موہنجو ڈارو ہوٹل کی اکہترویں منزل سے: “خدا کی بادشاہت” از غلام عباس
از، شکیل حسین سید
اُردو کے صاحبِ طرز افسانہ نگار غلام عباس افسانوی ادب کا ایسا نام ہے جن کے بغیر جدید اُردو فکشن کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ اُن کے افسانوں کے موضوعات میں تنوع ہے، ناہموار معاشرے کے نظام اقدار کی تصویریں، اس معاشرت میں زندگی بسر کرنے والے مختلف طبقات کے افراد کی حرکات و سکنات اور ان کی اچھائیوں، برائیوں کی وضاحت کی ہے۔ غلام عباس کے افسانے ہمارے معاشرے کی گذشتہ صدی کے ذہنی، جذباتی، معاشرتی، تہذیبی اور فکری رجحانات کا آئینہ ہیں۔ اس معاشرے کے خد و خال کو تاریخ و تہذیب اور معاشرت سے متعلق علمی کتابیں بھی اس طرح پیش نہیں کرتیں جس طرح غلام عباس کے افسانے پیش کرتے ہیں۔
افسانہ ’’دھنک” (۱۹۶۹ء) میں غلام عباس نے ہم عصر تاریخ کے مخمصے (dilemma)کو پیش کیا ہے۔ تکنیک مخمصے اور اسلوب میں حقیقت پسند افسانے اور تاریخی بیانیہ (Narrative)سے مماثل ہے۔
افسانے کے واقعات کا مقام پاکستان ہے جو ایک نیا ملک ہونے کے باوجود سائنسی ترقی میں اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ پاکستان کا پہلا خلا پیما کیپٹن آدم خاں سکنہ ضلع جھنگ چاند کی سطح پر اترنے والا ہے اور اس عظیم کامیابی کو دیکھنے کے لئے حکومت پاکستان کی دعوت پر آئے ہوئے دنیا کے پانچوں براعظم کے سفیر سائنس دان مفکر صحافی اس تقریب کا احوال بچشم خود دیکھنے اور سننے کے لئے ہوٹل موہن جوڈارو کی اکہترویں منزل پر جو سب سے اونچی اور باغیچہ آویزاں کے نام سے موسوم ہے پر موجود ہیں۔
اس افسانے میں تسخیر قمر محض انسان کی انتہائی ترقی کی علامت ہے۔ پوری دنیا انسانی ترقی کے اس عظیم کارنامے پر داد و تحسین اور خراج پیش کر رہی ہے۔ لیکن مملکت خداداد پاکستان میں ملاؤں نے تسخیر قمر کو کفر و الحاد کا شاخسانہ قرار دے کر ملک میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
غلام عباس نے یہ افسانہ ۱۹۶۷ء میں تحریر کیا لیکن پہلی بار سجاد کامران پبلشرز کراچی جون ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔ “۱۹۶۹ء میں انہوں (غلام عباس) نے افسانہ ’’دھنک‘‘ لکھا جسے انہوں نے لاہور کی ایک ادبی محفل میں پیش کیا تو ان پر اتنی شدید تنقید ہوئی کہ انہوں نے وہاں سے رخصت ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ یہ وہ دن تھے جب پاکستان کے گلی کوچے سبز انقلاب کے نعروں سے گونج رہے تھے جنرل شیرعلی کی سر پرستی میں یوم شوکت اسلام منایا جارہا تھا‘‘۔
(زاہد ہ حنا، روزنامہ ایکسپریس ۹؍ فروری ۲۰۱۴ء)
“دھنک” کے قلمی مسودے کے مطابق جو ۱۹۶۷ء میں تحریر کیا گیا عنوان ’’خدا کی بادشاہت‘‘ تھا۔ ۱۹۶۹ء میں جب انکا افسانوی مجموعہ ’’کن رس‘‘ میں شائع ہوا تو مذکورہ ادبی محفل کی تنقید اور اس خوف سے کہ اس افسانے کی بدولت پورے مجموعے کو پابندی کا سامنا نہ کرنا پڑے شامل نہیں کیا۔ ۱۹۶۹ء میں جب دھنک کے عنوان سے شائع ہوا تو بھی اس میں عنوان کے ساتھ بہت سی تبدیلیاں کی گئیں۔
