(ناصر عباس نیر)
نوآبادیاتی صورتِ حال، فطری اور منطقی صورتِ حال نہیں ہے۔ یہ ازخود کسی قابل فہم فطری قانون کے تحت رونما نہیں ہوتی ۔ہر چند اس کی رونمائی تاریخ کے ایک خاص لمحے میں ہوتی ہے، مگر تاریخ کا یہ لمحہ کسی الہامی حکم یا فطری طاقتوں کے اپنے قوانین کی ’’پیداوار‘‘ نہیں ہوتا۔ اسے ’’پیدا‘‘ کیا جاتا اور تشکیل دیا جاتا ہے۔ چوں کہ ’’پیدا‘‘ کیا جاتا ہے، اس لیے مخصوص مقاصد کے حصول کو سامنے رکھا جاتا ہے، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ انسانوں کے مخصوص گروہ کے ہاتھوں مخصوص مقاصد کی خاطر برپا ہونے والی صورتِ حال ہے۔ اس گروہ کو نوآبادکار نام دیا گیا ہے۔ نوآبادکار بعض تاریخی قوتوں کو اپنے اختیار میں لا کر ایک نئی ’’تاریخی صورتِ حال‘‘ کی تشکیل کرنے میں کام یاب ہوتا ہے، جو اس کے سیاسی اور معاشی مفادات کی کفیل ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم تک نوآبادکار یورپی (برطانیہ اور فرانس بالخصوص) تھے۔ بعد میں نوآبادکاری پر امریکا نے اجارہ داری قائم کرلی، مگر بانداز دگر! اس نے براہ راست نوآبادیات بنانے کے بجائے بالواسطہ طریقے سے نوآبادیاتی صورتِ حال کو پیدا کرنے اور اپنے قابو میں رکھنے کی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔
نوآبادیاتی صورتِ حال کی ’’منطق‘‘ ثنویت سے عبارت ہے۔ یہ دو دنیاؤں کو تشکیل دیتی ہے۔ ایک نوآبادکار کی دنیا اور دوسری نوآبادیاتی یا مقامی باشندوں کی دنیا۔ دونوں دنیائیں ایک دوسری کی ضد ہوتی ہیں۔ فرانز فینن کا کہنا ہے کہ یہ ضد کسی بڑی اکائی کو پیدا کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ یہ دونوں ارسطالیسی منطق کے تحت ایک دوسرے کو خارج کرنے کے اصول پر قایم رہتی ہیں۔ (افتادگان خاک، ص ۳۴) یہ تو بجا کہ نوآبادکار کی دنیا، مقامی باشندوں کی دنیا کو خارج کرنے کے اصول پر قایم رہتی ہے۔ نوآبادکار اپنی شخصیت، اپنی ثقافت، اپنے علمی ورثے، اپنے سیاسی نظریات، اپنے فنون کے بارے میں جو آرا پھیلاتا ہے، وہ نوآبادیاتی دنیا کے افراد کی شخصیت، ثقافت، علم اور فنون کے متعلق موجود آرا کے متضاد اور انھیں بے دخل کرنے والی ہوتی ہیں، مگر یہ درست نہیں کہ مقامی باشندوں کی دنیا، نوآبادکار کی دنیا کے اوصاف کو خارج کرنے کا اصول قایم کرتی ہیں۔ اپنی متقابل دنیا کی اشیا اور تصورات کو خارج کرنے کے لیے اقتداری حیثیت کا مالک ہونا ضروری ہے، نوآبادیاتی دنیا اس سے بُری طرح محروم ہوتی ہے۔ اپنی محرومی کا ادراک، نوآبادیاتی دنیا دو صورتوں میں کرتی ہے: محرومی کے خاتمے کی صورت میں اور محرومی کے سبب کی صورت میں۔ پہلی صورت میں وہ نوآبادکار کی دنیا کو جذب کرنے کی کوشش کرتی ہے اور دوسری صورت میں وہ نوآبادکار کو اپنی محرومی کا سبب سمجھتی اور اس کے خلاف بغاوت کا تصور کرتی اور شاذو نادرمظاہرہ کرتی اور اپنی بازیافت پر مایل ہوتی ہے۔ مگر سب صورتوں میں وہ نوآبادکار کی دنیا کے اخراج سے قاصر رہتی ہے۔
نوآبادیاتی دنیا کی دو میں تقسیم کا اختیار، نوآبادکار کے پاس ہوتا ہے۔ نوآبادکار محض اس تقسیم کے ذریعے اپنے اختیار کا مظاہرہ ہی نہیں کرتا، اس تقسیم کے نتیجے میں اپنے اختیار کو بڑھاتا بھی ہے۔ یہ تقسیم طبعی اور ذہنی، بہ یک وقت ہوتی ہے۔ نوآبادکار اپنی اقامت گاہوں، چھاؤنیوں، دفاتر کو مقامی باشندوں سے الگ رکھتا ہے، اور مقامیوں کو ان کے قریب پھٹکنے کی سختی سے ممانعت ہوتی ہے۔ ’’کتوں اور ہندستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ کی تختی جگہ جگہ آویزاں ہوتی ہے۔ آرکی ٹیکچر کے شکوہ، حفاظی دستوں کی طاقت اور تعزیری قوانین کے ذریعے مقامی باشندوں کو دور رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں نوآبادکار اپنے طرز حیات اور طرز کار کے ذریعے بھی اپنے مختلف اور ممتاز ہونے کا تاثر برابر اُبھارتا رہتا ہے اور نوآبادیاتی باشندوں کو دور رکھتا ہے۔ یہ دو طرح کی تقسیم نوآبادکار کی طاقت کو مسلسل بڑھاتی ہے۔ اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس طاقت کا نشانہ نوآبادیاتی قوم ہوتی ہے۔ نوآبادکار کی طاقت جتنی بڑھتی ہے، مقامی لوگوں کی طاقت اسی تناسب سے گھٹتی ہے، بل کہ یہ کہنا درست ہوگا کہ نوآبادکار، نوآبادیاتی اقوام کی طاقت کو اپنی طاقت میں شامل کرتا رہتا ہے۔
نوآبادکار، نوآبادیاتی دنیا کو دو میں تقسیم ہی نہیں کرتا، نوآبادیاتی باشندوں کی دنیا کو تشکیل بھی کرتاہے۔ دوسرے لفظوں میں نوآبادیاتی باشندوں کی دنیا ان کی اپنی دنیا نہیں ہوتی، انھیں اپنی ’دنیا‘ پر کوئی تصرف اور اختیار نہیں ہوتا، نہ اس دنیا کے حقیقی، عملی معاملات پر اور نہ اس دنیا کے تصور اور اس کے نظام اقدار پر۔ وہ اپنی ہی دنیا میں اجنبی، اور اس سے ’باہر‘ ہوتے ہیں۔ غضب یہ ہے کہ نوآبادیاتی باشندے کو نوآبادکار جو تصور ذات دیتا ہے وہ اسے بالعموم قبول کرتا اور اس کے مطابق جینا شروع کر دیتا ہے اور نوآبادیاتی دنیا میں جو کردار اسے ادا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، وہ اسے عموماً تسلیم کر لیتا ہے۔ فرانز فینن، البرٹ میمی اور ایڈورڈ سعید تینوں اس امر پر متفق ہیں کہ نوآبادیاتی اقوام، نوآبادکار کے دیے گئے تصور ذات اور کردار کو تسلیم کر لیتی ہیں اور اس کی وجہ سے نوآبادیاتی نظام قایم رہتا ہے۔ چناں چہ یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ نوآبادیاتی نظام کی برقراری میں خود مقامی باشندوں کا انفعالی کردار معاونت کرتا ہے۔
نوآبادیاتی باشندوں کو ایک ایسا ’’تصور ذات‘‘ دیا جاتا ہے، جو نوآبادیاتی نظام کے قیام و استحکام میں مدد کرتا ہے۔ البرٹ میمی کے مطابق نوآبادکار مقامی باشندوں کی اساطیری تصویر بناتا ہے اور اس میں انھیں ناقابل یقین حد تک کاہل دکھایا جاتا ہے۔(۱) جب کہ فرانز فینن کا کہنا ہے کہ نوآبادیاتی باشندے کے لیے جو اصطلاحیں نوآبادکار استعمال کرتا ہے، وہ حیوانیات کی اصطلاحیں ہیں۔ (افتادگان خاک، ص ۳۸) کاہل یا حیوان کہنے کا مطلب مقامی باشندوں کو انسانی درجے سے گرانا ہے۔ نوآبادکار خود کو انسانی درجہ پر فائز قرار دیتا اور انسانی پیمانے کی مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ نوآبادیاتی اقوام کو کاہل اور حیوان باور کرا کے اوّلاً یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ انھیں ذہنی تحرک اور جست جو سے کوئی واسطہ نہیں، افکار و علوم کی تخلیق سے انھیں کوئی دل چسپی نہیں۔ یہاں نوآبادکار اپنے ذہنی تحرک، جست جو، اور اپنے علوم کوبہ طور نمونہ پیش کرتا ہے۔
نوآبادکار اپنے اقتدار کے مراکز، پولیس اور عدالت کے نظام کو جائز ثابت کرتا ہے کہ کاہلوں اور حیوانوں کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کا جابرانہ اور عدالت کا سفاکانہ نظام ناگزیر ہے۔ نوآبادیاتی باشندے بالعموم اپنے کاہل اور حیوان ہونے کا یقین کر لیتے ہیں۔ اس یقین کو پیدا کرنے کے لیے نوآبادکار کئی نفسیاتی حربے بروئے کار لاتاہے۔ اور سب سے بڑا حربہ اپنی مقتدر حیثیت کا مختلف طریقوں اور زاویوں سے مظاہرہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا نوآبادیاتی صورتِ حال میں انجذاب، بغاوت اور آفاقیت کی اصل روح تک رسائی کا امکان ہوتا ہے؟ کیا نوآبادیاتی باشندہ ایک حقیقی یورپی / مغربی فرد بن سکتا، اپنی اصل ثقافت کے مکمل احیا پر قادر ہو سکتا اور دو مختلف اور متبائن ثقافتی نظاموں کے امتزاج کو ممکن بنا سکتا ہے؟ جب تک نوآبادیاتی صورتِ حال برقرار رہتی ہے اور نوآبادیاتی باشندہ اس کے جبر میں ہوتا ہے، وہ مذکورہ سوال کا سامنا ہی نہیں کرتا، وہ نہیں سوچتا کہ کیا کامل انجذاب، مکمل بغاوت یا مثالی آفاقیت ممکن ہے یا نہیں۔ وہ تو صورتِ حال کے دستیاب مواقع میں سے کسی کو اختیار کر لیتا ہے۔ یہ سوال ہمیشہ مابعد نوآبادیاتی مطالعات میں اٹھایا جاتا ہے۔ فرانز فینن اور البرٹ میمی نے بالخصوص یہ سوال اٹھایا ہے اور ان کا موقف ہے کہ ان تینوں میں سے کوئی ایک بات بھی ممکن نہیں۔
نوآبادیاتی باشندہ نوآبادکار کو اپنے لیے جب ماڈل بناتا ہے تو خود اس جیسا بننے کی تگ و تاز کرتا ہے۔ اور اس تگ و تاز میں خود کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔
“The first ambition of the colonized is to become equal to that splendid model and to assemble him to the point of disappearing in him.”
(Albert Memmi, The Colonized and the Colonized, P 184)
نوآبادیاتی باشندہ، نوآبادکار کا اثبات اور اپنی نفی کرتا ہے۔ اثبات و نفی کے اس عمل سے گزرتے ہوئے وہ یہ غور نہیں کرتا کہ نہ تو کامل اثبات ممکن ہے نہ نفی۔ وہ نوآبادکار جیسا، اس لیے نہیں بن سکتا کہ وہ اپنی نوآبادیاتی حیثیت (جو اصل میں محکومیت، پس ماندگی، ذلت سے عبارت ہے) سے دست کش نہیں ہو سکتا۔ نوآبادیاتی صورتِ حال غلام کو آقا کا ہم پلہ بننے کا خواب دیکھنے کی اجازت تو دیتی ہے کہ اس خواب کے ذریعے ہی نوآبادکار کی ’’مقتدر و مثالی‘‘ حیثیت کا تسلط قایم رہتا ہے، مگر اس خواب کو پورا ہونے کی اجازت کبھی نہیں دیتی کہ اس طرح نوآبادکار اور نوآبادیاتی باشندے میں فرق مٹ جائے گا۔ یہ فرق نوآبادیاتی صورتِ حال کو قایم رکھنے کے لیے اشد ضروری ہے۔ نوآبادیاتی باشندہ انجذاب کے ذریعے نوآبادکار کا قرب حاصل کرنے اور نتیجتاً مراعات حاصل کرنے میں کام یاب ہوتا ہے مگر یہ مراعات بھی نوآبادکار کے اپنے ملک کے شہری کی مراعات کے برابر کبھی نہیں ہوتیں۔ ان مراعات کی قیمت ہوتی ہے، جو نوآبادیاتی باشندے کو لازماً ادا کرنا ہوتی ہے۔
انجذاب کے عمل میں نوآبادیاتی باشندہ، نوآبادکار کی زبان سیکھتا ہے اس کا لباس اختیار کرتا ہے، اس کے طرز بودوباش کی نقل کرتا ہے۔ نقل و تقلید میں وہ جتنا آگے جاتا ہے، اپنی تاریخ، ثقافت، اور اپنی اصل سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنی اصل سے دوری اسے طبعی اور نفسیاتی سطح پر ضرر پہنچاتی ہے،جسیوہ بہ خوشی قبول کرلیتا ہے۔وہ اس ضرر کو محسوس کرتا ہے،مگرنو آباد کار جیسا بننے کی خواہش کا زور اس کے احساس پر غالب آ جاتا ہے۔یہ ایک پے چیدہ نفسیاتی عمل ہوتا ہے۔نوآباد کار کی نقل سے ہر چند بعض مادی فواید وابستہ ہوتے ہیں،اور ایک حد تک ان فواید کا حصول نقل کا محرک ہوتا ہے،لیکن یہ واحد محرک نہیں ہوتا۔اگر ایسا ہوتا تو صرف وہی لوگ یا طبقے نو آباد کا کی نقل کرتے جنھیں مادی فایدے ملتے،مگر اس کا کیا کیا جاے کہ نو آباد کار کی ثقافت کا انجذاب وہ لوگ اور طبقات بھی کرتے ہیں جو نوآباد کار سے دور ہوتے اور کسی فایدے کی انھیں توقع ہوتی ہے نہ امکان ۔انھیں ایک نفسیاتی اطمینان ملتا ہے۔وہ نوآباد کار کی ثقافت کا تصور ایک ’’اعلا یافت ‘‘کے طور پر کرتے ہیں۔چوں کہ اعلا کا تصور تجریدی نہیں بل کہ ان کی اپنی ثقافت کے حقیر ہونے کے لازمی اور قوی احساس کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے،اس لیے حقیر کا ’’ترک‘‘ اوراعلاکا ’’قبول‘‘ انھیں ایک نفسیاتی آسودگی دیتا ہے۔چناں چہ ایک مقام آتا ہے کہ نو آباد کار کی نقل و تقلید ایک آدرش بن جاتی ہے۔
اس صورتِ حال کی عمدہ عکاسی ملک راج آنند کے ناول اچھوت میں کی گئی ہے۔ناول کا مرکزی کردار باکھا یوروپیوں جیسا بننے کی کوشش کرتا اور خود سے کوسوں دور ہوجاتا ہے۔باکھے کا تعلق بھنگیوں کے ’’نیچ‘‘ طبقے سے ہے۔وہ انگریزوں کی نقل کے عمل میں تمام ہندستانیوں کی نمایندگی کرتا ہے۔
’’جب وہ(باکھا)اپنے چچا کے ساتھ برٹش رجمنٹ کی بارکوں میں رہنے گیا تھا۔وہاں ٹھیرنے کے دوران اس نے ٹامیوں کی زندگی کی جھلکیاں دیکھی تھیں…اسے جلد ہی ایک شدید خواہش نے جکڑ لیا کہ وہ بھی ان ہی کی طرح زندگی بسر کرے گا ۔اسے بتایا گیا تھا کہ وہ صاحب لوگ تھے،یعنی زیادہ اعلا آدمی۔اسے محسوس ہوا کہ جو ان کی طرح کپڑے پہنے گا وہ بھی صاحب بن جاے گا،اس لیے اس نے ان کی ہر بات میں نقل کرنے کی کوشش کی …باکھا خود بھی یہ جانتا تھا کہ انگریزی کپڑوں کے سوا اس کی زندگی میں کوئی چیزانگریزی نہیں تھی،لیکن اس نے سختی سے اپنی نئی شکل کو برقرار رکھا اور وہ دن رات یہی کپڑے پہنے رہتا۔وہ ہندستانی پن کے ہر حقیر دھبے سے بچتا تھا،حتا کہ بھدی شکل کے ہندستانی لحاف کو بھی نہیں اوڑھتا تھا،حالاں کہ وہ رات کو ٹھنڈسے کانپتا رہتا تھا۔‘‘
(اچھوت،ص۱۳تا ۱۵)
نوآبادیاتی باشندہ، نوآبادکار کے خلاف بغاوت بھی کرتا ہے۔ یہ بغاوت براہ راست اور بالواسطہ صورتوں میں ہوتی ہے۔ جب یہ بغاوت اپنی محرومی کے سبب کے تجزیے کے نتیجے میں ہوتی ہے، مقامی، نوآبادکار کو اپنی حالت زار کا سبب سمجھتا اور اس کے خلاف بغاوت کرتا ہے تو یہ بغاوت براہ راست ہوتی ہے۔ بالواسطہ بغاوت اس طبقے کے خلاف ہوتی ہے، جو نوآبادکار کی ثقافت کے انجذاب کا قائل ہوتا ہے اور خود کو اس طرح، نوآبادکار کا حلیف بنا کر پیش کرتاہے۔ نوآبادکار ماڈل ہوتا ہے اور بغاوت کی صورت میں اینٹی تھیسس کا درجہ اختیار کر جاتا ہے۔ اصل میں بغاوت، انجذاب کا اینٹی تھیسس ہے۔ انجذاب کا اثبات، بغاوت کی نفی میں اور انجذاب کی نفی، بغاوت کے اثبات میں بدل جاتی ہے۔ بغاوت میں نوآبادکار کا انکار اور اپنا اثبات کیا جاتا ہے۔ اب اسی شدت سے اپنے ماضی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ بغاوت کے نتیجے میں علاقائیت اور قومی ثقافت کے احیا کی تحریکیں چلتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تمام نوآبادیاتی ممالک میں قومی ثقافتوں کی تحریکوں کا آغاز، نوآبادیاتی نظام کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں ہوا ہے۔ انجذاب میں استدلال سے زیادہ جذباتیت کارفرما ہوتی ہے، بغاوت میں بھی خالص استدلال سے زیادہ جذباتیت ہوتی ہے۔ قومی ثقافت سے جذباتی وابستگی کو اچانک دریافت کر لیا جاتا ہے۔ دو باتیں فراموش ہو جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ثقافت ایک متحرک عمل ہے۔ ماضی کے ایک خاص حصے کو مثالی سمجھ کر اسے اپنے لیے ایک نمونہ خیال کیا جاتا اور اس کے احیا کی کوشش ہونے لگتی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ تاریخ کا وہ سنہرا دور، جن تاریخی و سماجی حالات کی پیداوار تھا، وہ حالات اب نہیں رہے، اس لیے اس کا کامل احیا ممکن ہی نہیں۔ دوسری یہ بات کہ قومی ثقافت کے تصور میں علاقائی، ثقافتی افتراقات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ افریقہ میں نیگرو ثقافت کا تصور تشکیل دیا گیا جو ایک تجریدی تصور ہے، اور افریقہ کی مقامی ثقافتی روایات کے اختلافات کو نظرانداز کرتا ہے۔ اسی طرح ایشیا میں عرب ثقافت کو مثال بنا کر پیش کیا گیا، پان اسلام ازم کی تحریک چلائی گئی اور عرب ممالک کے جغرافیائی، علاقائی، ثقافتی اختلافات کو پس پشت ڈالا گیا۔
البرٹ میمی کا خیال ہے کہ نوآبادیاتی اقوام بغاوت کے عمل میں، فکر کی جو تیکنیک اور جنگ کا جو حربہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ نوآبادکار سے مستعار ہوتا ہے۔ (دی کولونازر اینڈ کولونایزڈ، ص ۱۹۵) شاید اس لیے کہ جبھی نوآبادکار، مقامی باشندوں کی تحریک کا مفہوم سمجھ سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں نوآبادیاتی باشندے اپنی بازیافت کے عمل میں دوہری صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہیں: وہ اپنی اصل سے بھی جڑنا چاہتے اور ایک بامعنی وجود بننا چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنے بامعنی وجود کا ادراک نوآبادکار کو بھی کروانا چاہتے ہیں۔ نوآبادیاتی باشندے کی یہ تگ و دو، دو وجوہ سے ناکام رہتی ہے۔ اوّل اس لیے کہ یہ تگ و دو ڈسکورس کا درجہ اختیار نہیں کر سکتی، نوآبادیاتی باشندہ اس سیاسی یا دانش ورانہ یا آئیڈیالوجیکل اقتدار کا حامل نہیں ہوتا، جو کسی بات کو حقیقت تسلیم کرانے کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے نوآبادکار مقامی باشندوں کی تحریک بازیافت کے مفہوم کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اپنی بازیافت کی کوششوں کے شعور میں تاریخ کے تحرک کے اصول کو پس پشت ڈالا جاتا ہے، ماضی کے ایک عہد کو مثالی تصور کر لیا جاتا اور دوسرے زمانوں اور خود اپنے زمانے کی زندہ سچائیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ احیا اور بازیافت کے جوش میں اپنے عہد کی اصل صورتِ حال سے صرفِ نظر کرنا، عقلی اصول بن جاتا ہے۔ چناں چہ نہ تو اپنے عصر کی صورتِ حال کی پوری تفہیم کی ہمہ گیر کوشش ہوتی ہے نہ اسے بدلنے کی کسی حکمت عملی کو وضع کرنے کا کوئی امکان ہوتا ہے۔
آفاقی نقطۂ نظر میں نوآبادکار اور نوآبادیاتی دنیاؤں کے اقداری فرق کو ختم کرنے کی کوشش ہوتی ہے، دونوں میں مماثلتیں دریافت کی جاتی ہیں اور انھیں یک جا کرنے کا عمل ہوتا ہے۔ یہ عمل عموماً دو صورتوں میں ہوتا ہے : ایک یہ کہ نو آباد کار کی ثقافت کو آفاقی خیال کیا جاتا اور اس کی تقلید کی جاتی ہے ۔ اس صورت میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ ’’آفاقی ثقافت‘‘تمام خطوں کے لیے ہے۔یہ بات نظر انداز کی جاتی ہے کہ جسے آفاقی خیال کیا جارہا ہے وہ اپنا مکانی اور زمانی تناطر رکھتی اور اسی تناظر میں بامعنی ہے۔