نوبل خطبہ ’’محمد یونس‘‘:دنیا سے نصف حد تک غربت کا خاتمہ

(یونس خان)

ادارہ ’’ایک روزن‘‘ کی طرف سے سنجیدہ مطالعات پیش کیے جا رہے ہیں، اسی سلسلے میں زیر نظر لیکچر پیش خدمت ہے۔ یونس خان ایک ماہر مترجم اور عالمی منظر نامے پہ گہری نظر رکھنے والے ادیب ہیں۔ انھوں نے محمد یونس کی معاشیات پہ تفصیلی لکھ رکھا ہے۔ ’’ایک روزن‘‘ کی درخواست پہ انھوں نے خصوصی طور پر یہ خطبہ ارسال کیا۔ جس کے لیے ادارہ اُن کا مشکور ہے۔
قارئین کی خدمت میں مکمل متن شائع کیا جا رہا ہے، اس خطبے کی اہمیت پاکستانی معاشیات کے لیے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
(مدیر: ’’ایک روزن‘‘)

——————————————–

(محمد یونس۲۰۰۶ کوء میں امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ ۲۰۰۳ء ؁ میں دولتِ مشترکہ نے محمد یونس کو خطاب کی دعوت دی ۔دولتِ اقوامِ مشترکہ ۵۳ ممالک پر مشتمل ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ اس میں شامل تمام ممالک ماسواء موزنبیق ؔ کے حکومتِ برطانیہ کہ محکوم رہے ہیں۔ دولتِ مشترکہ کی علامتی سربراہ برطانیہ کہ ملکہ الزبتھ ثانی ہے۔ دولتِ مشترکہ میں برطانیہ ، اسٹریلیا، کیناڈا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں جسکی کہ وہ براہ راست سربراہ ہیں۔ دولتِ مشترکہ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ اسکے رکن ممالک آپس میں معاشی تعاون کا ماحول بنائیں ۔ ۲۰۰۳ء کے دولتِ مشترکہ کے سالانہ اجلاس میں ۵۱ ممالک کے ۵۴ نمایندوں نے شرکت کی ۔ ان میں سے ۳۸ ممالک کے سربراہ مملکت یا حکومت بھی شامل تھے۔ پاکستان کو مارشل لاء کی وجہ سے اس اجلاس میں شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی۔یہاں خطاب کرتے ہوئے ماہر معیشت محمد یونس نے دنیا بھر سے غربت کے خاتمے کے لئے اکنامکس کے نئے پہلوؤں کو اپنانے کی مقصدیت کواجاگر کیا ۔ خطاب کا متن درج ذیل ہے۔)
(مترجم: یونس خان)
—————————————————————

خطاب
’’۲۰۰۱۵ء تک دنیا سے نصف حد تک غربت کا خاتمہ‘‘

 

’’ میرے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ دولتِ مشترکہ نے سال ۲۰۰۳ء ؁ کے خطاب کے لئے مجھے دعوت دی ہے ۔ میرے لئے یہ امتیاز کی بات ہے ۔ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تجربات ، اپنے جذبات ، اپنی محرومیاں اور یقیناًاپنے خیالات آپ کے ساتھ بانٹنا چاہوں گا۔ ( اگر یہ آپ کے لئے قابلِ فہم ہوں تو میں امید کرؤں گا کہ آپ اپنی حثیت میں اسکے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ اگر یہ آپ کے لئے ناقابلِ فہم ہوں تو پھر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے ۔ آپ تمام اس کے ماہر ہیں)۔
میرا چناؤ اس لئے کیا گیا ہے کہ میں ہزار سالہ مدت کی ترقی کی تمام منازل مقصود (goals )میں سب سے زیادہ جرأ ت مندانہ منزل پر بات کروں ؟ ۲۰۱۵ء ؁ تک غربت کو نصف کرنے کی منزل۔ میں نے اسے دو وجوہات کی بنا پر چُنا ہے ۔ اولاً اس لئے کہ اس منزل کو حاصل کرنا بہت بڑی ہمت کا کام ہے ،جسے انسانیت نے اپنے لئے چُنا ہے ۔ میں پچھلی دو دہائیوں سے غربت سے پاک دنیا کی تخلیق کی بات کر رہا ہوں ۔ میں اس لئے یہ بات نہیں کر رہا ہوں کہ دنیا کا غربت زدہ ہونا ناانصافی ہے بلکہ اس لئے کہ یہ یقیناًدرست ہے ۔ میں اس لئے یہ بات کر رہا ہوں کیونکہ میں یہ یقین حاصل کر چکا ہوں ،جسے میں نے غریب لوگوں کے ساتھ کام کر کے حاصل کیا ہے ،کہ غریب اپنے آپ کو غربت سے نکال سکتے ہیں اگر ہم انھیں یکساں مواقع مہیا کریں جیسا کہ ہم دوسروں کو مہیا کر رہے ہیں۔ غریب خود غربت سے پاک دنیا تخلیق کر سکتا ہے ؟ ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ ہم انھیں اُن زنجیروں سے آزاد کر دیں جو ہم نے انھیں پہنائی ہوئی ہیں ۔ ثانیاً اس لئے کہ میرے اندر یہ احساس تقویت پا رہا ہے کہ صرف چند لوگ سنجیدہ ہیں اپنی اس منزل کو حاصل کرنے کے لئے ، ۲۰۱۵ء ؁ تک غربت کو نصف کرنے کی منزل۔ وہ راہنما جنہوں نے دلیری سے یہ اعلان کیا ہے کو خوشی خوشی اپنی دیگر ذِمہ داریوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے کہ انہوں نے دنیا کے تخیل کومسخر کر لیا ہے ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں فیصلہ بہت ہی اوپر والی سطح پر کیا گیا ہے ۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ عملی کاروائیاں کی جائیں گی اور ایک بہت ہی مربوط اور طاقتور مشینری کا استعمال کیا جائے گا تا کہ اس کام کو مکمل کیا جا سکے۔ بدقسمتی سے ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ اب گیند صرف چندہ دینے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے پاس ہے جنہیں صرف مشاورت کے کاروبار کو فروغ دینے کی تربیت دی گئی ہے۔ جو کچھ ظاہر ہو رہا ہے وہ ۹۰ کی دہائی کی یاد دلا رہا ہے جب گلوبل گول اس شکل میں متعین کئے گئے تھے’’ تعلیم سب کی لئے ۲۰۰۰ء تک ‘‘، صحت سب کے لئے ۲۰۰۰ء تک ‘‘، ’’ کسی کے لئے کچھ بھی نہیں ۲۰۰۰ء تک ‘‘۔ میری پریشانی یہ ہے کہ ہزار سالہ مدت میں کئے جانے والے اس سب سے بڑے حو صلہ مند کام کی منازل کہیں بگڑ کر جدائی نہ حاصل کر لیں اور متن میں بر محل تبدیلیاں کرکے صرف ’’ سال ۲۰۰۰ء‘‘ کو ’’سال ۲۰۱۵ء‘‘ سے تبدیل کر کے پہلی اشاعت کے کام کو ہی اس پر چسپاں نہ کر دیا جائے ۔
اگر میری صدا بہت ذیادہ قنوطیانہ لگے توبرائے مہربانی مجھے معاف کر دیجئے گا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان تمام خراب علامتوں کے باوجود ،جو کہ مجھے نظر آتی ہیں، میں ایک مجبور رجائی رہوں گا ۔ میں امید کرتا رہوں گا کہ یہ علامتیں تبدیل ہو جائیں گی۔
میں ایک رجائی ہوں کیونکہ میں قائل ہوں کہ غربت اتنا مشکل موضوع نہیں ہے جیسا کہ ہمیں ماہرین انتباہ کر رہے ہیں۔ یہ خلائی سائنس کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک پیچیدہ مشین کے اُلجھے ہوئے ڈیزائن کی طرح ہے۔ یہ لوگوں کے متعلق ہے ۔میں اس امکان کی طرف نہیں دیکھتا کہ انسان ایک ’’ پرابلم ‘‘ بن رہا ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر مرد اور عورت اپنی فلاح چاہتا ہے ۔ غربت کے خاتمے کے تمام عناصر ایک گٹھڑی میں بندھے ہو ئے ہر انسان کے ساتھ آتے ہیں۔ جب اس دنیا میں ایک انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ مکمل طور پرلَیس ہوتا ہے نہ صرف یہ کہ وہ اپنا خیال رکھ سکے ( جیسا کہ تمام دوسری زندہ مخلوق بھی کرتی ہے ) بلکہ یہ کہ دنیا کی ایک اکائی کی حیثیت سے ، لوگوں کی فلاح میں وسعت دینے کے لئے، اُن کی مدد کر سکے ( جہاں انسان کا خاص کردار کام کرتا ہے )۔ تو پھر ایک ارب سے زائد لوگ اس دھرتی پر اپنی زندگی مفلسی میں کیوں گزار رہے ہیں اور اس بے قدری میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ خوارک کی تلاش میں کیوں صَرف کر رہے ہیں صِرف اپنی طبعی بقا کے لئے ؟ ہمیں کچھ وضاحتیں درکار ہیں۔ یہی وضاحتیں ہمارے ۲۰۱۵ء ؁ کے گول کو حاصل کرنے میں ہماری مدد کریں گی۔
غربت کو غریب لوگوں نے پیدا نہیں کیا
