(فارینہ الماس)
( پے درپے سانحات میں چلے جانے والو ں کے غم میں نڈھال ،پیچھے رہ جانے والو! تم اس دکھ کی گھڑی میں تنہا نہیں ۔۔۔۔۔) کھڑکی کے اس پار سے تابندہ و درخشاں ’’خوشیوں‘‘ کو حسرت سے تاکتے ’’دکھ‘‘ ہمیشہ انہیں نگلنے کی تاک میں ہی رہتے ہیں۔یہ سیاہ رو،پاجی اور کٹھور دلے دکھ ،جن کا احساس ، لحاظ اور مروت سے کوئی لینا دینا نہیں ،یہ اپنے میلے کچیلے اور بدبودار و شکستہ لباس میں کیسے بدنما اور رزیل دکھائی پڑتے ہیں۔۔۔۔۔اورکھڑکی کے پار نیک منظر و نیک فرجام خوشیاں ، کبھی کسی نئی نویلی دلہن کا دلکش سراپا لئے سمٹی سمٹائی، تو کبھی محبوب کے اچانک دیدار پر بے خودی میں دھمال ڈالے دل کی کیفیت کا واویلہ مچائے دکھائی دیتی ہیں ۔۔۔
پھر یکدم غم کی اک منحوس جھلک کھڑکی کی اوٹ سے نظر آجانے پر یہ خوشی ،سہمی سمٹی اک کونے سے جا لگتی ہے ۔غم کی کالی پرچھائی کسی آسیب کی طرح اس کے بدن پر قابض ہو جاتی ہے۔ دھیرے دھیرے وہ اس کی ساری شادابی و رعنائی کو پی چکنے کے بعد اس کے بدن میں حلول کر جاتی ہے ۔ ۔کب خوشی اک گہرے اور انمٹ دکھ میں بدل جاتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا اوردکھ کے آسیب کو من کی کھڑکی سے باہر دھکیلنا بڑا ہی دشوار ہو جاتا ہے ۔کئی برس ،کئی مہینے،کبھی اک پوری عمر کا دان تو کبھی کبھی کئی پیڑھیاں درکار ہوتی ہیں۔ ۔۔کتنا موہوم سا فاصلہ رہتا ہے عمر بھر خوشی اور غم کے درمیاں ،لکیر کے اس پار دھری خوشی کو پانا دشوار اور غم کا اس فاصلے کو پاٹ لینا کتنا سہل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں معلوم ہے کہ خوشیاں عارضی اور دکھ کی کالی رات بے حد طویل اور بے کنارہ ہے ۔۔پھر بھی ہم اپنی نایاب و کمیاب خوشیوں میں بھی دکھ کا کوئی نہ کوئی جواز تلاش کرتے رہتے ہیں ،کبھی ایسے بھی کہ بے وجہ کی اداسی اور خود ساختہ محرومی کو خود پر طاری کر کے بے اماں ہوئے چلے جاتے ہیں۔۔اور کبھی دکھ ایک سانحہ بن کر من پر کبھی نہ ٹلنے والی بلا کے جیسے وارد ہو جاتے ہیں۔ایسے دکھ عزاب کے لمحے بن کر جسم و روح کی شہتیروں کو چاٹنے لگتے ہیں ۔موت بھی ایک گہرا دکھ ہے جس کی آغوش میں آنے تک انسان اس کے ان دیکھے ،اور غیر مرئی احساس سے چھلنی ہوئے جاتا ہے ۔انسان جینے کے جوازاور امکانات تلاش کرتے کرتے کب اور کس طرح فناکی دہلیز پر جا کھڑا ہوتا ہے اسے خود کو بھی معلوم نہیں پڑتا۔ موت سے بھی بڑھ کر روح فرسا دکھ ہے’’ بے وقت کی موت‘‘کا ۔بے وقت کی موت ۔۔۔ خواہ وہ خواہشوں کی ہو یا انسان کی ۔۔ ۔
خواہشوں کا لاشہ تو تمام عمر انسان اپنے ہی کندھوں پر اٹھائے اٹھائے پھرتا ہے لیکن بے وقت کی موت کا شکار انسان اپنے کرب،اپنے روگ ،اپنے صدمے میں لپیٹ کر پیچھے رہ جانے والوں کے کندھوں پر ڈال جاتا ہے ۔وہ اس بھاری بھرکم جنازے کو روز اٹھاتے اور روز دفناتے ہیں ۔لیکن اس کے بوجھ سے کبھی مکتی نہیں پاتے ۔ بہت سال پہلے موت اتنی بھیانک اور اس قدر بے وقتی تو نہ تھی ۔۔ ۔کبھی کسی گھر سے بوڑھی میت اٹھتی، تو بعد مدت کے لوگ موت کی اٹل حقیقت کو یاد کرلیا کرتے۔پیچھے رہ جانے والوں کو بھی دو چار روز یا دو چار ماہ بعد صبر آجایا کرتا ۔۔۔۔
لیکن اب موت صبر نہیں دیتی ۔۔۔وہ اپنے پیچھے ڈھیروں میتیں چھوڑ جاتی ہے ۔۔۔جیتی جاگتی بنا کفنائے ،بنا دفنائے میتیں ۔پیچھے رہ جانے والوں کے وہ زندہ لاشیں جن کی سزا موت نہیں بلکہ زندگی ہے ۔۔۔ بے وقت کی موت کچھ ایسے ہی زخم دیتی ہے ،کبھی نہ مندمل ہونے والے زخم ۔۔۔اور وہ جو سانحات و حادثات میں ۔۔۔بارود کے مرغولوں میں دفن ہو جاتے ہیں ۔ان کے پیچھے رہ جانے والے تو تمام عمر اپنے سوختہ خیالات میں ،ان کے بدن کے چیتھڑے ہی سمیٹتے رہتے ہیں ۔۔۔۔
