ڈاکٹر غافر شہزاد
نو آبادیاتی اور مابعد نو آبادیاتی تناظر میں حالی، نذیر احمد، سر سید، اکبر، منٹو، شبلی اور انتظار حسین کے کام کی تعبیر نو کی گئی ہے۔ ناصر عباس نیر اورئینٹل کالج پنجاب یو نیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد ہیں۔ وہ اردو ادب پڑھاتے ہی نہیں ہیں بل کہ اردو ادب کے موضوعات پر کئی برسوں سے مسلسل لکھ رہے ہیں۔ آج اُن کا نام ان کے ہم عصروں میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ قومی اور عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور انہوں نے یہ مقام کسی کے کاندھوں پر کھڑا ہو کر یا کسی کا بغل بچہ بن کر حاصل نہیں کیا بل کہ نہایت خاموشی سے پہلے تحقیقی و تنقیدی کام کئے، کتابیں لکھیں، مقالے چھاپے اور پھر ان کے نام کی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی۔اورئینٹل کالج میں شعبہ اردو کے چیئر مین ڈاکٹر محمدکامران ہیں جو خود بھی مختلف تحقیقی کاموں میں مصروف رہتے ہیں، شاعر بھی بہت اچھے ہیں اور ان میں تنظیمی صلاحیتیں بھی بے پناہ ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں پس منظر میں رہ کر کام کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ آج کل پرنسپل اور ڈین کے عہدے پر ڈاکٹر فخرالحق نوری ہیں جو تحقیقی اور تخلیقی کاموں کے علاوہ خوش گلو بھی ہیں۔ اورئینٹل کالج کے ساتھ پرانے اساتذہ میں ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی ،ڈاکٹرعبادت بریلوی، وقار عظیم ، سجاد باقر رضوی اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا نام آج بھی احترام سے لیا جاتا ہے۔ خواجہ صاحب نے انتظامی عہدوں پر خود کو ایک اعتدال کے ساتھ رکھا مگر اُن کے بعد تو جیسے ایک خاص فکر کے گروپ کی چھاپ ہی لگ گئی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ یہاں شعبہ پنجابی میں ہمارے دوست اور خوبصورت شاعر ڈاکٹر ناہید شاہد بھی موجود ہیں۔یہاں کی ادبی تقریبات اور مشاعروں میں گذشتہ کچھ سالوں سے ایک خاص گروپ کو ہی بلایا جاتا رہا ہے۔
ناصر عباس نیر کا ایک ایسے ادارے میں موجود ہونا ادارے کے لیے باعثِ افتخار ہے اور ناصر عباس نیر کے لیے بھی یہ اعزاز کی بات ہے۔ ’اردو ادب کی تشکیل جدید‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا نیا تنقیدی بل کہ مجھے کہہ لینے دیجئے کہ تخلیقی کام ہے جو حال ہی میں اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے شایع ہوا ہے۔اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے ساتھ جب سے امینہ سید اور ڈاکٹر آصف فرخی کی وابستگی ہوئی ہے، مسلسل اردو ادب کی کلاسیک کے علاوہ نئے لکھنے والوں کی کتب بھی شایع ہو رہی ہیں۔ ان کا ایک ہی معیار ہے کہ کام معیاری ہونا چاہئے اور ناصر عباس نیر کی تو کئی کتابیں اوکسفرڈ سے شایع ہو چکی ہیں۔ ناصر عباس نیر کے ایم فل کے مقالے کا عنوان ’اردو تنقید میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت‘ جب کہ ڈاکٹریٹ کے مقالہ ’اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات‘ تھا۔ اس کے بعد ناصر عباس نیر ہائیڈل برگ یو نیورسٹی، جرمنی پوسٹ ڈاکٹرل تحقیق کے لیے تشریف لے گئے جہاں انہوں نے ’نو آ بادیاتی عہد کے اردو نصابات کے ما بعد نو آبادیاتی مطالعے‘ کے موضوع پر نہایت محنت سے لکھا۔ ان برسوں میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر کو نو آبادیاتی عہد کی سیاسی، سماجی اور معاشی تاریخ پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا جس نے اُن کے وژن کو تبدیل کر دیا اور وہ بالکل نئے زاویے سے اردو ادب کے تخلیقی عمل کی ترجیحات کو دیکھنے لگے۔ اُن کی دیگر تنقیدی کتب میں(۱) ’جدید اور مابعد جدید تنقید‘،(۲) ’مجید امجد:حیات، شعریات اور جمالیات‘،(۳) ’لسانیات اور تنقید‘،(۴) ’متن، سیاق اور تناظر‘،’(۵) ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری‘، اور(۶) ’ ما بعد نو آبادیات: اردو کے تناظر میں‘ شامل ہیں۔ اِن کتابوں کے ناموں سے ہی ناصر عباس نیر کے تنقیدی وژن اور اندازِ فکر کا پتہ چل جاتا ہے۔ سچ بات تو یہی ہے کہ ان موضوعات پر اردو ادب میں پاکستان میں وہ واحد تسلسل سے لکھنے والے محقق اور نقاد ہیں جن کی تنقیدی بصیرت نے نو آبادیاتی اور اس کے فوراً بعد کے اردو ادب کی تفہیم میں قابلِ ستائش کام کیا ہے۔ وہ کئی علوم کے تناظر میں اُس عہد کی ادبی سرگرمی اور تخلیقی عمل کو دیکھتے ہیں جس کے سبب ان کے ہاں ایک الگ تنقیدی جہت آ جاتی ہے۔ انہوں نے تنقید کی ایک نئی زبان اردو ادب میں متعارف کروائی ہے جس میں نئی اصطلاحات کے سبب پڑھنے والوں کو شروع میں دقت ہوتی ہے مگر جب وہ ایک بار ان سے شناسا ہو جاتے ہیں وہ ان تنقیدی مضامین کو زیادہ گہرائی میں جا کر سمجھ سکتے ہیں۔
’اردو ادب کی تشکیل جدید‘ اپنے اندر نو آبادیاتی عہد میں تخلیق ہونے والے اردو ادب کی مختلف اصناف کے کئی گوشوں کو پہلی بار آشکار کرتی ہے۔ اس سے پہلے تو اردو ادب کے قارئین ادب پاروں کو گھسے پٹے تدریسی ضابطوں میں رہ کر ہی دیکھنے تک محدود ہو گئے تھے۔ان کے مضمون ’بر صغیر میں ’مسلم ثقافتی اثرات : نو آ بادیاتی تناظر‘ میں بنیادی سوال یہ اٹھا یا گیا ہے کہ انگریزوں کی طرح اُن سے قبل مغل بھی تو یہاں ہندستان پر قابض ہوئے اور انہوں نے تین سو سال حکومت کی ، اب اگر انگریز بھی باہر سے ہی آئے تو اِن میں اور مغلوں میں کیا فرق تھا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اردو ادب میں اتنی سنجیدگی سے پہلی بار اٹھایا گیا ہے اور انگریزی عہد کے تخلیقی سفر کو اس کتاب میں موازناتی سطح پر پیش کیا گیا ہے۔ناصر عباس نیر لکھتے ہیں، ’پورا برصغیر اقتصادی و سیاسی خودمختاراکائیوں پر مشتمل تھا۔ گاؤں ایک مکمل خود مختار اکائی تھا۔یہ خود مختاریت اقتصادی سطح پر تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاٹ بھی تھی۔ چوں کہ عوام اور حکمران طبقوں کے رشتے طے شدہ تھے، جنہیں ذات پات کا نظام مزید پختہ کرتا تھا، اس لیے ازمنہء وسطیٰ کا ہندستانی معاشرہ جدید لغت میں جامد معاشرہ تھا‘۔مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جدید لغت مرتب کرنے والے کون تھے؟ یہی انگریز جو آج بھی مرکز کی قوتوں کو کمزور کر کے نچلی سطح تک فوائد پہنچانا چاہتے ہیں۔ انگریزوں کا دعویٰ بھی یہی تھا کہ انہوں نے ایک عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کیا ہے۔ معاشرے میں تبدیلی تو تب بھی آ رہی تھی کہ جب جدیدیت نہیں تھی، روایت تھی۔ مگر اس وقت تبدیلی کا تناسب بہت کم تھا۔جدیدیت بہت کم وقت میں بڑے اسکیل پر تبدیلی لے آئی۔ یہ ایک عالم گیر تحریک تھی جس کے اثرات ساری دنیا پر پڑے۔ ایک گاؤں جو ایک خود مختار اکائی تھا، اسے توڑ دیا گیا۔ رشتوں کی توڑ پھوڑ ہوئی، مفادات کے حصول میں ایک عام آدمی کے دل میں خواہش پیدا ہوئی اور چند دہائیوں میں بہت کچھ تبدیل ہو گیا۔ ان تبدیلیوں کے ہمارے ہاں اردو ادب پر کیا اثرات پڑے، ناصر عباس نیر کے کام کا بیشتر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی اپنی شاعری کو ’کچھ کذب و افترا ہے، کچھ کذبِ حق نما ہے‘ قرار دیتے تھے۔اس کتاب میں شامل مضمون پڑھنے کے بعد حالی کے شعری تناظر کی پہلی بار سمجھ آتی ہے کہ انہیں’ مسدس حالی‘ اور’ مقدمہ شعرو شاعری‘ لکھنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟وہ بات سر عبدالقادر سے شروع کرتے ہیں کہ ’قومی تصور کے بغیر ادب حقیقی اور سچی شاعری سے محروم تھا‘۔مولانا حالی کہتے ہیں کہ شاعری کذب ہے مگر ایک ایسا کذب جو حق کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔قومی شاعری کے بارے میں یہی فکر اقبالؔ پر آ کر منتج ہوتی ہے۔اس مقالے میں قومیت پرستی کے فروغ میں حالیؔ کی قومی شاعری نے جو کردار ادا کیا، اس پر بحث کی گئی ہے۔ ایسے سوالات کہ کیا یہ خیالات حالی ؔ کے شعری تخیل کی پیداوار تھے؟، یا کہیں سے مستعار لیے گئے تھے، کسی اندرونی تحریک کا نتیجہ تھے یا بیرونی دباؤ کے پیدا کردہ تھے؟ سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
اس کے بعدڈپٹی نذیر احمد کے توبہ النصوح کا مطالعہ ’معنی واحد اور معنیِ اضافی کی کشمکش‘ کے عنوان سے کیا گیا ہے اورمعاشرے میں افراد کی اس اصلاح کی صورت حال اور خواہش کو اجاگر کیا گیا ہے کہ جس کی خاطر یہ ناول لکھا گیا تھا۔ یہ پہلو حیران کن ہے کہ اردو ادب کی جدید تاریخ کا آغاز خالص ادبی یا فلسفیانہ نظریا ت سے نہیں ہوا بل کہ انگریزوں کی جانب سے کی جانے والی تعلیمی اور نصابی اصلاحات سے ہوا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اورئینٹل کالج بھی کافی عرصہ ایسے ہی اصلاح پسندوں کے نرغے میں رہا ہے اور وہ لوگ ایسے تدریسی ضابطوں سے آگے نہیں بڑھ سکے، ایک محدود وژن میں رہتے ہوئے تدریسی کام سرانجام دیتے رہے ہیں۔مگر ناصر عباس نیر جیسے نقادوں کے بعد اب ان بزرگ اور نوجوان نقادوں کو بھی اپنا قبلہ تبدیل کرنا پڑ رہا ہے۔ڈپٹی نذیر احمد کے تینوں ناول فلٹر تھیوری کے تحت وجود میں آئے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ’نو آبادیا ت نے مغربی جدیدیت کے کلامیوں کو تعلیمی پروٹوٹائپ میں سمونے کی کوشش کی‘۔ اسی وجہ سے ہی ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کو انگریز سرکار کی جانب سے انعامات سے نوازا گیا ۔ آج بھی ایسی ہی کتابوں کو انعام سے نوازا جاتا ہے کہ جو حکومتی مقاصد کو آگے بڑھا رہی ہوتی ہیں۔گویا نو آبادیاتی عہد ابھی بھی ویسا ہی چل رہا ہے۔ اس کے بعد اس کتاب میں دوسرا اہم مضمون سر سید اور اکبر الہ آبادی کے ’دوہرے شعور کی کشمکش‘ کو اجاگر کرتا ہے۔ ناصر عباس نیربجا طور پر ایک شخصیت کو پرومیتھیس اور دوسرے کو ایپا میتھیس قرار دیتے ہیں۔سرسیدؔ مستقبل کی طرف اور اکبرؔ ماضی کی طرف دیکھتے ہیں۔ مذہبی و سیکولر، ماضی پسندی و مستقبل آفرینی جیسے متضاد رویوں سے اکبرؔ ، سر سیدؔ اور حالیؔ کے ہاتھوں اردو ادب کی تشکیل جدید ہوئی، یہی اس مقالے کا نچوڑ ہے۔