کسی دوسرے تناظر میں وہ اجنبی یا محدود معنی کی حامل ہے۔ دوسری یہ کہ نو آباد کار اور مقامی ثقافتوں میں متعدد اشتراکات ہیں۔ان اشترا کات کی تلاش ساتھ تاریخی اور منطقی سطحوں پہ کی جانے لگتی ہے۔ اس تلاش کو عملی ضرورتوں کا جبر مہمیز کرتا ہے۔یہیں سے تاریخ کی نئی تعبیرات کا آ غاز ہوتا ہے۔اور ان تعبیری کوششوں کا بنیادی نکتہ دونوں ثقافتوں کے درمیان موجود فاصلوں اور فرق کو ختم کرنا ہوتا اور انھیں یک جا کرنا ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ سب کچھ نوآبادیاتی صورتِ حال میں ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے دونوں دنیاؤں کا اقداری فرق ختم کرنے کی کوشش کام یاب نہیں ہو سکتی۔ مشرق، مشرق رہتا ہے، اور مغرب، مغرب۔ دونوں کے امتزاج کی کوشش میں ایک کا برتر اور دوسرے کا فروتر ہونا لازم ہے لہٰذا جسے، آفاقی نقطہ نظرقرار دیا جاتا ہے، وہ دراصل محدود انجذاب ہے۔ مشرق کا مغرب کو خود میں جذب کرنا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ مظاہرہ ذولسانیت میں ہوتا ہے۔ ہر نوآبادیاتی صورتِ حال ذولسانیت کو جنم دیتی ہے۔ مگر دونوں زبانیں برابر رتبے کی نہیں ہوتیں، نوآبادکارکی زبان اسی کی مانند مہذب اور افضل ہوتی ہے، جب کہ نوآبادیاتی اقوام کی زبانیں، گنوار لوگوں کی زبانیں اور ناشائستہ ہوتی ہیں۔ زبان کا اقداری درجہ اس کے بولنے والوں کی نسبت سے متعین ہونے لگتا ہے بل کہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ زبان ایک آلہ اظہار کے بجاے ایک ’’علامتِ رتبہ ‘‘بن جاتی ہے۔دنیا کی کوئی زبان حقیقتاً کم تر ہوتی ہے نہ نا مکمل۔وہ اپنے بولنے والوں کی جملہ ابلاغی اور ترسیلی ضرورتوں کی تکمیل کررہی ہوتی ہے ،مگر نوآبادیاتی صورت حال میں زبان کا یہ تصور باقی نہیں رہتا ۔زبان اپنے بولنے والوں کے سیاسی اور ثقافتی مرتبے کی نسبت سے کم تر یا برتر سمجھی جانے لگتی ہے۔نوآبادیاتی اقوام، نوآبادکار کی زبان کو اپنے اندر جذب کرنے کی سعی کرتی ہیں، اور اپنی زبان کے لچک دار اور ترقی پسند ہونے کا دعوا کرتی ہیں، نیز نوآبادیاتی باشندہ بہ یک وقت دونوں زبانوں پر دسترس کا دعوا کرتا ہے مگر اپنے ذولسانی اقداری نظام میں نوآبادیاتی زبان کو وہی مرتبہ دیتا ہے، جس کا تعین نوآبادکار نے کیا ہے۔ نوآبادکار بھی مقامی زبانیں سیکھتا ہے، مگر وہ کبھی ان زبانوں کو وہ مرتبہ نہیں دیتا، جو اس نے اپنی زبان کو دے رکھا ہے۔
ان باتوں کی تائید سرسید کے زبان سے متعلق خیالات سے بھی ہوتی ہے۔ان میں آفا قیت کا مندرجہ صدر تصور کی دونوں صورتیں موجود ہیں۔
’’اگر ہم اپنی اصل ترقی چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک کو بھول جائیں …ہماری زبان یورپ کی اعلا زبانوں میں سے انگلش یا فرنچ ہو جاے۔‘‘
(مقالات سر سید،حصہ پانزدہم،ص۶۶)
’’…ہم روزمرہ کے کاموں میں بھی انگریزی کے محتاج ہیں۔ادنا درجے کے لوگوں کو ادنا درجے کیانگریزی کی ،اعلا درجے کے لوگوں کو اعلا درجے کی انگریزی کی محتاجی ہے،یہاں تک کہ ایک کنجڑیترکاری فروش یا ایک چمار جوتی والے کو بھی اس قدر انگریزی جاننا ضروری ہے کہ وہ یہ کَہ سکے کہ’’خوشی ہو ٹیک،خوشی نہ ہو تو نو ٹیک‘‘
(مقالات سر سید،حصہ ہشتم،ص۴۷)
انجذاب، بغاوت اور آفاقیت و امتزاج کے آزادانہ مفاہیم بھی ہیں جو نوآبادیاتی صورتِ حال میں ظاہر ہونے والے مفاہیم سے مختلف ہیں۔ نوآبادیاتی باشندے جب تک، نوآبادیاتی صورتِ حال کے زمروں میں مقید ہو کر یہ عمل انجام دیتے ہیں، وہ اسی طرح کے نتائج تک پہنچتے ہیں جن کا ذکر گزشتہ سطور میں ہوا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام میں کیا کوئی مقامی فرد یا گروہ آفاقیت کا آزادانہ مفہوم قائم کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا؟ کیا اس نظام کا جبر اتنا شدید، اتنا ہمہ گیر اور اتنا سرایت گیر ہوتا ہے کہ ایک خطے میں ایک عہد کی تمام انسانی روحیں نوآبادیاتی نظام کی صلیب پر لٹک جاتی ہیں؟ کوئی آزاد و فعال ذہن باقی نہیں رہتا؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی صورت میں نوآبادیاتی ممالک کی قومی اہانت وہ تصور اُبھرتا ہے، جو نوآبادکار کو ’عزیز‘ ہوتا ہے اور اس کے تاریخی بیانیوں میں کثرت سے ابھارا جاتا ہے تاکہ اُس کے ہر اقدام کا جواز مہیا ہو سکے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر نوآبادیاتی ملک میں کچھ افراد یا گروہ آزاد، ذہنی فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ نوآبادکار کی ثقافت کا براہ راست علم حاصل کرتے ہیں، مگر اپنی ثقافت سے بے گانگی کی قیمت پر نہیں۔ دونوں ثقافتوں سے راست اور گہرا ربط ضبط رکھنے کی وجہ سے وہ حقیقی آفاقی نقطہ نظر اختیار کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ نہ اپنی ثقافت کے سلسلے میں ماضی پرستی اور تعصب کا شکار ہوتے ہیں نہ نوآبادکار کی ثقافت سے مرعوب ہوتے ہیں، ان کا ذہنی رشتہ ثقافتوں کے فکری و عملی اور تخلیقی حاصلات سے قایم ہو جاتا ہے، چناں چہ وہ دونوں کی خوبیوں کے مداح اور دونوں کی کم زوریوں کے نکتہ چیں ہوتے ہیں، اور خوبیوں اور کم زوریوں کا تصور، وہ کسی ایک ثقافت سے نہیں، مجموعی انسانی ثقافت سے اخذ کرتے ہیں۔ نوآبادکار اپنی نوآبادیاتی ذہنیت کے مظاہرے کے لیے سیاسی و سماجی، معاشی، تعلیمی شعبوں کو منتخب کرتا ہے، ان میں اپنی آئیڈیالوجی کا بیج بوتا ہے۔ آفاقی نقطہ نظر ان شعبوں کے بجائے، مستقل اہمیت کے فکری و علمی منطقوں سے خود کو منسلک کرتا ہے۔ یہ نوآبادیاتی صورتِ حال سے فرار اور ذہنی خانقاہوں میں پناہ گزین ہونے کا عمل نہیں ہے، بل کہ نوآبادیاتی آئیڈیالوجی کا تابع مہمل بننے سے انکار اور حقیقی انسانی علم کی روایت سے وابستہ ہونے کا آزدانہ ذہنی عمل ہے۔