میں ایک تحریک کی صورت میں چلتا ہوں : پیدل حج کرنے والا
( عمردراز ننگیانہ)
پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر حافظ آباد میں تقریباٌ چار برس قبل کراچی سے مکہ تک چھ ہزار کلو میٹر اور 117 دن پر محیط پیدل سفر طے کرنے والے کثرت رائے رواں سال خنجراب اور گوادر کے درمیان 2700 کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
میلوں کا فاصلہ پیدل طے کرنا اب 44 سالہ کثرت رائے کو معمول کی بات معلوم ہوتی ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں وہ 16 ہزار کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کر چکے ہیں۔ ان میں کراچی سے مکہ، جدہ سے ریاض، ڈیرہ اسماعیل خان سے سوات، لاہور سے اسلام آباد، اسلام آباد سے چکوٹھی اور خیبر سے کراچی تک کے سفر شامل ہیں۔
‘میں بہت محدود وسائل میں یہ کام کر رہا ہوں، کبھی تو مجھے کئی دن کے فاقے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ میں وہ جوتے نہیں خرید سکتا جو اس قسم کے طویل سفر کے لیے ضروری ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔’
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کثرت رائے کا کہنا تھا کہ عام جوگر یعنی چلنے کے جوتے استعمال کرنے کی وجہ سے ان کے پاؤں میں چھالے پڑ جاتے ہیں۔ جوتے پھٹ جاتے ہیں تو وہ خود سلائی کر کے گزارہ کرتے ہیں۔
کثرت رائے نے اپنے پیروں کے ٹوٹے ناخنوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا ‘بعض اوقات زیادہ چلتے رہنے سے میرے پیروں سے خون رسنے لگتا ہے۔ اکثر میرے پاؤں کے ناخن اتر جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں مجھے رکنا پڑتا ہے کیونکہ ذرا سا چلنا بھی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔’
اس سوال کے جواب میں کہ جنون کی حد تک پیدل چلنے کے اس عمل کے پیچھے آخر کیا مقصد ہے؟ کثرت رائے کا کہنا تھا کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کے اس جنون کی وجہ شاید وہ احساسِ محرومی، غربت اور انسانوں کے درمیان دولت کی غیر متوازن تقسیم ہے جو وہ بچپن سے اپنے ارد گرد دیکھتے آئے ہیں۔
کثرت رائے لاہور میں مصالحہ جات پیسنے اور ان کی پیکنگ کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے آبائی شہر حافظ آباد میں ان کے خاندانی گھر میں ان کا ایک کمرہ ہے جس میں ٹرافیوں کے علاوہ ایک بوسیدہ سا کمپیوٹر ہے جس پر وہ اپنے سفر کی تصاویر اور فلمیں محفوظ رکھتے ہیں۔
‘محض چلنا تو کوئی کام نہیں مگر میرا ایک بھی قدم مقصد کے بغیر نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے چلنے سے فرق پڑتا ہے کیونکہ میں ایک تحریک کی صورت میں چلتا ہوں۔ میں اکیلا نظر آتا ہوں مگر میرے ساتھ ہر وہ شخص چل رہا ہوتا ہے جو دنیا میں جہالت یا ظلم و بربریت کا خاتمہ چاہتا ہے۔’
سفر پر نکلنے سے پہلے کثرت رائے اس کی مکمل تیاری کرتے ہیں۔ راستے میں آنے والے علاقوں کے لوگوں کو ان کی آمد کی خبر ہوتی ہے اور وہ نہ صرف ان کا استقبال کرتے ہیں بلکہ یکجہتی کے لیے کچھ فاصلہ ان کے ساتھ طے بھی ہیں۔
مگر ایک شخص کے چلنے سے اور چند لوگوں کے ساتھ ملنے سے کتنا فرق پڑتا ہے؟ کثرت رائے کا ماننا ہے کہ تھوڑا ہی سہی فرق پڑتا ہے۔
‘اگر آپ سنہ 2011 میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے حالات دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہاں جانے والا کوئی شخص واپس آ ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں وہاں کی ایسی تصویر کشی کی جا رہی تھی جیسے وہاں غالباً کوئی درندے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے وہاں کا سفر کرنا چاہیے۔’
کثرت رائے نے سنہ 2011 میں ڈیرہ اسمائیل خان سے سوات تک کا سفر کیا۔ اس دوران وہ درہ آدم خیل سے بھی گزرے اور سکیورٹی کے لحاظ سے انتہائی حساس علاقوں کا بھی سامنا کیا۔
اس بارے میں کثرت رائے کا کہنا ہے ‘لوگوں نے دیکھا کہ اگر ایک شخص وہاں پیدل جاسکتا ہے تو خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ حالات اتنے خراب نہیں جتنے دکھائے جا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں میری اس کوشش سے اُن خوبصورت علاقوں میں نہ صرف سیاحت واپس لوٹی بلکہ سرمایہ کاروں کے بھی حوصلے بلند ہوئے۔’
کثرت رائے کا دعوٰی ہے کہ ان کے کم از کم چھ ایسے سفر ہیں جو عالمی ریکارڈ کے حقدار ہیں تاہم ان کا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کی فہرست میں موجود نہیں ہے۔
اس کی وجہ ان کے مطابق یہ ہے کہ وہ گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے نمائندوں کو پاکستان بلانے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ تاہم وہ مایوس نہیں اور اپنی کوشش جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بشکریہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام