جزیرے کی تصویر کو جنت کے تصور سے جوڑتا ہے، تو اس سے جو خواہشات ہمارے اندورن میں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں، ان پر لگے بال و پر ہمیں ڈینئل ڈیفو اور روسو تک پہنچا دینے والی تخیلی اڑان میں لے جاتے ہیں۔ اس ہوائی جہاز کی پروان جو ہمیں اشتہارات میں دکھائے جنت نما جزیرے میں لے جائے گی، وہ ماحولیاتی تغیرات کے آگ کے بہت بڑے بھانبھڑ میں محض ایک چنگاری ہے۔ جب ہم دبئی، جنوبی کیلیفورنیا، یا کسی ایسے خطے میں جہاں کے لوگ پرانے گزرے وقتوں میں پانی کا استعمال انتہائی کفایت شعاری سے کرتے تھے، صرف ایک جھاڑی یا بیل کی آبپاشی کی ضروریات پوری کر لینے پر ہی اکتفا کر لیتے تھے، کسی ایسے سر سبز لان کو دیکھتے ہیں جس کی سمندر سے نکال کر صاف کے گئے پانی سے تراوٹ کی گئی ہو، یا کسی ایسے خطے میں یہ، یا اس جیسا کوئی اور منظر ہو وہاں ہمیں جو دیکھنے کو ملتا ہے وہ جین آسٹن کے کسی ناول کو پڑھنے کے نتیجے میں ابھری خواہش کی تکمیل کا ایک نمونہ ہوسکتا ہے۔ یہ اشیاء و اموال جو ان خواہشوں کے نتیجے میں ہمارے سامنے آن موجود ہوتے ہیں، انہیں وجود میں لانے والے کلچر کی کوکھ کے بیک وقت اظہاریئے بھی ہوتے ہیں اور اس کی ڈھکی علامتیں بھی۔
یہ کلچر، استعماریت سرمایہ داری کی تاریخوں سے بہت قریبی جڑا ہوا ہے، وہ تاریخیں جنہوں نے اس دنیا کی ایک بالکل نئی تشکیل کی ہے۔ لیکن اس بات کو جان لینا بھی بہت ہی تھوڑی معلومات کا حامل ہونے جیسا ہوگا؛ اتنی تھوڑی سی معلومات جن سے کچھ سجھائی نا دے سکے کہ کوئی ثقافتی کوکھ مختلف ثقافتی سرگرمیوں میں کس کس انداز سے دخیل ہوتی ہے، مثلا شاعری، فنون، فن تعمیر، تھیٹر، نثری فکشن وغیرہ جیسی اصناف میں۔ انسانی تاریخ کے وسیع تر تناظر میں انسانی ثقافت کی ان مختلف جہتوں نے ہر قسم کی درپیش ہونے والی جنگ، قدرتی آفت، اور کسی بھی بحران کے مقابل خاطر خواہ مواد تخلیق کیا ہے۔ تو پھر موسمیاتی تغیرات کے متعلق ان ثقافتی شاخوں کی روایت کی طرف سے خاص ایسا مزاحمتی رویہ کیوں ہے؟
اس نکتئہ نظر سے جو سوالات آج ادیبوں اور فنکاروں کو درپیش ہیں ان کی نوعیت محض کاربن سے متعلقہ مختلف الجہات سیاسیات سے نہیں؛ بہت سارے سوالات تو ہمارے اپنے لکھنے کے کام اور اس کی بابت ہمارے رویے سے متعلق ہیں؛ یہ سوالات ان امور سے متعلقہ بھی ہیں جو ہمارے اس باہر والے وسیع تر کلچر کی ڈھکی چھپی مصنوعات سے گٹھ جوڑ کو واضح کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کاربن کے بڑھتے اخراج کے دنوں میں بھی ہمارے فن تعمیر کے رجحان اس طرح کے ہوں کہ چمکدار، شیشے اور دھات سے اٹے بڑے بڑے ٹاور کی پسندیدگی ہو، تو کیا ہمیں ایسے سوال پوچھنا اور انہیں پرکھنا جائز نہیں کہ آخر وہ کون سی خواہشوں اور امنگوں کے سانچے ہیں جو ان جیسی اداؤں کو جنم دے رہے ہیں؟ اگر میں بطور ایک ناول نگار اپنے کردار کی عکاسی میں تجارتی برانڈوں کے نام گنواؤں، تو کیا میرا اپنے آپ سے یہ پوچھنا نہیں بنتا کہ میں کس قدر بازار کے بیوپاریوں کے حربوں کا مددگار بنا ہوا ہوں؟
