(نجیبہ عارف)
تنقیدی تھیوری کے مابعد جدیدقضیوں میں تانیثیت نے اردو ادب کی فضا میں خاص نوع کی مقبولیت حاصل کر لی ہے اور جامعات میں دھڑا دھڑ نسائی شعور کی تلاش میں مقالے لکھے جار ہے ہیں۔ مردو خواتین لکھنے والوں کی تحریروں کا تجزیہ کرنے اور اس میں نسائی شعور کی کھوج لگانے کا چلن عام ہو چکا ہے۔ خاص طور پر خواتین مقالہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد اس موضوع میں گہری دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی جامعات کے شعبہ ہاے اردو میں طالب علموں کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ نسائی شعور کے مسئلے سے ان کی دلچسپی کے محرکات و عوامل بالکل واضح ہیں۔ یہ موضوع ان کی اپنی ذات اور اس سے جڑے ہوئے کئی شخصی اور معاشرتی مسائل سے وابستہ ہے اور انھیں اپنے تشخص کے تعین اور اپنے معاشرتی وقار میں اضافے یا کم از کم اس کے اثبات کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ بعض اوقات تو ایک نوع کے کتھارسس کا فریضہ بھی سرانجام دیتا ہے۔ علمی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ایک نیا میدان ہے جہاں قدم جمانے اور اپنی شناخت حاصل کرنے کے مواقع نسبتاً زیادہ ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران میں کھلنے والی نئی جامعات اور پی ایچ ڈی کے مواقع کی بہتات کے نتیجے میں اچانک موضوعات کا کال پڑتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اردو کے شعبوں میں پی ایچ ڈی کےمحققین کا ایک پسندیدہ موضوع، کسی ادبی شخصیت کے احوال و آثار رہا ہے لیکن جدید طریقۂ تحقیق اور تھیوری کے اطلاق کے رواج نے اس موضوع کی قدر وقیمت خاصی مشکوک بنا دی ہے۔ یہاں تک کہ اس نوعیت کے نہایت عمدہ مقالات بھی تضحیک و تمسخر کا نشانہ بننے سے نہیں بچ پاتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر محقق اس تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے کہ کوئی نیا موضوع ہاتھ آئے جس پر وہ دادِ تحقیق دے سکے اور اپنا سکہ بھی جما سکے۔ یہ بھی تانیثیت اور اس کے ذیل میں نسائی شعور کے قضیے کے مقبول عام موضوع بن جانے کا ایک سبب ہے۔ یوں خواتین کے ساتھ ساتھ کئی مرد محققین بھی جرات مندانہ اندا ز میں تانیثیت کے کسی نہ کسی پہلو پر تحقیق کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
بالعموم ان تحقیقی و تنقیدی مقالات اور تحریروں میں جو تانیثیت یا نسائی شعور کو مد نظر رکھ کر پیش کی جاتی ہیں، زیرِ بحث متون کے ان اجزا کو دریافت کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی طور معاشرے میں عورت کی حیثیت کے تعین سے متعلق ہوتے ہیں۔ یہ متون زیادہ تر فکشن پر مشتمل ہوتے ہیں، یا پھر شاعری ، خاص کر نظم کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ چناں چہ محققین پہلے تو کسی مصنف کے کل تحریری سرمائے میں سے وہ ٹکڑے چن لیتے ہیں جن کا تعلق، واضح طور پر یا کھینچ کھانچ کر ،عورت کی سماجی حیثیت یا جذباتی، بالخصوص جنسی کیفیات سے ہوتا ہے اور پھر اس بیانیے کی جرأت اظہار ، احتجاجی لب ولہجے اور تلخی یا بغاوت کے آہنگ کی بنا پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس میں نسائی شعور موجود ہے یا نہیں۔