میر صاحب کا فکشن
از، محمد حمید شاہد
امام بخش ناسخ نے میر تقی میر کو یوں خراج تحسین پیش کیا تھا:
شبہ ناسخ نہیں کچھ میر کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
جب کہ محمد ابراہیم ذوق نے کسی غزل کہنے والے کی طرف تیکھی نظروں سے دیکھا اور طنز کا تیر برساتے ہوئے کہا تھا:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
ناسخ اگر اپنے زمانے میں کسی کی طبع رسا کو میرپر اس کے اعتقاد سے جانچاکرتے ، تو ذوق اوروں کو میر کا کلام ایک معیار مان کر آنک رہے تھے۔ کہتے ہیں ذوق کے شعر میں جن ’’یاروں ‘‘ کا حوالہ آیا ہے وہ کوئی اور نہیں اپنے اسداللہ غالب تھے؛ جی غالب ۔حالاں کہ خود غالب نے کہہ رکھا ہے:
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
غالب کے میر پر اس اعتقاد کے باوجود یہ سوالیہ نشان برقرار رہتا ہے؛ میر بڑے شاعر ہیں یا بعد میں آنے والے غالب۔اورصورت واقعہ یہ ہے کہ بعد میں آنے والے غالب ، مسلسل غالب چلے آتے ہیں ۔ غالب کی شاعری میں رواں تہذیبی تصور کوقدیم اور جدید ذہن دونوں نے یکساں قبول کیا اور قدرے زیادہ قبول کیاہے۔ وہ اپنے مضامین کے اعتبار سے رواں منظرنامے میں بھی تازہ رہتے ہیں تاہم اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ میر کے ہاں بوسیدگی کے ہلے اُٹھ رہے ہیں ۔ اس نازک زمانے میں بھی میر صاحب کی تخلیقی دستار سلامت ہے ۔ میر کا تصور زندگی حزنیہ تھا:
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
اور یہ بھی واقعہ ہے کہ یہی حزنیہ لے ہمارے دلوں پر دیرپا اثر نقش کرتی ہے ۔ ایسے میں مجھے جاپانی جاپانی سائنس دانوں کی ایک تحقیق یاد آ گئی ہے جس کے مطابق سوز بھرے نغموں کی طرح فن سے جس اداسی کو تحریک ملتی ہے وہ اس دل ڈھانے والی صورت حال سے مختلف ہوتی ہے جو حقیقی ناخوشگوار واقعات سے پیدا ہوتی ہے۔ فن سے متحرک ہونے والی اداسی سے جذبوں کو جلا ملتی ہے اور اس کاراست زندگی پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا۔اسی تحقیق کے مطابق فن سے متحرک ہونے والی تلخ زندگی کے معمولات کے ہاتھوں پیدا ہونے والے منفی جذبات کو ختم کر سکتی ہے ۔ جاپان کی ٹوکیویونی ورسٹی اور ریکن برین سائنس انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں کی یہ تحقیق نفسیات کے ایک جریدے Frontiers in Psychology میں شائع ہوئی تھی۔ خیر، بات میر کی شاعری کی ہو رہی تھی اور بیچ میں اداسی آٹپکی ۔ میرا کہنا یہاں یہ ہے کہ میر ہمارے تخلیقی ذہن میں تازہ ہیں، ایک اداس دھن کی طرح جو حسیات سے معاملہ کرتی اور گداز دلوں میں بسیرا کرلیتی ہے۔ اس نئے زمانے میں بھی میر اور میرزا کا ذکر ایک ساتھ چلتا ہے ۔ کچھ دن پہلے ادھر بھارت میں انتقال کر جانے والے نوجوان شاعر خواجہ جاوید اختر کا منتخب کلام معید رشیدی نے میرے مطالعہ کے لیے مجھے ای میل کیا ، اُس میں پہلا ہی شعر تھا:
کبھی جب ہاتھ میں ہم میر کا دیوان لیتے ہیں
تو پھر اوقات اپنی خود بخود پہچان لیتے ہیں
یہیں افتخار عارف کی ایک غزل کا مطلع یاد آ رہا ہے:
جب میر و میرزا کے سخن رائگاں گئے
اک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئی تو کیا
افتخار عارف کی ایک اور غزل کا مطلع ہے :
اور کا ذکر تو کیا میر کا بھی سایہ نہ ہو
وہ سخن کر جو کسی اور نے فرمایا نہ ہو
