( علی اکبر ناطق)
سفر کی واردات تو ہم لکھیں گے نہیں کہ جہاز پر گئے اور اُسی پر آئے البتہ جاتے ہوئے چھوٹا جہاز تھا، پونے دو گھنٹوں میں پہنچے، واپسی پر کافی سے زیادہ بڑا تھا، تیز اُڑا اور سوا گھنٹے میں آئے۔ جاتے ہوئے مستنصر تارڑ، اصغر ندیم سید، ہود بھائی اور دو مزید لوگ تھے اور آتے ہوئے تنہا تھے، یہ اچھا ہی ہوا ورنہ جہاز سے اُتر کراُنھیں بھی اپنے رکشے میں بٹھانا پڑتا۔
خیر کراچی پہنچ کر ہوٹل گئے، کمرے میں گئے ، نہائے دھوئے اور لاونج میں آ گئے، اتنے میں ہمارے دوست سیف محمود کا فون بجا، میاں ناطق کہاں ہو ،ہم نے کہا، یہاں ہیں، چنانچہ دو بچھڑے ہوئے قلندروں کی بیچ لگثرری میں ملاقات ہوئی اور محبت کی واردات ہوئی یعنی دبا کے گلے ملے ،پھر سیف صاحب نے وہ تحفے ہماری جھولی میں رکھے جو دلی سے خاص باندھ کر لائے تھے، اُن میں سے ایک تو ہم گلے میں ڈالے اور لیے لیے پھرتے ہیں ،کچھ کتابیں تھیں ،ایک پینٹنگ تھی۔ وہ سب گھر میں ہیں اور اب محفوظ نشانی ہیں۔
خیر بعد از اشیائے محبت و تحفہ جات وصول کرنے کے ،ہم نے باہم دوستوں کا احوال پوچھا جسے آپ گلے شکوے بھی کہہ سکتے ہیں اور نکلے کھانے کی تلاش میں، جو بیچ لگثرری ہوٹل میں سمندر کے بیچ لکڑی کا بڑا تختہ ڈال کر لگایا جاتا ہے۔ وہیں ناشتہ ہوتا ہے، وہیں کھانا ہوتا ہے اور وہیں بڑی تعداد میں کوے ہوتے ہیں ۔ ہم پچھلے چھ سال سے ہر میلے پر برابر وہیں ناشتہ کرتے ہیں، سمندری بگلے دیکھتے ہیں ، امیرزادوں کی کشتی رانی پر حیرانی کرتے ہیں۔ ہم یعنی مَیں اور سیف خراماں خراماں وہیں چلے گئے ، دوپہر کھانے کا وقت تھا ۔
یہ تختہ بحری جہاز کی شکل کا ہے اور کافی پرانا ہے اور اِس میں اُونچی نیچی بہت جھگیں ہیں، جہاں ہمارے کئی مشاہیر ٹھوکر کھا کر گرے ہیں اور گر کے اُٹھے ہیں۔ اِسی جگہ ہم انتظار صاحب کے ساتھ کئی دفعہ ناشتہ اور کھانا کھا چکے ہیں ،یہیں عبد اللہ حسین کے ساتھ لسی پی چکے ہیں، ڈنر کر چکے ہیں ،یعنی کس کس کا نام لیں کہ سب ادب کے سورج ،مہتاب، تارے اِس خاکسار کو یہاں کمپنی دے کر چلے گئے اور اِس بار ہم نے جان بوجھ کر تارڑ صاحب کو کمپنی میں لیا ،اللہ خیر کرے گا۔
قصہ مختصر سیف نے اور مَیں نے اور پیوش جھا نے اور اُس کی پیاری سی بیوی نے اور دوسرے دیسی ولائتی ادیبوں نے لنچ کیا اور احتیاط سے کیا کیونکہ بوفے بہت لمبا تھا ، پھل ، مٹھائی ،پلاؤ، گوشت ،اور بھی بہت کچھ ، ہم ایک کے بعد دوسری چیز ذری ذری پلیٹ میں ڈالتے گئے۔ سلاد پر ہاتھ کافی گرم رکھا کہ اِس میں نقصان کم ہے اور فائدہ خوب۔
کھانے کے ذکر سے یاد آیا ،پچھلی دفعہ امجد اسلام بھی تھا ،ہم نے دیکھا ،اُنھوں نے ایک پرات جیسی بڑی پلیٹ نانگا پربت کی طرح کھانے سے بلند کر رکھی تھی، ہم نے اتنی بھری پلیٹ دیکھ کر کہا ، امجد صاحب ! دوبارہ لے لیتے۔ کہنے لگے ہاں دوبارہ بھی لے لوں گا اور اللہ قسم ہم نے دیکھا اُنھوں نے وہ سب کھا کر اتنی ہی پلیٹ دوبارہ بھر کر کھائی خیر اِس بار تو وہ نہیں تھے ،اگر ہوتے تو ہم ضرور اُنھیں کھاتے ہوئے دیکھتے اور خوش ہوتے۔
