(وقاص احمد)
چند روز قبل ذیشان دانشخواہ صاحب گھر تشریف لاۓ۔موصوف راقم سے عمر میں کافی چھوٹے ہیں۔ اکیسویں سال کے ابتدائی ایام ہیں، یعنی سادہ حساب میں teen age کو خیرباد کہے پورے تین سو سال، معذرت کچھ حساب کتاب میں پھسل گیا، تین سال ہوچکے ہیں۔ اکثر فیس بک پر کافی متحرک پائے جاتے ہیں۔ جا بہ جا فیس بکی دانش داریوں میں لائکس کا تبرک بانٹتے نظر آتے ہیں۔ ہر حالت حاظرہ اور تناظرہ پر اپنی سٹیٹس کو، یعنی سٹیٹس اپڈیٹ کرتے ہیں۔ کبھی کبھار قوم و ملت کے عظیم معماروں کی وال سے استفادہ کے دوران ان کی تعریف و توضیح میں بھی مصروف عمل دکھائی پڑتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً کوئی اچھوتا جملہ یا اچٹتی ہوئی تحریر اپنی وال پر چسپاں بھی کر لیتے ہیں۔ خیال آیا کہ جان سکوں کہ دانش بازی ان چراگاہوں سے کتنا مال سمیٹ چکے ہیں۔ چناچہ گفتگو میں ان کے ساتھ شریک ہو گیا۔
ہم: کیوں بھی، کیا چل رہا ہے آج کل فیس بک پر؟
ذیشان دانشخواہ: بس بھائی، سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ آپ کو پتا ہے بھائی، مکالمہ ہمارے معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ اور ہمیں اس حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ایک متبادل بیانیہ کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ملکی مسائل کے حوالے سے ایک بالکل نئی سوچ کا تقاضا روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔
ہم: اچھا دوست، تو ہمیں بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع دیں؟کچھ سکھائیں،کیا نظریات و افکار آپ پر وا ہوۓ اور کیا نیا سمجھا؟
ذیشان دانشخواہ: دیکھیں بھائی، پہلی بات یہ ہے کہ اقبال کا فلسفہ خام ہے۔ ان کے قول و افعال میں تضاد نمایاں ہے۔ ان کی شاعری آفاقی ہے، کوئی انکار اس بات کا نہیں۔ مگر ان کی ڈگری جعلی ہے، لیکن ہم اقبال کو چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ وہ ہمارے ملک کے نظریے کی بنیاد ہے۔
ہم: اچھا.ہمارے ملک کا نظریہ کیا ہے؟
ذیشان دانشخواہ: وہی دو قومی نظریہ، مگر اس نظریے میں بھی سقم ہیں۔ قوم تو وطن سے بنتی ہے۔ آج کل قومی جمہوری دور ہے۔ اس لئے ہمیں نواز شریف کو سپورٹ کرنا چاہئے۔ جمہوریت کا تسلسل بہت ضروری ہے۔ ارتقائی مراحل طے کر کے ہی قومیں ترقی کرتی ہیں۔ جیسے یورپ نے تین سو سال تک ارتقا کیا۔ تو ہمیں بھی ایسی ہی جمہوری تسلسل پر گزارا کرنا ہو گا۔
ہم: مگر یورپ نے تو ان تین سو سالوں میں دو سو سال آدھی دنیا کو غلام بنا کے لوٹے رکھا اور جمہوریت کا بچہ جمورا بھی نہیں انے دیا ان ممالک میں؟
ذیشان دانشخواہ: یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ ہمارا استحصال کر کے ان لوگوں نے ترقی کی ،ہمیں غلام بنایا۔ آج بھی امریکا ہماری خارجہ پالیسی پہ قابض ہے۔ جو کروا رہا ہے۔ امریکا کروا رہا ہے۔ ہمیں اس کرپٹ نظام کو بدلنا ہو گا۔ ورنہ داستان تک نا ہو گی ہماری داستانوں میں۔ انقلاب آج کی دور کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہمیں انقلاب کی تیاری کرنی چاہیے۔
ہم: (تھوڑا گھورتے ہوۓ) ابھی جمہوری تسلسل کی بات کر رہے تھے ؟اب انقلاب کی چڑیا اڑا ڈی تم نے؟
ذیشان دانشخواہ: (کچھ دیر سوچتے ہوئے) بھائی جان ،انقلاب ذہنوں میں آتے ہیں۔ جیسے جیسے شعور پھیلے گا۔ ذہن بدلیں گے، جمہوریت بڑھے گی، بڑھتی جاۓ گی۔ اچھے لوگ سامنے اتے جائیں گے تو برے لوگ اس سسٹم سے فلٹر ہو جائیں گے۔
ہم: اور شعور کیسے پھیلے گا؟فیس بک کے ذریعے؟
ذیشان دانشخواہ: جی ہاں، تعلیم بھی دینی ہو گی۔ نئے تعلیمی ادارے بنانے ہوں گے۔ نصاب کی تبدیلی بہت ضروری ہے۔ اور مذہب بھی فرسودہ ہو چکا ہے۔ ہمیں آگے کی طرف دیکھنا ہو گا۔ ریاستی امور سے مذہب کو نکالنا ہو گا۔ پھر مسائل حل ہوں گے۔
ہم: اگر ریاستی امور سے مذہب کو نکال دیں اور ریاست کو سیکولر بنا دیں تو بجلی ،پانی اور غربت کے مسائل ختم ہو جائیں گے؟
ذیشان دانشخواہ: جی ہاں
ہم: وہ کیسے ؟
ذیشان دانشخواہ: پھر مذہب کے نام پہ کوئی تفریق نہیں ہو گی نا۔
ہم: تو کیا پاکستان میں ساری تقسیم مذہب کی بنیاد پہ ہے؟اگر ایسی بات ہے تو اسی فیصد مسلمان آبادی بھوکی کیوں ہے؟
ذیشان دانشخواہ: (خاموش ہو جاتا ہے)
ہم: اچھا ایک بات بتاؤ، پاکستان کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟
ذیشان دانشخواہ: اس بارے میں بہت ساری آراء ہیں۔ کوئی کہتا ہے قدامت پسندی مسئلہ ہے۔ کوئی کہتا ہے مسئلے کی تفہیم مسئلہ ہے۔ کوئی مذہبی جنونیت کو مسئلہ سمجھتا ہے۔ کوئی علمی فقدان کو، اور کوئی نئی نسل کی تربیت کو موردالزام ٹھہراتا ہے۔ کوئی امریکا کو مسائل کی جڑ کہتا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا۔
ہم: اچھا،تمہارا کیا خیال ہے اس بارے میں؟
ذیشان دانشخواہ: میرا کیا خیال ہونا ہے۔ فی الوقت تو قرآن کے الفاظ قطی الدلالہ ہیں کہ نہیں۔ اس پر زبردست لے دے ہو رہی ہے. فیس بک پر، س سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