چکی والا پیپلز پارٹی کا کارکن تھا
از، مبشرعلی زیدی
ایک دھندلی سی یاد ہے کہ میں اور اماں گھر میں اکیلے تھے۔ باہر کوئی جلوس آرہا تھا۔ اماں گھبرائی ہوئی تھیں۔ اماں یعنی نانی اماں۔ یہ خانیوال کا ذکر ہے۔ بابا گھر پر نہیں تھے۔ وہ ان دنوں کسی دوسرے شہر میں تھے۔ امی بھی گھر پر نہیں تھیں۔ مجھے نہیں یاد کہ وہ کہاں گئی تھیں۔ بہن اس وقت چار سال کی ہوگی۔ وہ امی ہی کے ساتھ ہوگی۔ میں سات سال کا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ میں اور اماں گھر میں اکیلے تھے اور اماں گھبرائی ہوئی تھیں۔
اماں نے خوف زدہ ہوکر کہا، ’’باہر جلوس آرہا ہے۔‘‘ مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ جلوس کس کا ہے اور کیوں آرہا ہے۔ میں بچہ تھا۔ میں نے ضد کی کہ میں جلوس دیکھوں گا۔ اماں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ جلوس نہیں دیکھنا چاہیے۔ میں نے رونا شروع کردیا۔ اماں نے سہمے ہوئے چہرے کے سوکھے ہوئے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے چپ کرایا، پھر ایک کھڑکی میں کھڑا کردیا۔ کھڑکی کھولنے نہیں دی، اس کے کواڑ کی درز سے جھانکنے کی اجازت دی۔
میں نے دیکھا کہ باہر سر ہی سر ہیں۔ ہمارا مکان چوڑی سڑک پر تھا۔ وہ پوری سڑک لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ چارجڈ ماب charged mob تھا۔ وہ سب نعرے لگارہے تھے۔ اماں کو کچھ ایسا خدشہ تھا کہ سب مل کر ہمارے گھر پر حملہ نہ کردیں۔ اس خدشے کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔ کسی نے ہمارے گھر کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ وہ سب بلاک نمبر نو کی چکی کی طرف جارہے تھے جو ہمارے گھر کے قریب ہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ انھوں نے چکی اور اس کے ساتھ والے مکان پر حملہ کردیا اور اسے آگ لگادی۔
آج میں بتاسکتا ہوں کہ وہ 1979 کا کوئی دن تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کے مخالفین کا جلوس تھا۔ چکی والا پیپلز پارٹی کا کارکن تھا۔
چند دن پہلے یا بعد میں ایک اور دن بھی یاد ہے۔ اس دن شہر میں گولی چلی تھی۔ اس کی تاریخ کبھی نہیں بھول سکتا۔ 4 اپریل 1979۔ یہ تاریخ کوئی بھی نہیں بھول سکتا۔
پتا نہیں بھٹو صاحب اچھے آدمی تھے یا نہیں۔ ہر انسان میں خوبیاں خامیاں ہوتی ہیں۔ اگر ان کی حکومت برطرف نہ کی جاتی، اگر انھیں پھانسی پر نہ لٹکایا جاتا، تب بھی پاکستان ایسا ہی ہوتا۔ کیا بھٹو صاحب دفاعی بجٹ کم کرتے؟ کیا ایٹمی پروگرام سے دست بردار ہوتے؟ کیا جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ٹیکس نیٹ میں لاتے؟ کیا تعلیم، صحت اور کھیلوں کے لیے زیادہ بجٹ رکھتے؟
لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں صرف دو پارٹیاں ہیں۔ ایک وہ جس کے پاس دائمی اقتدار ہے۔ دوسری پیپلز پارٹی۔ یہ حکومت کرنا نہیں جانتی، اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرنا نہیں آتی، امریکا کو خوش کرنا نہیں آتا، سعودی عرب سے تعلقات اچھے نہیں رکھ پاتی، اس لیے باغیوں کے مزاج کی ہے۔
کچھ لوگ باغی اور غدار میں فرق نہیں سمجھ پاتے۔ اس میں باغیوں کا قصور نہیں۔ یہ کم فہم لوگوں کا المیہ ہے۔
ہم لوگ جو ہر مذہب کا احترام کرتے ہیں لیکن کسی کے مقلد نہیں، ہر قوم سے پیار کرتے ہیں لیکن کسی نسل کو افضل نہیں جانتے، انسان دوستی کو مذہب پرستی اور وطن پرستی سے اہم سمجھتے ہیں، تمام شہریوں کے حقوق کو برابر مانتے ہیں، روزگار، تعلیم اور صحت کو ریاست کی ذمے داری قرار دیتے ہیں، ہر فوجی کو اپنی طرح مزدور سمجھ کر اسے سلام پیش کرتے ہیں، لیکن کسی جرنیل کے بوٹ پالش نہیں کرتے، اور سچ جاننے کی خواہش رکھتے ہیں، ہمیں پیپلز پارٹی سے بڑھ کر کوئی جماعت نظر نہیں آتی۔
کوئی قوم کرپٹ نہیں ہوتی، افراد کرپٹ ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ سیاسی جماعتوں کا ہے۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں، پارٹیاں موجود رہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کا ماضی اچھا تھا۔ حال بہتر نہیں ہے، لیکن اس کا منشور ٹھیک ہے۔ اس کی سمت درست ہے۔ اس کا مستقبل روشن ہے۔
لوگ طنزیہ پوچھتے ہیں، بھٹو کب تک زندہ رہے گا؟ میں کہتا ہوں کہ اگر بھٹو کے بعد آنے والے پاکستان کے ہر شہری کو روٹی، کپڑا اور مکان دے دیتے تو بھٹو مر جاتا۔ اگر ہر شہری کو صاف پانی اور بجلی مل جاتی تو بھٹو مر جاتا۔ اگر ہر شہری کو تعلیم اور صحت کی سہولت مل جاتی تو بھٹو مر جاتا۔
دوستو! بھٹو کو زندہ رہنے دو۔ پیپلز پارٹی امیروں کی جماعت نہیں ہے۔ یہ متوسط طبقے کی جماعت بھی نہیں ہے۔ یہ غریبوں اور فاقہ کشوں کی جماعت ہے۔ آج بھی اس کا نعرہ روٹی سے شروع ہوتا ہے۔ اگر بھٹو مر گیا تو غریبوں کی امید ختم ہوجائے گی۔ ہمیں ان کی امید کو زندہ رکھنا ہے۔ ہمیں بھٹو کو زندہ رکھنا ہے۔