اسی طرح مجھے یہ پوچھنے دیجئے کہ کہ موسمیاتی تغیرات کی ذیل میں آخر کون سی ایسی بات ہے کہ جس کا محض ذکر کرنا ہی کسی کو سنجیدہ فکشن کی دنیا سے دیس نکالا دے دے؟ مزید یہ کہ ایسا چلن ہمارے مرکزی کلچر اور اس کی راہ فرار کے سانچوں کے متعلق کیا او کس قسم کی آگہی دیتا ہے؟
ایک بہت ہی زیادہ بدلی ہی دنیا میں جہاں بڑھی ہوئی سطح سمندر سندربنوں کو ہڑپ کر چکی ہو، اور کولکتہ، نیویارک اور بنکاک جیسے شہروں کو ناقابل رہائش بنا چکی ہو، جب کسی آئندہ وقت کے مطالعہ کرنے والے اور عجائب گھروں میں جانے والے ہمارے آرٹ اور ادب کی طرف دیکھیں گے، تو کیا وہ فورا پڑنے والی پہلی پہلی نظروں سے ہی اپنے آپ کو وراثت میں ملی اس دنیا کے ان نشانات اور علامتوں کو نہیں دیکھیں گے؟ اور جب وہ ان نشانات اور علائم کو ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے تو وہ ایک ہی نتیجہ اخذ کریں گے: ان کا ماحصل یہ ہوگا کہ ہمارے ان وقتوں کے زمانے کے لوگوں کا وقت ایسا تھا کہ جس وقت کے ادب و فنون کی سب کی سب اصناف اپنے کلچر کو اس طور پر چھپانے میں مگن تھے کہ انہیں اپنی حالت زار کے اظہار کا طریقہ بھی سجھائی نا دیا؟ یہ بھی عین ممکن ہے کہ موجودہ وقت، جو کہ اپنی خود آگہی کی نرگسیت میں اپنی مثال آپ ہے، پر اس کو بعد کے آنے والے انسان کچھ اور نہیں، بلکہ صرف بد حواسی کا زمانہ کہیں!
….
سترہ مارچ 1978 کی ایک سہ پہر، جب میری عمر اکیس برس تھی، میں دہلی کو نشانہ بنانے والے موسمیات کی تاریخ کے پہلے ٹورنیڈو کے عین بیچ میں پھنسا تھا۔ جیسا کہ اکثر اس جیسے حادثاتی حالات کے اندر پھنس جانے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، میری یادداشت مجھے باربار میری ذات پر بیتے اس واقعے کے بیچ لے جاتی رہی۔ میں اس انجانے رستے پر کیوں چلا جس پر پہلے میں نے کبھی قدم تک نا رکھا تھا، اور وہ بھی ٹورنیڈو کے نا دیکھے اور انہونے لمحات کے آ جانے کے سے کچھ دیر پہلے؟ ان لمحات کو محض اتفاق و حادثے کی نظر سے دیکھنا، اپنے اس تجربے کی قدر گھٹانے جیسا تھا۔ اگر میں ایسا کرتا تو یہ بالکل اس طرح کا عمل ہوتا جیسے کسی نظم کے لفظوں کی گنتی کرکے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا۔ میں نے اپنے آپ کو معانی کی دنیا تک پہنچنے کے ایک دوسرے دریچے کے واسطے سے وہاں پہنچتے پایا: یہ معانی تک پہنچنے کے ایسے دریچے تھے کہ جن میں غیر معمولی پن، ناقابل توضیح کی گنجلک، اور شش و پنج کی ابتلاء تھی۔