اس کے علاوہ کتاب میں منٹو، شبلی، میرا جی، انتظار حسین کے تخلیقی وژن کے حوالے سے چار اہم مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ جن کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ منٹو کے افسانوں کی تفہیم ’متن اور حاشیہ‘کے تناظر میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’منٹو سماج کے حاشیائی کرداروں (کریم داد، ددا پہلوان، نکی، جانکی، سلطانہ، سوگندھی، زینو) کو افسانے کے کبیری کردار بناتے اور ان کے عزائم و طرزِ حیات کو افسانے کا نقطہ ارتکاز بناتے ہیں۔ یہ عمل بجائے خود مرکز سے بغاوت کا دوسرا نام ہے‘۔حاشیے اور متن کا روایتی تصور یہ ہے کہ حاشیے کو بنیادی متن ہی اپنے اندر سے، اپنی بعض ناگزیر حاجات کے تحت جنم دیتا ہے۔ متن جن باتوں کو مرکزی اہمیت نہیں دیتا مگر ان کا ہونا بہتر تفہیم کے لیے ناگزیر ہوتا ہے، اسے حاشیے کی صورت میں متن کے ساتھ ظاہر ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ حاشیہ ، متن کی اضافی وضاحت کرنے میں معاونت کرتا ہے مگر متن کے بنیادی معانی میں کوئی مداخلت نہیں کرتا۔مگر یہاں ناصر عباس نیر نے پسِ ساختیاتی فکر میں متن اور حاشیے کے کردار اور باہمی رشتے کاتصور متعارف کروایا ہے۔ ژاک دریدہ لکھتا ہے، ’’حاشیہ بہ یک وقت ، خاتمے اور آغاز، وحدت اور تقسیم، ذات اور غیر، یہاں اور وہاں ہے‘‘۔بقول ناصر عباس نیر،’’دوسرے لفظوں میں متن کا خاتمہ گویا حاشیے کا آغاز ہے۔ حاشیہ متن کو تقسیم بھی کرتا ہے اور دونوں میں ایک وحدت بھی قایم رکھتا ہے‘‘۔ منٹو کو ہندستانیوں کی شناخت حاشیائی حیثیت سے قبول نہ تھی اور نہ ہی وہ چاہتا تھا کہ وہ استعماری مرکز پر انحصار کریں۔ اس تناظر میں ناصر عباس نیر نے منٹو کے افسانوں کی نئی تعبیر مقالے میں پیش کی ہے۔
انتظار حسین کے فکشن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مشرق کی کتھا کہانی کی روایت کا احیا کیا، اسی وجہ سے وہ ماضی پرست کہلائے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا فکشن احیائی نہیں تشکیلی خصوصیت رکھتا ہے۔ وہ ہندی، سامی اور عجمی روایات کو بھی شامل کرتے ہیں۔ناصر عباس نیر، انتظار حسین کو اردو فکشن کے پہلے نمائندے کے طور پر قبول کرتے ہیں جنہوں نے جدید یوروپی فکشن کی تقلید میں لکھے گئے نو آبادیاتی فکشن کی شعریات میں مضمر ’غیر‘ کو پہچانا اور اس کا جوابی بیانیہ تخلیق کیا۔ انہوں نے کم وبیش وہی سوال قائم کیا جسے سرئیلسٹ پسندوں نے خواب کے ضمن میں اٹھایا تھا: کیا داستان، دیو مالا، نام نہاد توہمات کو زندگی کے اساسی سوالات کے سلسلے میں بروئے کار نہیں لایا جا سکتا؟اردو کے نو آبادیاتی فکشن نے جدید کاری کی ہمہ گیر روش کی پابندی کرتے ہوئے، جدید یورپی فکشن کی حقیقت نگاری کو قبول کیا اور خود اپنے قدیم فکشن کی روایت کو اپنا ’غیر‘ تصور کیا۔ ناصر عباس نیر لکھتے ہیں، ’’جدید افسانے کا قبلہ عصری حسیت تھا تو ترقی پسند افسانے کا سماج کا جدلیاتی تصور‘‘۔ انتظار حسین نے ان دونوں کے حقیقت کے تصور پر ہی سوال اٹھا دیا۔ ناصر عباس نیر نے ’’دو جذبیت کے تناظر میں شبلی کی تنقید کا جائزہ‘‘ میں شبلی نعمانی کی علیگڑھ سے وابستگی، حصولِ علم اور پھر سر سید سے اختلافات کی بنیاد پر یہ مقالہ لکھا ہے۔ علی گڑھ اور سر سید سے شبلی نعمانی کا تعلق ’دوجذبیت‘ یعنی تحسین وتنقید اور کشش اور گریز کا بہ یک وقت حامل تھا۔وہ علی گڑھ اور سر سید کے مداح بھی تھے اور نقاد بھی۔ سر سید ماضی کی کلیتاً نفی نہیں کرتے تھے جب کہ شبلی بازیافت کے بجائے احیا کے حامی تھے۔ شبلی نعمانی ، معنی و مضمون پر الفاظ کو اس لیے فوقیت دیتے ہیں کہ لفظ مستحکم ہے جب کہ معنی غیر مستحکم اور سیال ہے۔ لفظ پر گرفت قائم رکھنا ممکن ہے جب کہ معنی پر نہیں۔
کتاب کے دیباچے میں مصنف نے ’احیا‘اور ’بازیافت‘ کے درمیان امتیاز واضح کیا ہے، اس کے مطابق آج تک ہمارے نقاد ماضی کے پرشکوہ تصور کو واپس لانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جب کہ ناصر عباس نیر نے ماضی کو از سرِ نو با معنی بنانے کی کوشش کی ہے جسے وہ بازیافت سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’حقیقت یہ ہے کہ جدید اردو ادب اِن سب اسطوری تشکیلات کی نفی کرتا ہے جنہیں نو آبادیاتی عہد میں مرکز اور آفاقیت کے نام سے پیش کیا گیا‘۔ اس کے علاوہ بھی کتاب میں بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں ، کئی کے جوابات پیش کیے گئے ہیں مگر یہ کتاب ڈسکورس کی ایک صورت حال پیدا کرتی نظر آتی ہے جسے مصنف کی کامیابی قرا دیا جانا چاہئے۔
ناصر عباس نیر نے اردو ادب کے اس زمانے کو کہ جو نوآبادیات کا عہد تھا، سیاسی، سماجی، معاشی، اور تاریخی سطح پر تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد ان تمام اصناف میں کی جانے والی تخلیقات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ جس کے بارے میں ہمارے نقاد اجتناب برتتے رہے ہیں۔ تنقید کا یہ انداز اگر چہ مغرب سے مستعار لیا گیا ہے مگر اس کی وجہ سے ہمارے ہاں کے فکشن نگاروں اور شاعروں کے تخلیقی کام کی نئی جہات ہمارے سامنے آئی ہیں۔ ناصر عباس نیر ابھی نوجوان ہیں، ان کے پاس ادب کو سمجھنے کا ایک پیمانہ ہے، ان کے پاس توانائی بھی موجود ہے اور وہ بلا تکان لکھنے میں لذت محسوس کرتے ہیں، اس لیے ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے عہد کو متاثر کریں گے اور اردو ادب کی تنقید کے پرانے تدریسی ضابطوں میں دراڑ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ابھی تک ان کو ان کے اسلوب میں غیر مانوس اصطلاحات کے سبب اپنے پیش رو نقادوں کی مزاحمت کا سامنا ہے مگر یہ گرتی ہوئی دیواریں ہیں ، ان کو بس ایک اور دھکے کی ضرورت ہے۔ ناصر عباس نیر اگر اگلے چند برسوں تک ایسے ہی دل جمعی کے ساتھ لکھتے چلے گئے تو ان کو دھکا بھی دینے کی نوبت نہیں آئے گی اور اردو ادب کے نام نہاد تدریسی نقادین کی یہ کہنہ سال، خستہ اور بغیر بنیاد کے کھڑی دیواریں زمین بوس ہو جائیں گی۔