میں یہاں اسکی وضاحت کروں گا۔ غربت کو غریب لوگوں نے پیدا نہیں کیا۔ اس لئے ہمیں انکو قصوروار ٹھرائے جانے والی نظروں سے نہیں دیکھنا چاہے ۔ وہ تو ستم رسیدہ ہیں۔ غربت تو پیدا کی ہے اکنامک اور سوشل سسٹم نے جسے ہم نے دنیا کے لئے ڈیزائن کیا ہے ۔ یہ وہ ادارے ہیں جنہیں ہم نے تعمیر کیا ہے اور ان پر ہمیں بہت زیادہ فخر بھی ہے ۔ جنہوں نے غربت پیدا کی ہے ۔ یہ صرف وہ تصورات ہیں جنہیں ہم نے اپنے گرد پھیلے ہوئے حقائق کو سمجھنے کے لئے ترقی دی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم چیزوں کو غلطی سے دیکھتے ہیں ۔جو ہمیں گردشِ تقدیر کے ایک غلط راستے پر ڈال دیتے ہیں اور لوگوں کو انتہائی غربت میں ڈالنے کی وجہ بنتے ہیں ۔یہ ہماری پالیسیاں ہیں ، جن کی تصدیق ہمارے استدلال کرتے ہیں او ر ہمارے تصوراتی فریم ورک جن کی مدد سے ہم اِن اداروں اور لوگوں کی درمیان باہمی تعلق کی وضاحت کرتے ہیں، جوبہت سارے انسانوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔یہ ناکامی ہے سب سے اوپر والوں کیلئے ۔۔یہ بالکل نیچے والوں کی قابلیت کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے ۔۔۔یہی غربت کی بنیادی وجہ ہے ۔
یہاں آج میرے استدلال کی روح یہ ہے کہ غربت میں کمی کرنے کے لئے اور آخرکار اسے ختم کرنے کے لئے ہمیں ڈرائینگ بورڈ پر واپس جانا پڑے گا۔ تصورات، ادارے اور تجزیاتی ڈھانچے کے حالات جنہوں نے غربت پیدا کی ہے ، غربت ختم نہیں کر سکتے ۔اگر ہم ذہانت سے اِن متعین حالات پر دوبارہ کام کریں تو غربت چلی جائے گی ،دوبارہ کبھی واپس نہ آنے کے لئے۔
اس پریزینٹیشن میں ، میں آپکی توجہ ان پانچ امور کی طرف مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں جن پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔
ا۔ روزگار یعنی ایمپلائمنٹ کے تصور کو وسعت دینا
۲۔ معاشی خدمات کو یقینی بنانا حتی کہ ایک غریب ترین شخص بھی ان کو حاصل کرنے کاا ہل ہو
۳۔ہر انسان کو ایک اہل اینٹرپرینیور (enterpreneur ) یعنی کسی بھی کاروبار کے نقصان کو مدِنظر رکھتے ہوئے منافع
کے طور پر اُسے چلانے کے لئے اس کا اہل تسلیم کیا جانا
۴۔دنیا کو پُرامن، ہم آہنگ اور ترقی یافتہ بنائے جانے کے لئے سوشل اینٹرپرینیور کو اہل ایجنٹ کے طور پر تسلیم کیا جانا
۵۔گلوبلائزیشن اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کے کردار کو غربت ختم کرنے کے لئے استعمال کرنے کو تسلیم کرنا
مجھے بیان کرنے دیجئے کہ حقیقی دنیا میں مَیں نے ان مسائل کا کیسے سامنا کیا اور انہوں نے میرے اوپر کس طرح اثر ڈالا۔میں غربت کے مسلئے پر ایک پالیسی ساز یا ایک محقق کی طور پر شامل نہیں ہو ا تھا۔ میں اس میں شامل ہوا کیونکہ غربت میرے ہر طرف موجود تھی۔ میں اپنے آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا تھا۔ ۱۹۷۴ء ؁ میں ، بنگلادیش میں ایک خوفناک قحط کے پس منظر میں ، مَیں کلاس روم میں اکنامکس کے خوشنما نظریات کو پڑھانے میں مشکل پا رہا تھا۔ آچانک میں نے ،غربت اور بھوک کے پامال ہوتے ہوئے چہرے سے،ان نظریات کے خالی پن کو محسوس کیا۔ میں اپنے اردگرد موجود لوگوں کے لئے فوری طور پر کچھ کرنا چاہتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میں کیا کروں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک اور ایک شخص کی بنیاد پر دوسروں کیلئے کارآمد بننے کے لئے راستہ تلاش کروں گا۔ دوسروں لوگوں کی مدد کرنے کے لئے مَیں کچھ خاص تلاش کرنا چاہتا تھا تا کہ وہ ایک اور دن ، اپنے پچھلے دن سے ، تھوڑا بہتر گزار کر سکیں ۔ غریب لوگوں کی جدوجہد اور ان کا بے بسی سے ایک بہت ہی چھوٹی رقم کی تلاش میں سرگرداں ہونا تا کہ وہ اپنی کوششوں سے اپنی روزی کمانے کے لئے اس رقم سے مدد حاصل کر سکیں ،نے مجھے اُن کے مسئلے کو سمجھنے میں مدد دی ۔میں یہ جان کر بھونچکا رہ گیا کہ ایک عورت صرف ایک چوتھائی ڈالر کا قرض مانگ رہی تھی ان شرائط پر کہ قرض خواہ کے پاس یہ خصوصی اختیار ہو گا کہ اگر وہ چاہے تو اسکی بنائی ہوئی چیزیں اپنی ہی مقرر کردہ قیمت پر خرید سکے گا۔ غلام مزدور بھرتی کرنے کا کیسا اچھا طریقہ ہے ۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک فہرست بناؤں ان سِتم رسیدہ لوگوں کی جو رقم ادھار لینے کے اس ’’کاروبار‘‘ میں پھنسے ہوئے ہیں۔اپنے کیمپس کے نزدیکی ایک گاؤں میں ایسے لوگوں کی ایک فہرست بنائی گئی۔ ان ستم رسیدہ لوگوں کی تعداد بیالیس تھی۔ کل رقم جو انہوں نے ادھار لی ہوئی تھی وہ ۲۷ ڈالر کے برابر تھی۔ اکنامکس کے ایک پروفیسر کے پاس کیا سبق تھا؟ جو اپنے طالب علموں کو ملک کا پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ پڑھاتا تھا جس کے مطابق غریبوں کی مدد کرنے کے لئے اربوں ڈالر کا سرمایہ کاروبار میں لگا ہوا تھا۔ میں اسکے علاوہ کیا کر سکتا تھا کہ میں یہ ستائیس ڈالر کی رقم اپنی جیب سے ان غریب ستم رسیدہ لوگوں کو پیش کر دوں تا کہ یہ ستم رسیدہ لوگ سود خوروں کے چنگل سے باہر نکل سکیں ۔ اس عمل سے جو مجھے خوشی ہوئی اس نے مجھے اس کام میں اور زیادہ مصروف کر دیا ۔ میرے ذہن میں جو سوال پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ اگر آپ اسطرح کی ایک معمولی سی رقم سے بہت سارے لوگوں کو خوش کر سکتے ہیں تو اس سے زیادہ کیوں نہیں کرتے ؟
میں اس وقت سے یہی کر رہا ہوں ۔ میں نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ میں نے لوگوں کو ایک بنک کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کی جو کیمپس میں واقع تھا۔ انہوں نے یہ نہیں کیا۔ بنک نے کہاکہ غریب لوگ قرض لینے کے اہل نہیں ہوتے۔ آخر کار میری کئی ماہ کی کوشش بیکار گئی۔ میں نے غریب لوگوں کو قرض دینے کی لئے اپنی ضمانت پیش کرنا شروع کر دی ۔ جبکہ نتائج نے میرے ہوش اڑا دئیے۔ غریبوں نے ہر دفعہ رقم واپس کی۔لیکن مجھے ان بنکوں کی وجہ سے اس پروگرام کو وسعت دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کافی سالوں بعد میں نے بغیر کولیٹرل غریبوں کو قرض دینے کے لئے ایک بنک بنانے کا فیصلہ کیا ۔ آخر کار میں ۱۹۸۳ء ؁ میں اسے قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے اسکا نام گرامین بنک رکھاآپ اسے گاؤں کا بنک کہ لیں۔ یہ بنک اب تمام بنگلا دیش میں کام کر رہا ہے اور پچیس لاکھ سے زائد غریب لوگوں کو قرض دے رہا ہے ۔ جن میں ۹۵ فیصد خواتین ہیں۔ بنک کے مالک قرضدار خود ہیں۔ یہ بنک مجموعی طور پر تین ارب پچھتر کروڑ ڈالر کے قرض دے چکا ہے۔ عمومی طور پر قرض کی واپسی کی شرح ۹۸ فیصد ہے۔ یہ منافع کما رہا ہے ۔ کیا یہ معاشی طور پر اپنے اوپر بھروسہ کر سکتا ہے ؟ ۱۹۹۵ء ؁ سے بنک نے عطیات کی رقم لینا بند کر دی ہے اور ۱۹۹۸ء ؁ سے اس نے اندرونی مارکیٹ سے بھی قرض لینا بند کر دیا ہے ۔ اپنے قرض دینے کے پروگرام کی تکمیل کے لئے اس کے پاس اب مناسب ڈیپازٹ موجود ہیں۔ یہ آمدنی پیدا کرنے کے لئے قرض ،مکان بنانے کی لئے قرض اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے قرض غریب لوگوں کو دیتا ہے ۔ اب تک پانچ لاکھ سے زائد گھر اس قرض سے تعمیر کئے جا چکے ہیں ۔
آزاد محققین نے گرامین بنک کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے جو بتاتا ہے کہ ہر سال پانچ فیصد لوگ غربت سے باہر نکل رہے ہیں، بچے صحت مند ہو رہے ہیں، تعلیمی اور غذائی لیول بلند ہو رہے ہیں، گھروں کی حالت بہتر ہوئی ہے ، بچوں کی اموات کی شرح سینتیس فیصد تک کم ہوئی ہے، خواتین کا معیار زندگی بلند ہوا ہے ، خواتین کے اثاثوں کی ملکیت، جس میں گھر شامل ہیں، ڈرامائی طور پر بہتر ہوئی ہے ۔ اب کوئی بھی واضح سوال کر سکتا ہے ؟ اگر غریب لوگ اپنی کوششوں سے ایک مارکیٹ کے ماحول میں یہ تمام حاصل کر سکتے ہیں، تو پھر دنیا اسکے لئے اور زیادہ کیوں نہیں کررہی ۔کچھ ترقی ضرور ہوئی ہے ۔ لیکن بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اس ابہام سے ایک مشکل پیدا ہو سکتی ہے ۔
