وادی موصل اور کوچم کیسل کی سیر

زیرِ تصنیف کتاب ’’ہائیڈل برگ کی ڈائری ‘‘سے کچھ صفحات

لکھاری کی تصویر
صاحب مضمون، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر

وادی موصل اور کوچم کیسل کی سیر

(ناصر عباس نیر)

کل مجھے اتفاقاً معلوم ہوا کہ بین الاقوامی سکالر (پوسٹ ڈاکٹرل سکالر) کے لیے قائم یونیورسٹی کے ’ویلکم سنٹر‘ نے وادی موصل اور کوچم کیسل کی سیر کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے لیے پہلے آن لائن رجسٹریشن کرانا لازمی تھی، مگر جب مجھے معلوم ہوا تو رجسٹریشن کا وقتِ مقررہ گزر چکا تھا۔ بہ ہر کیف کچھ معلومات کے سہارے میں آج صبح پونے آٹھ بجے اس گیسٹ ہاؤس پہنچ گیا، جہاں سے بس نے روانہ ہونا تھا اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بس میں چند نشستیں خالی تھیں__ ڈھائی گھنٹے کی مسافت تھی۔ مختلف ملکوں کے لوگ تھے۔ زیادہ لوگ چین سے تھے، کچھ انڈیا سے، اٹلی، بیلجیم سے بھی تھے۔ مسٹر ہانس اور نینا اس ٹور کے انچارج تھے۔ مسٹر ہانس نے اپنی واجبی سی انگریزی میں ٹور کے مقامات و اوقات کی تفصیل بتائی۔ بس نے پہلا پڑاؤ راستے میں ایک قہوے خانے پر کیا،جسے یہاں بِسٹرو کہا جاتا ہے۔ یہاں فقط قہوا، چائے ہی نہیں ملتے ہر طرح کے مشروبات اور سنیکس بھی ملتے ہیں۔ میں نے کافی پی__ کوئی ایک گھنٹے بعد بس وادی موصل میں داخل ہو گئی۔ اسے موصل (Mozelle) دریا کی نسبت سے وادی موصل کہا جاتا ہے۔ درمیان میں دریا ہے اور دونوں طرف سرسبز پہاڑ ہیں۔ پہاڑوں کی ڈھلانوں پر انگور کے باغات ہیں جو نہایت سلیقے اور سخت محنت سے اگائے گئے ہیں۔ قطار در قطار انگور کی بیلوں کو لاٹھی نما لکڑیوں پر لپیٹ دیا گیا ہے۔ یہ لوگ انگور کے باغات کو وائن یارڈ یا وائن گارڈن کہتے ہیں۔ چناں چہ دکانوں پر انگور کم کم ملتے ہیں اور ان سے بنی شراب زیادہ ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں شراب، پانی سے بھی زیادہ ملتی ہے اور پانی کے مقابلے میں کہیں ارزاں ملتی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ نشے میں شاید ہی بے قابو ہوتے ہوں۔ کم از کم میں نے ابھی کسی کو نشے میں لڑکھڑاتے یا بکتے جھکتے نہیں دیکھا۔ حالاں کہ دو آتشہ نشے (شراب اور حسینہ) سے ’بغل گیر‘ ہوتے بارہا دیکھا ہے__ دریا کے دونوں کناروں پر کشادہ پختہ سڑکیں ہیں اور راستے میں کئی چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں۔ جہاں دریا کے کنارے پر گھاس کے کچھ تختے آتے ہیں، وہاں سیاحوں نے خیمے لگائے ہوئے تھے۔
بس پونے گیارہ بجے کو چم شہر پہنچی۔ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے اور خاصا پرانا۔ یہ رومیوں، فرانسیسیوں اور پولینڈ کے رہنے والوں کے قبضے میں رہا ہے اور اب جرمنوں کے پاس ہے۔ یہاں کی خاص چیز یہاں کا کیسل ہے اور اسی کی سیر کے لیے ہم بطور خاص آئے تھے۔ اس کیسل کو دریا کے عین کنارے پر، وہاں کی سب سے بلند پہاڑی چوٹی پر قائم کیا گیا ہے۔ شہر کے اس کی بلندی سومیٹر ہے۔ شہر کی مرکزی سڑک سے ایک سڑک نکال کر کیسل تک پہنچا دی گئی ہے۔ گیارھویں صدی عیسوی میں یہ کیسل تعمیر ہوا تھا۔ ابتدا میں پولینڈ کے شاہی خاندان کے پاس تھا۔ پھر فرانسیسی طالع آزماؤں نے اسے جلایا اورگرایا۔ آج کے ’مہذب یورپی‘ ماضی قریب میں سخت وحشیانہ کارروائیاں کرتے رہے ہیں، جنھیں اب امریکا نے جاری رکھا ہوا ہے__ کیسل سیاہی مائل پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ باہر سے ایک نظر کیسل پر ڈالنے سے سختی و سنگینی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ یہ سختی و سنگینی محض بڑے بھاری پتھروں کے ننگے پن سے ہویدا نہیں ہوتی، بلکہ وحشی کلچر کی نفاست سے عاری، ناقابلِ تسخیر حصار بندی کا مظہر بھی ہے۔ کیسل کے طرزِ تعمیر میں گوتھک انداز بھی موجود ہے، مگر یہ اس انداز میں نمایاں نہیں، جس طور پر یہکو چم شہر ہی کے بڑے چرچ میں د ور سے نمایاں ہے۔ کیسل باہر سے جس قدر نفاست سے عاری نظر آتا ہے، اندر اسی قدر نفاست ہے۔ تاہم وحشیانہ طرز یہاں بھی موجود ہے، لیکن ایک اور ڈھنگ سے!