اچھا صاحب، ایسا نہیں ہے کہ افتخار عارف نے اس شعر میں غزل کہنے والوں کو میرصاحب کی اُس معتقدی سے بچنے کی تلقین کی ہے جس کا درس ناسخ نے دیا تھا ، بلکہ یوں ہے کہ ہمارے اس نئے عہد کے شاعر نے تخلیقی عمل میں کسی بھی اور کے سائے سے بچ نکلنے کا لائق توجہ مشورہ دیا ہے۔ تخلیقی عمل کے بنیادی اصول کی وضاحت کرنے کے لیے جب ہمارے عہد کے ایک شاعر کو دو سو سال پہلے مر جانے والے میر صاحب یاد آئے تو اس کے بھی معنی بنتے ہیں اور اس کے معنی یہی ہیں کہ ہمیں غالب کی طرح قدم قدم پر میر بھی یاد آتے ہیں۔ ستمبر ۲۰۱۰ سے میر کی دوصد سالہ برسی کے حوالے سے، رک رک کر سہی، تقریبات کے ایک سلسلہ کا چل نکلنامیر کے ہمارے ادبی ذہن اور تخلیقی ذہن میں تازہ رہنے کی دلیل ہے۔
اس عرصہ میں دیوان میر(فارسی) کو بھی اردو میں ڈھال لیا گیا ہے ۔ اوکسفرڈ والوں کے لیے یہ کام افضال احمد سید نے کیا مگر مجھے اس پر تعجب ہوا کہ میر کی فارسی غزل کو اردو نثر کا پیرایہ کیوں پہنایا گیا ۔ کیا اس طرح غزل ،غزل رہ پائی ہے ؛ آپ اس ترجمہ کو دیکھیں گے تو میری طرح اس سوال سے ضرور الجھیں گے ۔ ہاں ایک بات جو بہت اہم ہے ، وہ یہ ہے کہ اسی کتاب بھی فارسی متن بھی چھاپ دیا گیا ہے ۔ میر پر اور بھی کام ہوا نئے نئے مضامین بھی نظر سے گزرے ہیں ۔ اس باب کی ایک تحریر نامور محقق اور شاعرڈاکٹر تحسین فراقی کی ادارت میں چھپنے والے ایک بہت اہم جریدے ’’مباحث‘‘ کے دوسرے شمارے میں چھپی تو اس نے ہماری توجہ کھینچ لی، آج کی نشست میں جی چاہتا ہے اسی پر بات ہو جائے۔ یہ تحریر ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب کی ہے اور بنیادی طور پر یہ میر کی تصنیف’’فیض میر‘‘ کا تعارف ہے جس کا ذکر کم کم ہوا ۔ ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب مسلم یونیورسٹی علیگڑھ ،انڈیا میں شعبہ اردو سے وابستہ ہیں ۔ یاد رہے ’’فیض میر‘‘کو پروفیسر شریف قاسمی نے ازسر نو مرتب کیا اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی نے اسے ۲۰۱۰ ء میں شائع کر دیا تھا ۔
’’فیض میر‘‘ کا مطالعہ دراصل میرکے فکشن کا مطالعہ ہے۔ یہ تصنیف میر نے اپنے بیٹے فیض علی کو سامنے رکھ کر تخلیق کی اور مقصد اس کا تعلیم و تربیت تھا تاہم اس سے میر کے فکشن کا تصور بھی واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ اور اس باب کا بنیادی اصول یہ قائم ہوتا ہے کہ فکشن محض قوت متخیلہ کا مرہوں منت نہیں ہوتا اس باب میں مشاہدہ اور تخلیق کار کی اپنازندگی کرنے کا قرینہ بھی دخیل ہو جایا کرتا ہے ۔ جہاں یہ سارے عوامل ایک خاص مقام پر بہم ہوتے ہیں وہی سے اس تخلیق کار کا اسلوب پھوٹتا ہے ۔ اچھا، جسے میں میر کا فکشن کہہ رہا ہوں یہ پانچ حکایات ہیں ۔ درویشوں ، مجذبوں اور فقیروں کے ایسے قصے جن کی تاثیر ہمارے آج کے فکشن میں بھی جھلک دے جاتی ہے۔ اسی حکایت کی تیکنیک کو جس کامیابی سے انتظار حسین نے برتا وہ اب اردو ادب کی تاریخ کا ایک باب ہو گیا ہے۔ بظاہر سمجھ میں نہ آنے والے درویش ، مجذوب اور فقیراشفاق احمد کو بھی بہت عزیز تھے لہذا ان کی کہانی میں نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ جدید افسانے کے حوالے سے نام پانے والے ڈاکٹر رشید امجد کی کہانیوں کے مرشد بھی ، اُن کے افسانوں میں زندگی کی ایسی گھتیوں کو سلجھاتے ہوئے ملتے ہیں جنہیں سلجھانے میں جدید ذہن ناکام ہو گیا ہوتا ہے۔