’’غلام عباس نے ’’خدا کی بادشاہت‘‘ کے عنوان سے جو افسانہ لکھا تھا وہ پاکستان کی سماجی اور سیاسی صورتحال کو اگرچہ بڑے بھر پور انداز میں پیش کرتا تھا لیکن غلام عباس کو پتہ تھا کہ افسانے میں جس فرقہ پرستی، تنگ دلی، تنگ نظری بلکہ بے بصیرتی کو پیش کیا گیا ہے وہ خوداس کا شکار ہو سکتت ہیں۔ اس لیے اُنہوں نے افسانے کے متن اور بیانیے میں بڑی بنیادی تبدیلیاں کیں۔ معروف مسلم فرقوں کے نام حذف کئے گئے۔ تفصیلات کو بھی قلم زد کیا کچھ نئی جزئیات شامل کیں، نئے کردار اور گروہ متعارف کرائے اور اس طرح افسانے نے ایک نئی شکل اختیار کی جسے غلام عباس نے ’’دھنک ‘‘کا عنوان دیا‘‘۔ سید علمدار بخاری (اُردو افسانے کی روایت میں غلام عباس کا مقام غیر مطبوعہ تحقیقی مقالہ برائے پی۔ ایچ۔ ڈی، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ، ملتان ۲۰۰۰ء،ص۳۹۳)
قیام پاکستان سے ہی ملک میں مذہبی منافقت کا آغاز ہو گیا تھا۔ غیر مسلموں، سکھوں اور ہندوؤں کے قتل عام کے بعد ہم نے ایک پاک ملک تو حاصل کر لیا لیکن جلد ہی یہ پاک ملک اپنوں کی فرقہ پرستی کی نظر ہو گیا۔ مختلف عہد میں ریاست یا سیاسی جماعتوں نے اقتدار پر قابض رہنے کے لئے مخصوص فرقوں کی سرپرستی کی جس کے نتائج آج بھی پاکستان کی عوام بھگت رہے ہیں۔
ایسے میں جب ریاست کے نمائندگان اور مخصوص اسلام کے نقطہ نظر (نفاذ شریعت) طالبان کے درمیان مذکرات رواں رہے ہیں، غلام عباس کے اس شاہکار افسانے کا مطالعہ اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستانی خلا نورد کے چاند کی سطح پر اترنے کی کامیاب مہم کے ساتھ ہی مولویوں کی وہ تحریک شروع ہوئی جو اس کامیابی کو ’’غیر اسلامی‘‘ قرار دیتی ہے۔ سینکڑوں جانوں کے ضیاع کے بعد ملاؤں نے ملک پر قبضے کے بعد خدا کی بادشاہت قائم ہو جاتی ہے۔ لیکن مختلف فرقوں کے ملا حصول اقتدار کی جنگ باہم برسر پیکار ہو جاتے ہیں۔ سبز پوش، نیلی پوش، سفید پوش سیاہ پوش جماعتوں کے درمیان قیامت کا رن پڑتا ہے۔ بالآخر سبز پوشوں کا نمائندہ امیر المومنین منتخب ہو جاتا ہے اور مجلس شوریٰ میں نیلی پوشوں، سرخ پوشوں، سیاہ پوشوں، سفید پوشوں اور پیلی پوشوں کے نمائندے اطاعت امیر کا عہد کر لیتے ہیں۔
’’ملک کی ذمام کار امیر نے خود اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اور پچھلی حکومت کے انتظامی امور کے طریقے، سیکرٹریٹ اور اس کے ماتحت جملہ شعبے منسوخ کر دیئے گئے اور اُن کی پچھلی فائلوں اور تمام ریکارڈ کو نذر آتش کر دیا گیا۔ تمام اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور مروجہ طریق تعلیم منسوخ کر دیا گیا اور اس کی بجائے دینی مدرسے قائم کیے گئے جو عموماً مسجدوں سے ملحق ہوتے تھے۔ ان مدرسوں میں فقہ، حدیث تفسیر وغیرہ علوم شرعیہ اور فن قرات کی تعلیم دی جانے لگی، ملک کا رسم الخط عربی قرار پایا اور ایک ایسا منصوبہ بروئے کار لایا جانے لگا کہ ایک معینہ مدت کے اندر سارے ملک کی زبان عربی ہو جائے۔‘‘ (بحوالہ: غلام عباس ، دھنک، سجاد کامران پبلشرز طبع اول، کراچی ۱۹۶۹ء،ص۳۲)