ناول نگاروں کو، ناول لکھنے کے لمحوں میں اپنی ذات کے اندر اندر تجربے کی نئی کانیں کھودنا ہوتی ہے۔ فکشن لکھنے کے دوران، میں نے اپنے ماضی کو کسی بھی دوسرے ادیب سے کسی طور بھی کم نہیں کھودا اور کھرچا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیلاب، آندھیاں اور اس طرح کے دیگر غیر معمولی موسمی واقعات میری کتابوں میں بار ہا مذکور ہوتے ہیں؛ شاید یہ اسی ٹورنیڈو کی وراثتی دین ہے۔ لیکن یہ بڑی عجیب و غریب سی بات ہے کہ اس ٹورنیڈو کا میرے کسی ناول میں مجھ سے حوالہ نہیں آ پایا۔ کوئی ایسی بات بھی نہیں تھی کہ میں نے کوشش ہی نہیں کی۔ دراصل پچھلے چند برسوں کے دوران، میں نے اپنے اس ٹورنیڈو کے گزرے تجربے کی کیفیت کی طرف لوٹنے کی بار ہا کوشش کی ہے؛ میری طرف سے ہر بار اس تجربے کی کیفیت میں واپس لوٹنے کی پشت پر یہ امید ہوتی تھی کہ شاید اب کی بار میں اسے کسی ناول میں استعمال کر سکوں؛ لیکن ہر بار میری اس آس کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا۔
ظاہری طور پر تو ٹورنیڈو جیسے کسی وقوعہ کی فکشن کی گود میں آنے میں کوئی دقت نظر نہیں آتی؛ آخر کار کتنے سارے ناول ہیں جو عجیب و غریب واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن میں اپنے کسی ناول میں کسی کردار کو ایسی سڑک پر کہ جہاں ٹورنیڈو آنے ہی والا ہو، بھیجنے میں کیوں ناکام رہا؟ خاص طور پر کہ جب اس کی خاطر میں نے کئی ساری کوششیں بھی کی ہوں!
جب میں اس متعلق سوچ رہا ہوتا ہوں تو میں اپنے آپ سے کچھ اس طرح کے سوال کر رہا ہوتا ہوں: کہ کسی بھی دوسرے ناول نگار کے لکھے ناول میں ایک ایسا ٹورنیڈو والا منظر آ جانے سے میں کیا مطلب اخذ کرونگا؟ میرا قیاس ہے کہ میں ایسے منظر کی بابت بے یقینی کا شکار ہو جاؤں گا؛ میرا اس انداز سے سوچنے کی جانب جھکاؤ ہوگا کہ یہ منظر سراسر بھدے طریقے سے گھڑا اور تصنع سے پر منظر ہے۔ مجھے پکا یقین ہوگا کہ کوئی ایسا ادیب جس کے تخیل کے سوتے تقریباً خشک ہو چکے ہوں، وہی اس منظر جیسے بے جان اور ناممکنات کی سرحدوں کو چھوتے واقعے کا سہارا لے گا؟
جدید ناول کے جنم سے پہلے جہاں کہیں بھی کہانیاں سنائی جاتی تھیں، فکشن کی اصناف نرالی اور ممکنات کی سرحد سے پرے کی باتین سنانے میں پورا لطف لیتی تھیں۔ الف لیلٰی کی داستانوں سے لے کر، Journey to the West اور Decameron تک، اٹھکھیلیاں کرتے ایک معمول سے پرے کے واقعے سے دوسرے واقعے تک چلتے جاتے ہیں۔ ناول بھی اسی انداز سے آگے کی جانب حرکت کرتے ہیں، لیکن ناول کی ہیئت کے متعلق تخصص یہ ہے کہ ناول کی ہیئت ان غیر معمولی لمحات کو پردوں میں چھپا کر رکھتی ہے؛ یہ عمل کہانی اور بیانیے کی رواں روح جیسا کام کرتا ہے۔ بقول ادبی تھیوری نگار، فرانکو موریٹی (Franco Moretti)، ایسا بھرتیوں (fillers) کے استعمال کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ فرانکو موریٹی کے مطابق، “ان بھرتیوں (fillers) کا کام بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسا جین آسٹن کے ناولوں میں برتے ہوئے اہم ترین اچھے ادب آداب کے معاملات کا ہے: یہ بھرتیاں دو سطحوں پر اثر ڈالتی ہیں: ایک سطح پر تو یہ ایسی میکانیات جیسی ہوتی ہیں جو زندگی کے بیانیے کی روانی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے قوت کے طور پر کام کرتی ہیں؛ دوسری سطح پر یہ بھرتیاں باقاعدگی کا احساس دینے کے ساتھ ساتھ، ہستی کو ایک ‘اسلوب’ سے بھی نوازتی ہیں۔” اس میکانیت کے استعمال سے، روز مرہ چھوٹی چھوٹی تفصیلات فراہم کرنے سے نئی دنیائیں ظہور میں لائی جاتی ہیں، جو کہ ” بیانیے کے مقابل (as the opposite of narrative)” کے طور پر کردار نبھاتی ہیں۔
چنانچہ اس طرح جدید ناول اپنی ہیئت کاری کرتا ہے: ” یہ کسی نا سنی، نا دیکھی کو پس منظر میں رکھ ڈالتا ہے… لیکن روزمرہ کی مانوسیات کو پیش منظر میں لا کھڑا کرتا ہے۔” بقول موریٹی، ” بھرتیاں (fillers) ناول کی تخلیق کردہ دنیا پر نطق کا لبادہ اوڑھانے کی ایک کوشش کا سا درجہ رکھتی ہیں: اس دوران یہ بھرتیاں ناول کی تخلیق کردہ دنیا کو کم سے کم حیرانیوں کا نمونہ، تھوڑی سی تھوڑی مہمات کا منظر نامہ، اور نا ہونے کے برابر معجزات کے احساس کے پاس لے آتی ہیں۔”
اس نظام تخیل نے نا صرف فنون بلکہ جملہ سائنسی علوم پر بھی اپنا اطلاق کیا ہوا ہے۔ اسی لیے Time’s Arrow ، Time’s Cycle، اور سٹیفن جے گولڈ Stephen Jay Gould کے نظریہ آشوبیت اور نظریہ تدریجیت جیسے بہترین ارضیاتی نظریات اپنی اصل میں بیانیے کا ہی مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ سٹیفن جے گولڈ کی بتائی گئی کہانی کے مطابق نظریہ آشوبیت کی رو سے ارضیاتی کہانی کا بہترین بیان ٹامس برنیٹ (Thomas Burnet) کی Sacred (1690) Theory of the Earth میں ملتا ہے؛ اس کتاب میں بیانیہ ان واقعات کی جانب چلا جاتا ہے “جن کا وصف خاص ان واقعات کا محض ایک بار وقوع پذیر ہونا ہے۔” اس کے برعکس تدریجی نکتئہ نظر کے سرخیل جیمز ہٹن (1726-97,James Hutton) اور چارلز لائیل( 1797-1875 A.D ,Charles Lyell) ہیں: ان اصحاب کے مطابق یہ واقعات درجہ بدرجہ اور پیش بینی کے قابل وقفوں میں وقوع پذیر ہوئے۔ اس موخر الذکر زاویہ نظر کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ” کوئی بھی چیز بجز موجودہ انداز کے طریق سے ہونے والی تبدیلیوں کے، کسی قسم کے تغیرات کے عمل سے نہیں گزرتی۔” یا اسی نکتہ کو سلاست کے ساتھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ: ” قدرت و فطرت جست نہیں بھرتے۔”
