وسطی امریکہ کے شاعر ’’ارنستو کاردینال‘‘ کی منتخب نظمیں

تعارف وانگریزی سے ترجمہ: منیر فیاض

۱۹۲۵ میں وسطی امریکہ کے ملک نکاراگوا میں پیدا ہونے والے نوے سالہ ارنستو کاردینال (Ernesto Cardenal) کو ہسپانوی زبان کے موجودہ دور کا انتہائی اہم اور نمایاں شاعر سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں اسے لاطینی امریکہ کے لئے انصاف اور خود ارادیت کی نمائندہ آواز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہسپانوی اور انگریزی دونوں زبانوں میں اس کی شاعری کے ۳۵ سے زیادہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن کے دنیا کی بہت سی زبانوں میں تراجم ہو ئے ہیں اور بہت سی زبانوں میں ایک سے زائد مرتبہ تراجم ہوئے ہیں ۔ تین دہائیوں میں لکھے گئے اس کے کانٹوز کا مجموعہ کاسمِک کانٹیکل (Cosmic Canticle) ۲۰۰۲ میں چھپا جسے معاصر رزمیہ (epic) کا درجہ حاصل ہے۔

کاردینال کا ماننا ہے کہ شعر و فن کا سیاست سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس کی زندگی اور شاعری پر اس کے نظریہ فن کا اطلاق ہوتا ہے۔ وہ نکاراگوا پر بیرونی غاصبانہ قبضے کے خلاف اپنی شاعری کے ذریعے آواز بلند کرتا رہا اوراس انقلابی تحریک کا بھی حصہ رہا جس کے نتیجے میں ۱۹۷۹ میں صدر سوموزا کا تختہ الٹا گیا۔ وہ مارکسی نظریات کا حامل کیتھولک پادری ہے ۔ ۱۹۷۰ تک وہ متشدد انقلاب کا حامی تھا مگر کیوبا کے دورے کے بعد اس کے نظریات میں تبدیلی آ گئی اور وہ سانڈی نِسٹا نیشنل فرنٹ کے عوامی پادری کے کی حیثیت سے کام کرنے لگا ۔ اس دوران اس نے اپنا عیسائی مارکسیت کا نظریہ وضع کیا۔ نتیجتاٍّ اسے مارکسی اور مذہبی دونوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔۔ اس نے اپنے ملک کے مشکل ترین ادوار اور حالات میں شاعری کی۔ ا س کے دورِاوائل کی شاعری پر ایذرا پاؤنڈ اور پابلو نرودا کے اثرات نظر آتے ہیں۔ بتدریج اس نے ان اثرات کو اپنے شعری جوہر سے ہم آہنگ کر کے اپنا منفرد رنگ پیدا کیا۔ نرودا سے اس نے مرموز گوئی کا فن سیکھا اور پاؤنڈ سے تمثیل کا با معنی استعمال اور اپنے موضوعات کے مطابق انہیں شاعری میں برتا۔

وہ نظم میں تجربات کا قائل ہے ۔ اس کی نظم میں انجیل کا کلامیہ اور دقیق علامت نگاری ملتی ہے جسے وہ انقلابی جوش و جذبے سے بیان کرتا ہے۔ وہ موضوع پر اسلوب کی اجارہ داری کا قائل نہیں۔ تاریخ اس کا ایک بڑا موضوع ہے۔ اس کی شاعری میں ارد گرد کی دنیا سے لئے گئے حقیقی واقعات اور اعداد و شمار بھی ملتے ہیں لیکن اس کے باوجود اسکی کی نظم میں خبر کا تاثر نہیں ملتا کیونکہ و ہ ا سے پیچیدہ کے انداز میں بُنتا ہے ۔ اس کی نظموں میں دستاویزی فلموں کا سا تاثر بھی موجود ہے مگر وہ انہیں رنگوں سے بھر پور بنا کے شاعری میں بدل دیتا ہے۔
زیرِ نظر نظم میں بھی ایسا ہی تاثر ہے۔ گو نظم ہالی وُڈ کی خوبصورت ، جواں مرگ اداکارہ مارلِن منرو کی وفات پر لکھی گئی لیکن اس نے نظم کے مرکزے سے ہٹے بغیر بیسویں صدی کے انتشار اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی داخلی تنہائی کا نوحہ بھی لکھ دیا ہے۔نظم میں مارلِن منرو کی زندگی سے متعلق واقعات موجود ہیں لیکن ان سے سوانح نگاری کا تاثر نہیں اابھرتا، شاعری ابھرتی ہے۔

