(جنیدالدین)
1912ء میں پہلی دفعہ اس نے خود کشی کی کوشش کی اور 1941ء تک یہ سلسلہ تھوڑے تھوڑے وقفوں سے جاری رہا۔ یہ کوشش نہ تو غم یار کے باعث تھی نہ غم روزگار مگر نفسیاتی کشمکش کے زیر اثر۔
بالآخر 28 مارچ 1941ء کی صبح اس نے بڑا سا کوٹ پہنا، اس کے اندر پتھر بھرے اور گھر سے نکل کر تھوڑے فاصلے پر واقع آوزے نامی دریا میں چھلانگ لگا دی جس کے بیس دن بعد 18 اپریل 1941 ء کو اس کی لاش نکالی گئی. ہو سکتا تھا کہ کوئی اسے چھلانگ لگاتے وقت دیکھ لیتا, وہ تیرنا جانتا، چھلانگ لگاتا اور کسی ہیرو کی طرض پیٹھ پیچھے لاد کر باہر نکل آتا. پھر کیا ہوتا؟ شاید ادب کے قارئین کو اس واقعہ کے بعد، اسی کے تناظر اور باہم نفسیاتی کشمکش کے رد عمل میں کوئی شاہکار مل جاتا یا نسوانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو کوئی مستند منشور ہاتھ آجاتا یا نفسیات دان کوئی نظریہ اخز کر لیتے۔
لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہوا اور نسوانی حقوق کی اولین علمبردار ورجینیا وولف راہ عدم سدھار گئی.
صحافت اور ادب کے باہمی تعلق پہ بہت سی تعریفیں وضع کی گئی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ صحافت جلدی میں لکھا جانے والا ادب ہے. اسی پس منظر میں اگر صحافی اور ادیب کو پرکھا جائے تو یہ لکیر تھوڑی مزید واضح ہو جاتی ہے. گوکہ صحافی اور ادیب دونوں ایک ہی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن صحافی کا انداز تحریر معاشرے میں پھیلی مایوسی,ل، پریشانی، تذبذب، ناانصافی کا احاطہ تو کرتا ہے لیکن وہ جذبات اور کرب پیدا نہیں کر سکتا. بقول فارسی شاعر : گلاب کی شاخ کے نیچے سانپ کی ڈسی ہوئی بلبل کی تکلیف اے گویے تو کیسے جان سکتا ہے جس نے یہ تکلیف سہی ہی نہیں۔
یہ تکلیف و درد کوئی ادیب ہی جان سکتا ہے جس کی تحریر اس کی ذات کا کتھارسس ہوتی ہے. مزید کہ ادیب جب کوئی فرضی کہانی لکھتا ہے تب اپنا سارا مشاہدہ، اذیت، بے چارگی اور کوسنے اپنے کرداروں کے منہ میں ڈال دیتا ہے۔
بین الاقوامی ادب کے قاری جانتے ہیں کہ سارتر کا ناول متلی انہی ایام کا قصہ ہے جب انہوں نے خود کو ساری دنیا سے لا تعلق کر کے ایک کمرہ میں قید کر لیا. دوسرا اگر روسی نژاد مصنف ایوان ترگنیف کھلاڑی کی نوٹ بک میں مزارعوں کی حالت پہ کڑھتا اور باپ اور بیٹے نامی ناول میں نہلسٹ نظریہ کی ترویج کرتا دکھائی دیتا ہے تو کیا حقیقت میں وہ کوئی بالکل مختلف انسان تھا؟ نہیں مگر اس نے اپنی ساری زمین اپنے پانچ ہزار مزارعوں میں تقسیم کر کے انہیں آزاد کر دیا۔
کافکا کا بھی یہی حال تھا کہ اس کی جس کہانی نے جنوبی امریکہ کے سب سے بڑے ناول نگار گارشیا مارکیز کو احساس دلایا کہ وہ بھی اسی کی بیماری اور ذہنی اذیت کو بیان کرتی ہے. کافکا اس درجہ بیمار ہوا کہ بستر سے نہ اٹھ سکتا. مسلسل ایک ہی جگہ پڑے رہنے کے سبب اس کا پیٹ پھول گیا اور کسی ماورائی مخلوق کی مانند دکھائی دینے لگا. کافکا نے اپنی لازوال کہانی کا آغاز ان الفاظ سے کیا:
“ایک صبح جب گریگور سامسا اپنے خوابوں سے بیدار ہوا تو اس نے اپنے آپکو ایک بڑے سے کاکروچ کی شکل میں تبدیل ہوا دیکھا۔”
گارشیا مارکیز کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ سطر پڑھی تو بستر سے اچھل پڑا اور سوچنے لگا کہ کیا کہانی ایسے بھی لکھی جا سکتی ہے اور کیا ایسا لکھنے کی بھی اجازت ہے.