میر کی حکایات کے بظاہر محیر العقول واقعات ، زندگی کے بھید کھولنے والے ہیں۔ اپنے قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے میرنے یہ حیلہ کیا ہے کہ ان واقعات کا بیانیہ واحد متکلم راوی کے ذریعہ قائم کیا ہے اور یہ راوی ایسا ہے کہ خود بھی اس کہانی کا حصہ ہوگیا ہے۔ میں نے یہاں ’’حیلہ ‘‘کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ اس طرح میر نے ان واقعات کو جنہیں اگر کسی اور طرح بیان کیا جاتا تو انہیں پڑھنے والاتسلیم نہ کرتا اب یوں لائق اعتنا سمجھنے لگا ہے کہ بیان کردہ واقعہ راوی کا ذاتی تجربہ ہو کر سامنے آ رہا ہے۔ اس طرح میر نے فکشن کا یہ اصول بھی قائم کر دیا ہے کہ اس باب میں کوئی بھی واقعہ ’’ناممکن‘‘ نہیں ہوتا ، یہ فکشن نگار ہے کہ وہ اسے کیسے اپنے متن میں ’’ممکن‘‘ اور ’’لائق اعتنا‘‘ بناتا ہے۔
میر نے اپنی کہانیوں میں اس کا اہتمام بھی کیا ہے کہ ایک مکمل پلاٹ کے اندر ان کی بافت کی جائے۔ خیال قدم بہ قدم آگے بڑھتا ہے اور کہانی کو بھی ساتھ لے کر چلتا ہے ۔اگر چہ واقعات محیر العقول ہیں مگر جس فن کاری سے انہیں فکشن بنایا گیا ہے اس کے سبب آخر تک کہانی میں قاری کی دلچسپی قائم رہتی ہے۔ اوپر بتایا جا چکا کہ میر نے حاضر راوی کی تیکنیک میں ان حکایات کو لکھا تھا۔ شمس الرحمن فاروقی نے ’’فیض میر‘‘ کا بیانیہ آنکا اور ’’ذکر میر‘‘کا بھی، اورنشان زد کیا کہ میر نے ’’افسانہ/ افسانہ خواں‘‘ اور اس مضمون کے الفاظ بہت استعمال کیے تھے اورانہوں نے میر کے بیانیہ کی قوت سے نتیجہ نکالا تھا کہ میر کو داستان سے دلچسپی تھی ۔
وہ لوگ جو میرکی داستان سے لگن سے آگاہ نہیں ہیں اور فیض میر کو ایک تذکرہ کی صورت پڑھنے لگتے ہیں وہ ہمیشہ اس باب میں فیصلہ کرتے ہوئے ٹھوکر کھاتے آئے ہیں ۔ زیر نظر تحریر میں مضمون نگار نے لکھا ہے کہ قاضی عبد الودود ان ٹھوکر کھانے والوں میں پیش پیش رہے۔ ڈاکٹر انجم خلیق بھی ان واقعات کو’’ میر کے ذہن کی اختراع ‘ ‘ قرار دیتے رہے ۔ فکشن لکھنے والا بہ ظاہر وہ برتا ہوا سچ نہیں لکھتا جو ہم سب کے مشاہدے میں آتا ہے ، محض وہ نہیں کہ اسے تو ایک نئے سچ کی تخلیق کرنا ہوتی ہے زندگی کرنے کے ایک نئے تصور کے ساتھ ۔ یوں دیکھیں اور فکشن کے اس اصول کو سامنے رکھیں تو میر کے دامن پر لگائی جانے والی دروغ گوئی کی تہمت، خود بہ خود دُھل جائے گی۔اچھا قاضی عبد الودود نے اس باب میں یہ گمان بھی قائم کیا تھا کہ میر نے ان محیر العقول پانچ کہانیوں کو ’’جگ بیتی‘‘ کی صورت سنا ہوگا اور انہیں زیادہ پر اثر بنانے کے لیے ’’آپ بیتی‘‘ کی تیکنیک میں لکھنے کے لیے خود عینی شاہد بن گئے ہوں گے ۔ یہ حیلہ کرکے بھی قاضی عبد الودوداپنے آپ کو مطمئن نہ کر پائے تھے لہذا فیصلہ دے دیا کہ’’ان اعتقادی کہانیوں میں جو کچھ ہے ، اسے عہد نو کا ذہن کسی بھی صورت قبول نہیں کر سکتا۔‘‘
کہہ لیجئے میر کی پانچ کہانیوں کے حوالے سے قاضی عبد الودود کی اُلجھن، سچ اور جھوٹ کا معاملہ نہیں عہد نو کے ذہنی کھانچے میں اُن کے مکمل طور پر نہ بیٹھنے کا ہے۔ اعتقادی کے سابقہ کے ساتھ جنہیں کہانیاں تسلیم کیا گیا ہے ، جگ بیتی اور آپ بیتی کے بہم ہونے سے تخلیق پانے والی کہانیاں ؛ انہیں آپ اگر اس نام نہاد خدشہ کی بنیاد پر رد کرنے لگیں گے کہ ان کو جدید ذہن قبول نہیں کر پائے گاتو کہنے دیجئے کہ اس طرح تو اس جدید عہد تک لکھا جانے والا اور اعتبار پانے والا بیش از بیش فکشن کچرا ہوجائے گا ۔ فکشن سے حظ اُٹھانے کیے لیے جدید ذہن کی سدھائی ہوئی منطق کام نہیں آئے گی ، کہ اس باب میں قاری کوکم از کم میر جتنا اعتقادی ہونا ہی پڑے گا۔