(قاسم یعقوب)
انجم سلیمی کی کتاب’’ایک قدیم خیال کی نگرانی میں‘‘نثری نظموں کا مجموعہ ہے۔پچھلی کچھ دہائیوں سے نثری نظم نے اُردو میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے۔عروضی آزاد نظم نے جہاں جہاں جذبوں کے خوبصورت خیالات کو داخلی کیفیت سے خارجی منتقلی میں رکاوٹ محسوس کی وہاں وہاں وہ نثری نظم کے حق میں اپنا فیصلہ سناتی رہی۔چناں چہ ایک عرصے کی گفتگو کے بعد ہم اس بحث کی تکرار سے نجات حاصل کرتے جا رہے ہیں کہ اظہار کے پھیلاؤ میں اصناف یا ہےئت کے مقابلے میں تخلیقیت کو ترجیح دینی چاہیے۔انجم سلیمی ہمہ جہت فن کار ہے۔وہ بیک وقت شاعری اور تھیٹر سے منسلک ہے۔۔۔انجم نے شاعری میں ایک عرصے تک اُردو غزل کی تخلیقی آبیاری میں حصہ لیا۔چناں چہ ذات کی تہہ در تہہ گرہ کشائیاں انجم کو اظہار کے ایک نئے ذائقے تک لے آئی ہیں۔اُردو شعری حلقوں کے لیے یہ واقعہ نہایت اہم ہے کہ انجم جیسا نہایت اہم اور رجحان ساز غزل گو نثری نظم سے توانا انداز سے مخاطب ہُوا ہے۔
انجم سلیمی کی نثری نظم، نثری نظم کے روایتی حصار میں مقید نہیں اور نہ ہی اس نظم کا تخلیقی رشتہ نثری نظم کی تاریخی روایت سے ملتا ہے۔ بلکہ انجم کی نثری نظم حیران کن حد تک آزاد نظم کا اگلا پڑاؤاور مخفی طور پر اس سے گہرے رشتے میں منسلک اظہارِ ذات ہے۔ اس سلسلے میں وہ مجید امجد قبیلے کے بہت قریب ہے۔یہ نظم اپنی روایت سے انحراف بھی کرتی ہے اور ساتھ ساتھ روایت کا احیاء بھی کرتی ہے۔یعنی ایک قدم پیچھے تو دو قدم آگے۔۔۔انجم سلیمی کی نظم کا سب سے بڑا سوال’وجود‘ کا ہے۔یہ سوال اصل میں پوری انسان دوست فکر کو درپیش ہے۔’وجود‘ کے دائرے میں گھرے ہوئے وہ صرف سوال کرتا ہے اور خاموشی پا کر’تنہائی‘کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے:
شہر صداؤں سے خالی ہو گیا ہے
وہ خارج سے سوال اُٹھاتا ہے اس کے وجدان کا کیمیائی عمل اُس کو تخلیقی چاک پر لے آتا ہے جہاں وہ خود باہر نکل کر وہاں بننے والے دائروں کو اپنی انگلیوں سے نشان زَد کرتا ہے اور معنی اور معنیاتی کائنات کا کھوج لگاتا ملتا ہے۔انجم سلیمی صوفی کا سوانگ بھر کے بیٹھا ہے جو اپنے وجود کے حلقے میں اخبار کی طرح ہے مگر سوالوں کے سوا کسی سے کچھ نہیں کہتا۔کیا شاعری کے سوال صرف سوال ہوتے ہیں؟کیا یہ سوال صرف ذات کے خمیر سے وابستہ ہوتے ہیں؟کیا اِن کا کوئی معروضی اثبات نہیں ہو سکتا؟ایسے بہت سے سوالات ہمیں انجم سلیمی کی نظم کا مطالعہ کرتے ہوئے ملیں گے۔اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ انجم کی نظم سوال کے کھوج میں ایک جواب بھی مہیا کرتی ہے۔گویا اُس کا وجدان اُس کے سوالوں میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔اپنی ذات کی گھتیوں کی مشکلات کا اظہار اصل میں حقیقت کی طرف سفر کا واقعہ بھی ہے۔مجھے تو ایسے لگا ہے کہ انجم نے صرف سوالات اُٹھائے ہیں بے حس ہوتے وجود کے،بے دَم ہوتی محبت کے،خدا جیسی تنہائی کے،وجدان میں گرتے پانی کی آواز کے،نامکمل اور مکمل کے درمیان مسافت کے۔۔۔!!ان سوالوں میں ایک جوابات بھی پنہاں ہیں جو ہمیں مغموم نہیں سرشار کر دیتے ہیں۔