قومی سلامتی، وسیع تر ملکی مفاد، مورال، وقار، سازش، دشمن کے ایجنٹ، غدار، ملکی ترقی کے دشمن، اغیار کے ہاتھوں میں کھیلنے والے، توہین کے پرنالے، وغیرہ : یہ چند ایک لفظ ہیں جو دنیا کے ہر گوشے میں مقتدر حلقوں، اداروں، اور نام نہاد حکومتوں کے پسندیدہ ہتھیار کے طور استعمال میں رہتے ہیں۔ رہتے بھی آئے ہیں۔ بھلے یہ امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک ہو، یا افریقہ و مشرق وسطٰی کا کوئی تیل کے ڈالروں سے نچڑتا ہوا ریگزار، یا یہ برصغیر کا کوئی نو آبادیت کے چنگل سے آزاد ہو کر نئی اشرافیہ کی سفاک جنبش ابرو کے انتظار میں مرتی امیدوں والی نظریں ٹکائے ملک کا کوئی باشندہ!
جی، مکرر کہہ لیتے ہیں کہ یہ چند ایک لفظ ہتھیار ہیں۔ وجہ یہ کہ ان کا استعمال کرنے والے عام طور پر اپنی کرسی، وردی اور جھنڈے کی بڑی، بلند تر، بر تر اور گونجدار آواز والے ڈھول، اخباری اعلامیے، بیان، ٹویٹ، آبزرویشن کے ذریعے کرتے ہیں۔ سرکاری درسی کتابوں سے تیار شدہ، مطابقت زادی تعلیم کے حامل اوسط فہم رکھنے والے عوام پر طاقتوروں کی آواز، حکم پروردگار کا سا گمان لے کر آتی ہے۔ ماضی سے حال تک بس ذرا ذرا سا ہی تو رنگ بدلا ہے، آہنگ میں وہ جھلکیاں ہیں۔
تھوڑا دم لیجئے، ابھی ہمسائے ملک، بھارت چلتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ یہ خیال کافی خوشنما ہے، اور آج کے بین الاقوامی بازاروں اور منڈیوں کے ساہوکاروں میں بھی خوب بکتا ہے۔ لبرل جمہوریت بھلے جس قدر بھی، تھوڑی زیادہ یا کم، نیک پروین ہو، پر اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تعمیر کی کچھ بنیادی اور ضروری ذیلیات بھی ہیں: بہت ساری اہم ذیلیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں ہر رائے دہندہ مساوی فرض کیا جائے گا؛ کوئی بھی، جارج آرویل کے مطابق، کسی دوسرے کی نسبت زیادہ زیادہ برابر نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ مقتدرہ (authority)، عوام، اس کے نمائندوں اور معاشرے کے ہر طبقے کے سوال کے سامنے قابل احتساب اور جوابدہ ہوگی۔ لیکن یہی چیز ہے، یہی وہ سوال ہے جس پر کل کے شہنشاہ برانگیختہ ہوجاتے تھے، اور آج کے حب الوطنی اور قوم پرستی کے وارثان! اس ماہ نومبر کی دو تاریخ کو انگریزی زبان کے معروف بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے زیر اہتمام رامناتھ گوئنکا ایوارڈز برائے ایکسیلینس ان جرنلزم کی تقریب کے دوران بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے وہاں موجود صحافیوں کو تربیت فراہم کرنے کی کوشش کردی کہ اچھی صحافت کیا ہوتی ہے۔
مودی صاحب کی تقریر حسب عادت پیس پیس کر نکلے لفظوں کی شبھ ہندی میں تھی۔ لیکن ان کے چنیدہ لفظوں میں، انہی لفظوں کی تکرار و گونج تھی جن کی ایک نمائندہ فہرست سے ہم نے ان سطروں کا آغاز کیا تھا۔ یعنی چہرہ، مقام، سیاق، زبان، کھال بدل گئی لیکن لفظ نا بدلے: طاقت اور مقتدرہ لفظوں کے انتخاب میں بھی کسی قدر کند ذہنی کے عارضے میں مبتلا ہے! حیف ہے۔ کچھ لوگوں کو سوال تھا کہ مودی جیسے وزیراعظم کو جن کا اخبارات اور صحافیوں سے رویہ ایسا نا رہا تھا کہ انہیں ان تقسیم انعامات جیسی تقریبات میں بلانا ٹھیک تھا؛ لیکن بعض دوسروں کا خیال تھا کہ وہ جزیروں میں کیسے رہ سکتے ہیں، انہیں مقتدرہ کےنمائندوں سے میل جول تو بہرطور رکھنا ضروری ہے۔ رد عمل بھی آیا۔
ایک اہم ردعمل اکشے مکل نام کے مصنف و صحافی کی جانب سے مودی صاحب سے انعام وصول کرنے کی صورت آیا۔ خیر اپنے طور پر یہ ردعمل اہم تھا، لیکن جو تخلیقی اور تعمیری ردعمل انڈین ایکسپریس کے موجودہ مدیر راج کمال جہا کی طرف سے آیا وہ پوری ایوارڈ کی تقریب کی جان تھا۔ اس تقریر کے مرکزی نکات کو آپ زیریں ویڈیو سے خود سماعت کرسکتے ہیں۔
اس ویڈیو میں آپ طاقت کے نمائندہ کی بے چینی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بے چینی اگلے ہی دن اس میڈیا گروپ کے ہندی زبان میں چلنے والے NDTV چینل پر پابندی کی صورت میں باہر نکلی۔ اس سلسلے میں مروجہ ضابطوں کو بھی بالائے طاق رکھا گیا کہ جن میں کسی چینل سے کسی قسم کی شکایت کو ریگولیٹری ادارے News Broadcasting Standards Authority (NBSA)
کے پاس بھیجنا ضروری تھا۔ پس ایک بار پھر ثابت ہوا کہ سب سے بڑی جمہوریت بھی عجب ہاتھی ہے کہ کس کس طرح کے مختلف رنگوں کے دانت رکھے ہوئے ہیں۔ کھاو کسی سے، دکھاو کسی اور کو!
جمہوریتیں، ملک اور ریاستیں عوام کی ہوتی ہیں، عوام کے لئے ہوتی ہیں۔ کسی بھی ریاست کے خدمت گار کو عوام کی امانت کے طور دیئے گئے اختیارات کے لبادے کو خدائی لباس قرار دینے اور خداوند جیسا بن جانے کی اجازت نا ہوتی ہے اور نا دی جا سکتی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم کو عوام کی آواز کے قائم مقام، یا ان کو با خبر رکھنے والے سب کے سب صحافیوں کو اس نام نہاد صحافت (جسے انڈین ایکسپریس کے مدیر، جناب راج کمال جہا نے درست طور پر ‘سیلفی جرنلزم’ کہا ہے) کے فریم میں کھینچ کر لانے کی کوششوں سے رکنا ہوگا۔ کچھ کو تو ملکی جھنڈے لپیٹنے کے ناٹک کئے بغیر بھی ملک کا مخلص اور وطن پرست مان لینے کی تھوڑی گنجائش نکالنی چاہئے۔