غیر مسلموں کو ذمی قرار دینے کے ساتھ ان پر جزیہ ساڑھے تیرہ روپے فی کس سالانہ لگایاگیا نماز روزہ، زکواۃ، قربانی اور حج بیت اللہ ہر مسلمان پر فرض قرار دیا گیا۔ ان تمام احکام شرعیہ کو انجام نہ دینے پر دُروں کی سزا مقرر کی گئی۔ عورتوں کے لئے اعلٰی تعلیم کے حصول کی بجائے زیادہ سے زیادہ اس طرح کا اہتمام ہو کہ وہ اصولِ خانہ داری یا دھوبی کے کپڑوں کا حساب لکھنے کے قابل ہو جائیں۔ مغربی کھیل (کرکٹ، سنوکر، بیڈمنٹن گولف) پر پابندی ان کی بجائے، نیزہ بازی، شہسواری، تیر اندازی کو از سر نو زندہ کیا جانا منصب ریاست قرار پایا۔ ڈاکٹروں اور سرجنوں کے پیشوں پر پابندی کیونکہ ان کی دواؤں میں شراب کی آمیزش ہوتی ہے۔ ان کی بجائے طب یونانی اور جراحی کو حکومت کی سر پرستی اور نصاب تعلیم میں شامل کرنے کے ساتھ نرس کا پیشہ موقوف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ شہر میں بلند عمارتوں کی اتنی منزلوں کو جائز سمجھا گیا جو جامع مسجد کے گنبد و مینار سے نیچی تھیں۔ باقی منزلوں کو منہدم کر دیا گیا۔
عہد حاضر کی جدید سہولیات و ایجادات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، کیمرے وغیرہ کی فروخت پر پابندی کو کوکا کولا، پاکولا پر پابندی اور ٹوتھ پیسٹ اور دانتوں کے برش کی بجائے مسواک کے استعمال پر زور دیا گیا کہ بقول ملا اس سے “فصاحت بڑھتی ہے”۔ کسب معاش میں، شراب، عصمت فروشی، گھوڑ دوڑ، سٹہ بازی، لاٹری، بنک انشورنس، انعامی بونڈ، سود کی خواہ کوئی بھی شکل ہو حرام ہے۔ شہروں اور قصبوں کے تھیٹر اور سینما گھروں کو درسگاہوں اور یتیم خانوں میں تبدیل کر دیئے گے۔ داڑھی رکھنا فرض اور لباس سادہ، یا عربی لباس زیب تن کیا جانے کا حکم ہے۔
“ادب اور شعر و شاعری پر کڑی پابندیاں عائد کر دی گئیں اور عاشقانہ غزلوں، نظموں اور گیتوں کو ادب سے خارج ہی کر دیا گیا کیونکہ ان سے ملک کی بہو بیٹیوں کے خیالات پر بُرا اثر پڑنے کا احتمال تھا۔ البتہ حمد و نعت، رجز، مرثیہ وسلام اور قومی لوریوں کو شاعری میں افضل ترین درجہ دیا گیا۔ ناول، افسانے اور ڈرامے چونکہ من گھڑت قصے ہوتے ہیں اور دورغ گوئی کو تقویت دیتے ہیں اس لیے معاشرے میں اُن کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ مصوری، سنگ تراشی، اور موسیقی وغیرہ کو فنون لہو و لعب قرار دے کر اُن کی بھی کلی طور پر معمانعت کر دی گئی۔” (ایضاً، ص ۴۰)
ملاؤں کی حکومت کا پہلا سال ہر پاکستانی کے لئے بڑا صبر آزما ثابت ہوا۔ ملاؤں نے خدا اور رسول ؐکے نام پر عوام سے جو بھی قربانی مانگی انہوں نے دریغ نہ کیا۔ نماز کے اوقات میں مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی تھیں۔ لوگ اپنے عزیزوں سے اور دوستوں سے اپنی مادری زبان کی بجائے اجنبیوں کی ٹوٹی پھوٹی عربی زبان میں ہمکلام ہوتے تھے، اور عربی زبان کے ساتھ عربی لباس کی بھی تیزی سے رواج پانے لگا جیسے ملک میں عربستان ثانی کی ریہرسل جاری ہو۔