گرامین کی بنکنگ میتھوڈالوجی مائیکرو کریڈٹ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ لیکن بتدریج ما ئیکروکریڈٹ کے لیبل کو ہر طرح کے چھوٹے قرضوں کے لئے عمومی طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ جس میں زرعی قرضے بھی شامل ہیں، امدادِ باہمی کے قرض ہیں، چھوٹی بچتوں کے قرض ہیں اور دیہاتی کریڈٹ وغیرہ ہیں۔ اس نے ادارے بنانے میں اور ریگولیٹری فریم ورک بنانے کے لئے پالیسی سازی میں ابہام پیدا کر دیا ہے ۔
اگر ہم مائیکرو کریڈٹ کی ، مختلف زمروں میں الگ الگ کرنے کے لئے ،درجہ بندی کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم اس ابہام سے باہر نکل سکتے ہیں۔ ( میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اسے’ مائیکرو کیپٹل ‘ کہیں ،جو کہ حقیقتاً ہے بھی ، توکچھ حد تک اس ابہام سے درگزر کیا جا سکتا ہے ۔ میں نے اس کے لئے جو بنگالی ٹرم استعمال کی ہے اسکا ترجمہ مائیکرو کیپٹل ہوتا ہے )۔
پچھلی دو دہائیوں میں دنیا میں گرامین طرز کے مائیکروکریڈٹ کو پھیلایا گیا ہے ۔ سو کے قرب ملکوں نے گرامین طرز کے مائیکرو کریڈٹ پروگرام شروع کئے ہیں۔ ۱۹۹۷ء ؁ میں واشنگٹن ڈی۔سی میں مائیکرو کریڈٹ پر ایک کانفرنس ہوئی تھی وہاں ایک منزل کا تعین کیا گیا تھا کہ ۲۰۰۵ء ؁ تک دس کروڑ غریب ترین خاندانوں، ترجیحی طور پر غریب خواتین کو، مائیکروکریڈٹ اور دوسری معاشی خدمات تک رسائی ضرورحاصل ہونی چاہیے۔ اس وقت تک دنیا میں صرف پچتھر لاکھ خاندان ہیں جنکی رسائی مائیکروکریڈٹ تک ہوئی ہے ۔ جن میں سے پچاس لاکھ بنگلادیش میں ہیں۔ آج میں اندازہ لگا رہا ہوں کہ ہم تین کرڑ پچاس لاکھ سے زائد کا ہدف حاصل کر لیں گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہم اپنا نصف نشان یعنی پانچ کروڑ کا نشان اس سال کے آخر تک حاصل کر لیں گے۔ لیکن اسکی بڑھوتڑی کی حد کو وسعت دینے میں سب سے بڑا مسئلہ قابلیت کی کمی نہیں ہے ۔ بلکہ حیرت انگیز طور پر عطیات میں ملنے والی رقم کی دستیابی میں کمی ہے، جو مائیکروکریڈٹ پروگراموں میں مدد کرنے کے لئے اسکے ابتدائی سالوں میں اسے ملنا چاہیے ، جہاں تک کہ وہ ’بریک ایون‘ لیول تک پہنچ جائیں یعنی ایسے نقطے پر پہنچ جائے جہاں آمدنی اور اخراجات برابر ہو جائیں۔ اس لیول سے آگے جا کر ایسے پروگرا م ،ما رکیٹ سے قرض لے کر یا پھر ڈیپازٹ اکٹھے کر کے ، اپنی پہنچ میں وسعت دے سکتے ہیں ۔ بہت سارے ممالک میں مائیکروکریڈٹ این۔جی۔اوز کو ڈیپازٹ اکٹھے کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اگر مائیکروکریڈٹ این۔جی۔ اوز کے لئے دروازے پبلک ڈیپازٹ حاصل کرنے کے لئے کھول دئیے جائیں تو انکی رسائی میں بہت تیزی سے وسعت آ سکتی ہے کیونکہ یہ انھیں چندے کی رقم پر انحصار سے آزاد کر دے گی ۔
یہ ایک بہت ہی عجیب مظہر ہے کہ بہت سارے ملکوں میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ روایتی بنکوں کا قرض واپس کرنے کی شرح ستّر فیصد کی سطح سے بھی نیچے ہونے کے باوجود انھیں سال بہ سال بڑی رقم میں پبلک ڈیپازٹ اکٹھے کرنے کی اجازت ہے لیکن مائیکرو کریڈٹ دینے والے ادارے جن کی اٹھانوے فیصد واپسی کا نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ ہے کو پبلک ڈیپازٹ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ مائیکرو کریڈٹ دینے والے ادارے کسی قانون کے تابع نہیں آتے۔ یہ بہت زیادہ رِسکی ہے کہ انھیں ڈیپازٹ حاصل کرنے کی آجازت دی جائے۔ مجھے یہ دلیل ہمیشہ ہی مضحکہ خیز لگتی ہے ۔ ہم کیوں قانون نہیں بناتے جو مائیکروکریڈٹ پروگراموں کو ایک قانونی تحفظ مہیا کریں ۔ سپیشل ریگولیٹری کمیشن کیوں نہیں بنائے جاتے جو انھیں ریگولیٹ کر سکیں اور انھیں پبلک ڈیپازٹ جمع کرنے کی اجازت دیں؟ اس سے گاؤوں کی سطح پر مقامی ڈیپازٹ جمع کرنے میں مدد ملے گی جسے مقامی غریب لوگوں کی مدد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔اسکی بجائے اس ڈیپازٹ کا رخ بڑے شہروں کی طرف موڑ نہ دیا جائے تا کہ وہ بڑے کاروباری اداروں کو فنانس کر سکیں۔ یہ ہمارے تجربے کا مایوس کن حصہ ہے ۔ اس سے ایک آدمی اسطرح محسوس کرتا ہے کہ جیسے اُس نے ہوا میں اپنے ہاتھ پھلائے ہوئے ہوں اور وہ احتجاج میں چلا رہا ہو۔
سیلف ایمپلائمنٹ ہی تیز ترین زریعہ ہے
غربت ختم کرنے کے لئے سب سے اہم قدم غریبوں کے لئے روزگار اور آمدنی پیدا کرنے کے مواقع پیدا کرنا ہے ۔ جبکہ مروج اکنامکس صرف اجرتی ملازمت یعنی ویج ایمپلائیمنٹ کو تسلیم کرتی ہے۔ یہاں سیلف ایمپلائیمنٹ کے لئے جگہ نہیں ہے ۔ جبکہ سیلف ایمپلائیمنٹ ہی تیز ترین اور آسان ترین راستہ ہے جو غریبوں کے لئے روزگار پیدا کرتاہے ۔ میں یہ دلیل دے رہا ہوں کہ کریڈٹ کو انسانی حق کی طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایک شخص ،جو کہ آمدنی کی تلاش میں ہے ،کے لئے اہم ہے ۔ کریڈٹ فوراًسیلف ایمپلائیمنٹ پیدا کر سکتا ہے ۔ دوسروں کا انتظار کیوں کیا جائے کہ وہ آپ کے لئے ایک نوکری پیدا کریں جبکہ ایک شخص عورت ہو یا مرد اپنے لئے خود ایک نوکری پیدا کر سکتا ہے اور یہ ایک عورت کے لئے تو بہت ہی آسان ہے اگر وہ گھر سے باہر کام کرنا چاہتی ہوتو۔ ہم مروّج اکنامکس کے اس حد تک زیر اثر ہیں کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے آباؤاجداد اسکا انتظار نہیں کرتے تھے کہ کوئی دوسرا اُنکے لئے نوکری پیدا کر یگا ۔ وہ کمائی اور نوکری پیدا کرنے کے لئے ایک معمول کے طریقہ کار کے مطابق صرف آگے بڑھتے تھے ۔ وہ خوش قسمت تھے کہ انھیں معاشی نظرئے سیکھنے کی ضرورت نہ تھی اور وہ اپنے مائینڈسیٹ کی وجہ سے اپنی سوچ کا یہاں خاتمہ نہیں کر دیتے تھے کہ ان کے پاس زندگی گزارنے کے لئے روزی کا صرف ایک ہی زریعہ ہے کہ وہ جاب مارکیٹ میں جاب تلاش کریں۔ اگر آپ کو جاب نہیں ملتی تو پھر سڑکوں پر مارچ کریں !
تیسری دنیا کے ملکوں میں اگر چہ آپ سڑکوں پر مارچ کرتے ہیں پھر بھی آپ کے لئے جاب نہیں ہوتی ۔ نتیجے کے طور پر غریب کو باہر نکلنا پڑتا ہے اور اپنے لئے نوکریاں پیدا کرنی پڑتی ہیں۔ جبکہ اکنامکس کی درسی کتابیں انہیں تسلیم نہیں کرتیں ، یہاں انکو مدد دینے کے لئے نہ تو اعانت کرنے ولے ادارے موجود ہیں اور نہ ہی مددگار پالیساں۔
اسی وجہ سے پیسہ قرض دینے کا کاروبار فروغ پاتا ہے ۔ پیسہ قرض دینے کا کاروبار اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ بذات خود پیسہ۔ اپنی مذہبی کتابوں میں ہم قرض خوروں کے ظلم کے متعلق پڑھتے ہیں، ہم اپنی مذہبی ذمہ داری کی وجہ سے اسکی مذمت کرتے ہیں۔ ہم عظیم کلاسِکس میں ایک ’’پونڈ گوشت‘‘ کی صورت میں ادائیگی کا ذکر پڑھتے ہیں اور خوفزدہ ہوتے ہیں لیکن ہم نے اس تکلیف کو دور کرنے کے لئے اس وقت تک کچھ نہیں کیا جب تک کہ گرامین کریڈٹ ہر طرف نہیں آیا۔
اس کے باوجود کہ ہم اس کے متعلق سُن رہے ہیں کہ مائیکروکریڈٹ دنیا بھر میں پھیل رہا ہے ، قرض کی واپسی کا ریکارڈ اٹھانوے فیصد ہے ، مائیکرو کریڈٹ سے غریب لوگ غربت سے باہر آرہے ہیں، خواتین با اختیار ہو رہی ہیں۔ اس کا رسمی بنکنگ پر کچھ بھی اثر نہیں ہوا، معمولی سا بھی نہیں۔ یہ بنک اپنے قدیم بنکنگ کے طریقہ کار کو ہی اپناے ہوئے ہیں بالکل اسی طرح جیسا کہ انہوں نے اپنے کاروبار کے آغاز میں اسے شروع کیا تھا۔
وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جسکا آغاز انہوں نے اپنے کاروبار کے شروع میں کیا تھا جیسا کہ دنیا میں کچھ نیا نہیں ہوا! غالباً وہ ابھی تک یہ دلیل دے کر محفوظ ہو رہیں ہیں کہ غریب کریڈٹ کے اہل نہیں ہوتے۔
یہ بہت عجیب دنیا ہے !
