وہ جنت کا طلب گار نہ تھا
از، فارینہ الماس
کتاب زندگی کو جتنا بھی پڑھ لیا جائے سوائے بے تابیوں اور کلفتوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ہم بڑے بڑے فلسفے ہانکتے اور پھانکتے رہتے ہیں ۔اپنا تعلق کسی نہ کسی مکتبۂ فکر سے جوڑ کے دوسرے مکتبۂ فکر کی دھجیاں اڑانے میں سکون قلب ڈھونڈتے ہیں ۔یہ درست ہے،وہ غلط ہے، کے نظریات دوسروں پہ تھوپتے اور اپنے تئیں بہت بڑے مفکر،عالم اور متفکر بن جاتے ہیں ۔ہم اس کائنات کو توجہ دینے کی بجائے اسکی توجہ کے طلب گار رہتے ہیں ۔ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ وقت لمحہ لمحہ ہمیں کھا رہا ہے۔زمانہ ہمیں ہڑپ کر رہا ہے۔ہمارے خودساختہ نظریات وافکارکی دیمک ہمارے باطن کو چاٹ رہی ہے۔ہماری عمر کا سمے بیتتا چلا جا رہا ہے۔ہم تحلیل ہو رہے ہیں،تفریق ہو رہے ہیں۔پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ زندگی کی جلتی بجھتی سانسیں آخری ہچکی لے کر سمے کی جھولی میں دم توڑ دیں گی۔ہمارے وجود کا لاشہ جس کی خواہشوں کو پورا کرتے کرتے، جسے سجاتے سنوارتے سال ہا سال بیت گئے وہ اپنی آخری سج دھج کے ساتھ مٹی کی بے رنگ و بدہیت آرام گاہ میں اتر جائے گا۔
یہاں سب خواہشیں،امیدیں،کامیابیاں،ناکامیاں،میلے،تنہائیاں،عہدے،جزبے،حسرتیں ،اپنے،پرائے ہماری مٹی کی ڈھیری پہ لات مار کے چلے جائیں گے۔ہمارے کاسۂ حیات کے نصیب میں کسی دعا یا نیک نامی کا شاید اک ٹکڑا بھی نہ ہو۔اور یہ خالی کاسہ اٹھائے ہم اک نامعلوم سفر کے راہی ہوجائیں۔اس کنارے سے بچھڑے تو اگلے کنارے کیا ہو کون جانے۔پر زندگی ایسی ہی ہے۔کیسی رسوائیاں ہیں ایسے خودغرض زندگی کے بے منزل، بے مراد اور لا حاصل سفر کے بعد۔کسے معلوم۔لیکن وہ انسان کہاں وہ تو ایک فرشتہ تھا۔ تقدیر نے اسے ازل سے ہی منزل کی طرف گا مزن کر دیا تھا ۔وقت نے اسے’’ صاحب منزل ‘‘اور’’ صاحب یقین ‘‘بنا دیا تھا۔وہ ایک ایسا انسان تھا جس نے تپسیا کے لیئے جنگلوں کی طرف رخ نہ کیا بلکہ آستینیں چڑھا کے بے خطر سسکتی،تڑپتی ،سلگتی مخلوق کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں اتر گیا۔اسے نروان کی تلاش نے روح پر دکھ اٹھانے نہیں ،بلکہ روحوں کے دکھ اور درد سہلانے کی تمنا میں مبتلا کیا ۔اس نے اپنا دھیان ٹوٹنے نہ دیا۔دنیا کا کوئی لوبھ ،آلائش اسے اسکے دھیان سے بھٹکا نہ سکے ۔کبھی کوئی طمع اور حرص اسکی راہ کو کھوٹہ نہ کر سکی ۔کیسا خوش نصیب تھا وہ جانے والا جس کے قدموں میں منزل خود نچھاور تھی ۔خدا نے اسے نہ صرف صاحب منزل بنایا بلکہ’’ استقامت سفر‘‘ بھی عطا کی ۔اسی لئے عمر بھر اسکے پاؤں میں لغزش تک نہ آئی۔اور اسے گیان ملا ،نروان ملا جس سے جواز ہستی کا حقیقی گوہر اسکے ہاتھ آیا۔
یوں تو کہا جاتا ہے کہ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں لیکن اگر واقعی انسانیت کا کوئی مذہب ہوتا تو ایدھی اس مذہب کا پیغمبر ہوتا۔سننے میں آتا ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی بیتا ہے جب موت اتنی ارزاں نہ تھی۔مرنے والے کے رخصت ہونے کے بعد گھر بھر تو کیا پورے محلے میں صف ماتم بچھ جایا کرتی تھی۔مرنے والے کے گھر کئی دنوں چولھا نہ جلتا ہمسائے ،عزیز رشتے دار کئی کئی دن یہ بار اٹھاتے ۔کوئی نہ سوچتا کہ مرنے والا کس مسلک،مذہب ،قبیلے و عقیدے کا تھا۔اسکا مرتبہ ،رتبہ بھی کسی کے دھیان میں نہ آتا ۔وہ اچھا تھا کہ برا کسی کو اس سے بھی غرض نہ تھی۔کیوں کہ انسان خود کو خدا کی منصفی کے وصف میں شریک نہ سمجھتا تھا۔اس لئیے اپنے ہاتھ میں نیکی اور برائی کو ماپنے کا کوئی ترازو لئیے نہ گھومتا ۔اسے خدا کا یہ فرمان یاد تھا کہ’’تم کس طرح حق دار ہو سکتے ہو ایسا فیصلہ کرنے کے جس کا حق میں نے تمہیں دیا ہی نہیں‘‘
