(سید رفیق شاہ)
انٹر نیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے گذشتہ عشرے میں مغربی تہذیب کا مشرقی معاشرے پر تیزی سے اثر انداز ہونا کسی المیہ سے کم نہیں فکرو خیالات کانام تہذیب اور اس کی عملی صورت تمدن اور تمدن کے نتیجے میں ثقافت کلچر پروان چڑھتا ہے اسلامی تہذیب سے معاشرے میں اخلاقی روحانی قدریں پروان چڑھتی ہے مثبت سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوتاہے رشتوں کے تقدس کی اہمیت حاصل ہوتی ہیں ا س کے برعکس عیسائی تہذیب جیسے مغربی تہذیب لکھا وکہا جاتاہے ،انقلاب فرانس کے نتیجے میں یورپی معاشرے سے چرچ کے کردار کو ختم کردیاگیامذہب فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا گیا جس نے مغربی معاشرے کو کھوکھلااور اخلاقی قدروں سے آزاد کردیاکوئی بھی تہوار یادن جیسے خصوصیت حاصل ہوتی ہے بالواسطہ یابلاواسطہ مذہب وتاریخ سے جڑاں ہواہوتاہے۔ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟ ویلنٹائن ڈے سالانہ مغربی تہوار جو ہر سال 14فروری کومنایاجاتاہے ۔الیکڑانک میڈیااور ملٹی نیشنل کمپنیوں وانٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں بالخصوص عالم اسلام وپاکستان میں پروان چڑھایاجارہاہے ۔جس کاحقیقت میں مذہب وتہذیب سے کوئی تعلق نہیں ۔مولانا شہزاد ترابی اپنے مقالے ویلنٹائن ڈ ے کیا ہے میں رقمطراز ہیں انسائیکلوپیڈیا برٹیسیکا (Britanica)کے مطابق یوم ویلنٹائن کے بارے میں تاریخ دومختلف موقف بیان کرتی ہے یہ دونوں موقف ایک ہی ہستی سینٹ ویلنٹائن کے حوالے سے بیان ہوتی ہیں ۔
ایک عیسائی ،ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے اس یوم کی تاریخ ،تہوار ،رسم ورواج کی،تحریف درتحریف کے عمل سے گزر کر تاریخ میں ایک شرمناک رسم کا حصہ بن گیا جن کی عملی ،عقلی فکری بنیادیں ابھی تک مغرب تلاش کررہاہے ۔یوم ویلنٹائن کی تاریخ ہمیں روایات کے انبار میں بھی ملتی ہیں روایات کا یہ دفتر اسرائیلی روایات سے بھی بدتردرجے کی چیز ہے لوگوں نے اپنی سفلی جذبات کی تسکین کیلئے سینٹ ویلنٹائن کے حوالے سے کیا کچھ تخلیق کیا اس کی ہلکی سی جھلک مندرجہ ذیل روایتوں میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے جس کا مطالعہ مغربی تہذیب میں بے حیائی ،بے شرمی کی تاریخ کے آغا زکا اشارہ دیتاہے روایتوں کے مطابق یہ وہ دن ہے جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے انہیں محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اسی کے نام کردیا،کئی لوگ اسے کیوپڈ (محبت کے دیوتا )اور وینس (حسن کی دیوی )سے موسوم کرتے ہیں جوکیوپڈ کی ماں تھی ۔یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنی محبت کے زہر بجھے تیر نوجوان دلوں پر چلاکر انہیں گھائل کرتاتھ۔
تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن ڈے کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں ،۱۴ فروری کادن وہاں رومن دیوی ،دیوتاؤں کی ملکہ جونو کے اعزازمیں یوم تعطیل کے طورپر منایاجاتاہے ۔