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر چند قدرت و فطرت جست نہیں بھرتی پر یہ چھوٹی چھوٹی چھلانگیں ضرور لگاتی ہیں۔ دستیاب ارضیاتی ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ گزرے وقت میں بہت سارے بے جوڑ خلل (fractures) ہیں؛ ان میں سے بہت سارے خلل کا شکار وقفوں کے دوران وسیع تر درجے کی نایابیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ یہ شاید انہیں نا معلوم وقفوں میں سے ایک تھا جس دوران Chicxulub asteroid کے گرنے کی وجہ سے سارے ڈائنوسار مر گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ بربادیاں کئی بار ناقابل اندازہ اور انہونے طریقوں سے اس زمین اور اس کے مختلف باسیوں کے رستے میں گھات لگاتی رہی ہیں۔
مختلف و مخصوص لمحات، جدید ناولوں کے لیے باقی بیانیے کی اصناف سے کسی طور بھی کم اہمیت کے حامل نہیں؛ بھلے یہ لمحات ارضیاتی ہوں یا تاریخی! اس حقیقت کے برعکس کسی طور بھی نہیں سوچا جا سکتا۔ اگر ناولوں کی تعمیر و بنت استثنائی لمحات پر نا کی جائے تو ناول نگاروں کو بورحیس کی طرح اپنی پوری دنیا کی مختلف چیزوں کو بالکل نئے طور پر بنانے کا کام درپیش ہو جائے گا۔ لیکن علم ارضیات کے برعکس، جدید ناول کو ناممکنات کی مرکزیت کے آگے سینہ سپر ہونے کی امری مجبوری کبھی بھی لاحق نہیں ہوئی۔ اپنے اندر کے واقعات کی مچان کو ڈھکنے اور چھپانے کا عمل، جدید ناول کی عمل کاری اور اثر پذیری کے اہم جزو کے طور پر اپنا کام سر انجام دیتا رہتا ہے۔ یہ ایسی خصوصیت ہوتی ہے جو کسی بھی قسم کے بیانیے کی پہچان جدید ناول کے طور پر قائم کرتی ہے۔
لیکن حقیقت نگاری پر کھڑے ناول کی اپنی فی الذات ایک ستم ظریفی اور اندرونی تضاد ہے: ان نشانیوں اور علامتوں، جن کے ذریعے یہ حقیقت کی عکاسی کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہی دراصل حقیقت کو ڈھکنے اور چھپانے کا کام کر رہی ہوتی ہیں۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ امکانات کی وہ حسابیات جو ناول کی تخیلاتی دنیا میں برتی جاتی ہیں، وہ چنداں اس طرح کی نہیں ہوتیں جس طرح کی اس کے باہر سے حاصل ہوجانے کی توقع ہوتی ہے؛ شاید یہی وجہ ہے کہ جو عام طور یہ کہا جاتا ہے کہ: ” اگر ناول میں ایسا تھا، یا اس طرح کہا گیا ہے، تو اسے کوئی نہیں مانے گا۔”
ایک ناول کے صفحات کے اندر کوئی ایسا واقعہ جو عام زندگی میں تھوڑا سا ناممکن کے قریب ہو، مثال کے طور پر فرض کیجئے کہ کسی بچپن کے بچھڑے دوست کے ساتھ غیر متوقع اور اتفاقی آمنا سامنا ہو جانا وغیرہ، اس ناول میں قطعی طور پر خلاف قیاس و اعتبار سمجھا جائے گا۔ ناول نگار کو اسے قابل یقین جتانے اور دکھانے کے لیے بہت محنت کرنا ہوگی۔
اگر (جدید ناول) میں کسی خفیف سے امکان کے حامل واقعے کی بابت معاملہ اس طرح کا ہے، تو خود سوچ لیجئے کہ کسی ایسے واقعے کا ناول کے اندر منظر تعمیر کرنا کس قدر محال ہوگا، جس واقعے کے سر دست ہونے کا عام زندگی میں امکان نا ہونے کے برابر ہو۔ مثال کے طور پر ایک ایسا منظر جس میں ایک کردار کسی سڑک پر عین اس وقت چل رہا ہو جب اس سڑک پر کوئی بالکل ان سنا، ان دیکھا اور انہونا موسمیاتی واقعہ برپا ہوا ہو!