لیکن اب زمانے کے رواج اور معیار بدل چکے ہیں ۔درحقیقت ہم سب ملاؤں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں ہمارے پاس وعظ وبیان ہیں ۔دلیلیں ہیں تفسیریں ہیں لیکن عمل نہیں ،ہماری آنکھوں میں جنت ودوزخ کے مناظر کی ان دیکھی تصویریں لٹک رہی ہیں ،اپنے تئیں دن بھر ہم خود کو تصور کی آنکھ سے جنت الفردوس کے باغات میں گھومتا پاتے ہیں ۔لیکن اندر ہی اندر ہمیں یہ علم بھی ہے کہ ہم نا اہل ہیں سو اپنی کم مائیگی اورفرسٹریشن کو چھپانے کے لئے ہم ایسے ہی ترازو دن بھر ہاتھ میں اٹھا کے گھومنے پھرنے لگے ہیں اور ملاؤں کی طرح دوسروں کی نیکیوں اور بدیوں کو ماپنے لگے ہیں ۔لیکن ایدھی کو ہمارے کسی قول یا فرمان کی کبھی پرواہ تھی نہ اس سے کوئی لینا دینا جبھی تو وہ خود یہ کہہ گئے کہ ’’مجھے ملاؤں اور سرمایہ داروں کی جنت نہیں چاہیے ۔میرا مشن تو جہنم میں پھنسے لوگوں کی مدد کرنا ہے ‘‘ زرا تصور میں لائیں وہ گلی سڑی ،تعفن ذدہ لاشیں جن کے قریب جانے سے بھی دوسروں کو گھن آتی تھی اور ایدھی آگے بڑھ کر انہیں غسل آخر دیا کرتا۔ اس ملک ہی کیا پوری دنیا سے کوئی ایسا ایک بھی شخص لا کر دکھائے۔ایدھی کو جنت میں جانے کے لئے کسی کی گواہی نہیں چاہیے اور بقول اس عظیم انسان کے اسے تو جنت بھی نہیں چاہئے۔اس لئیے ہمیں اس بحث میں پڑنے کی بجائے آج خود اپنے آپ کو اس جیسا بنانے کی دل میں تمنا کرنی چاہیے ۔ہمیں پیغام اجل ملنے سے پہلے خود احتسابی کرلینی چاہیے۔ہم تو جیسی نفس پرور زندگی بسر کر رہے ہیں ہمارا تو کوئی سوگ بھی نہ منائے گا۔۔اب تو دنیا بہت خودغرض ہو چکی ہے ۔یہاں مرنے والے کوکوئی بھی نہیں روتا ہاں اگر کوئی روتا ہے تو مرنے والے کے بعد خود کو لاحق ہونے والی معاشی محرومی کو ۔باپ مر جائے تو وصیت کے کاغذات ڈھونڈے جاتے ہیں اور اگر ماں دنیا سے رخصت ہوجائے تو اس کے چھوڑے ہوئے زیورات۔آج تو جب میت سڑک سے گزرے تو احتراماًکوئی راستہ بھی نہیں دیتا۔کیسا دکھ ہے کے ہمارا دنیا سے جانا ایک معمول کا واقعہ بن جائے گا۔کوئی آنکھ اشک بار نہ ہوگی ۔کوئی دل ہماری جدائی میں بے قرار نہ ہو گا۔ہمارے ساتھ ایسا ہی ہو گا ۔کیوں کہ ہم اس کائنات کو توجہ دینے کی بجائے اسکی توجہ کے طلب گار رہے۔ہمارے قافلے خود ہمارے ہاتھوں لٹتے رہے ہم پھر بھی ان قافلوں کے سالار بنے رہے۔ہمارے لئے ہمارا فرقہ ،مسلک،قبیلہ اہم رہا اور انسانیت بے معنی۔ہم مقاصد سے بے نیاز زندگی بسر کرتے رہے یا جن مقاصد کے پیچھے بھاگتے رہے وہ بے منزل اور بے مراد مقاصد تھے ۔
آج کے اس مادیت پرست دور میں نفس پروری کو کون جھٹلا سکتا ہے۔بڑے بڑے عالم فاضل لوگ بھی اپنے علم کی دیوار کے پیچھے کیا کیا کرتوت گھولتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ذکر بھی شرمسار کر دیتا ہے لیکن وہ شرمسار بھی نہیں۔کیسی زندگی ہے یہ کہ جو کسی ایک بھی بے آسرا کا سہارا نہ بن سکی۔ اور کیسا خوش نصیب تھا وہ فرشتہ کہ جس عمر میں انسان سہاروں کا محتاج ہو جاتا ہے وہ اس عمر میں بھی ایک وسیع خلقت کا سہارا بنا ۔جب تک انسانیت کا تھوڑا سا بھی بھرم اس دنیا میں قائم رہے گا ایدھی کی حیات مشعل راہ رہے گی ۔کیوں کہ وہ اسوۂحسنہ کا پیروکار تھا ۔ہمیں خدا کا یہ بھی شکر ادا کرنا چاہیے کہ ایدھی صاحب کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوئے بھی خدانخواستہ کسی اندھی گولی کا نشانہ نہ بنے ورنہ ہم انسانیت کے وجود پر ایسا زخم لگا بیٹھتے کہ پھر رہتی دنیا تک یہ زخم رستا رہتا اور ہم کبھی بھی اسے سہلا نہ پاتے۔