غربت کے خاتمے کی طرف ایک بڑا قدم یہ ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ ہم ہر شخص کو معاشی خدمات پیش کر یں حتی کہ غریب ترین شخص کو بھی وہ مرد ہو یا عورت اور انکو صرف اس لئے رَد نہ کر دیا جائے کہ وہ غریب ہیں ۔
ہر شخص ایک زبردست اینٹرپرینیور ہے
ہماری اکنامکس کی بنیاد کے فریم ورک کے علمی پہلوؤں کی ڈیزائنگ کے کچھ اہم طریقے یا اسکی غلط نمائندگی ہمیشہ رہنے والی غربت کی ذمہ دار ہے ۔ایک شخص کو انفرادی طور پر اسکا ’’مزدور‘‘ کے طور پر تصور کرنا اس تمام تھیوری کو مکمل طور پر ایک غلط راہ پر ڈال دیتا ہے ۔انسانیت کو جو کردار اکنامک تھیوری نے دیا ہے کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ایک خود دار شخص جسکا جشن منائے۔ اکنامک تھیوری اپنی سادہ تر حالت میں لوگوں کا تصّور بناتی ہے مزدوری مہیا کرنے والے لوگوں کا ، جو پیدا ہوئے ہیں کہ وہ حکم مانیں ایک خاص طرح کے لوگوں کے ایک چھوٹے سے ٹولے کا جنہیں اینٹرپرینیور کہا جاتا ہے ۔ یہی خاص لوگ ہیں جو سوچ سکتے ہیں ، کاروبار ارگنائز کر سکتے ہیں اور اپنی کارگزاری دکھا سکتے ہیں جبکہ باقی تمام لوگ صرف کام کے شگافوں کو بھرتے ہیں جنہیں یہ سوچنے والے اور کارکردگی دکھانے والے چند لوگ پیدا کرتے ہیں ۔کام کرنے والے لوگوں کی خوشحالی کے لیول کا انحصار انکی مزدوری پر ہوتاہے
بغیر دلچسپی کے کام کرنے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد پیدا کرنے کے بعد اکنامک تھوری مصروف ہو جاتی ہے دلچسپی لینے والے لوگوں کی طرف ؟ وہ ہیں اینٹرپرینیورز کیونکہ وہ اکانومی کو حرکت دینے والے اور شیک کرنے والے ہوتے ہیں۔ تھیوری سے اشارہ لے کر ، طاقتور ادارے تعمیر کئے گئے ، انکی تعمیر نو کی گئی ، تفصیلی قانونی نظام وضع کئے گئے ، پالیسیاں متشکل کی گئیں، گائیڈلائنز ایجاد کی گئیں ، تحقیق نے مکمل طور پر یہ بیڑہ اٹھایا کہ وہ یقین دلائے کہ اکانومی کو متحرک کرنے والے اور جھنجوڑنے والے اپنے آپ کو معقول پاتے ہیں کہ وہ جدھر جانا چاہتے ہیں جائیں اور وہ اس قابل ہیں کہ اپنی صلاحیت کے آخری چھوٹے سے ٹکڑے کو بھی بغیر کسی مزاحمت کے کام میں لائیں۔
ذرا سمجھنے کی کوشش کریں کہ ماہرین معاشیات نے اس طرح اپنی تھیوری تیار کی ہو گی کہ انہوں نے اس ایک محاورے سے اپنا آغاز کیا ہو کہ تمام مرد اور تمام عورتیں برابر پیدا ہوئے ہیں، ان میں سے ہر شخص کو انتہائی تخلیقی صلاحتیں مرحمت ہوئی ہیں اور ہر شخص ایک زبردست کاروباری شخص( اینٹرپرینیور) ہے ۔ میں یقین کرتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ متفق ہونگے جبکہ ایک نقطہ آغاز کے طور پر انہوں نے ایک بالکل ہی مختلف تھیوری بنائی اور ہم نے اس سے بالکل مختلف ،نتیجے کے طور پر ہم نے بالکل مختلف اور یقیناًبہت بہتر دنیا بنائی۔
یہ ایک دشوار کام ہو گا کہ دنیا میں غربت ختم کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو کہ ہم نئی اکنامک سوچ تخلیق کریں اور ہم چھٹکارہ حاصل کریں اپنے تصورات سے تعصبات کا، تبدیلی کریں اداروں میں، اپنے طرز عمل میں اور سب سے زیادہ اپنے مائینڈ سیٹ میں جسے پیدا کیا ہے ہماری موجود تقلید پسندی نے۔ جب تک کہ ہم اپنے مائینڈ سیٹ کو تبدیل نہیں کریں گے ہم اپنی دنیا کو تبدیل نہیں کر سکیں گے ۔
ایک بہترین موقع ضائع کیا گیا ہے
اکنامک تھیوری نے دوسرا غلط اور بہت ہی نقصان دہ موڑ اس وقت لیا جب اس نے اینٹرپرینیورز کے درمیان مقابلے کے پیچھے ڈرائیونگ فورس کی وضاحت کی ۔ اکنامکس اس کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد تسلیم کرتی ہے اور وہ ہے نفع کا مقصد۔ منافع کی انتہا ہی انکا جنگی نعرہ ہے ۔ یہ وضاحت اکنامک پالیسی میں ایسی اہم جگہ حاصل کر لیتی ہے اور اسکے علاوہ پچیدہ تفاصیل کے ساتھ اسکے گرد ہر چیز اسطرح تعمیر کی جاتی ہے کہ کوئی بھی شخص اس پر سوال اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق اسکو انتہائی سچ تسلیم کرتے ہوئے ، اس سرمایہ دارانہ دنیا میں ، وہ لوگ جو پیسہ نہیں کمانا چاہتے وہ کاروبار اور مارکیٹ سے دور رہیں ، اور اسی وجہ سے ، وہ لوگ جو پیسہ کمانا چاہتے ہیں سیدھا مارکیٹ کی طرف جائیں ۔ اسطرح مارکیٹ ایک مخصوص کلب بن جاتی ہے ،صرف مقدر کے متلاشی لوگوں کا کلب۔ ایک بہت اچھے موقع کو کھو دینا کتنے شرم کی بات ہے !ً
اکنامک تھیوری نے دنیا کے مقدر کو تبدیل کرنے کا کس قدر ہیجان خیز موقع کھو دیا ہے مکمل طور پر اُن لوگوں کی تعداد اور طاقت کو درگزر کر کے جو صرف سماجی فائدہ دیکھنا چاہتے ہیں بجائے ذاتی معاشی فائدے کے اور وہ جو پر جوش طریقے سے دلچسپی رکھتے ہیں دنیا کو رہنے کے لئے ایک بہتر جگہ بنانے میں بجائے اسکے کہ دنیا صرف اپنے ذاتی مفادات اور تنگ نظری پر محیط ہو ۔ مارکیٹ کی ڈرائیونگ فورس کو محدود کر کے اور اپنے ذاتی مفادات کو کم نہ کرکے اکنامکس نے بہت بڑے موقع کو ضائع کیا ہے ایک کھری سوشل سائنس بننے میں، انہیں گریز کرنا چاہے تھا خشک اور جدا ڈالر اور سینٹ سائنس بنانے میں۔ کسی شخص کو شک نہیں ہے کہ ایک اینٹرپرینیور ایک فارماسوٹیکل کمپنی بنانا چاہتا ہے اس لئے کہ وہ خاتون یا مرد اپنے لئے ایک بڑا منافع کمائے لیکن ساتھ ہی یہ بھی یکساں طور پر ایک معقول صورت ہے کہ کوئی شخص ایک فارماسوٹیکل کمپنی بنائے کہ وہ معیاری ادویات ممکنہ طور پر ارزاں نرخوں پر مہیا کرئے جنہیں کوئی غریب ترین خاندان بھی خریدنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اگر اکنامکس دو طرح کے انٹرپرینیورز کے متعلق غور کر سکے، ذاتی فائدہ اٹھانے والے اور سماجی مقصد رکھنے والے، تو یہ صرف بہت زیادہ حقیقت پسندانہ ہی نہیں ہو گا بلکہ اس سے دنیا کے بہت سارے مسائل کوحل کرنے میں مدد بھی ملے گی جبکہ منافع کے لئے چلائے جانے والی مارکیٹ آج ان مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہے ۔
سوشل اینٹرپرینیور کے طرز عمل کا نمونہ
ایک سماجی مقصد رکھنے والی اینٹرپرینیور یعنی سماجی کاروباری شخص کے طرزعمل کا نمونہ مندرجہ زیل ہے :
کوئی مرد یا عورت سماجی مقاصد کے ایک سلسلہ سے اثر لے کر ایک منڈی میں دوسرے تمام حریفوں سے مقابلہ کرتا ہے ۔ اسی بنیادی وجہ سے وہ اس پیشے میں رہتاہے ۔
وہ ذاتی منافع بھی کما سکتا ہے ۔ یہ ذاتی منافع صفر سے لے کر معنی خیز حد تک بڑی رقم بھی ہو سکتا ہے حتی کہ اپنے ذاتی منافع کمانے کا مقصد رکھنے والے حریف سے بھی ذیادہ ۔ لیکن ایسے معاملے میں ذاتی منافع التفات (consideration ) کے ثانوی درجے پر آتا ہے بجائے اسکے کی وہ التفات کے مقدم درجے پر فائزہو ۔ جبکہ دوسری طرف ذاتی منافع کمانے کا مقصد رکھنے والے کاروباری لوگ( اینٹرپرینیورز )کچھ سماجی مقاصد بھی حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن یہ انکے کاروبار کی ایک ضمنی پراڈاکٹ ہو گی یا اسکے کاروبار میں اسکی حثیت ایک ثانوی درجے پر ہو گی ۔ یہ اُسے ایک سماجی اینٹرپرینیور نہیں بنائے گا۔
ایک ڈالر انویسٹ کرنے پر جتنا زیادہ سماجی اثر ہو گا اتنی ہی زیادہ اس سماجی کاروباری شخص social entrepreneur ) (کی مارکیٹ ریٹنگ ہو گی۔ یہاں ’مارکیٹ‘ سے مراد وہ متوقع انویسٹرز ہیں جو مناسب موقع کی تلاش میں ہیں کہ وہ اپنی رقم سماجی مقصد رکھنے والے کسی ادارے میں لگائیں۔ اس طرح سوشل اِنوسٹمنٹ پر خرچ ہونے والے ڈالر کم سماجی اثر رکھنے والے ادارے کی بجائے زیادہ سماجی اثر رکھنے والے ادارے کی طرف جائیں گے ، عام اثر رکھنے والے اداریوں سے کسی مخصوص اور واضح اثر رکھنے والے اداروں کی طرف، روایتی سماجی ادارے سے بہت زیادہ جدت پسند اور جلد اثر کرنے والے اداروں کی طرف ۔