اہل روم ملکہ جو نو کو صنف نازک اور شادی کی دیوی کے نام موسوم کرتے ہیں جبکہ ۱۵ فروری لیوپرکس دیوتاکا دن مشہو ر تھا اور اس دن اہل روم جشن زرخیزی مناتے تھے اس موقع پر وہ پورے روم میں رنگا رنگ میلوں کا اہتمام کرتے جشن کی سب سے مشہور چیز نوجوان لڑکے لڑکیوں کے نام نکالنے کی رسم تھی ہوتا یوں تھا کہ اس رسم میں لڑکیوں کانام لکھ کر ایک برتن میں ڈال دیئے جاتے تھے اور وہاں موجود نوجوان اس میں سے باری باری پرچی نکالتے اور پھر پرچی میں لکھا نام جشن کے اختتام تک اس نوجوان کاساتھی بن جاتاجو آخر کار مستقل بندھن یعنی شادی پر ختم ہوتا ،ایک دوسری روایات کے مطابق شہنشاہ کلاڈلیس دوم کے عہد میں روم کی سرزمین مسلسل جنگوں کی وجہ سے گشت وخون کامرکز بنی رہی اور یہ عالم ہواکہ ایک وقت کلاڈلیس دوم کی اپنی فوج کیلئے مردوں کی تعداد بہت کم آئی جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں اور ہم سفروں کو چھوڑ کرپردیس جاناپسند نہ کرتے تھے اس کا شہنشاہ کلاڈلیس نے حل نکالاکہ ایک خاص عرصے کیلئے شادیوں پر پابندی عائد کردی تاکہ نوجوانوں کوفوج میں آنے کیلئے آمادہ کیا جائے۔
اس موقع پر سینٹ ویلنٹائن نے سینٹ مارلیس کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر نوجوان جوڑوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا ان کایہ کام چھپ نہ سکا اور شہنشاہ کارڈلیس کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کوگرفتار کرلیاگیااور اذیتیں دے کر 14فروری 270ءکو بعض حوالوں کے مطابق 269ء میں قتل کردیاگیا،اس طرح 14فروری ملکہ جونو،جشن زرخیزی اور سینٹ ویلنٹائن کی موت کے باعث اہل روم کیلئے معتبرو محترم دن قرار پایا۔سینٹ ویلنٹائن کانام ایک معتبر شخص برطانیہ میں بھی تھا یہ بشپ آف ٹیرنی تھا جسے عیسائیت پرایمان کے جرم میں 14فروری 269ءکوپھانسی دے دی گئی تھی کہاجاتاہے کہ قید کے دوران بشپ کوجیلرکی بیٹی سے محبت ہوگئی اوروہ اسے محبت بھرے خطوط لکھاکرتاتھا اس مذہبی شخصیت کے ان محبت ناموں کو ویلنٹائن ڈے کہاجاتاہے ۔چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتاتھا لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کارتبہ حاصل ہوگیا اور برطانیہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کواس دن محبت بھرے خطوط ،پیغامات ،کارڈز،اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پایا۔
برطانیہ سے رواج پانے والے اس دن کوبعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی منایاجانےلگاتاہم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک یہ دن منانے کی روایات نہیں تھی برطانوی کاؤنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ 14فروری کو تحفے کے طور پر دیئے جانے کیلئے تراشے جاتے اور خوبصورتی کیلئے ان کے اوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والوں کیلئے اس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم میرے بنددل کواپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کواگر کوئی لڑکی چڑیادیکھ لے تواس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے جبکہ زندگی بھی خوشگوار گزرے گی ۔اور اگر عورت ویلنٹائن ڈے پرکسی سنہری پرندے کودیکھ لے تو اس کی شادی کسی امیر کبیرشخص سے ہوگی اور زندگی ناخوش گوارگزرے گی ۔امریکہ میں روایات مشہورہے کہ 14 فروری کووہ لڑکے اور لڑکیاں جو آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں سٹیم ہاؤس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں جو نہی رقص کا عمل ختم ہوگااور جو آخری نام ان کے لبوں پر ہوگااس سے ہی اس کی شادی قرار پائے گی جبکہ زمانہ قدیم سے مغربی ممالک میں دلچسپ روایت بھی زبان زدعام ہے کہ اگر آپ اس بات کے خواہشمندہیں کہ یہ جان سکیں آپ کی کتنی اولادہوگی توویلنٹائن ڈے پرایک سیب درمیان سے کاٹیں کٹے ہوئے سیب کے آدھے حصے میں جتنے بیج ہوں گے اتنے ہی آپ کے بچے ہوں گے ۔