انجم سلیمی کے نظام فن کو سمجھنے کا واحد اور آسان طریقہ یہی ہے کہ اُس کے سوالوں میں جواب تلاش کئے جائیں اور جہاں جہاں وہ وضاحت مانگتاہے وہاں وہاں سوالات تراشے جائیں۔وہ اصل میں انسان ورثے کی حفاظت پر مامور ہے۔اس کے پاس ایک خبر ہے جو بہت قدیم ہے۔جو مصلحوں،مبلغوں،پیغمبروں اور شاعروں کے اذہان سے سفر کر کے اُس تک پہنچی ہے۔اُس نے اسے درباروں،خانقاہوں اور درسگاہوں سے چُرایا ہے۔وہ اس خبر کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔’’ایک قدیم خیال کی نگرانی میں‘‘ وہ صوفی مسلک کے قریب چلا گیا ہے۔
انجم کی نظم خیال کی قوت کے تخلیقی زور سے اپنا وجود بناتی ہے۔انجم نے خیال (متخیلہ)اور زبان دونوں سے مل کر ایک ’انحراف‘پیدا کیا ہے۔ناتشفی و نا آسودگی نے انحراف کا روپ دھار کے نظم کے اندر اپنا سیاق (Co-Text) خود تیار کیا ہے۔ایسی نظمیں Post-Modern روایت کو آگے بڑھاتی ہیں جو کلیشے زدہ زبان کی نفی کرتے ہوئے اپنا surface خود تیار کرتی ہیں۔انجم کی زبان حیران کن حد تک مختلف اور ذات سے پھوٹتی اُس بیل کی تازگی ہے جو اپنے منظر نامے کی تشکیل و تعمیر میں مصروف ہے جس کی مثال کے لیے اُس کی فکر اور اُسلوب کا مطالعہ پیش کیا جا سکتا ہے۔بڑا وژن بڑی شاعری اور مختلف شعری زبان کا متقاضی ہوتا ہے۔انجم نے زبان کے ’بے ہودہ‘ توڑ پھوڑ کی بجائے اپنے قضیے کے وجدانی مراقبے سے رجوع کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس کا لہجہ غار میں بیٹھے شخص کی حالتِ جذب لگتاہے۔ اُس نے زبان کے ’پیرول‘ کی خوشہ چینی کی بجائے’لانگ‘ کے امکانی بحر میں غوطہ زَنی کی ہے۔چند ایک لائنیں دیکھیے:
میں نے ساحل کو مچھلی کو آنکھ سے دیکھا
۔۔۔
زخمی دانتوں کے ساتھ مجھ سے ہنسا نہیں جاتا
۔۔۔
اپنے الزام مجھ میں پھینکو،میں تمھارا ویسٹ بِن ہوں
۔۔۔
خواہشوں کی رسیوں پر ٹنگی ہوئی عریانی
۔۔۔
گندی گالیاں اور میلے بوٹوں کی بھاری ایڑیاں
۔۔۔
زندگی نے ہمارے خصیوں سے کینچے بنا لیے
ایسی مثالوں کا ڈھیر دینے کی بجائے ان نظموں کا مطالعہ کیجیے۔انجم کے ہاں تنہائی کا حساس بھی بہت گہرا ہے یہ تنہائی اصل میں ہمزادگی کی ناپیدا کرانی کا دکھ ہے۔اسے اپنے جیسا کوئی بھی میسر نہیں۔اسے تو اپنا آپ بھی اپنے جیسا نہیں ملا۔وہ خود کو بھی کوئے ملامت میں رکھنا چاہتا ہے۔اُس کے ہدف پر ’میں‘ بھی ہے۔جس سے وہ بھیانک تیرگی میں لڑتا آ رہا ہے۔ایک مہیب تنہائی اُس کی تاریخ اور ایک لازوال اکیلا پن اُس کا مستقبل ہے۔نظم’تنہائی کا سفر نامہ‘ کی کچھ لائنیں سنیے:
شام ہوتے ہی گھر مجھ سے چھوٹا پڑ جاتا ہے
میں رستوں کی بد دعا پر نکلا ہوں
جہاں آنکھوں کو چہرے کمانے کی فرصت نہیں
لگتا ہے تنہائی مجھ سے اُوب گئی ہے
۔۔۔
میں زمین پر گرا ہُوا چاند ہوں
قدموں سے پہلے دیوار مجھے پھلانگ رہی ہے
منڈیر پر دھرا چراغ مجھ سے زیادہ روشن ہے!
۔۔۔
خاموشی کے خالی بدن میں
کوئی دُھن مجھے گنگناتی رہتی ہے
اُداسی اور کہاں رہے!!
کاش خدا مجھے دیکھ رہا ہو!
انجم کی نظم ،غزل یا غزلیہ فضا کے حصار کو توڑ کر خالصتاً نظمیہ رنگ کی چلّہ کشی ہے۔یہ بہت کم شاعروں کو نصیب ہوتا ہے کہ وہ نظم کی’’امکانی وسعت‘‘ اور غزل کے ’’امدادی کشف‘‘ کاا دراک کر نے کے بعد ایک دوسرے کے دریا میں تیراکی کا فن جانتے ہوں۔