سماجی مقصد رکھنے والے انویسٹرز کو ایک علیحدہ (سوشل) سٹاک مارکیٹ ، علیحدہ ریٹنگ ایجنسیاں ، علیحدہ معاشی ادارے ، سوشل میوچل فنڈز اور سوشل وینچر کیپٹل وغیرہ کی ضرورت ہو گی ۔ ہر وہ چیز جو ہمیں ایک منافع کا مقصد رکھنے والے ادارے کے لئے چاہیے ویسی ہی ہر چیز ہمیں ایک سماجی مقصد رکھنے والے ادارے کے لئیے بھی چاہیے ؛ مثلاآڈٹ فرمز ، مناسب سرگرمیاں اور اثر کی تشخیص کرنے والی میتھوڈالوجیز، ریگولیٹری ڈھانچہ ، سٹینڈرڈائیزیشن وغیرہ ، لیکن ایک مختلف سیاق و سباق میں اور مختلف میتھوڈالوجیز کے ساتھ ۔
موجودہ دنیا نے جو ایک شکل بنائی ہے مروج اکنامکس کی وجہ سے انوسٹمنٹ کی تمام رقم اب صرف ایک انوسٹمنٹ کی کیٹیگری میں مقید ہو گئی ہے ؟ ذاتی منافع کمانے کی انوسٹمنٹ ۔ یہ اس لئے ہوا کہ لوگوں کو کوئی دوسرا چناؤ دیا ہی نہیں گیا۔ یہاں صرف ایک ہی طرح کا مقابلہ ہے ؟ اور وہ ہے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کا مقابلہ۔ وہ لمحہ جب ہم سماجی انوسٹمنٹ کے ذریعے سماجی اثر پیدا کرنے کا دروازہ کھولیں گے، انویسٹرز اس دروازے کے ذریعے بھی انوسٹمنٹ کے ڈالر لگانا شروع کر دیں گے۔ ابتدائی طور پر چند انویسٹرز اپنی انوسٹمنٹ کے سرمائے کے ایک حصے کو سماجی ادارے کی طرف موڑیں گے، ممکنہ طور پر ایک چھوٹے سے حصے کو، لیکن اگر سماجی کاروباری لوگ ایک ٹھوس اثر دکھائیں ، تو یہ بہاؤ بڑے سے بڑا ہوتا جائے گا۔ جلد ہی نئی طرح کے انویسٹرز منظر پر ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے جو اپنی تمام یا تقریباً تمام انوسٹمنٹ کی رقم سماجی انوسٹمنٹ میں لگانا چاہیں گے ۔
موجود منافع کمانے والے سماجی کاروباری لوگوں میں سے کچھ اپنی کاروبار چلانے کی صلاحیت کی ایک اور سمت کو اشکار کر سکیں گے کہ وہ کامیاب ہو سکتے ہیں دونوں دنیاؤں میں، اولاً روایتی منافع کمانے والے کی طرح ، جبکہ ثانیاً اپنے اپ کو سماجی منافع کمانے والے کاروباری شخص کے طور پر وقف کر کے ۔
اگر سماجی کاروبار بہت زیادہ اثر اور تخلیقی کاروبار کی حاجتیں ثابت کریں گے تو ایک دن آئے گا جب ذاتی منافع کمانے والے کاروبار اپنے مارکیٹ شےئر کو محفوظ کرنے میں بہت زیادہ تنگی محسوس کریں گے اسطرح وہ مجبور ہو جائیں گے کہ سماجی کاروبار کی زبان اور طرز کی تقلید کریں تا کہ وہ کاروبار میں ٹِک سکیں۔
میں نہیں سمجھتا کہ مجھے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے کہ میں ہر ایک کو قائل کرؤں کہ یہاں اس وقت لاکھوں انویسٹرز موجود ہیں جو فوراً خوشی سے اپنا سرمایہ کسی بھی سماجی کاروبار میں لگا دیں گے اگر انہیں یہ یقین دلا دیا جائے کہ غریب لوگوں ، محروم لوگوں اور کسی بھی طرح کے غیر مفید لوگوں کے مجموعے ،کی زندگیوں میں خاطر خواہ تبدیلی لانے میں ان کی انوسٹمنٹ کم از کم اپنی اصل قدر ضرور برقرار رکھے گی ۔میں تمام دنیا سے بہت سارے لوگوں کے خط موصول کرتا ہوں جو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ گرامین بنک میں رقم لگا سکتے ہیں۔ یقیناًان میں سے کوئی بھی شخص گرامین بنک میں رقم لگا کر منافع کمانے کے موقع کی تلاش میں نہیں ہوتا۔ ہماری کاروباری دنیا کیوں ناکام ہو گئی ہے کہ وہ مواقع مہیا کرے ان لوگوں کو جو لوگوں کی فلاح کے لئے رقم لگانا چاہتے ہیں ؟
اگر سماجی طور پر متحرک لوگ اپنی زندگی کو سیاست کے لئے وقف کر سکتے ہیں تا کہ اپنی برادریوں ، قوموں اور دنیا میں تبدیلیاں لا سکیں تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ سماجی طور پر متحرک لوگ کیوں اپنی زندگیاں سماجی مقاصد رکھنے والے کاروبار تعمیر کرنے اور چلانے میں وقف نہیں کریں گے۔وہ اگر اب تک ایسا نہیں کر سکے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ ان کو نہ تومناسب مواقعے دستیاب ہیں اور نہ ہی مدد کرنے والا ڈھانچہ موجود ہے۔ ہمیں اس صورتحال کو تبدیل کرنا ہے۔ سوشل اینٹرپرینیورز اور سوشل انویسٹرز کے لئے کاروباری دنیا میں جگہ بنا کر ایک بالکل ہی نئی دنیا خلق کی جاسکتی ہے۔ یہ ہم سب کے لئے ایک بہت ہی اہم ایجنڈا ہے۔ غربت ختم کرنا بہت زیادہ اسان ہو جائے گا اگر سماجی کاروباری لوگ غربت ختم کرنے کے چیلنج کو قبول کر لیں اور سوشل انوسٹرز اپنا سرمایہ سوشل اینٹرپرینیورز کے کام میں لگا کر انکی مدد کر یں ۔
ایک سوشل اینٹرپرینیور کون ہے ؟
مجھے کھلے انداز میں سماجی کاروباری شخص کی تعریف بیان کرنے دیں اور بعد ازاں انھیں منڈی اور بغیر منڈی کی بنیاد پر دو زُمروں میں تقسیم کرنے کی اجازت دیں۔
ہر وہ شخص ،کوئی مرد یا عورت، جو اپنی طاقت اور اپنا وقت کسی ایک برادری یا زُمرے کی کسی بھی سماجی یا معاشی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرے ایک سماجی کاروباری شخص یا سوشل اینٹرپرینیور (SE ) ہے۔تکلیف جسے دور کیا گیا ہو ایک چھوٹا مقامی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے اور ایک بڑا گلوبل مسئلہ بھی۔ ایک سماجی کاروباری شخص کو اپنے کام پر عمل کرنے کے لئے رقم کی ضرورت ہو بھی سکتی اور نھیں بھی ۔ یہ کسی ایک کام کے لئے ذاتی مہم جوئی بھی ہو سکتی ہے اور اسکے خلاف بھی۔ اسکے لئے دوسروں کے تعاون ا ور ربط کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
اس کے لئے فنڈ بڑھانے کی ضرورت ہو سکتی ہے ۔ یہ ایک منظم اور قائم رہنے والے کاروبار کی صورت ہو سکتا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سو فیصد اخراجات کی یقینی واپسی کے ساتھ پر کشش منافع حاصل کر رہا ہو اگرچہ اسکے کاروبار کا مقصد منافع کمانا نہ ہو ۔ اخراجات کی واپسی (cost recovery )کی اصطلاح میں ایک سماجی کاروباری شخص ( SE) کام کر سکتا ہے کہ وہ صفر فیصد اخراجات کی واپسی سے لے کر سو فیصد کی واپسی تک بلکہ اخراجات کی واپسی سے کہیں زیادہ بھی حاصل کر سکیں۔ اگر ایک سماجی کاروباری شخص بھوکوں میں کھانا تقسیم کرتا ہے ، وہ ،مرد یا عورت ، صفر درجے کی اخراجات کی واپسی پر کام کر رہے ہیں۔ اگر وہ صحت کی سہولیات مہیا کر رہا ہے اور فیس چارج کرتا ہے جو اسکی اخراجات کے ایک حصے پر مشتمل ہو تو وہ اخراجات کی واپسی کے پیمانے کے ایک مثبت نشان پر کام کر رہا ہے ۔ جب ایک دفعہ وہ سو فیصد اخراجات کی واپسی کی سطح پر پہنچ جاتا ہے تو وہ مارکیٹ کی لئے ایک موزوں یا قابلِ تائید سماجی کاروباری شخص (market compatible social entrepreneur یا mSE (بن جاتا ہے ۔ اخراجات کی واپسی کے پیمانے پر یہ ایک اہم نشان ہے ۔ اگر ایک سماجی کاروباری شخص ( ایس ای) اس نشان کے دائیں طرف رک سکتا ہے تو وہ منڈی کے مقام پر ایک قانونی کھلاڑی بن سکتا ہے۔ وہ اسکا انتظام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ پرورش پا سکتا ہے جتنا وہ چاہے ۔ وہ مارکیٹ سے وسائل حاصل کر سکتا ہے۔ جتنے زیادہ سماجی کاروباری لوگ ( SEs ) مارکیٹ کے لئے موزوں یا قابلِ تائید سماجی کاروباری لوگوں (mSEs ) کے زمرے میں شامل ہوتے جائینگے اتنے ہی وہ ایک کاروباری برادری کے طور پر طاقتور ہوتے جائیں گے۔ وہ مارکیٹ کی کیپٹیلائزیشن کی رقم سے کھربوں ڈالر حاصل کرنے کا آغاز کر سکتے ہیں جس کا کچھ حصہ ایک بالکل صحیح طرح کی انوسٹمنٹ کے لئے موزوں سماجی کاروباری لوگوں (mSEs ) کی تلاش کرے گا۔