یہ ایک میرسیاحت(گائیڈ) کی راہنمائی میں کی گئی سیاحت تھی ۔ پولینڈ کی ایک خوبصورت اور باوقار خاتون میر سیاحت تھیں۔ اس میں علم سے زیادہ مہارت اور مزاح کے عناصر تھے اور سیاحوں یہی زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ مجھے توہر طرح کے میرسیاحتسے وحشت ہوتی ہے،خواہ وہ ایک نوجوان ،خوب صورت خاتون ہی کیوں نہ ہوا ۔ یہ مخلوق محض قابل دید اشیا و مقامات کے راستے میں حائل ہی نہیں ہوتی، سیاح پر حاوی ہونے کی کوشش بھی کرتی ہے، خصوصاً اپنی پرفارمنس کے ذریعے۔ آدمی اشیا و مقامات کو دیکھنے کی بجائے ان کی پرفارمنس سے محظوظ ہونے لگتا ہے۔ سیاحت تو محبت کی طرح ہوتی ہے، جس میں تیسرا شخص محبت کا دشمن ہوتا ہے__ خیر! کیسل کے اندر کئی اپارٹنمنٹ، کمرے اور حصے تھے۔ اسے بیسویں صدی کے اوائل میں برلن کے ایک امیر زاویے نے خرید لیا تھا اور ۱۹۷۸ء تک یہ اس کے خاندان کا گرمائی گھر رہا ہے۔ ۱۹۷۸ء کے بعد یہ کو چم شہر کی انتظامیہ کے پاس ہے۔ لہٰذا کیسل کے اندر کی دنیا دراصل ایک ارسٹوکریٹ کی پرآسایش رہائش گاہ ہے۔ ڈرائنگ ،ڈائنگ اور بیڈ روم۔ پرانی قیمتی اشیا، تاریخی پینٹنگز وغیرہ۔ ان میں کئی چیزیں خاص تھیں۔ ڈائنگ روم کو عبور کریں تو ایک کاریڈور ہے۔ وہاں چھت پر ایک انوکھی اساطیری شے لٹکی ہوئی تھی،جسے لکڑی اور دھات سے بنایا گیا تھا۔ وہ چہرے سے ایک مرد، چھاتیوں سے عورت اور نچلے دھڑ سے بیک وقت مچھلی اور بچھو معلوم ہوتا/ہوتی ہے۔ ہاتھ میں مشعل ہے،جو قوس کی شکل کا ہے اور اڑان بھرنے کے انداز میں ہے۔ یہ جان کر حیرت نہیں ہوئی کہ اس انتہائی مضبوط کیسل میں رہنے والے خوف سے آزاد نہیں تھے۔ کیسل کی سنگین دیواریں اور بھاری مقفل دروازے اور چاروں طرف پہرے دار، حملہ آوروں کے خوف کو تو کم کر دیتے تھے، مگرآسمانی شیطانی آفات کا ڈر باقی رہتا تھا،یعنی دولت و طاقت کے چھن جانے کے لاشعور ی خوف سے ۔ گائیڈ نے اس عجیب شے کو مائیک کا نام دیا تھا۔ مائیک ان آفات کو کیسل سے دور رکھتی تھی۔جیسے ہمارے یہاں دروازے میں تعویذ لٹکا کریہ سمجھا جاتاہے کہ دروازے سے کوئی مصیبت نہیں آئے گی۔وہ چھت سے لٹکی ہوئی تھی،کہ چھت سے کوئی عفریت قلعے میں داخل نہیں ہوگا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مائیک کی فقط موجودگی بھوتوں، ڈائنوں اور پچھل پیریوں سے بچانے کی ضمانت نہیں تھی، بلکہ ایک خاص رسم بھی ادا کرانا ضروری تھا۔ اسے چھو کر گزرنا اور اس کو اپنے سر( اور چھت )پر محسوس کرنا لازم تھا__ سیاح ہنس رہے تھے۔ کسی عجیب بات ہے! ایک زمانے کے لوگ جن رسموں کو بے حد سنجیدگی سے انجام دیتے ہیں، دوسرے زمانوں کے لوگ ان کا مضحکہ اڑاتے ہیں (اور اس میں بڑا ہاتھ گائیڈ کی پرفارمنس کا تھا!)