ان تمام مباحث میں نسائی شعور کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے لیکن کثرت استعمال کے باوجود اس اصطلاح کے واضح معنی کا تعین کرنے کی کوشش کم ہی کی گئی ہے۔ جہاں یہ کو شش نظر آتی ہے وہاں بھی عموماً مغربی مصنفین کے حوالوں سے کام چلانے کا انداز غالب رہاہے اور تحقیق کے مروجہ طریق کار کے مطابق حوالوں اور اقتباسات کی کثرت میں کوئی نتیجہ خیز بات تلاش کرنا گھاس کے ڈھیر میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف قرار پاتا ہے۔
زیر نظر گزارشات میں نسائی شعور کے اس پہیے کو از سر نو ایجاد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس امر کے دوران شعوری پر یہ التزام روا رکھا گیا ہے کہ اس قضیے کو خود اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں، اور اپنے ہی سماجی و معاشرتی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اپنی کم علمی کا ادراک و اعتراف کرنے کے باوجود، مغربی و مشرقی ماہرین کے حوالوں سے گریز کیا جائے ۔ اس جرات رندانہ کا مقصد مغرب میں نمو پانے والی علمی تحاریک سے بے اعتنائی برتنا نہیں بلکہ مغرب کی علمی و سماجی تحریکوں کی اہمیت کو پوری طرح تسلیم کرنے کے بعد، اس حقیقت کی بازیافت ہے کہ ہمارے معاشرے پر مغرب کی متفرق تحریکوں، بالخصوص تانیثیت جیسی تحریکوں کے پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے ادوار کے تناظر میں ابھرنے والے نظریات کا اطلاق ممکن نہیں ہے۔ یہاں ہمارے معاشرے سے مراد پاکستانی معاشرہ ہے جس نے گزشتہ ساٹھ پینسٹھ برس کے دوران ایک مقامی سماجی ماحول تشکیل دیا ہے جو اپنی نہاد میں نہ صرف مغربی معاشروں سے مختلف ہے بلکہ دیگر مسلمان معاشروں سے بھی الگ اپنی پہچان رکھتا ہے۔ اس پاکستانی معاشرے کی حرکیات بھی دیگر معاشروں سے خاصی مختلف رہی ہیں لیکن یہ فی الحال ہمارا موضوع نہیں ہے۔ یہاں صرف اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا مقصود ہے کہ پاکستانی معاشرے کی حرکیات کی سمت جو اور جیسی بھی رہی ہو، تانیثیت یا نسائی شعور کے حوالے سے یہاں ایک سے زائد مکاتبِ فکر موجود ہیں۔ اس مختصر سے مقالے میں نسائی شعور کے حوالے سے پیدا ہونے والے چند ایسے سوال پیش کیے جاتے ہیں جن پر ہوسکتا ہے مغرب میں اس سے بہت پہلے بات کی چکی ہو، لیکن پاکستانی معاشرے کے تناظر سے پوری طرح ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث ہمارے لیے خاطر خواہ طور پر تسلی بخش نہ ہو۔
یہ بحث اس بنیادی سوال پر قائم ہوتی ہے کہ نسائی شعور آخر ہے کیا؟ اس کی واضح تعریف اوردائرۂ کار کیا ہے؟اس کی حدود و قیود کیا ہیں اور اس کےمضمرات و امکانات کیا ہیں؟ کیانسائی شعور سے مراد یہ ہے کہ عورت خود اپنے آپ کو کس نظر سےدیکھتی ہے؟ یا یہ کہ عورت دوسری عورت کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟ یا یہ کہ مرد عورت کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟یا پھر یہ کہ تاریخ ، سماج اور ثقافت میں عورت کو کیسے دیکھا،سمجھا یاپیش کیا جاتا ہے۔میں نے اس سب سوالوں پر غور کیا اور ان سے متعلق دستیاب مواد کا بھی حسبِ توفیق کچھ نہ کچھ مطالعہ کیا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ میری ذہنی تشفی نہیں ہو سکی۔