سماجی کاروباری لوگ جو کہ اپنے مقدس مشن کے لئے اس مخصوص نشان کے بائیں طرف کام کر رہے ہیں ا نکا انحصار سبسڈی اور غریبوں کے لئے دی گئی امدادی رقم کے استعمال پر ہے ۔ ہم انھیں بغیر منڈی کی سماجی کاروباری لوگ کہ سکتے ہیں (nmSE )۔ انکے دائرہ کار کا سائز ہمیشہ محدود ہو گا جسکا انحصار عطیات کے سائز پر ہو گا،جہاں تک کہ ان کی رسائی ہو ۔ ظاہری طور پر یقیناًدنیا کے تمام عطیات کی رقم دنیا کی تمام کاروباری رقم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہو گی۔ مزید براں بغیر منڈی کے سماجی کاروباری لوگوں (nmSE ) کے لئے عطیات کی فراہمی کا غیر یقینی پن ، ڈونر کی فوقیت میں تبدیلی او ر عطیات دینے کا طریقہ کار ان کے لئے ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ بنے رہیں گے۔
بغیر منڈی (non-market )سے منڈی (market) کے سماجی کاروباری لوگ
بغیر منڈی کے سماجی کاروباری لوگوں (nmSEs ) کے متعلق ، تمام متعینہ حدود میں، یہ ضرور جاننا چاہیے کہ وہ سماجی کاروبار کی طویل ترین روایت رکھتے ہیں ، شاید اتنی ہی قدیم جتنا کہ خود انسان قدیم ہے ۔ منڈی کے سماجی کاروباری لوگ (mSEs ) اس سے بہت کچھ سکتے ہیں۔تبدیلیاں لانے کے لئے دونوں طرح کے سماجی کاروباری لوگ اکٹھے مل کر ایک اتحاد بنا سکتے ہیں اور وہ اسی طرح کام کر سکتے ہیں جیسا کہ کہ لوگ کام کرتے ہیں پالیسیاں بنانے والے پالیسیاں بنائیں ، ادارے لوگوں کا خیال رکھیں۔ مختلف طرح کی سماجی موافقت کے پروگرام وضع کر کے ایک ہی سماجی کاروبار کرنے والی شخصیت پیمانے کے دونوں طرف کام کر سکتی ہے ۔ اپنے فلسفے کی وجہ سے ، فنڈز کی دستیابی کی وجہ سے یا کچھ دوسری وجوہات کی بنا پر کچھ بغیر منڈی کے سماجی کاروباری لوگ (nmSE ) ہمیشہ کے لئے پیمانے کے ایک ہی نشان پر کام کرنا جاری رکھیں گے۔کچھ بغیر منڈی کے سماجی کاروباری لوگ اسے فائدہ مند سمجھیں گے کہ وہ اپنے محاصل پر بہتر گرفت حاصل کرنے کے لئے اور بیرونی دارومدار پر انحصار کم کرنے کے لئے بتدریج پیمانے کے دائیں طرف حرکت کرجائیں۔ کچھ یہ جانی بوجھی کوشش کریں گے کہ وہ اس ناقدانہ نقطے کو عبور کر لیں اور اپنے اوپر انحصار کرنے والے بن جائیں۔ایک بغیر منڈی کے کارباری شخص (nmSE ) کا منڈی کے لئے موزوں سماجی کاروباری شخص (mSE ) میں تبدیل ہو جانا ایسا ہی ہے جیسے ایک بائیسکل کو ایک ریس کار میں تبدیل کر دیں، اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے کوئی ایک شخص اتنا تیز چل سکتا ہے ۔
لیکن اس تبدیلی کی کچھ قیمت بھی تو ہو گی۔ آپ کچھ حاصل بھی کر سکتے ہیں جبکہ آپ کچھ کھو بھی سکتے ہیں۔ اس تبدیلی کے عمل میں ایک سماجی کاروباری شخصیت کو بہت زیادہ ماہر اور جدت پسند ہونا چاہے کہ اپنی پہنچ کی وسعت کو یقینی بنانے اور ایک خاص تناسب سے آگے بڑھانے کے لئے اپنی اکنامک پاور حاصل کرتے ہوئے وہ اپنے انتہائی ایجنڈے کو قائم رکھے۔
کرہ ارض کی کوششوں کو منظم ہونا چاہیے تاکہ وہ دلچسپی رکھنے والے بغیر منڈی کے کاروباری لوگوں (nmSE ) کو قانونی مدد دے کر ، کاروباری رقم تک رسائی ممکن بنا کر ، مارکیٹنگ کی مہارت مہیا کر کے ، ٹیکنالوجی سے، اسے منڈی کی سماجی کاروبار (mSEs ) کے کامیاب تجربہ کاروں سے رابطہ کروا کر اور ماہرانہ رائے کی سہولتیں مہیا کر کے مدد کریں تا کہ وہ اس ناقدانہ نشان سے دائیں طرف حرکت کر جائیں۔
سوشل اینٹرپرینیورز اکنامک فکشن کے کردار نہیں ہیں۔ وہ اس حقیقی دنیا میں وجود رکھتے ہیں۔ لیکن ہم انھیں اپنے تجزیاتی فریم ورک میں تسلیم نہیں کرتے۔ اس لئے وہ اپنے مشن کو کچھ ناموزوں یا احمقوں کی طرح کے کرداروں کے طور پر جاری رکھتے ہیں۔ اس کی فوری ضرورت ہے کہ ہم اُن کے اس تصور کو فوری طور پر معاشی کوششیں کرنے والے سورماؤں heroes)) کے تصور کے ساتھ تبدیل کرد یں۔ دنیا کا مستقبل مارکیٹ پر انحصار کرنے والے سماجی کاروباری لوگوں کے ہاتھ میں ہے ۔کاروباری دنیا کو خاص طور پر ذاتی منافع کمانے والوں کے لئے چھوڑ دینے سے مُلکوں کے اندر اور مُلکوں کے مابین بہت زیادہ سماجی اور سیاسی تناؤ پیدا ہو جائے گا ،پہلے سے کہیں زیادہ ۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ دنیا سکڑ رہی ہے فاصلے قریب قریب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ کاروبار بہت بڑے اور زیادہ طاقتور ہو رہے ہیں جبکہ حکومتیں اپنی نیک نامی اور طاقت میں دبک رہی ہیں۔ گلوبلائیزیشن کے ذریعے تمام دنیا بہت زیادہ امیر آدمیوں اور بہت زیادہ امیر ملکوں کے گیم ٹیبل میں تبدیل ہو رہی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام جومشق کر رہا ہے اور جو واعظ کر رہا ہے اسکی تقلید کرتے ہوئے، غربت کے مسئلے پر ہم اسکا مقابلہ نہیں کر سکتے۔تیسری دنیا کے بہت ساری حکومتوں کو کاروبار،صحت، تعلیم اور ویلفےئر پروگراموں کو کاملیت کے ساتھ چلانے میں ناکامی پر ہر شخص فوری طور پر کیاکہے گا ؟ ’’ اسے پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے ‘‘۔ میں خوشی سے اسکی تصدیق کروں گا۔ لیکن میں ایک سوال کروں گا۔ ہم کس پرائیویٹ سیکٹر کی بات کر رہے ہیں ؟ ذاتی منافع کمانے والے پرائیویٹ سیکٹر کا اپنا ایک واضع ایجنڈا ہے ۔ ان کا راستہ غریبوں کے حامی، عورتوں کے حامی، گردوپیش کے حامی ا یجنڈا کے ساتھ سنجیدہ تصادم کی طرف جاتا ہے ۔اکنامک تھیوری ہمیں اس شناسا پرائیویٹ سیکٹر کا متبادل مہیا نہیں کرتی۔ میں ثابت کر سکتا ہوں کہ ہم اسکا ایک طاقتور متبادل وجود میں لا سکتے ہیں۔ ایک سماجی شعور کے زیر اثر چلنے والا پرائیویٹ سیکٹر جسے ایجاد کیا ہو سماجی کاروباری لوگوں نے۔
سماجی کاروباری لوگوں کا کردار اور عالمگیریت(Globalistion )
عالمگیریت کی دوڑ کے سیاق و سباق میں سماجی کاروباری لوگوں کا کردار بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ عالمگیریت کو ایک کھلے گھر کی شکل اختیار نہیں کر لینا چاہیے کہ سانڈ چینی کے برتنوں کی دکان میں گھس آئے۔ میں عالمگیریت کے عمل کا پر جوش حمایتی ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی متبادل کے بغیر عالمگیریت غریبوں کے لئے بہت زیادہ فوائد لا سکتی ہے۔یہ سوچنا بڑی سادہ لوحی ہو گی کہ عالمگیریت کا صرف ایک ہی تعمیراتی پہلو ہے۔ ہم بڑی آسانی سے عالمگیریت کے تمام آپشنز کو دو بڑی جماعتوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: (الف) درست عالمگیریت اور (ب) ایک معروضی سلسلے کے تناظر میں غلط عالمگیریت۔ اگربنیادی مقاصد میں سے ہمارا ایک اہم مقصد غربت میں فوری کمی لانا ہو تو ہمیں اس تعمیراتی پہلو کو چُننا ہو گا جو اس مقصد کے حصول کو یقینی بناتا ہو۔ جب تک ہم اس مشق میں سے نہ گزر یں اور اسے تعمیر کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں نہ کریں ، متوقع طور پر جو سب سے اہم فن تعمیر ظاہر ہوگا وہ غریب کے خلاف ہے، غریب کے خلاف معیشت کی عالمگیریت ۔ یہ خو ف ناک نتیجہ فوری طور پر چیک کیا جا سکتا ہے۔ یہی ہے جو عالمگیریت کے خلاف مظاہرے ہمیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا کو جو کم از کم کرنا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک گلوبل ریگولیٹری باڈی بنائے جو عالمگیریت کے عمل کو غلط سمت جانے سے روکے او ر اسے سہولتیں اور حوصلہ مہیا کرے کہ وہ ’ صحیح‘ سمت میں جائے۔ عالمگیریت کو ٹریفک کے قوانیں اور ٹریفک پولیس کی ضرورت ہے۔ اسکے بغیر عالمگیریت کی شاہراہیں بدنما نظارے بن جائیں گی۔