جدید افریقی ادب کے بادشاہ چینوا اچیبے نے تیسری دنیا کے سیاستدانوں کو ہدف تنقید بنایا۔ ان کے ناول ٹوٹی بکھرتی چیزیں نے بین الاقوامی سطح پر افریقی تہذیب، ثقافت، تاریخ اور فلسفہ کے متعلق متعین کردہ تمام مفروضوں کو نیست و نابود کر دیا. اس سے اول مغرب جان کونریڈ کے ناول ” تاریکی کا دل ” سے افریقی اور سیاہ فام لوگوں کا ناپ لیتا تھا۔
تمام تر تحریر کا بنیادی مقصد اپنے دلائل کو ٹھوس بنیادوں پہ تعمیر کرنے کے سوا کوئی دوسرا نہیں اور انہی بنیادوں پر ورجینیا وولف کی خود شناسی اور حقوق نسواں کی تحریک کی عمارت تعمیر کرنے کی کوشش ہے۔
ان کی تحاریر اور کردار ہیجانی و جذباتی کیفیت کا شکار ایسے افراد ہیں جو ہر لمحہ بدلتی صورتحال میں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں. بیچ منجدھار میں پریشان کے اپنے آپ کو لہروں کو سونپ دیں یا نکلنے کیلئے ہاتھ پاؤں ماریں. دوستوئیفسکی کے مضحکہ خیز شخص کی مانند کے جو سوچتا ہے کہ اگر دنیا کو اس سے فرق نہیں پڑتا تو کیا، اسے بھی اس سے دلچسپی نہیں ہے. وہ پستول خریدتا ہے، گولیاں بھرتا ہے اور میز پہ رکھ کے سوچنے لگ جاتا ہے کہ شاید اس نے پوری طرح مشاہدہ نہیں کیا، ہو سکتا ہے اگر اس کی جیب میں روٹی کا ٹکڑا ہو یا زائد جیکٹ جسے وہ کسی بے گھر ناتواں شخص کو دے دے، اگر کبھی ایسا ہوا تو اس شخص کو اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ضرور فرق پڑے گا۔
وولف کی زندگی بھی ایسے ہی نشیب و فراز کا مظہر لگتی ہے. اس کے ماں باپ دونوں نے دوسری شادی کی اور اس کے بچپن میں ہی وفات پا گئے. نتیجتاً تین مختلف سوتیلے بہن بھائیوں کی موجودگی میں آزاد سوچ اور رائے کی کشمکش نے اسے بہت چھوٹی عمر میں خود شناسی کے فلسفہ پر معکوس کر دیا. گو کہ امارت کے باعث اسے روٹی کپڑا اور چھت جیسے بنیادی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑا لیکن یک بعد دیگرے حوادث نے اسکے دماغ میں کھلبلی مچا دی. وہ بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہو گئی. جس کے مطابق انسان بظاہر تو خوش و خرم نظر آتا ہے لیکن باطنی طور پہ بنجر بن چکا ہوتا ہے. اور اسی تذبذب سے آزادی کی خاطر اس نے پہلی دفعہ خودکشی کی ناکام کوشش کی۔
اس کا پہلا ناول “سمندری سفر” خود شناسی کی طرف پہلا قدم محسوس ہوتا ہے جس میں اس کی ہیروئن اپنے باپ کے بحری جہاز پر سوار دیگر مسافروں کی حالات زندگی کا تجزیہ کر کے زندگی کے متعلق نئے خاکے بناتی ہے. خودکشی کے بعد وولف نے شادی کر لی اور نئی جگہ پر آنے کیبعد ادبی نشستیں منعقد کرنا شروع کیں جس سے اسے دیگر افراد کے مشاہدات کا ادراک ہوا۔
