(شکور رافع)
یہ سائبر مستی بل سے پہلے کی بات ہے۔ آئی ٹی عہد میں اپنی قوم کا ’اوم پوری جذباتی خانہ‘ ننھا ہی سہی،رہتا بھرا بھرا ہی تھا۔ ڈاکٹرعافیہ اورآمنہ مسعود کی تصویروں، سندھ سرحدمیں گمشدگان پر تحریروں: تقریباً سب ہی شریروں کو بقدر جثہ کوریج مل ہی رہی تھی کہ واحد بلوچ پھر ہزار بلوچ اور اب سلمان حیدر اینڈ کمپنی (مع مولانا معاویہ اعظم ) نے ہنگام کھڑا کر دیا۔ اگرچہ یہ طوفان آئی ٹی کی پیالی میں برپا ہوا…ایک غیر معتبر، غیر مستقل اور ہیجانی طوفان کہ قومی ذرائع ابلاغ، عدالت اور سیاست بمشکل جسے ’چلغوزوں‘ جتنی اہمیت ہی دے سکے۔ تاہم چند بڑے شہروں کے ایک دو فیصدی انٹرنیٹ صارفین نے پراسرار گمشدگیوں کو رجحان (ٹرینڈ ) بنانے کی اپنی سی کوشش کی، ابتداً کسی حد تک کامیابی بھی ملی۔ اعشاریہ چند فیصدی جھرجھراتی ،دل جلاتی اقلیت دھیرے دھیرے معمول کے واقعہ کو مسئلہ بنانے میں کامیاب ہو رہی تھی۔ وجہ گمشدگان میں سے کچھ کی اپنے پاپولر گیتوں، ڈراموں، نظموں کے علاوہ فنی ثقافتی، تعلیمی، رفاہی اداروں اور شخصیات سے وابستگی تھی۔ ان اہل قلم کے ملکی قوانین کے مطابق ٹرائل کے بجائے یک دم اغوا ہو جانے پر عمومی رد عمل کی فضا بن ہی رہی تھی کہ نامقدس شرگوشیوں نے انڈے دیے جن سے گستاخ افواہوں نے جنم لیا، سرکش الزمات نے بھیڑ چال چلی..سنی سنائی تہمتوں کی خبر جوان ہوئی اور چند دنوں میں خبریں عین الیقین سے حق الیقین بن کر بزرگ بن گئیں۔
تو ایسا ہے کہ زبان خلق نقارہ خدا ٹھہری ہے اور ان مغویوں کے حق میں اب آپ کی گفتگو کے سب حقوق مشکوک قرار پائے ہیں۔ ستم بالائے ستم کچھ’ مقبول جانوں‘ کے فتاویٰ کو فکری تن آسانوں نے من و عن قبول کیا اور یوں قبول کیا کہ یہ واقعہ’ آزادی اظہار‘ کے بجائے ’آزادی آزار‘ کا مسئلہ بن گیا ہے۔۔ ایسا تنازعہ بن گیا ہے کہ گمشدہ لکھاری مقدس رسم وروایات کے باغی اداروں کے ایجنٹ کہلارہے ہیں یا کسی مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا سرکش!
سلمان حیدر کی مثال ہی لیجئے. ماڈریٹ مومنین لاکھ پوچھتے رہیں کہ نواسہ رسول کے شہادتی ایام میں جو ماتم وگریہ جیسی متنازعہ روایت کا دفاع کرتا ہو، وہ اسی نواسے کے نانا اور ان کے خدا کے بارے میں گستاخی کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ اب جواب دینا ضروری ہے تو جھجھکتی زبان کھینچئے اور لمبی آہ بھی اور فقط اتنا کہہ دیجئے کہ کچھ رشتے، جانور اور مسلک صرف قربانی کے لیے جنم لیتے ہیں۔ سو سرعام ایسے مقہور مسلک سے نسبتی اظہار ایک ناپسندیدہ رویہ تھا جس کا انجام یہی ہونا تھا جو سلمان حیدر کا ہوا۔
ثانیاً نظام تعلیم جیسے حساس ترین پیشہ سے ان کی وابستگی الہامی حق پسندوں اور روایتی شک پسندوں کو مزید شک میں ڈال دیتی ہے۔ معاملہ اگر واقعی اس قدر حساس اور سنگین تھا کہ انٹرنیٹ بلاگر کو کسی وارنٹ، نوٹس بلکہ اطلاع تک دیئے بغیر اٹھالیا گیا اور ان کی گمشدگی کے ذمہ دار اگر واقعی حساس ادارے ہی ہیں تو اٹھا لینے والوں پر کچھ تبرا نہیں کہ وہ یقینا اتنے بے انصاف نہیں کہ صرف ایک مڈل کلاسیے استاد کو ہی دبوچ رکھا ہو..وہ درج بالا جہتوں کے بڑوں سے بھی پوچھ گچھ میں ہوں گے۔ بڑوں سے ہماری مراد مذکورہ مسلک و پیشہ کے سربراہان ہیں یعنی ’ تحریک نفاذ فقہ دیگریہ‘ کے درجن بھر رہبران کے ساتھ ساتھ فاطمہ جناح یونیورسٹی کے چانسلرو قونصلر اگر معمول کے مطابق بقلم خود غائب نہیں ہیں تو یقینا ان حساس پلیٹ فارمز پر شواہد پیش کر رہے ہوں گے کہ کیسے ایک سرپھرا ایک عرصے سے قوم ملک سلطنت کی مقدس نظریاتی سرحدوں پر تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا۔ تادم تحریرتعلیمی و مذہبی اداروں کے یہ سربراہان خاموش ہیں اور ہم خوش فہموں کو یہ خاموشی بدگمانی کے بجائے خوش گمانی میں مبتلا کرتی ہے کہ حساس عدالت ان کا بیان ریکارڈ کرچکی ہو گی۔ ایسے ہی، یقیناً، ان کے شاگردوں سے بھی معلومات لی گئی ہوں گی کہ اتنی اہم یونیورسٹی میں تعینات ان استادوں نے سینکڑوں ہزاروں طالب علموں اور عقیدت مندوں سے مکالمہ و مباحثہ میں کہاں کہاں مقدس روایات کی توہین کی۔۔کیا وہ خدانخواستہ کبھی خدا، رسول، آئمہ یا مملکت پاکستان کی توہین کے مرتکب ٹھہرے؟ کیا انہوں نے دہشت گردی، طالبانا ئزیشن، فرقہ وارنہ تعصب، فورتھ شیڈیول میں شامل مذہبی یا لامذہبی گروہوںسے تعلق بنایا یا کسی بھی طرح کسی بھی جنگی وتخریبی سرگرمیوں کی حمایت کی؟
مذہب، تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ مبینہ سرکش میڈیا اور سوشل میڈیا پہ بھی کافی وقت گزارتے تھے۔ روایتی مذہبی دانش اس کے پس منظر میں بھی عالمی اداروں کی سازش دیکھتی ہے.۔ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر میڈیا کے اتنے بڑے شعبے میںوہ واقعی توہین و شرپسندی کے مبلغ رہے ہیں تو چوکس حساس ادارے اطلاعات کی وزیر سے وزارت تک سے تفتیش نہ سہی رابطے میں ضرورہوں گے۔ وزیر مشیرکی سطح اگر یہ نہیں کہ چار بندوں کی گمشدگی پراپنے بیان ریکارڈ کروائے توکم از کم مذکورہ مشکوکہ ملزم کے ٹوئٹر فیس بک کے ذاتی ریکارڈ کی جانچ پڑتال ضرور ہو چکی ہو گی کہ کس کس دن کس کس نے اپنے اکاؤنٹ میں توہین کی قبیح حرکت کی۔
زیربحث موصوف ایک نام نہاد قسم کے شاعر بھی تھے۔ بقول وزیر داخلہ بلھے شاہ کے نقال! یہ اس بات کا اظہار سمجھا جاتا ہے کہ مقدس روایات سے نالاں عالمی آلہ کار یعنی ایجنٹ ہر شعبہ میں ٹانگ اڑانے اورپھرہمارے نظریاتی محافظوں سے سر اڑانے سے باز نہیں آتے سو امید ہے کہ مسلکی و میڈیائی بالائی کی صفائی کے ساتھ ساتھ شعبہ ادب کے بڑوںکھڑوں سے بھی ضرور تفتیش کی جارہی ہو گی۔ مثلاً ممنون حسین صاحب، عطا قاسمی صاحب، عرفان صدیقی صاحب،قاسم بھگیو صاحب، افتخار عارف صاحب وغیرہ وغیرہ سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر ایسا کچھ لکھا جاتا رہا تو کب سے اور کیونکر لکھا جاتا رہا اور کب تک لکھا جاتا رہے گا۔
مبینہ ملزم طرفہ تماشا ثابت ہو رہاہے۔اس کی ایک جہت اور بھی ہے… یہ ایک سیاسی جماعت کا کارکن بھی تھا اور ان کے لیے نغمے ترانے گیت لکھتا تھا…یقینا اس سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما سے بھی سوال کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے مبینہ طور پر ایسے گستاخ شخص کو رکنیت کیوں دی اوراس کا فکری مواد کیوں اپنایا۔