تھوڑی دیر خورونوش ختم ہوئی تو مکرر لاؤنج میں آ گئے، 5 بجے اوپننگ تھی ، دوست آ رہے تھے ،افضال سید (برِصغیر میں نثری نظم کے سب سے بڑے شاعر) صاحب آگئے ، تنویر انجم صاحبہ آ گئیں ، کاشف رضا ، رفاقت حیات ، عقیل عباس جعفری ، مبشرزیدی ، عذرا عباس ، زاہدہ حنا ، خیر کس کس کا نام لوں ،5 بجے تک ہوٹل بھر گیا ۔اچانک ہمیں ایک بی بی نسیم سید مل گئی اور دِل کو باغ باغ کر گئی ، ہم اُنھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے ،بہت خوش ہوئے ، نظم اور غزل کی اچھی شاعرہ تو وہ ہیں ہی ،مگر جیسی دل کی اور طبیعت کی اچھی ہیں ،کیا بتاؤں؟ مجھ سے پیار کرتی جاتی تھیں اور بس پیار کرتی جاتی تھیں اور ایسی تعریفیں کرتی تھیں کہ ہم شرمندہ ہوئے جاتے تھے۔ گھُٹ گھُٹ کے گلے ملیں، جیسے بچپن کے مدتوں سے بچھڑے ساتھی ہوں۔
نسیم سید صاحبہ کنیڈا سے آئی ہیں۔ کہتی ہیں، لاہور میں آپ کے پاس آوں گی، یقین ہے آئیں گی ، جھوٹ کاہے کو بولیں گی،دوسرے دن میرے لیے ایک کُرتہ لے آئیں ،ہم نے جب پہنا تو بہت بھلا لگا ،اور ابھی جب کہ یہ لائنیں لکھ رہا ہوں ،کُرتا ہمارے گلے میں ہے اور خوب جچ رہا ہے ،کوئی سو لوگ تعریف کر چکے ہیں مزید بھی کریں گے۔ اللہ اِن کو لمبی عمر دے۔
ارے ایک اور بی بی منیزے نقوی ہماری پرانی دوست اور انگلش ناول نگار اورسٹوری رائٹر ہیں۔ امریکہ میں رہتی ہیں اور ورلڈ بینک میں کام کرتی ہیں، جب ملتی ہیں تو پہلی ملاقات سے زیادہ ٌپر تپاک ہوتی ہیں اور جو سامنے آتا ہے ،اُسے کہتی ہیں ،تم ناطق کو جانتے ہو ،یہ بہت بڑے شاعر ہیں ، کئی انگلش اردو ادیبوں سے لے کر بہروں ،ریڑھی والوں ،رکشہ ڈرائیوروں اور چائے فروش تک کو اِس بات سے آگاہی دے چکی ہیں بلکہ اُنھیں پکڑ پکڑ کر سامنے کرتی ہیں کہ ناطق کو سنو اور ہم اُن کو مروت میں جب نظم سناتے ہیں تو وہ اُسی مروت میں حیرانی سے منہ تکتے ہیں۔
اوپننگ کے بعد شائمہ سید نے رقص پیش کیا اور خوب پیش کیا ۔ شائمہ سید امینہ سید کی بیٹی ہیں اور ہماری دوست ہیں اور رقصِ کتھک کا آرٹ سیکھ رہی ہیں اور خوب سیکھ چکی ہیں ۔ شام چھ بجے سیف محمود کا زہرہ نگاہ اور تارڑ صاحب کے ساتھ مکالمہ تھا۔ سیف کی زبان توعملی طور پر سیف ہے۔ دلی کی جامع مسجد کے پانی سے صیقل اور جمنا کے بہاؤ سے رواں کی ہوئی کہ وہ کہے اور سُنا کرے کوئی مگر اِس بار ایک کُٹنی نے اُنھیں کم کم ہی بولنے دیا۔ خیر یہ سیشن خوب رہا کہ زہرہ نگاہ نے کمی پوری کر دی اگرچہ وہ کُٹنی بات بات پر ٹوکتی تھی ،یہ اُس کی عادت ہے بچپن کی ،نام کیوں لوں آپ اُس کی عادت جانتے ہیں تو سمجھ جائیں گے۔ رات آٹھ بجے جرمن والوں نے کھانا دیا تھا ،پینا بھی دیا تھا ۔ دروازے پر گارڈ تھے، دعوت نامہ دیکھ کر اندر جانے دیتے تھے ،اِدھر ہمارے دعوت نامے اسلام آباد پہنچتے ہیں اور ہم پچھلے پانچ ماہ سے لاہور میں ہیں۔ گارڈ دعوت نامہ ہم سے بھی پوچھا کیے ،ہم چُپ رہے ،ہم ہنس دیے۔
آخر لسٹ میں ہمارا نام اور چہرے پر شرافت دیکھ کر با ادب ہو گئے بلکہ لبِ جُو تک چھوڑ آئے ، وہاں ہم سب چھوڑ چھاڑ کر پائن ایپل جوس کے کنارے بیٹھ گئے اور دو لیٹر تک پی گئے ۔ مثل حارث خلیق اور محمد حنیف ہمیں دیکھ کرشرماتے تھے کہ میٹھا جوس پی پی کر ادیبوں کا وقار مجروح کرتا ہے۔ یہاں اردو کے، انگلش کے ،ترکی کے، جرمنی کے ،ہندی کے ہر طرح کے شاعر، ادیب پی پی کے داغِ ندامت کو آبِ کرامت سے دھو رہے تھے، مگر ناطق سب میں اجنبی رہا، پینے میں بھی اور انگلش بولنے میں بھی اور کندھے اُچکانے میں بھی، کہ بچارے کو تینوں کام نہیں آتے۔ فقط لفظوں سے محبت آتی ہے اور اِسی کا سبب ہے کہ سب ہم سے محبت کرتے ہیں۔ بھاگ کر ملتے ہیں اور کہتے ہیں ناطق تمھاری فلاں نظم کیا خوب ہے، تمھارا فلاں افسانہ کیا کمال ہے۔ اور ہم پھولتے جاتے ہیں، اکڑتے جاتے ہیں۔ ڈر ہے ہمارے سر میں ہوا نہ بھر جائے۔
(جاری ہے)