ویسے،کیا خبر آنے والے زمانوں میں ان روشن خیال عقلیت پسندوں کی بعض باتوں کو توہم قرار دے کر ان کا بھی تمسخر اڑایا جائے۔خیر،اس سے ایک بات تو واضح ہوئی کہ جس یورپ کو ہم صرف فلسفے، سائنس، روشن خیالی کا حامل سمجھتے ہیں، وہاں زمانہ قریب میں اسی طرح کی رسمیں موجود تھیں، جنھیں ہمارے یہاں دیکھ کر ہمیں توہم پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتاہے۔
کیسل کے ہر کمرے میں عجائبات تھے۔ ایک کمرے میں خوں خوار جانوروں اور پرندوں کے حنوط شدہ جسم تھے، جنھیں اس کیسل کے مہم جو شکاریوں نے اپنی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ شکر ہے ان سورماؤں نے اپنے انسانی دشمنوں کی یادگاروں کو محفوظ نہیں کیا تھا۔ ایک بڑے ہال نما کمرے میں مصوری کے شاہ کار تھے۔ دومشہور کلاسیکی مصوری کے شاہکاروں کی نقول دیواروں پر لگائی گئی تھیں۔
اسی کمرے میں موسیقی اور مے کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا اور یہ کمرہ عین اس کمرے کے بغل میں ہے، جہاں دشمن جانوروں کے حنوظ شدہ جسم محفوظ کیے گئے تھے۔تمام طرح کے ارسٹوکریٹوں،کیا مشرق کیا مغرب،سب کے طرزِ زندگی میں بہادری یعنی درندگی کے پہلو بہ پہلو آرٹ موجود ہوتا ہے۔دشمنوں، بھائیوں،باپوں کے گلے کاٹنے والے بادشاہ شاعروں ،مصوروں ،موسیقاروں ،علما، فلسفیوں کے بھی سرپرست ہوتے تھے ۔کیا یہ اس بات کا مظہر تھا کہ انسان اپنی بربریت کے نتیجے میں پاگل پن کا شکار ہونے سے بچنے کے لیے آرٹ میں پناہ لیتا ہے یا پھر جسے میں بربریت کہ رہا ہوں، وہ ان لوگوں کے لیے ایک اور آرٹ ہو،جس سے وہ واقعی اسی طرح لطف اندوز ہوتے ہوں ،جس طرح ہم جیسے کمزور دل ٹی وی پر ریسلنگ یا باکسنگ کے مقابلوں سے خوش ہوتے ہیں؟
ڈیڑھ گھنٹہ دوپہر کے کھانیکے لیے دیا گیا۔ میں نے ویت نامی ریستوران سے نوڈل کھائے۔ دراصل زہرمار کیے۔ یہاں کے کھانے میرے نہ تو حسبِ ذائقہ ہیں نہ میری احتیاط پسند طبیعت کے موافق۔ پونے دو بجے وہاں سے روانہ ہوئے۔ اگلی منزل ترابن ترا باخ تھی۔ یہاں بس نے جملہ مسافروں کو اتار دیا۔ موصل دریا میں چھوٹی، بڑی کئی قسم کی کشتیاں اور شپ ہیں۔ہم سب ایک دو منزلہ کشتی میں سوار ہوئے اور اگلے دو گھنٹے بس دریا میں سیر کرتے رہے۔ عرصے بعد کشتی کی سیر کی۔ مجھے چھوٹی کشتی میں ڈر لگتا ہے، مگر یہ شپ نما کشتی تھی۔میں آدھا سفر اوپر کی منزل میں رہا اور آدھا سفر نچلی منزل میں۔ مجھے احساس ہوا کہ اصل سیر فقط کشتی کی سیر ہوتی ہے۔ آپ کو کہیں نہیں جانا ہوتا، کسی مقام پر کسی کام سے جانے کا خیال نہیں ہوتا۔ آپ مقام اور کام/مقصد کی زنجیر سے بالکل آزاد ہوتے ہیں۔ بس آپ ہوتے ہیں، دریا کا پانی جو کشتی کے ٹکرانے سے اچانک جاگتا، کچھ پیغام لے کر ساحل دریا تک پہنچاتا رہتا ہے۔ مجھے ناظم ظلمت کی نظم On Living کے کچھ مصرعے یاد آتے رہے:
Living is no laughing matter:
You must live great seriousness
like a squirel, for example…
I mean without looking for something
beyond and above living
I mean living must be your whole
occupation
کشتی میں آپ جینے کی مسرت اور فرصت کا لطف اٹھاتے ہیں،جینے کا کوئی بڑا فلسفہ سوچے بغیر۔آپ اپنے پورے حواس سے ،پانی کو ،سبزے کو،بدلتے مناظر کو،ہلکی ہلکی موسیقی کو، کبھی کبھی ظاہر ہونے والے پرندوں کو، لوگوں کی خوش گپیوں ،یا خاموشی کو،ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھنے کو، کافی کا ایک کپ پینے کومحسوس کرتے ہیں،اور بس!!
کشتی نے ہمیں برنکسٹل کاؤس (Bernkastal-Kues) اتارا۔ یہ عہدوسطیٰ کا شہر ہے، جسے کوئی ایک ہزار برس پہلے آباد کیا گیا تھا۔ شہر کیا ہے، محض آٹھ سو افراد کی آبادی کا قصبہ ہے۔ جدید زندگی کی تمام تر سہولیات ہونے کی بنا پر اسے قصبہ کہنا مناسب نہیں لگتا۔ اس کے گھر، دوکانیں، قہوہ خانے گو تھک طرز کے ہیں۔ گلیاں کہیں چوڑی اور کہیں تنگ ہیں۔ صفائی کا وہی معیار ہے جو جرمنی کے بڑے شہروں میں ہے۔ پرانی عمارتوں میں کئی علامتی پہلو ہوتے ہیں، کہیں تو محض ان کے رنگوں میں اور کہیں مختلف چیزوں کی تصاویر کی صورت۔ کسی دروازے پر شیر کی شبیہ ہے تو کسی نکڑ پر کسی جوانِ رعنا کی۔ یہ عمارتیں زندہ لگتی ہیں اور لوگوں سے گفتگو کرتی ہوئی۔ یہاں آدھ گھنٹہ پھرے۔یہاں زندگی کے آہستہ پن نے خاص طور پر متاثر کیا۔ بچوں کے لیے کچھ تحائف اور سووینیر خریدے۔
رات نو بجے واپس گیسٹ اپارٹمنٹ پہنچا۔ بدن تھکا ہوا، مگر روح تازہ و شاداب!

About ناصر عباس نیرّ 36 Articles
ڈاکٹر ناصرعباس نیر اردو زبان کے تنقیدی ادب کا ایک با اعتبار حوالہ ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مستند کتابوں کے مصنف ہیں: ان میں ● جدید اور مابعد جدید تنقید ● لسانیات اور تنقید ● متن ،سیاق اور تناظر ● مجید امجد: حیات، شعریات اور جمالیات ● ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری ● مابعد نو آبادیات اردو کے تناظر میں ● اردو ادب کی تشکیل جدید شامل ہیں۔ ان کی زرخیز ذہنی صلاحیتوں کے با وصف ہم یقین رکھ سکتے ہیں ک کتابوں کی یہ فہرست بڑھتی ہی جائے گی۔ حال ہی میں فکشن میں بھی اپنا ایک توانا حوالہ اپنی افسانوں کی کتاب ●خاک کی مہک کی صورت مہا کر چکے ہیں۔ جبکہ ● چراغ آفریدم انشائیہ کی طرف ان کی دین ہے۔ ● اردو تنقید پر مغربی اثرات کے عنوان سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ ہائیڈل برگ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں۔ ite here abotu Nasir abbas