کسی ناول میں اس طرح کے کسی واقعے کو داخل کرنا دراصل اس حویلی، جس میں سنجیدہ ناول کتنے عرصے سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہے، سے کسی ناول کی بے دخلی کو دعوت دینا ہے۔ ایسا کرنا بالکل اس طرح کا ہوگا جیسے محل نما گھر سے نکال باہر ہو کر آس پاس کی چھوٹے چھوٹے مکانوں میں آ جانا؛ جیسا کہ ان عام نوعیت کے ملازم خانوں میں منتقل ہوجانا جنہیں کبھی گاتھک، رومانس، یا میلوڈراما کہا جاتا تھا اور آج کل انہیں فینتاسی، ہارر، یا سائنس فکشن کہتے ہیں۔
…
جہاں تک میرا فہم ہے کہ جو ٹورنیڈو میں نے جھیلا وہ موسمیاتی تغیرات کے باعث نہیں تھا۔ لیکن میرے تجربے میں آئے اس ٹورنیڈو اور موجودہ وقتوں کے عجیب و غریب موسمی واقعات میں ایک قدر مشترک ان کی بہت حد تک غیر امکانی نوعیت ہے۔ ایسے نظر آتا ہے کہ ہم آج کل ایک ایسے زمانے میں رہ رہے ہیں جس کی پہچان اور صورت گری ان واقعات سے ہوگی جو آج کے عمومیت کے معیارات کے مطابق بہت زیادہ غیر امکانی کہلائیں گے، مثال کے طور پر ہنگامی سیلاب، سو سالوں پر مشتمل طوفان، مسلسل خشک سالی، بے نظیر حدت کے طویل دورانیے، اچانک شروع ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ، ٹوٹنے والی برفیلی جھیلوں سے غصیلی لہروں کا بھڑک نکلنا، اور ہاں وہ غیر امکانی قسم کے ٹورنیڈو۔
اس طرح یہ بات باقی ماندہ کے بہت سارے طریقوں میں سے ایک چلن ہے جس کے ذریعے آج کا گلوبل وارمنگ کا زمانہ ادب کے منصب و وظیفہ اور موجودہ زمانے کی فہم عامہ کے سامنے سینہ تان کےکھڑا ہو جاتا ہے؛ اس زمانے کے موسمی واقعات بہت زیادہ غیر امکانی نوعیت کی صفات کے حامل ہیں۔ در حقیقت تجویزیں دی گئی ہیں کہ اس عہد کا نام “Catastrophozoic” رکھ دیا جائے۔ (البتہ چند لوگ اس طرح کے لمبے نام بھی تجویز کررہے ہیں جیسا کہ ” طویل دورانیے کا ہنگامی وقت”، اور عکس کے اندر عکس زدہ زمانہ وغیرہ) اس بات کے کہنے میں کوئی باق نہیں کہ آج کا زمانہ کوئی عام معمول کا زمانہ نہیں۔ اس زمانے میں رونما ہونے والے ایسے واقعات جو اس زمانے کی شناختی نشانیاں ہیں، وہ موجودہ دور کے سنجیدہ نثری فکشن کے شعوری طور پر بے روح بنائے مسکن میں سماتے نہیں۔
اس کے برعکس شاعری، موسمیاتی واقعات سے کافی پہلے سے قریبی تعلق میں وابستہ رہی ہے: جیسا کہ جیفری پارکر (Geoffrey Parker) اس متعلق کہتے ہیں کہ جان ملٹن نے Paradise Lost ایک شدید سرد موسم میں شروع کی؛ ان کی اس کتاب میں “ناقابل پیش گوئی اور سخت گیر موسمیاتی تبدیلیاں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں۔ ملٹن کی افسانوی دنیا، ان کی اپنی حقیقی دنیا کی طرح ‘موت کی دنیا’ تھی جو کہ شدید گرمی اور سردی کے رحم و کرم پر تھی۔” یہ ایک ایسی افسانوی دنیا ہے جو موجودہ وقت کے ادبی ناول سے یکسر مختلف ہے۔