اس بے اطمینانی کی کئی وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ان تمام سوالات کا تعلق ایک ایسے غیر کی تشکیل سے ہے جس کے بالمقابل رہ کر عورت خود اپنے آپ کا یا دوسرے اس کی ذات کااثبات کر سکتے ہیں۔ اپنے وجود کے اثبات کے لیے کسی غیر کی تشکیل کا عمل تصوف سے لے کر فلسفے تک یکساں طور پر مقبول اور قابل عمل رہا ہے۔ افلاطون کے مکالمے ہوں یا ہیگل کا تھیسس اور اینٹی تھیسس، طور ِ سینا کی لن ترانی ہو یا لا اور الّا اللہ کی یک جائی۔ اجماعِ ضدین کے ذریعے ہی شناخت کا عمل مکمل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے عورت کا نسائی شعور بھی مرد کے نسائی شعور یا مرد کے مردانہ شعور کے بالمقابل رکھ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب ہم کسی مقابل وجود کے حوالے سے اپنی ذات کا تعین کرتے ہیں تو گویا اپنے لیے پہلے ہی ایک حد بندی،ایک دائرے، ایک محدودیت کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ ہم صرف انھی خصوصیات کو اجاگر کرتے ہیں جو اس مجادلے میں سامنے والے وجود کے حوالے سے ضروری سمجھتے ہیں۔ خواہ معاملہ مساوی مقام حاصل کرنے کا ہو یا فضیلت کا دعویٰ کرنے کا، دونوں صورتوں میں بنیادی حوالہ وہی رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بے شمار امکانات کے پر خود ہی کاٹ بیٹھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب نسائی شعور کی تعریف کرتے ہوئے مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ نسائی شعور کا تعلق دراصل میری مخصوص جسمانی ساخت اور حیاتیاتی حقائق کے ادراک اور اظہار سے ہے اور صرف وہی ادب یا تحریر نسائی شعور سے مملو سمجھی جائے گی جس میں کسی نہ کسی طور میرے جسمانی یا حیاتیاتی وظائف کا اظہار ہوگا تو میرے اندر کہیں بڑا سخت احتجاج اور بڑی زہریلی بغاوت پیدا ہوتی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مرد ہو یا عورت، انسان اپنی ذات کے اندر گہرا اترنے کا شوقین ہوتا ہے اور جب کبھی اسے ایسا موقع یا تجربہ حاصل ہو تو وہ سماجی شعور اور تشکیلات سے بالاتر ہو جاتا ہے اور خود کو ایک وسیع تر کونیاتی تناظر میں محسوس کرتا ہے۔( تاہم یہ بھی سچ ہے کہ ایسے تجربے کی نوعیت انتہائی نجی اور تجریدی ہوتی ہے اور اسے بعینہ دوسروں تک پہنچانا دشوار ہوتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک بنی نوع انسان کے پاس اظہار کے لیے سب سے مفید ذریعہ زبان ہے لیکن زبان خود سماجیاتی رشتوں اور مظاہر کی دنیا سے حاصل شدہ مشاہدات وتجربات کی پابند ہوتی ہے۔ اس لسانی جبر کے باوجود ہم اس تجربے کی سچائی اور گہرائی کو جھٹلا نہیں سکتے۔) سوال یہ ہے کہ اس تجربے کے دوران کیا وہ مرد یا عورت اپنی صنفی یا جنسی حیثیت سے بالاتر نہیں ہو جاتے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مرد اور عورت دونوں اپنی ذات کی گہرائی میں خود کو محض مرد یا عورت نہیں بلکہ اس سے کچھ زیادہ سمجھتے ہیں؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر مرد اور عورت دونوں کے شعورِ ذات کا معاملہ محض سماجی تشکیل نہیں رہتا بلکہ اس میں کچھ دیگر عوامل بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ جب تک ان دیگر عوامل پر بات نہ کی جائے، شعورِ ذات کا معاملہ پوری طرح نمٹایا نہیں جا سکتا۔