مارلِن منرو کے لئے دعا

خدایا
اس جوان عورت کا اپنے پاس استقبال کر جو دنیا میں مارلِن منرو کے نام سے جانی جاتی ہے
حالانکہ یہ اس کا اصل نام نہیں تھا
(لیکن تجھے تو اس کا اصل نام معلوم ہے، اس یتیم بچی کا جس کا چھے سال کی عمر میں ریپ ہوا،
دکان پر کام کرنے والی اس لڑکی کا جس نے سولہ سال کی عمر میں خود کشی کی کوشش کی)
جو اب تیرے پاس بغیر کسی میک اپ کے آئی ہے
بغیراپنے اخباری نمائندے کے
بغیر کسی فوٹو گرافر کے اور بغیر آٹو گراف کے خواہاں شکاری کتوں کے
ایسے خلا نورد کی طرح اکیلی جسے خلا میں رات کا سامنا ہو
جب وہ چھوٹی تھی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ چرچ میں برہنہ کھڑی ہے
(ٹائم میگزین کے مطابق) لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے جو اپنی پیشانیاں فرش پر رکھے اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں
اور اسے ان کے درمیان سے اپنے انگوٹھوں پر گزرنا پڑا کہ کہیں اس کا پاؤں ان کے سر پر نہ پڑ جائے
تُو تو ہمارے خوابوں کو کسی ماہرِنفسیات سے بہتر جانتا ہے
چرچ، گھر، غار، سب رحمِ مادر جیسی حفاظت کے نمائندے ہیں
مگر اس کے علاوہ بھی کچھ ہیں۔۔۔
یہ تو واضح ہے کہ(اس خواب میں) سروں کا مطلب اس کے مداح ہیں
(سروں کا ایک ہجوم، تاریکی میں روشنی کی ایک کرن کے نیچے)
مگر وہ معبد 20 th Century Fox کا سٹوڈیو نہیں
معبد۔۔مرمریں اور سنہرا۔۔اس کے بدن کا معبد ہے
جس میں ایک ابنِ آدم ہاتھ میں چھانٹا لئے کھڑا ہے
اور اس نے 20 th Century Fox کے سٹوڈیو مالکان کو وہاں سے بھگا دیا ہے
جنہوں نے تیری جائے عبادت کو چوروں کی کمین گاہ بنا دیا ہے

خدایا

یہ دنیا گناہوں اور تابکاری سے آلودہ ہے
تُو دکان پر کام کرنے والی لڑکی کو سارا الزام نہیں دے گا
جس نے، دکان پر کام کرنے والی کسی بھی لڑکی کی طرح، سُپر سٹار بننے کا خواب دیکھا
صرف اتنا فرق ہے کہ اس کا خواب حقیققت میں بدل گیا(ایک ٹیکنی کلرحقیقت کی طرح)
اس نے محض اس سکرپٹ کے مطابق اداکاری کی جو ہم نے اسے دیا تھا
۔۔ہماری اپنی زندگیوں کی کہانی۔ اوریہ ایک احمقانہ سکرپٹ تھا
اسے معاف کرنا،خدایا، اور ہمیں بھی معاف کرنا
ہماری بیسویں صدی کے لئے
اس شاہکار سُپر پروڈکشن کے لئے جس میں ہم سب نے کام کیا
وہ محبت کی بھوکی تھی اور ہم نے اسے خواب آور ادویات پیش کر دیں
کیونکہ ہم اولیاء نہیں ہیں سو ہم نے اس کی مایوسی پر
اسے تحلیلِ نفسی کا مشورہ دیا
یاد ہے ، خدایا، کیمرے سے اس کا بڑھتا ہُوا خوف
اور میک اپ سے اس کی نفرت۔۔اور ہر سِین کے لئے تازہ میک پر اس کا اصرار
اور کیسے یہ دہشت اس میں بڑھتی رہی
اور اس کی سٹوڈیو آمد میں تاخیر ہوتی رہی