ہمیں ایک عالمی بحث کا آغاز کرنا چاہیے اور عمومی طور پر عالمگیریت کے ’درست‘ فن تعمیر کے پہلوؤں پر متفق ہونا چاہیے بجائے اسکے کہ ایکشن کے لئے فریم ورک کی غیر موجودگی ہمیں خوف ناک طور غلط عالمگیریت کی طرف بہا لے جائے۔اس فن تعمیر کے بے شمار پہلو ہیں لیکن میں صرف چند پہلوؤں پر زور دینا پسند کرؤں گا۔ وہ یہ ہیں:
(الف) امیر اور غریب ممالک ، بڑے طاقتور کاروباری اداروں اور کمزور چھوٹے کاروباری اداروں ،کے کھیلنے کے لئے ہموار کھیلنے کا میدان ہو۔ ’’ طاقتور سب کچھ لے گا‘‘ کی رِیت کو تبدیل ہونا چاہیے ایک ایسے قاعدے سے جو ہر شخص کے لئے ایک جگہ اور ایک مخصوص فعل کو یقینی بنائے اسکے بغیرکہ طاقتور کھلاڑی اُسے کہنی مار کے باہر نکال دے ۔’’ فری ٹریڈ‘‘ کا لازمی مطلب غریب ترین کے لئے آزادی ہونا چاہیے۔ عالمگیریت کے عمل میں غریب کو بھی سرگرم کھلاڑی ہونا چاہیے بجائے اسکے کہ وہ غیر متحرک شکار بن جائے ۔ عالمگیریت کو ہم آہنگی اور چھوٹی اور بڑی معیشتوں کے درمیان شراکت داری کو ، ہر حال میں، تقویت دینا چاہیے بجائے اسکے کہ یہ امیر معیشتوں کے لئے ،بغیر مزاحمت کے، قبضہ حاصل کرنے کا ایک وسیلہ بن جائے۔
(ب) عالمگیریت کو بارڈروں کے آرپار لوگوں کی آسان ترین حرکت کو یقینی بنانا چاہیے۔
(ج) ہر قوم کو مسلسل اور سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیں کہ وہ غریب لوگوں کے فائدے کے لئے انفرمیشن ٹیکنالوجی کو لے کر آئیں اور ان کو اس قابل بنایا جا سکے کہ وہ عالمگیریت کا آخری حد تک فائدہ حاصل کر سکیں
(د) سماجی کاروباری لوگوں کو مدد دینی چاہیے اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ شامل ہوں عالمگیریت کے عمل میں تا کہ اسے غریب کے لئے دوستانہ بنایا جا سکے ۔ انھیں خاص استحقاق مہیا کیا جانا چاہیے کہ وہ نہ صرف اسے بڑھا سکیں بلکہ وہ اسے ایک خاص تناسب سے بڑھائیں۔
عالمگیریت، نالج اکانومی، گرامین کے وظائف اور طالب علموں کے لئے قرضے
غریب لوگ جھاڑیوں کی طرح ہوتے ہیں، وہ نشونما پا کر بہت بڑے درختوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں اگر انکی پرورش کے لئے ان کی صحیح ماحول سے مدد کی جاتی۔ یہ گملوں کا سائز ہے جن پر ان کی پرورش ہوئی ہے ۔ جس نے انھیں تبدیل کر دیا ہے اصلی درختوں کی ہو بہو اداس نسلوں میں۔ اسی طرح غریب لوگ بھی ہو بہو اداس نقلیں ہیں حقیقی لوگوں کی جو ان کے اندر چھپے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مناسب سائز تک پرورش نہیں پا سکے کیونکہ معاشرے نے انھیں معاشی اور سماجی بنیاد مہیا نہیں کی تا کہ وہ صحیح طور پرورش پا سکیں۔ غریب لوگوں کی مذمت کی جاتی ہے کہ وہ اپنا وجود اسطرح کارکھتے ہیں جیسا کہ ’’ گُلیوَر کے اسفار‘‘ کے بالشتیے بڑے دیوؤں کی سرزمین پر رکھتے تھے۔
ہمیں ظاہر ہونے والی نالج اکانومی کی طرف دیکھنا چاہیے جو مالمگیریت کے عمل میں ایک بے مثال موقع کے طور پر غریب اور غریب ملکوں کی مدد کریں۔ قوموں کے مسقتبل کا فیصلہ اب کسی قوم کی دولت کا سائز نہیں کرے گا بلکہ اس کا انحصار انسانی ذرائع کی خوبی پر ہو گا ،جو کہ وہ رکھتا ہو گا۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی اور تعلیم غریب اور غریب قوموں کی قابلیت پر بہت زیادہ اثر ڈالے گی کہ وہ اپنی معاشی حالت میں تبدیلی لا سکیں۔ گرامین کمپنیوں کا ایک جتھا وجود میں لایا گیا ہے جو انفرمیشن ٹیکنالوجی اور تعلیم بنگلادیش کے غریب لوگوں کو مہیا کر رہا ہے۔ گرامین فون ،گرامین سٹار ایجوکیشن، گرامین سائبرنیٹ ، گرامین ا نفرمیشن ہائی وے، گرامین سوفٹ وئیر اور گرامین آئی۔ٹی پارک کو وجود میں لایا گیا ہے کہ وہ انفرمیشن ٹیکنالوجی کو نہ صرف بنگلا دیش میں غریبوں کو مہیا کریں بلکہ اسے وسعت بھی دیں۔
گرامین فون، گرامین کے قرض داروں کو انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے والے موبائل فون مہیا کر رہی ہے اور ان خواتین کو گاؤں کی ’’ ٹیلی فون لیڈیز‘‘ بنا رہی ہے ۔ آج ،۲۰۰۳ء ؁ میں ۲۱۰۰۰ ٹیلی فون خواتین ٹیلی فون کی سہولتیں تمام بنگلا دیش کے آدھے گاؤوں میں بیچ رہی ہیں۔ ان میں بہت بڑی تعداد شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیلی فون ہیں کیونکہ ان گاؤوں میں بجلی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ اگر ہم انکے لئے مناسب سہولیات ڈیزائن کر سکے تو جلد ہی یہ خواتین ’’ انٹرنیٹ لیڈیز‘‘ بن جائیں گی ۔ ٹیکنالوجی پہلے ہی انکے ہاتھوں میں ہے جب کہ غریب لوگوں کی لئے ٹیلی کمیونیکیشن کی سہولیات وسیع کی جا رہی ہیں اور گرامین فون پہلے ہی بہت اچھا کاروبار کر رہی ہے ۔وہ اپنی خدمات کو بنگلا دیش میں اسقدر پھیلانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ وہ آغاز کے بعد اپنے ابتدائی پانچ سالوں میں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی بن گئی ہے ۔
گرامین بنک نہ صرف معاشی سہولتوں کو مرکز نگاہ بنا رہا ہے بلکہ یہ ایک سماجی ایجنڈے کو بھی تقویت دے رہا ہے ’’سولہ فیصلے‘‘ جنہیں گرامین بنک کے قرضداروں نے اختیار کیا ہے وہ یہ ہیں کہ وہ بہت ساری غیر معاشی تبدیلیوں کو اپنی زندگی میں لانے کا ذمہ لیں گے مثلا اپنے کنبے کو چھوٹا رکھنا ، بچوں کو سکول بھیجنا اور یقینی بنانا کہ وہ سکول میں پڑھائی جاری رکھیں گے ، دلہا کے خاندان کو جہیز دینے کی رسم کا خاتمہ کرنا ، یہ یقینی بنانا کہ وہ صاف پانی پئیں گے وغیرہ ۔ سولہ فیصلوں کی وجہ سے گرامین کے قرض داروں نے اس چیز کا بہت زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا ہے کہ انکے بچے سکول جائیں۔ آج نہ صرف وہ تمام بچے سکول جاتے ہیں بلکہ ان میں سے کچھ کالجوں میں بھی جاتے ہیں ، وہ یونیورسٹیوں اور پیشہ وارانہ سکولوں میں جا رہے ہیں۔ گرامین بنک یہ امید رکھتا ہے کہ قرض داروں کی دوسری نسل نالج اکانومی سے فائدہ اٹھا کر پروان چڑھے گی اور ہمیشہ کے لئے غربت سے دور چلے جائے گی۔گرامین بنک ہر سال گرامین فیملی کے لِیڈنگ طالب علموں کو تقریباً چار ہزار وظائف پیش کررہاہے ۔ اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طالب علموں کو سو فیصدی سٹوڈنٹ لُون دیا جاتا ہے ۔ ایک اور گرامین کمپنی جسے گرامین ایجوکیشن کہا جاتا ہے طالب علموں کو اسکالرشپ مینجمنٹ سروس مہیا کرتی ہے ۔ اگر ایک ضامن ایک لاکھ ٹکا یا ۱۷۲۴ ڈالر کی قابلِ واپسی گرانٹ مہیا کرے تو اپنی مدت پوری کرنے تک یا جب تک یہ رقم گرامین ایجوکیشن کے پاس رہے گی ۵۰۰ ٹکے یا آٹھ اعشاریہ چھہ دو ڈالر فی مہینہ یا گرانٹ کی رقم پر چھ فیصد فی سال کے حساب سے کسی بھی غریب طالب علم کووظیفہ دیا جاتا ہے بغیرکسی شرط کے کہ اسکا تعلق گرامین سے ہے یا نہیں ہے ۔ گرامین ایجوکیشن امید کر رہی ہے کہ وہ ا ن وظائف کے لئے کئی لاکھ ضامنوں کو ڈھونڈہ لے گی تا کہ نالج اکانومی اور گلوبلائیزیشن کے لئے بنگلا دیش کی لڑکے اور لڑکیوں کو تیار کیا جا سکے۔