نسائی شعور کے بارے میں میری بے اطمینانی کی دوسری وجہ یہی ہے کہ اس تصور پر اصرار کے ذریعے مجھے بحیثیت انسان ، اپنی تخفیف کا عمل دکھائی دیتا ہے۔ اس عنوان کے تحت میری ذات کو زیر مطالعہ لاکر گویا میری مکمل ذات کے عرفان و ادراک کی بجائے اس کے ایک یا چند ایک اجزا کو ہی میری پہچان بنا دیا جاتا ہے اور میری مکمل ذات کے کئی منطقوں کو ، جو خود میری بقا اور ارتقا کے لیے نہایت اہم ہیں، نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ان چند اجزا کا تعلق بھی میرے اپنے شعور ذات سے کم اور دوسروں یعنی سماج کے میرے بارے میں قائم شدہ تصور سے زیادہ ہے۔ بحیثیت عورت مجھے سماج کے تشکیل کردہ تصور کی محدودیت سے اختلاف ہے اور میں اس وسعت اور عمق کا اثبات چاہتی ہوں جسے میں خود اپنی ذات میں محسوس کر سکتی ہوں اور جس کا تعلق کسی طور بھی میرے جسمانی وجود یا وظائف سے نہیں۔ نسائی شعور کے حوالے سے میرا اصل مسئلہ یہی ہے کہ میں اپنی ذات کے حوالے سے، جویقیناً میرے سماجی سیاق و سباق سے جڑی ہوئی ہے لیکن اس تک محدود نہیں ہے، اپنےشعور ِذات کی شناخت کا عمل مکمل کرنا چاہتی ہوں۔ نسائی شعور کی معنویت اور اس کے امکان و نتائج کا شعور حاصل کرنے کے لیے مجھے کسی تانیثی مفکر کے اقوال سے زیادہ خود اپنی ذہنی اور فکری گواہی کی تلاش ہے۔
تاہم یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اکیسویں صدی کے دوسری دہائی کے عین نصف میں یہ گزارشات پیش کر تے ہوئے، اگر میں نسائی شعور کے مسئلے کو اپنی ذات سے پھوٹتا ہوا اور جڑا ہوامحسوس کر رہی ہوں تو یہ کوئی سادہ اور اکہرا عمل نہیں ہے۔ جس طرح ما بعد جدید تھیوری کے مطابق متن محض مصنف کی تخلیق نہیں ہوتا بلکہ ایک پوری ثقافت کی تشکیل ہوتا ہے اسی طرح میرا یہ گزارشات پیش کرنا بھی محض میرا ذاتی کارنامہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کم ازکم ایک بلکہ سچ پوچھیں تو ڈیڑھ صدی کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد فکری اور عملی دونوں سطحوں پر کی گئی ۔ نسائی شعور کا اعلان اور نعرہ اسی جدوجہد کا آلۂ کار رہا ہے اور اس ڈیڑھ صدی کی جدوجہد کا ثمر یہ ہے کہ ایک لکھنے والی کی حیثیت سے اور کسی حد تک تنقید سے سروکار رکھتے ہوئے، اسی مرد مرکز معاشرے میں رہتے ہوئے، سماج کے ایک نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجودمجھے اپنی ذات کے تعین کے لیے کسی مرد، مردانہ سماج یا مقتدر طبقے کو حوالہ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں مرد کی ذات کی نفی کرنا چاہتی ہوں یا اس کی ذاتی و سماجی اہمیت سے انکار کر رہی ہوں یا اس کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا چاہتی ہوں۔ ایسا ہر گز نہیں لیکن اس کے باوجود مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ ایک لکھنے والی عورت کی حیثیت سے ، میرا مخاطَب مرد نہیں ہے۔مجھے اس بات سے بھی دلچسپی نہیں کہ مرد یا مردانہ سماج کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کروں کہ وہ میری بات سنے، اسے سمجھے یا اس کو اہمیت دے، اس کے بارے میں مضمون لکھے یا اسے فکر و ادب کے مرکزی دھارے کا حصہ ثابت کرے۔