دکان پر کام کرنے والی کسی بھی لڑکی کی طرح
اس نے سُپر سٹار بننے کا خواب دیکھا
اور اس کی زندگی ایک خواب کی طرح غیر حقیقی تھی جس سے کوئی ماہرِ نفسیات معنی اخذ کرتا ہے اور اپنے پاس لکھ لیتا ہے

اس کا معاشقے بند آنکھوں سے کئے گئے بوسے جیسے تھے
اور جب اس نے آنکھیں کھولیں
تو اسے پتا چلا کہ وہ بڑی بڑی روشنیوں کے نیچے تھی
انہوں نے ان بڑی بڑی روشنیوں کو قتل کر دیا
اور انہوں نے کمرے کی دو دیواروں کو ہٹا دیا (یہ ایک فلم کا سیٹ تھا)
ہدایت کار اپنی سکرپٹ بُک وہیں بھول گیا
کیونکہ سِین فلمبند ہو چکا تھا۔
یا بادبانی کشتی پر سفر کی طرح، سنگا پور میں بوسے کی طرح،ریِو میں رقص کی طرح

بڑے محل میں وِنڈسر کے نواب اور بیگم کی طرف سے دی گئی دعوت کی طرح
جسے غریب گھر کی چھوٹی سی خوابگاہ سے دیکھا جائے
فلم بغیر آخری بوسے کے ختم ہو گئی
وہ اپنی خوابگاہ میں مردہ پائی گئی ایسے کہ اس کے ہاتھ میں فون کا ریسیور تھا
اور سراغ رساں کبھی یہ نہ جان سکے کہ وہ کسے فون کرنے والی تھی
وہ ایسے شخص کی طرح تھی
جس نے اپنی اکلوتی محبوب آواز سننے کے لئے نمبر ملایا ہو
اور اسے دوسری طرف سے صرف ’رانگ نمبر‘ کی ریکارڈ کی ہوئی صدا آئی ہو
یا ایسے شخص کی طرح جسے غنڈوں نے زخمی کر دیا ہو
اور وہ ایک منقطع فون تک پہنچنے کی کوشش میں ہو

خدایا
وہ جس کسی کو بھی فون کرنے کی کوشش کر رہی تھی
اور کر نہیں سکی (شاید وہ کوئی نہیں تھا
یا کوئی ایسا تھا جس کا فون نمبر لاس اینجلس کی ڈائریکٹری میں نہیں ہے)
۔
تُو اسکی کا ل کا جواب دے دے

6 Comments

  1. Prof munir fayyaz ki tumam tehreerein bohat kamal ki hoti hn.. Ye b apny fun ki ap example hy…

  2. مینرفیاض بے پناہ خوبیوں کا مالک ھے شاید اسے اس بات کا علم خود بھی نہیں ھے اس سے یہ نظم جس کسی نے بھی ترجمہ کرا لی احسان کیا۔ منیر شاعر ھے نظم کو ترجمہ کرتے ھوۓ رویا میں پڑھتے ھوۓ رویا گویا شاعر کا قرض چکا دیا ۔۔۔۔ شکریہ ایک روزن کہ اس روزن سے ھم نے یہ سب دیکھا ۔

  3. ایک بڑی نظم کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرتے ہوئےاصل متن کی روح کوسلامت رکھناکسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔منیر فیاض نے یہ معجزہ کر دکھایا ہے۔(بہت کم جگہوں پر احساس ہوتا ہے کہ ہم ترجمہ پڑھ رہے ہیں، وہ بھی متن کے ثقافتی تفاوت کی بناپر۔) بڑا فن پارہ موضوع اور اُسلوب کی دوئی سے دوچار نہیں ہوتاجیسا کہ نظم خود اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتی ہے، یہ اسلوب کی قوت ہی کا اظہار ہے کہ تیسری زبان میں ترجمہ ہوتے ہوئے بھی شاعری کی دیوی ہم سے کلام کرتی نظر آتی ہے۔

Comments are closed.