یہ سکرپٹ رائٹربھی تھا، ہدایت کار تھا…اداکار تھا… فنکار تھا.. سو اب فن و ثقافت کے علم برداروں کی پیشی ہے۔ کیا واقعی وہ سٹیج اور ڈرامہ میں مقدس روایات و رسمیات کا مذاق اڑا رہا تھا۔ پیمرا نے اگر مرکزی دھارے کے میڈیا پر فحاشی و عریانی سمیت تمام مذہبی نظریاتی منطقوں پہ نگہ غلط جما رکھی ہوئی ہے تو کیسے ایک سرکش ڈرامہ نگار ور اداکار ہماری مقدس روایات کے امین اور سماجی اصلاح کے مراکز یعنی سٹیج تھیٹرز پر مقدس ریاستی ستونوں کی کامیابیوں کے تذکرہ کے بجائے ان کا ٹھٹھہ اڑا رہا تھا۔ بالخصوص سوشل میڈیا پر ان سے منسوب کیے جانے والے کئی قبیح جرائم اور حرکات ۔۔۔ شاید پی ٹی اے اس کا جواب یہ دے کہ سوشل میڈیا پہ ایسی گرفتگی ممکن نہیںمگر سوال یہ ہے کہ اگر دس پندرہ ہزار کی پسندیدگی والے صفحات ’روشنی‘ اور ’ موچی‘ وغیرہ بیک جنبش بٹن بند ہو سکتے ہیں تو کئی ملین افراد کے پسندیدہ صفحہ پاکستان ڈیفنس کے پیج ایڈمنز سے کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ اس نے سلمان حیدر پر توہین اسلام کا جو الزام لگایا ہے، اس کا کیا ثبوت ہے اوریہ بھی کہ کیا چنڈو خانے سے اڑتی ہر افواہ کو خبر بنا لینا ازخود تعلیمات اسلام کی توہین نہیں ہے؟
مذکورہ متنازعہ انٹرنیٹ بلاگ پر مبینہ الزامات اور ان کی بندش و صفائی سے ایک اور افسوس ناک انکشاف بھی ہوتا ہے کہ چلیے ،ریاستی (و مذہبی) اداروں کی ناقابل برداشت مبینہ توہین کرنے والے ان پست صفحات کے حد ادب کا معاملہ تو سنگین ہے ہی مگرناخوشگوار حیرت اس پر ہے کہ ٹوئٹر اور فیس بک پرآج بھی ایسے درجنوں اردو بلاگز، گروپس، پیجز موجود ہیں جن میں کھلم کھلااہانت اسلام و عقائد کا مکروہ دھندا کیا جا رہا ہے تاہم یہ عناصرچومکھی لڑائی کے بجائے سماجی، سیاسی اور جمہوری باتیں نہیں کرتے۔ یہ سیانے شرپسند مقدس ریاستی ستونوں یا سیاسی و سماجی کشمکش سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے صرف اور صرف اسلام کشی پر مامورہیں اور کسی بھی ریاستی عدم توازن کی بحث سے دور ہیں۔ ہمارے خفیہ ادارے ان گروپس،صفحات اورشیطنت صفت شخصیات کے خلاف کب اور کیسے اقدام لیں گے؟
مختصر یہ کہ اگرہمارے محب وطن حساس اداروں نے صرف ایک اداکار شاعرپر ہی غصہ نہیں اتارا بلکہ اس سے جڑے مذکورہ تمام اہم اداروں اور شخصیات کو شامل تفتیش کر رکھا ہے تو حکم حاکم مرگ مفاجات۔۔ لیکن اگر سنگ و خشت مقید اور سگ آزاد ہیں تو پھر نہتے بنجارے سے ڈرنے والوں سے بزبان نجم الاصغر شاہیا یہی کہا جا سکتا ہے:
زندگی سے ڈرتے ہو ؟
زندگی کلیسا کی
راہبہ نہیں کوئی
جا نماز پر بیٹھی
زاہدہ نہیں کوئی
زندگی ہے اک چنچل
بے حجاب رقاصہ
ہاتھ تھام کے جس کا
رقص گاہِ عالم میں
ناچتا ہے ہر انساں
تم بھی اس حسینہ کو
بازووں کے گھیرے میں
لے کے بے قراری سے
رقص کیوں نہیں کرتے؟
نرتکی سے ڈرتے ہو ؟
مذہبی جنونی کی
دشمنی سے ڈرتے ہو
وہ مصوری ہو
یا شاعری و موسیقی
ہر لطیف فن کو یہ
کم نظر فتاویٰ گر
کافری سمجھتا ہے
تم عجب سپاہی ہو
رائفل کی نالی سے
تم کو ڈر نہیں لگتا
بانسری سے ڈرتے ہو
جس سے وہ ڈراتا ہے
تم اسی سے ڈرتے ہو
زندگی بدن کا رقص
دھڑکنوں کا سازینہ
ساز سے تمہیں نفرت ؟
رقص سے تمہیں نفرت ؟
شعر سے تمہیں نفرت ؟
حسن سے تمہیں نفرت ؟
خوف، نفرتوں کی جڑ
یار! تم اگر اتنا ہی
زندگی سے ڈرتے ہو
مر کیوں نہیں جاتے ؟
خود کشی سے ڈرتے ہو؟