یہ خیال کرنا بھی درست نہ ہوگا کہ میں صرف عورتوں کے لیے لکھتی ہوں۔ صرف عورت بھی میری مخاطَب نہیں ہے۔ میں ایک انسان کی حیثیت سے کلام کرتی ہوں اور بحیثیت انسان میرے اندر مرد اور عورت دونوں موجود ہیں۔اسی لیے میرا مخاطَب بھی انسان ہے۔ ایسا انسان جو مرد کے روپ میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے اور عورت کے روپ میں بھی۔ انسان ایک افقی لکیر کا نام ہے جس کے ایک سرے پر مردانہ اوصاف ہیں تو دوسرے سرے پر نسائی اوصاف۔ دنیا میں خالص مرد اور خالص عورت شاید ہی وجود رکھتے ہوں۔ ہم میں سے بیشتر اس لکیر کے وسط میں کچھ قدرے دائیں اور کچھ قدرے بائیں ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ کبھی کبھی خاص مواقع پر ہم اپنی اپنی جگہیں تبدیل بھی کر لیتے ہیں؛ مثلاً کچھ مرحلے ایسے بھی آتے ہیں جب نازک مزاج عورتیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے بڑے سے بڑے خطرے سے ٹکرا جاتی ہیں یا دلیر اور قوی مرد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں۔ ہم سب اپنے باطن میں مردانہ اور نسائی دونوں طرح کی صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنے باطن میں جھانکنے کے قائل نہیں ہیں اور بنے بنائے کُلیوں اور فارمولوں کے مطابق اپنی اپنی شناخت کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔
انسان کے علاوہ میرا مخاطَب عالمِ فطرت ہے۔ یہ کل کائنات ہے۔ یہ چاند سورج،ستارے، پھول، تتلیاں اور جگنو ہیں۔ میں اس عالم کے ہر مظہر ، حتیٰ کہ اس کے خالق ، خدا سے بھی براہ راست ہم کلام ہو سکتی ہوں اور اس بات کی گواہی مجھے خود اپنے تجربے اور شعور سے ملتی ہے۔ اس لیے کہ میں جو کہنا چاہوں، کہ سکتی ہوں، خواہ وہ کوئی جنسی تجربہ ہو یا روحانی مہم جوئی۔ مجھے اپنی تصدیق کے لیے کسی زنانہ، مردانہ یا سماجی گواہی کی ضرورت نہیں۔ مجھے خود کو کسی غیر سے منوانے کی کوئی آرزو نہیں۔بنیادی بات یہ ہے کہ میرا ہونا خودمیرے لیے بامعنی رہے ۔سماجی قبولیت کا مسئلہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
میں مرد اور عورت کی ایسی مساوات کی قائل نہیں جس کی رو سے ہر کام جو مرد کرتا ہے، عورت بھی کر کے دکھانا چاہتی ہے۔ اگرچہ میں یہ جانتی ہوں کہ ہر کام جو مرد کرتا ہے، عورت بھی اگر چاہے تو کر سکتی ہے۔ لیکن ایک کام عورت ایسا کرتی ہے جو مرد چاہے بھی تو نہیں کر سکتا۔ مرد ماں نہیں بن سکتا لیکن یہ کوئی کسبی اعزا ز نہیں ہے اور عورت کو اس پر ناز کرنے کی ضرو رت نہیں ۔ یہ اس کے حیاتیاتی نظام کا حصہ ہے جو اسے عطا ہوا ہے۔ بحیثیت عورت مجھے اس حیاتیاتی نظام پر فخر کرنے کی ضرورت ہے نہ اس پر شرمندہ ہونے کا کوئی جواز ہے۔ اس حیاتیاتی نظام کے حوالے سے عورت کاجو جذباتی اور نفسیاتی سیلف متعین ہوتا ہےوہ بھی میرے لیے باعث شرمندگی نہیں۔میں کبھی مرد نہیں بننا چاہتی اور نہ ان صفات کو، جو خالصتاً مردانہ کہلاتی ہیں، رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک کے سوا کوئی صفت مجھے طبقۂ رجال میں طبقۂ نسواں سے زیادہ نظر نہیں آتی، اور وہ ایک صفت محض جسمانی طاقت ہے جس کے بل پر مرد خود کو فعال اور عورت کو انفعالیت کا گناہ گار گردانتا ہے۔لیکن اگر جسمانی طاقت ہی فضلیت کا باعث ہوتی تو ہم ہاتھی اور گینڈے کو اشرف الرجال قرار دے سکتے تھے۔ رہی بات فعالیت کی تو اس کے میدان مختلف ہیں۔ سڑک پر گاڑی بھگانے ، بلاوجہ ریس لگانے، چھت سے کودنے یا بات بات پر تلوار، چاقو یا پستول نکالنے والے معاملات میں اگرمرد زیادہ فعال ہے تو عورت کی فعالیت کے میدان اور ہیں جو اس کی شخصی اور سماجی حیثیت کے مطابق تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں۔