میں در حقیقت بہت بڑے برش سے صورتحال کو پینٹ کررہا ہوں: ناول کا بچپنا کب کا گزر چکا، اور اس کی ہیئت پچھلی دو صدیوں کے دوران کئی طور طریقوں سے تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود، کافی قابل ذکر حد تک، ادبی روایت میں لکھا ناول اپنے جنم کے وقت سے متعین کردہ منزل کی طرف اخلاص سے رواں دواں رہا ہے۔ اس بات کو ذہن نشین رکھئے کہ بیسویں صدی کی ادبی تحریکیں پلاٹ اور بیانیے سے تقریباً ایک جیسی شدت کے ساتھ نفیر تھیں؛ یہ تحریکیں زیادہ سے زیادہ مانگ کرتی تھیں کہ ‘مشاہدے’ اور اسلوب پر توجہ مرکوز رکھی جائے؛ بھلے یہ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات ہوں، چاہے یہ کسی کردار کی خصائل و خصائص نکھارنے کی بابت ہوں، یا جذبے کے اظہار کی باریک بینیاں پر توجہ کہ صورت میں ہوں؛ شاید یہی وجہ ہے کہ تخلیقی تحریر سکھانے والے اپنے طالب علموں کو تلقین کرتے ہیں کہ ” دکھاؤ، بتاؤ نہیں۔”
مگر اس کے باوجود، بدقسمتی سے ایسی تحریکیں بھی موجود رہی ہیں جنہوں نے ان دیکھے، ان سنے اور غیر امکانی واقعات کی ترویج کا بیڑہ اٹھایا، مثال کے طور پر سریئت اور خاص طور پر جادوئی حقیقت نگاری، جو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں جن کا ممکنات کی حسابیات سے دور کا لینا دینا نہیں۔
تاہم جو موسمی واقعات ہم اب دیکھ رہے ہیں اور جو سریئلسٹ اور جادوئی حقیقت نگاری پر مبنی ناولوں میں رونما ہوتے آ رہے ہیں، ان کے مابین چند بڑے اور اہم فرق حائل ہیں: گو کہ موخر الذکر واقعات نا ممکن کے علاقے سے ہوسکتے ہیں مگر یہ نا تو سریئلسٹ اور نا ہی جادوئی ہوسکتے ہیں۔ پھر بھی اس کے برعکس یہ بہت زیادہ نا ممکن واقعات بہت حد تک، فوری طور پر، اور دل دہلا دینے والی حد تک حقیقی وجود کے حامل ہیں۔ وہ اخلاقی مشکلات جو انہیں جادوئی، استعاراتی، یا علامتی ماننے سے سر اٹھا سکتی ہیں، وہ البتہ کھلی اور واضح ہیں۔
تاہم لکھاری کے زاویہ نظر سے بھی ان ناولوں کو محولہ بالا انداز سے دیکھنے پرکھنے سے کوئی قابل ذکر مقصد حاصل نہیں ہوگا؛ کیونکہ ان ناولوں کو جادوئی یا، سریئلی ناولوں کے طور پر دیکھنے اور برتنے سے ان کے اندر فوری طور پر نظر آنے والی اس انتہائی اہم خوبی کے اثر کے زائل ہو جانے کا قوی امکان ہے: کیونکہ یہی کچھ ہی تو ہے جو دنیا میں اس وقت برپا ہے۔
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.