وہ ٹکڑے جو کبھی جمع نہیں ہوتے وہ تو کہیں جائے حادثہ پر ہی رہ جاتے ہیں ۔کبھی کہیں دور کے درختوں کی چھال سے چپک کر ،کہیں کسی آہنی دیوار کی درزوں میں سمٹ کر ۔ایسے لواحقین جب بھی صدمہ گہرا ہونے لگے تو وہ اس مقام پر جاتے ہیں اور اپنی ہتھیلیاں رگڑ رگڑ کر ان درختوں ،دروازوں اور دیواروں پر خون کے انمول دھبوں میں چھپے انسانی آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے کٹے پھٹے خاکی ٹکڑوں کو کھرچتے ہیں ،اور اپنے احساس کی پوٹلی میں جمع کرتے جاتے ہیں۔۔۔۔انہیں وہ کیسے دکھائی پڑ جاتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا ، لیکن صبر تو پھر بھی نہیں آتا ۔۔۔۔۔قرار تو پھر بھی نہیں ملتا ۔وہ ان کی لہو یادوں کے گھاؤ صداچنتے ہی رہتے ہیں اور اپنی روح کے صندوق میں دھرتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔ بے وقت کی موت پیچھے رہ جانے والوں کی خواہشوں ،امیدوں اور خوابوں کی بھی بے وقت موت کا باعث بنتی ہے۔ ان کے ننھے منے معصوم بچوں کی آنکھوں کی ویرانی ،اور ان کے من میں جا بجا بکھری تمناؤں کے سوکھے پتوں کی سرسراہٹ اس بات کے گواہ ہوتے ہیں ۔وہ بوڑھے کندھے جو جوان لاشوں کو کندھا دیتے دیتے خود ٹوٹ چکے ہیں وہ ہر پل ،ہر لمحہ ، ہر آہٹ پر چونک جاتے ہیں ۔ان کا صدمہ اپنی جگہ لیکن انتظار ابھی باقی ہے ۔۔۔
شاید وہ انتظار ہی اب ان کی زندگی ہے ۔۔۔۔ ان کی بیوائیں ۔۔۔جن کی آنکھوں میں جھانکو تو وہ جانے والے کی یاد سے کہیں ذیادہ آنے والے وقت کی تلخیوں کے احساس سے بھری دکھائی دیتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔ ان کے لئے اس غم کے کیا معنی ہیں ؟ اس کا تو شاید ٹھیک سے ہم ادراک نہ کر پائیں ۔۔لیکن ہماری آنکھیں بھی برستی ہیں جب ہم کیپٹن احمد مبین جیسے کئی چلے جانے والوں کی وہ تصاویر دیکھتے ہیں جن میں ان کے معصوم بچے آنے والے وقت کی کٹھنائیوں سے بے نیاز اپنے والد کی بانہوں کو اپنی گردن سے لپیٹے بیٹھے ہیں ۔ہم بھی ان کی زندگی سے بھرپور شبیہہ کو ان کے پرخچے اڑی لاشوں میں پاگلوں کی طرح ڈھونڈا کرتے ہیں ۔۔ہمارا کلیجہ بھی چھلنی ہوتا ہے جب ایک جواں سال اولاد کا سوگ مناتے ماں باپ کو دیکھتے ہیں ۔۔۔ہم بھی حسرت کرتے ہیں کہ کاش یہ سب ہوا ہی نہ ہوتا ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے لاشیں گرانے کا حکم دینے والو کاش !کہ تم لاشیں اٹھانے کے کرب کو محسوس کر سکو ۔۔۔۔ کاش کہ تمہارے دل پتھر کی طرح سخت نہ ہوتے خدا تو پتھروں سے بھی چشمے بہا دینے پر قادر ہے، تو پھر تم تو گوشت پوست کے بنے پتھر نما انسان ہو ۔اے کاش کہ تمہاری بنجر آنکھوں سے بھی دکھ کو محسوس کرتے نمکین قطروں کا کبھی کوئی چشمہ پھوٹ سکے ۔۔۔کاش کے لہو کی بو باس سے کبھی تمہارا بھی جی متلائے ۔۔کبھی تم بھی پرزے پرزے ہوئے جسم کے ٹکڑے اکٹھا کر کے ان میں زندگی کی بے جان رگوں کو دیوانہ وار جوڑ سکو۔۔۔۔لیکن تم تو خود بنا کتبے کی شکستہ قبروں کی طرح ہو ،جن کے اندر احساس کی کٹی پھٹی لاشوں سے تمہاری ہی بے حسی اور بربریت کے ڈھیروں سنپولئے چمٹے ہوئے ہیں ۔تم کہاں سمجھ سکو گے دکھ کی گہری رات کے اندھیرے کی بے زبانی کو ۔۔۔۔۔۔۔