“رات اور دن” میں اس نے شادی، محبت، خوشی اور کامیابی کے باہمی تال میل کا احاطہ کیا. خودکشی سے پیشتر اپنے خاوند کے نام آخری مراسلہ میں اس نے یہی باتیں لکھی کہ اس کے خاوند کی محبت کی ہی بدولت وہ کچھ عرصہ مزید زندہ رہ سکی. اس سے اس لافانی سچ کا جوہر نکلتا ہے کہ محبت، چاہت اور خلوص ہی کامیاب اور خوش کن شادی کے لوازمات ہیں۔
“ٹو دی لائٹ ہاؤس” انسانی رشتوں کی پیچیدگی پہ دلالت کرتا ہے کہ بعض اوقات جو رشتے بڑے بڑے طوفانوں کے آگے سینہ سپر ہوجاتے ہیں کبھی کبھار ہلکی سی آہٹ بھی انہیں تہہ و بالا کر دیتی ہے. وولف کے والدین کا رشتہ بھی ایسے ہی کچے دھاگوں سے بندھا ہوا تھا جیسا مسٹر اور مسز ریمسے کے کرداروں نے بیان کیا ہے۔
اس کی ادبی و نجی زندگی کا دوسرا حصہ نسوانی حقوق پہ مشتمل نظر آتا ہے. اس سلسلے میں سب سے مشہور اس کا ناول ” اورلینڈو ” اور مضمون ” اپنا ذاتی کمرہ” ہے.
اپنا ذاتی کمرہ تو خواتین کے حقوق کیلئے باقاعدہ منشور کی سی حیثیت رکھتا ہے۔
” اورلینڈو” ایک عام سے شخص کی کہانی ہے جو ایک لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بے وفائی کے نتیجہ میں شاعری شروع کر دیتا ہے. پھر اچانک ایک رات مرد سے عورت میں مبتلا ہو جانے کے نتیجہ میں ایک جپسی قبیلہ کیساتھ ہسپانیہ کی طرف نکل جاتا ہے. آنے والے صفحات میں اسے بغیر کسی جسمانی اور ضعیفی فرق کے تین سو سال تک زندہ رکھا جاتا ہے. جس دوران وہ مختلف شاعروں سے ملتا ہے جن میں سے الیگزینڈر پوپ اہم ہے اور بالآخر ایک سمندری کپتان سے شادی کرلیتا ہے۔
اپنا ذاتی کمرہ مختلف لیکچرز کا مجموعہ ہے جو خواتین اور ان کے متعلق تخلیق کیے گئے مردانہ افکار پہ سخت تنقید ہے. اس نے لکھا کہ غربت نے اتنے افراد کی جان نہیں لی جتنی خواتین مصنفین کو دبائے رکھا ہے. آپ کسی خاتون کو ایک کمرہ اور کچھ پاؤنڈ دے دیں. چھ مہینے بعد وہ مرد حضرات سے اچھی کتاب لکھ ڈالے گی. خواتین کو جان بوجھ کر تعلیم سے محروم رکھا گیا. ہاں البتہ ان مضامین کے اندر کچھ ایسے بھی مطالبات رکھے گئے جو کلی طور پر مادر پدر آزادی کے مترادف نظر آتے ہیں اور خاندانی نظام کی کمزوری کا باعث بن سکتے ہیں۔ گو کہ ان مضامین کی اشاعت کے بعد اس کی حیثیت تحریک تنثیت تک محدود ہو گئی لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ پھر بطور فکشن نگار کے جانی جانے لگی۔