(محمود شفیع بھٹی)
کیا اسرائیل سپر پاور بننے جارہا ہے؟ یہ فقرہ جب بھی زبان عام ہوتا ہے۔ ایک دم سے چونکا دینے والی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ یہودی ملک ،جس کی آبادی،جس کا رقبہ چند ہندسوں میں آتا ہے۔ کیا وہی اسرائیل عالمی طاقت بنے گا؟ عالمی فیصلے کرے گا؟ کیا سارے مسلم ممالک اتحاد کرکے بھی اسکا راستہ نہیں روک سکتے وغیرہ وغیرہ۔
ہمیں پچپن سے باربار ایک بات سمجھائی گئی کہ اصل کافر یہودی ہوتے ہیں، لیکن یہ کبھی نہیں بتایا کہ یہودی اہل کتاب بهی ہوتے ہیں۔ ہمیں بتا گیا کہ یہودی بہت عیار اور چالاک ہیں،لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہودی ایک تاجر قوم بھی ہیں۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ یہودی سودی نظام کہ بانی ہیں،لیکن یہ نہیں بتایا کہ انہی کا سودی بینکنگ نظام ہمارے اسلامی جمہوریہ میں بھی نافذ ہے۔ ہمیں یہ بتایا گیا کہ یہودی ایک ہوّا ہیں اور یہ مسلم ممالک کے خلاف برسرپیکار ہیں، لیکن ہیں یہ نہیں بتایا کہ یاسر عرفات کی پرائیویٹ دوشیزائں یہودی تھیں،معمر قذافی کہ خیموں کی نگہبان یہودی خواتین تھیں۔
ان چیدہ چیدہ نکات کو مدنظر رکھتے ہوۓ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن خود مسلمان ہی ہے۔ اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک جو عرب ممالک کے درمیان گھرا ہوا، لیکن پرامن ،خوش حال اور مضبوط ہے۔ اسرائیل کے ہمسایہ عرب ممالک میں خون کی ہولی کھیلی جاری ہے،تاج و تخت کا حصول سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔کوئی شریعت کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوۓ اپنی ذاتی ہوس کو جلا بخشنے کے لئے فتوی جاری کردیتا ہے۔کوئی باغی گروہ کی قیادت کرتے ہوۓ تیل کے ذخائر پر قابض ہوجاتا ہے۔ عربوں کو تاریخ میں بدو کہتے ہی اور آج بھی عرب بدو ہی واقع ہورہے ہیں۔ عالمی پالیسی سازوں کی منصوبہ بندی” لڑاؤ اور حکومت کرو ” اور آج عرب ” بونگے” بن کر ان کی ہاں میں ہاں ملاۓ جارہے ہیں اور خون کی ندیاں بہاۓ جارہے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں تباہی کا آغاز ”عرب بہار” کے قیام سے ہی ہو چکا تھا۔ یہ عرب جو دور نبوتؐ میں یکجا نہیں ہو سکے تھے وہ عرب بہار سے کیا خاک اکٹھے ہوتے؟ اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد اسرائیل اس وقت چونسٹھ فی صد علاقے فلسطین کو دینے پر رضامند تھا لیکن عرب بہار اور عربوں کی روایتی ہٹ دھرمی نے یہ نہ ہونے دیا اور آج فلسطینی مطالبے کے مطابق گیارہ فی صد بھی اسرائیل دینے کو تیار نہیں۔ اسرائیل کے عالمی طاقت بننے کے خواب کو تقویت نائین الیون کے بعد ملی جب عالمی امن کے نام پر امریکہ کو افغان جنگ میں الجھا کر ایک طرف کردیا اور گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے امریکہ کی معیشت کو شدید مشکلات کا شکار کردیا۔ امریکہ کے بڑے بنک دیوالیہ ہوگئے، امریکہ اس وقت چین اور اسرائیل کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے۔
دوسری طرف اسرائیل نے بڑی چالاکی سے روس کو شام میں پھنسا دیا۔ اسرائیلی منصوبہ سازوں کو علم تھا که روس اس وقت معاشی اور عسکری لحاظ سے مضبوط ہوچکا ہے اور امریکہ کی معاشی تباہی کے بعد بطور ”سپر پاور ” پیش رفت کرسکتا ہے۔ اس لئے شام کو دوسرا ” افغانستان” بنا کر روس کو اس میں پھنسانے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن بظاہر اسرائیل کا میاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اسرائیل کی اس ناکامی کا اظہار ترکی میں روسی سفیر کے قتل سے بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ روس اور ترکی شام کے مسئلے کے حل کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس دوران سفیر کا قتل سرد مہری کی جانب اشارہ تھا۔ جو اب تک ممکن نہیں رہا۔ روسی سفیر کے قتل پر جس طرح کا روس نے ردعمل دیا وہ قابلِ ستائش ہے اور سب سے اہم بات ماسکو میں مسئلہ شام پر ہونے والی سہ ملکی کانفرنس کو بھی ملتوی نہیں کیا گیا۔
تیسری جانب یورپ مشرق وسطی میں اپنے مخالفین کی صفائی کے لئے ایران کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے اور ساتھ ایران کو یہ بھی یقین کروائی جارہی ہے کہ مستقبل میں آپ کو مشرق وسطی کے حوالے سے کلیدی کردار دیا جاۓ گا۔ میرے خیال میں روس اگر بشارالاسد کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لے اور عوام کو اختیار دے تو شام میں کافی حد تک امن ممکن ہوسکتا ہے۔ ایران کو چاہیے کہ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوۓ کراۓ کا بدمعاش نہ بنے اور حقائق کو تسلیم کرے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجاۓ اور معاملات ہاتھ سے نکل جائیں۔ کیونکہ بھارت کی اسرائیل سے بڑھتی قربت خطے میں ایران سمیت تمام ممالک کے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہیئے،۔ اور باہمی اختلافات کو بھلا کر ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے۔
چوتھی جانب چین ایک غیر اعلانیہ معاشی طاقت بن چکا ہے اور اسکا اعلان سی پیک کی کامیابی کے بعد ممکن ہوسکے گا۔ ایک طرف ٹرمپ امریکی صدر بن چکے ہیں اور دوسری طرف کیلی فورنیا میں علیحدگی پسند تحریک چل چکی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر کیلی فورنیا علیحدہ ہوتی ہے تو اس کا براہ راست اثر امریکی معیشت پر ہوگا اور پھر امریکہ” ڈرتا نہ تو مرتا کیا” اصول پر عمل کرتے ہوۓ اسرائیل کی بطور سپرپاور طاقت کو تسلیم کرتے ہوۓ،عالمی معاملات کی کنجی اس کے سپرد کردے گا۔ لیکن اس دوران اگر سی پیک کامیاب رہا تو پھر یہ ممکن نہیں۔ اس لئے ہمارے دفتر خارجہ اور داخلہ کو مضبوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ یہود و ہنود کی سازش کو ناکام بنا کر بلوچستان میں پائیدار امن کو یقینی بنایا جاسکے۔