مکالمہ کرنے کی ضرورت اشد ترین ہے


مکالمہ زندہ معاشرے کی پہچان ہے۔ اپنی بات کہنا اور دوسرے کی بات سننا انسانی رویّوں کے ارتقاء اور مہذب معاشرتی تشکیل کے لیئے ازحد ضروری ہے۔ بقول جون ایلیا
ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی۔ بات نہیں سُنی گئی
زبان بندی گھُٹن کا باعث بنتی ہے۔ جس سے عدم تحفظ اور غیر رواداری کو جنم ملتا ہے۔ اور پھر انسان اپنی پہچان کھو دیتا ہے۔ برداشت ختم ہو جاتی ہے۔ انسانیت دب جاتی ہے اور وحشت عیاں ہو جاتی ہے۔ جو مُکّمل تہذیبی شکست و ریخت پر مُنتج ہوتی ہے۔ انسان ، انسانی خُون کا پیاسا ہو جاتا ہے۔ مُحبت نا پید ہو جاتی ہے۔ لالچ، ہوس، حرص ، خود غرضی اور بے حسّی کا راج ہو جاتا ہے۔ اور یہ راج انسانی تاریخ کی کئی صدیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ گھُٹن اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ روح جسم کے اندر ہی کہیں مر جاتی ہے۔ اور زندہ لاشیں گلیوں، بازاروں اور شہروں میں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔جس معاشرے میں ہم زندہ ہیں یہ اوپر پیش کیے گیئے منظر نامے سے مختلف نہیں ہے۔ آج انسانی خون جس قدرارزاں ہے، انسانی عزت و توقیر جس طرح پائمال ہے، انسانی روح جس قدر محبوس ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ۔
بات نہیں کہی گئی۔ بات نہیں سُنی گئی
مکالمے کا یہ سلسلہ اسی گھُٹن میں ایک روزن مُہیا کرنے کی ادنیٰ سی کوشش ہے۔ تاکہ انسان، انسان کو سمجھ سکے۔ نفرتوں کو اپنے اندر سے باہر پھینک سکے، اپنے بوجھل پن کو ہلکا کرے اور محبت کرنا سیکھے۔

1 Comment

  1. ورنہ خاموشیاں نگل جائیں
    بات کرنا بہت ضروری ہے
    (آصف اکبر)

Comments are closed.