مرد کی برتری کا دوسرا سبب یہ بتا یا جاتا ہے کہ استدلال اور معروضیت مردانہ صفات ہیں جب کہ جذباتیت اور داخلیت نسائی اوصاف ہیں۔ اول تو اس بات کو سمجھنے کے لیے ذہن پر زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہیں کہ مرد اور عورت میں یہ فرق ان کے صدیوں سے طے شدہ سماجی کردار کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور انفرادی سطح پر اس سے انحراف کی ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے روزمرہ زندگی میں آتی رہتی ہیں۔ کوئی بھی متوسط درجے کی ذہانت رکھنے والا شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ہر مرد بلا تفریق ہر عورت سے زیادہ منطقی اور معقول فکر کا حامل ہو سکتا ہے۔ یا یہ کہ مردوں کی اکثریت زیادہ عقلی، استدلالی اور معروضی ہوتی ہے۔اگر ایسا ہوتا تو کیا ہمارے ارد گرد کی دنیا میں تشدد، بہیمیت، اذیت دہی، جنگ اور ہوسِ اقتدار کی ایسی حکم رانی ہو تی؟ بعض سادہ دل حضرات تو جواباً یہ بھی کہہ گزرتے ہیں کہ اس میں بھی عورت ہی کا قصور ہے کیوں کہ اکثر مناقشوں کی جڑ میں عورت کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ یہ کہتے ہوئے وہ بھول ہی جاتے ہیں کہ عقل و استدلال اور معروضیت کا تنہا دعوے دار بھی تو مرد ہی ہے، اپنی انھی خصوصیات کو بروے کار لاکر کیوں اب تک عورت کے چنگل سے نہیں نکل پایا۔ لیکن مجھے تو اس سارے قضیے پر ہی اختلاف ہے۔ فرض کیجیے یہ مان ہی لیا جائے کہ مرد زیادہ منطقی ، معقول اور معروضی سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور عورت جذبات کی پٹاری ہے تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ منطق اور استدلال کی صلاحیت جذبے پر فائق ہے۔ سائنس اور فلسفے کے بغیر تو پھر بھی دنیا قائم رہ سکتی ہے لیکن ذرا ایک لمحے کے لیے ایسی زندگی کا تصور تو کیجیے جو جذبے سے خالی ہو۔
اس ساری بحث سے قطع نظر، یہ بات خاصی سامنے کی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ عقل و استدلال اور جذبات دونوں مرد اور عورت دونوں کو مختلف مدارج میں ودیعت ہوتے ہیں اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔کسی حقیقت کو از سر نو دریافت کرنے کے لیے صرف بنے بنائے فارمولوں اور کلیشے جملوں کے سحر کو توڑنا ضروری ہوتاہے۔ (کبھی کبھی تو اس کے لیے سات لال مرچیں ہی چولہے میں ڈالنا کافی ہوتا ہے۔)
تفنن برطرف، میری سمجھ میں تو ایک ہی بات آتی ہے کہ اب جب ہم نئی صدی میں، بحیثیت بنی نوع انسان ، ارتقا کے اگلے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں تو ہمارے ذہنی ارتقا کی اگلی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ ہم مرد اور عورت رہتے ہوئے، خود کو اس مجادلے کی کیفیت سے باہر نکالیں اور ایک دوسرے کو اس کی ذات کے حوالے سے پہچاننے کی کوشش کریں۔اگر عقل وخرد کی اجارہ داری کا دعوی مرد کا ہے تو یہ فریضہ بھی اسی کا ہے کہ خندۂ استہزا اور نرگسیت کے خمار سے باہر آ کر خود کو مردانگی کی محدودیت سے نکالے اور اپنے وجود اور ماحول دونوں میں موجود نسائی اوصاف کو تلاش کر کے ان کا اثبات کرے ۔ لیکن اگران کے اس مرحلے تک پہنچنے میں ابھی دیر ہے تو مجھے یہ پہل کرنے میں کوئی تامل نہیں۔آئیے خود کو انسان سمجھنا شروع کریں۔ مرد یا عورت ہونا مرتبۂ انسانیت کی تخفیف ہے، تجلیل نہیں۔ یہ ہماری انسانی شخصیت کا جزوی تعارف ہے، مکمل نہیں۔ اسے اپنی شناخت کا عنوان بنانے کے بجائے اس کا جزو سمجھ کر قبول کرنا زیادہ سمجھ داری کی بات ہو گی۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کی ضد نہیں، ایک دوسرے کا جزو ہیں۔ ایک مکمل انسانی ذات کے اجزا کے درمیان معرکہ آرائی نہیں ہوتی یا کم از کم نہیں ہونی چاہیے۔
رہی بات اس نسائی شعور کی جو عورت کی مرد سے مختلف یا اس کے برعکس صفات کو اجاگر کرنے یا ان کا ثبات کرنے پر اکساتا ہے تو وہ ایک ثقافتی تشکیل ہے،سماج کی پیداوار ہے، ارتقا کے گزشتہ مراحل کا ماجرا ہے۔نسائی شعور کا تعلق عورت کی ذات کی دریافت یا پہچان سے نہیں، کسی سماج کی خارجی حقیقتوں کی شناخت سے ہے۔ زمانی اور مکانی حقائق کے ساتھ ساتھ نسائی شعور کے خال و خد بھی بدل جاتے ہیں۔ لہٰذا نسائی شعور میری ذات کا علم نہیں، میرے سماج کی ذہنی سطح اور ارتقائی مرحلے کا علم ہے۔
بعض احباب کا کہنا ہے کہ نسائی شعور کی بجائے انسانی شعور کی اصطلاح استعمال کرنا اپنے تلخ سماجی حقائق سے آنکھیں چرا لینے کے مترادف ہو گا کیوں کہ عورت صدیوں سے مرد کے استحصال کا شکار ہوتی آئی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں عورت کی زباں بندی کی گئی اور اسے مرد سے ، بلکہ انسان سے بھی کم تر درجے پر فائز سمجھا جاتا رہا۔ ایسے میں اسے انسان ہونے کا درس دینے کی بجائے پہلے اس کی نسائی حیثیت کو بحال کرنا ضروری ہے اور انسانی شعور سے پہلے اسے نسائی شعور سے روشناس کرایا جانا چاہیے تاکہ عورت اپنی معاشرتی حیثیت میں مرد کی طرح یا اس کے برابر وقار اور شرف حاصل کر سکے۔
مجھے اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ عورت کی سماجی حیثیت میں بہتری پیدا کرنے والے تمام اقدامات نہ صرف اہم اور ضروری ہیں بلکہ قابل صد احترام بھی ہیں۔ لیکن اس ضمن میں دو باتیں عرض کرنا چاہتی ہوں۔ پہلی یہ کہ سماج سدھار تحریکوں کے تحت نسائی شعور پر ضرورتحقیق کی جانے چاہیے اورعورت کے اندر خود اپنی نسائی حیثیت کی شناخت اور اثبات کا جذبہ بھی پیدا کیا جانا چاہیے لیکن یہ کام عملی اورسماجی نوعیت کا ہے۔ فکری و فلسفیانہ سطح پر خود کو، عورت کو اور پورے سماج کو اس بات کا یقین دلانا کہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے عورت کو اپنا مقابلہ مرد سے کرنا ہو گا، انصاف نہیں۔ عورت کے لیے مردانہ حیثیت کو منزل یا معیار مقرر کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔ عورت اور مرد دونوں اپنی نہاد میں ایک ہی مخلوق ہیں۔ جنس کا فرق ان کی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتا۔ بحیثت فرد ان کی عظمت کا تعلق ان کے انسانی شعور سے ہے، مردانہ یا نسائی شعور سے نہیں۔ یہ درست ہے کہ اس منزل تک پہنچنے میں بنی نوع انسان کو بالعموم اور ہمارے معاشرے کو بالخصوص ابھی بہت وقت لگے گا لیکن کم از کم ہمارے پاس خواب تو بڑا ہونا چاہیے۔ خواب دیکھنے والے سے یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ پہلے خواب پورا کرنے کے امکان پیدا ہوجائیں، حالات ساز گار ہو جائیں، پھر کوئی خواب دیکھا جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عورت کے بارے میں معاشرتی رویوں کا تعین کرتے ہوئے یا ان میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے کی خواہش کے تحت، جس مطالعے کی اشد ضرورت ہے اس کا موضوع عورت کا نسائی شعور نہیں بلکہ مرد کا مردانہ شعور ہے۔غور کرنے کی بات یہ نہیں کہ عورت خود کو کیا سمجھتی اور کیسا دیکھتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مرد خود کو کیا سمجھتا اور کیسا دیکھتا ہے۔ درحقیقت ہم نے اس امر کو سرے سے نظر انداز کر رکھا ہے کہ مرد، جو کم و بیش مسلمہ طور پر تاریخ ، ادب اور فلسفےکے بیانیے کا مرکزی کردار رہا ہے، خود اپنے بارے میں بنیادی نوعیت کی خوف ناک غلط فہمیوں کا شکار ہے۔ ہمیں نئے سرے سے یہ دیکھنا ہو گا کہ مرد نے اپنی فضیلت کے جو معیار مقرر کر رکھے ہیں اور جن پر پورا اترنے کے لیے عورت اپنی مرضی سے یا مرد کی ترغیب میں آکر بے تاب و بے قرار ہے ، کیا واقعی بنی نوع انسان کے ارتقا میں ممد و معاون ہیں یا اس میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر آج بھی مرد اپنی مردانگی کا تعین اپنی جنسی قوت کے حوالے سے کرتا ہے۔وہ اس قوت کی نمائش، اس کے استعمال اور اس کے بارے میں لاف زنی کو اپنی برتری کا اظہار سمجھتا ہے۔ دنیا کی تمام زبانوں میں مردانہ بیانیے اس حقیقت کے شاہد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر علمی و فکری ترقی کے باوجودعورت کو اپنے جنسی وظیفے میں استعمال ہونے والی ایک شے سے زیادہ کی حیثیت دینے کو تیار نہیں۔ اسی کی دیکھا دیکھی یا اس کی باتوں سے متاثر ہو کر عورت بھی بعض اوقات یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ اگر اسے معاشرے میں خود مختارانہ حیثیت حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے اسے بھی اپنی جنسیت کو ہر قید سے آزاد کرنا ہوگا۔ اس طرح در حقیقت وہ مرد ہی کا آلۂ کار بن بیٹھتی ہے اور اپنی آزادی کے حقیقی احساس سے اور بھی دور چلی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جنسیت کا مسئلہ آج بھی اس قدر حساس ہے کہ ایک طرف تو اس پر سنجیدہ بات کرنا بھی بے شرمی اور بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے اور دوسری طرف اس کی حدود و قیود کا تعین کرنا انسانی آزادی کے منافی اور رجعت پسندی کا حامل عمل سمجھا جاتا ہے۔ جنسیت کو چند حدود و قیود کا پابند کرنا تہذیب کا ثمر ہے اور اسے ہر قید سے آزاد کر دینا انسانی سماج میں انتشار کا باعث بنتا ہے لیکن ان حدود و قیود کے ذریعے کسی ایک طبقے کا استحصال کرنا بھی اتنا ہی مضر اورمنفی عمل ہے۔شاید کسی متوازن معاشرے کی ذہنی ترقی کا سب سے اہم اشاریہ یہی ہو سکتا ہے کہ جنسیت کے بارے میں اس کا طرزِ فکر و عمل کیا ہے۔ خلائی سٹیشن قائم کرنے اور مریخ سے معدنیات نکال لانے سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انسان باہم مل جل کر رہنے کے لیے ایسا سماج تشکیل دے جس کے ہر جزو کو اپنی تکمیل و تجلیل کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور مساوات کا مطلب یکسانی نہیں ہوتا ۔
نو دسمبر ۲۰۱۵ کوآٹھویں عالمی اردو کانفرنس کراچی میں پڑھا گیا۔