انفرمیشن ٹیکنالوجی ایک بہت بڑی مدد دے سکتی ہے ۔ مائیکروکریڈٹ کی مدد سے انفرمیشن ٹیکنالوجی ،مارکیٹ کی ساتھ رابطے کے لئے اور مارکیٹ سے براہ راست معلومات حاصل کرنے کے لئے اور جدت پسند فنانسنگ کے بہترین مواقع کے لئے، دروازے کھول سکتی ہے۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی مارکیٹ اور غریب کے درمیان موجود درمیانی لوگوں کے طبقے کو خارج کر سکتی ہے ۔ایک غریب شخص ،مرد یا عورت، اپنے طور پر معاشرے سے علیحدہ کیا ہوا ایک جزیرہ ہے ۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی اس تنہائی کا خاتمہ صرف رات بھر میں کر سکتی ہے ۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک غریب شخص دنیا کے سنٹرل شاپنگ مال پر ہو سکتا ہے جہاں اس کی رسائی نہ صرف فنانس اور مارکیٹ تک بلکہ ہیلتھ، ایجوکیشن ، آئیڈیاز اور دوستی تک ہو سکتی ہے ۔ اگر ہم انفرمیشن ٹیکنالوجی کو غریب کی ضرورت کے مطابق ڈیزائن کرلیں توغربت کے خاتمے میں انفرمیشن ٹیکنالوجی مائیکروکریڈٹ کے ساتھ مل کر ڈرامائی نتائج دلا سکتی ہے ۔ اسے بڑی آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور تا دیر قائم بھی رکھا جا سکتا ہے ۔
سوشل اینٹرپرینورز، انفرمیشن ٹیکنالوجی اور مائیکروکریڈٹ گلوبلائزیشن کو سیدھی سمت میں لانے کے لئے بڑا اہم رول ادا کر سکتے ہیں اور ۲۰۱۵ تک غربت کو نصف کرنے میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔
دولتِ مشترکہ کا کردار
دولتِ مشترکہ ، ایک ارب ساٹھ کروڑ لوگوں کی مشترکہ آبادی کے ساتھ ، محکوم رہنے والی قوموں کے نیٹ ورک کا حصہ رہی ہے ۔ محکوم رہنے کے باوجود یہ (قومیں) ابھی تک اپنے لئے نمایاں جگہ رکھتیں ہیں۔ یہ ، بہت امیر اور بہت غریب ملکوں کے خاندان ہونے کے ناطے ،۲۰۱۵ تک غربیوں کو نصف کرنے کے ایجنڈے کو ، دولتِ مشترکہ کی قوموں میں سب سے زیادہ فوقیت دلا سکتی ہیں ۔اس منزل کو حاصل کرنے کے لئے یہ دولتِ مشترکہ کی ہر قوم کے لئے روڈ میپ ترتیب دے سکتی ہے ،سہ ماہی یا شش ماہی،ملک سے ملک ، ترقی کو مانیٹر کر سکتی ہے اور ان معلومات کو تمام اقوام سے شےئر کر سکتی ہے اور اپنے تجربات کا تبادلہ کرسکتی ہے۔
ا میر اور غریب ممالک کے لئے دولتِ مشترکہ اپنے اصول و ضوابط (code of conduct ) وضع کر سکتی ہے اور خاندان میں اس پر عمل درامد کرا سکتی ہے، اسے حتمی طور پریقینی بنایا جائے کہ عالمگیریت کام کرے غریب ملکوں کے لئے جتنا کہ یہ کام کرتی ہے امیر اور امیر ملکوں کے لئے ۔دولتِ مشترکہ کی قوموں کا خاندان یہ مظاہرہ کر سکتا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ اور یہ اتنا مشکل نہیں ہے جتنا کہ یہ نظر آتا ہے ۔
دولتِ مشترکہ سماجی کاروباری لوگوں کو ترقی دینے کے لئے ایک بڑے پروگرام کی طرف توجہ دے سکتی ہے ا ور ان کے لئے مددگار قانون سازی کر سکتی ہے اور پالیسیاں وجود میں لا سکتی ہے ۔ یہ ایک علاقہ ہے جہاں تمام دنیا میں دولتِ مشترکہ ایک نمایاں اثر دکھا سکتی ہے ۔ دولتِ مشترکہ کی قومیں سماجی کاروباری لوگوں کی ایک لمبی روایت رکھتیں ہیں۔ ان کی لئے کچھ بھی نیا نہیں ہے ۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انھیں اپنی قوموں کے سماجی اور معاشی مستقبل کے سنجیدہ معماروں کے طور پر قبول کیا جائے۔ اسکی بجائے کہ پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر کی اصلاحات میں سوچا جائے ہمیں پبلک سوشل سیکٹر ، پرائیویٹ سوشل سیکٹر،اورپرائیویٹ پرافٹ سیکٹر کی اصلاحات میں سوچنا چاہے۔جبکہ دولتِ مشترکہ کو قوموں کے ایک ’’خاندان‘ ‘ ہونے کے ناطے ایک مثال قائم کرنی چاہیے کہ خوشحالی میں حصہ داری کے مشترکہ مقصد کے لئے کیسے ایک خاندان کے لوگ اکٹھے کام کرتے ہیں۔ دنیا کو آج اچھی مثالوں کی ضرورت ہے۔ دولتِ مشترکہ ایسی مثالیں مہیا کرنے کی لئے اچھی جگہ ہے ۔
دولتِ مشترکہ مثال قائم کر سکتی ہے غریبوں کے لئے خودروزگار پیدا کر نے کے لئے معاشی سہولتوں کووسیع پیمانے پر پھیلا کر اور غریبوں کو تیار کرکے کہ عالمگیریت کے فوائد انکے گھروں تک پہنچائے جا سکیں ۔ یہ مدد کر سکتی ہے ٹیلی کام اور آئی ٹی سیکٹر کے دروازے غریب ممالک کے لئے کھول کر اور ان سہولتیں کوغریبوں تک پہنچا کر ۔ یہ مثال پیدا کر سکتی ہے غریب خاندانوں کے جوانوں کو نالج اکانومی کے لئے تیار کر کے اور کوالٹی ایجوکیشن اور کاروبارکے تجربے کے لئے دروازے کھول کر۔ گیارہ ستمبر کے پس منظر میں جنوب کے جوانوں کے لئے ، امیر ممالک کے دروازے یا تو بند کئے جا رہے ہیں یا تنگ کئے جا رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بُری علامت ہے غریب ملکوں کے لئے جو عالمگیریت کے لئے تیار ہنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
دہشت گردی کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہونے کے لئے دولتِ مشترکہ کو واضح کر دینا چاہیے کہ دہشت گردی ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے میدان جنگ میں فتح کیا جا سکتا ہے ۔ اسکا خاتمہ کرنے کے لئے ہمیں دہشت گردی کی بنیادی وجہوں کو ختم کرنا ہو گا ۔ اسکی بڑی وجہوں میں سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ اس پس منظر میں ۲۰۱۵ء ؁ تک غربت کو نصف کرنے کی منزل کو حاصل کرنا بہت زیادہ اہم بن جاتا ہے ۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ دولتِ مشترکہ ہمیشہ امن کی ساتھ کھڑی ہو ؛ اپنی آواز اٹھاتی رہے اور جنگ کودور کرنے کے لئے اپنے اخلاقی اثر کو استعمال کرے ۔ امن کا راستہ سُست ہے تکلیف دہ ہے اور مایوس کن ہے لیکن یہ لوگوں کے درمیان قابل تائید حل اور ہم آہنگی لاتا ہے ۔ امن انسانوں میں بہترین لاتا ہے جبکہ جنگ لاتی ہے بد ترین۔
ہاں ہم کر سکتے ہیں
اب بحث طلب سوال کی طرف واپس آتے ہیں؟ کیا ہم واقعتا ،۲۰۱۵ء تک، حد سے زیادہ بڑھی ہوئی غربت میں نصف کی حدتک کمی کر سکتے ہیں؟ میرا واضع اور پر زور جواب ہے ، ہاں ہم کر سکتے ہیں۔ ہم اس سے بھی زیادہ کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو تیار کر سکتے ہیں ایک راستے کے لئے ، دنیا سے ہمیشہ کے لئے غربت کو ختم کرنے کے راستہ۔ہم تیار ہو سکتے ہیں کہ غربت کو عجائب گھر میں بھیج دیں، جہاں سے کہ اس کا تعلق ہے ۔ ہر انسان بہت زیادہ سوجھ بوجھ رکھنے والا ہے اور ذہین ہے کہ غربت کی بدبختی کو جھیلتا ہے ۔ غربت اور نوعِ انسانی کبھی بھی اکٹھے نہیں چل سکتے۔ لیکن حقیقت میں یہ اس لئے ہو ا ہے کہ ہم نے غلط روایت قائم کی ہے جو غریب لوگوں کو یہ سمجھنے ہی نہیں دیتی کہ وہ اپنی طاقت کو جان سکیں۔ جو سب کچھ ہم نے کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اُس بھاری خول کو ان سے الگ کیا جائے جو انکی صلاحیتوں کو خود ان کی لئے اجنبی بنا رہا ہے۔
لوگوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ اپنی تمام چھپی ہوئی طاقت کو تلاش کریں یہی ایک ایجنڈا ہے جسے ہمیں سنجیدگی سے لینا چاہے ۔ ۲۰۱۵ء کی منزل کو حاصل کرنے کے لئے کہ اسے ایک بہت بڑی کامیابی بنایا جا سکے ہمیں اپنی سنجیدہ کوششوں کو یقینی بنا نا ہو گا ۔ یہ منزل، غربت کو نصف کرنے کی منزل ،۲۰۱۵ء تک ضرور حاصل ہو جائے گی ؟ اگر ہم اپنے ہوشمند (sensible ) زی حس (sensitive ) اور تخلیق کار ہونے پر فخر کر سکے تو۔ ‘‘

استفادہ

1.Stray Bird by Rabindranath Tagore
2.Professor Muhammad Yunus, Wikipedia
3.Professor Muhammad Yunus and Grameen Bank Awarded the Nobel Peace Prize for 2006,
4.Grameen Bank different From Convential Banks? by Muhammad Yunus, August-2006
5.A Short Hisotry of Grameen Bank
6.Grameen Latest News: releases dated October 15, 2006
7.Social Business Enterpreneurs Are the Solution,
8.Commonwealth Lecture 2003 by Muhammad Yunus
9.Nobel Peace Prize, Microcredit, Muhammad Yunus
10. The Nobel Peace Prize-2006,
11.Interview With Prof. Muhammad Yunus by George Negus dated 25-03-1997
16.Muhammad yunus, wikiquote
26.Twenty Great Asians, Asiaweek