یوں تو سبھی فرقے ایک خدا اور رسولؐ کو برحق اور قرآن کو کلام اللہ سمجھتے تھے لیکن جب عقائد و تقوٰی کا سوال پیدا ہوا تو رفتہ رفتہ انتشار اور کشیدگی کی فضا پیدا ہونے لگی۔
“امیر مملکت کی “شہادت” کے بعد ہنگامہ کشتِ و خون برپا ہو گیا۔ “امیرمملکت کی شہادت کی خبر آن واحد میں درالخلافہ کے گوشے گوشے میں پھیل گئی پھر کیا تھا اُن کے پیر و سبز پوش غیظ و غضب سے دیوانے ہو گئے وہ ’’القصاص‘‘، ’’القصاص‘‘چلاتے ہوئے سرخ پوشوں کے محلوں کی طرف چڑھ دوڑے۔ ہر طرف تلواریں چلنے لگیں آہ و بکا، فریاد و فغاں کی صدائیں اٹھنے لگیں۔ زمین بے گناہوں کے خون سے رنگین ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ رنگوں کی کوئی قید نہ رہی نیلے، پیلے سیاہ سفید مار دھاڑ میں شامل ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے مسجدوں پر یورش کی، منبروں کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ بعض شقی گھروں میں گھس گئے اور عورتوں کی بے حرمتی کرنے لگے۔ عورتیں روتی پیٹتی اور بچے بلکتے تھے۔ ابھی ہنگامئہِ کشت و خون برپا تھا کہ دفعتاً فضا میں ایسی آوازیں گونجنے لگیں جیسے بمبار طیاروں کے اڑنے اور ٹینکوں کے چلنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ طیارے اور ٹینک پاکستانی عسا کر کے نہ تھے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۱)
ملاؤں کی حکومت کے اس نراج کے عروج پر کسی بیرونی حملے کے ساتھ ہی اس افسانے کا اختتام ہوتا ہے ملک تباہ برباد ہو جاتا ہے اور ہر طرف خاک اڑنے لگتی ہے۔ عرصۂِ دراز بعد کچھ غیر ملکی سیاح اونٹوں پر سوار ہوٹل موہن جوڈارو کے کھنڈرات کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
“ایک عورت نے اپنی اونچی اور خراش دار آواز میں اپنے ساتھ والے مرد سے کہا، ڈک۔۔ دیکھو یہاں کا منظر کتنا دل فریب ہے۔ چاروں سیاح گردنیں گھما گھما کر گردوپیش کا منظر دیکھنے لگے۔ گائیڈ نے کھنکار کر انہیں اپنی طرف متوجہ کیا، پھر وہ ریت پر ایک خاص جگہ جہاں کچھ کھنڈر پتھروں کی صورت میں پڑے تھے اشارہ کر کے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا: “صاحب ، یہی وہ جگہ ہے جہاں غنیم کے حملے سے پہلے ہوٹل موہن جوڈارو ہوا کرتا تھا۔ جس کی اکہتر منزلیں تھیں اور جنہیں پہلی مرتبہ پاکستانی خلاپیما نے چاند سے ریڈیو پر پیغام بھیجا تھا۔” (ایضاً، ص ۵۴)
سائنس تباہی کا سبب نہیں بنتی بلکہ مردہ بے رس اقدار اِس کی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ اور آج بھی ہم نشاۃ الثانیہ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ نئی نسل کو ایسے خواب دکھانے کی بجائے اُن کے نصاب میں ایسے افسانے شامل کئے جائیں جنہیں پڑھ کر انہیں اندازہ ہو کہ اگر سائنسی سوچ پر توہمات اور خرافات غالب آجائیں تو ترقی یافتہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔ غلام عباس کا یہ افسانہ اس بات کا غماز ہے کہ جب سیاست و مذہب باہم دست و گریباں ہوتے ہیں تو ایک خوش حال اور ترقی یافتہ ملک کا کیا حال ہوتا ہے۔