جاپان میں خواتین ویلنٹائن ڈے پراپنے جاننے والے تمام مردوں کو تحائف پیش کرتی ہیں اٹلی میں غیرشادی شدہ خواتین سورج نکلنے سے پہلے کھڑکی میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور جو پہلے مردان کے سامنے سے گزرتاہے ان کے عقیدے کے مطابق وہ ان کاہونے والا خاوند ہوتاہے۔جبکہ ڈنمارک میں برف کے قطرے محبوب کوبھیجے جاتے ہیں ۔تحریری طور پر ویلنٹائن کی مبارک باد دینے کارواج ۱۴ صدی میں ہوا ابتدامیں رنگین کاغذوں پر واٹر کلر اور رنگین روشنائی سے کام لیاجاتاتھاجس کی مشہور اقسام کروسٹک ویلنٹائن ،کٹ آؤٹ ،اورپرل پر س ویلنٹائن کارخانوں میں بننے لگے 19ویں صدی کے آغاز پرویلنٹائن کارڈزبھیجنے کی روایت باقاعدہ طور پرپڑی جواب ایک مستقبل حیثیت اختیار کرچکی ہے۔اس روایتوں کے سرسری مطالعے سے ہی اندازہ ہوتاہے کہ لوگوں نے اپنی خوابیدہ تمناؤں کولفظوں کے کوزے میںدفنادیاہے انسانی جذبات کی ناکامیاں ،محرومیاں زندگی کے اداس لمحے ،کچلی ہوئی خواہشات ،دبے ہوئے ارمان جنہیں غلط سلط رسوم ورواج کے باعث فطری نشوونما،ارتقاء اور اظہار کا موقع نہیں ملااس معاشرے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ویلنٹائن ڈے کے پیرہن میں اپنی تمام شرارتیں لے کر سماگئے ہیں جن معاشروں میں انسانی جذبات کااحترام نہ ہو۔انسان کے فطر ی مطالبات کوشائستہ اور شریفانہ طریقے سے پوراکرنے کا کوئی نظام نہ ہواور زندگی حرکت ،حرارت ،مسرت ،خوشیاں چندمخصوص لوگوں کامقدربن جائیں توبغاوت مذہبی شخصیات کے مقدس ایام کے لبادے میں اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ سینٹ ویلنٹائن بھی اپنے نام پر ہونے والے ان جرائم کاتصور کرکے ہی لرزہ براندام ہوگا۔بااثر برطانوی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق چندسالوں سے ایک دوسرے سے انس اور یگانگت کے اظہار کیلئے حصص کی خریداری زوروں پر ہے۔انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کے ایک سروے کے مطابق پچاس فی صد عورتیں اور چالیس فیصد مرد ایک دوسرے کو حصص کے تحفے دے رہے ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق ویلنٹائن نام کے تین سینٹ گزرے ہیں ان تینوں خداترسوں میں سے دوکے تیسری عیسوی میں سرقلم کردیئے گئے تھے ان میں سے کسی کاتعلق ایسی کسی تقریب سے نہ تھانہ ہی ان میں سے کوئی دنیاوی محبت کے جذبے سے ہی آشناتھا۔اکاؤنسٹ کی رپورٹ کے مطابق ویلنٹائن ڈے بہارکی آمدآمدپرپرندوں کی مسرت کے اظہار کی علامت ہے۔انگریزی میں ویلنٹائن پر سب سے پہلی نظم چوسرنے (1382ءمیں)پارلیمنٹ آف فاؤلز کے عنوان پر لکھی تھی اس میں انسانوں سے کہاگیاہے کہ وہ اپنی جنس تبدیل کرنے کیلئے کسی نہ کسی پرندے کاانتخاب کریں ۔علم الانسان کے کئی ماہرین کے خیال میں یہ دن سردی کے خاتمے پرمنایاتھا اور لوگ بکری کی کھال اُوڑ ھ کرہراس عورت پر ٹوٹ پڑتے تھے جو انہیں نظر آتی تھی ۔
اکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق یوم ویلنٹائن ایک مقدس دن کے طور پرطلوع ہوتاہے وہ تین خدا ترس عیسائی جس کانام ویلنٹائن تھااپنے دین پر چلنے کے جرم میں قتل کردیئے گئے ان کی قربانی کیااس دن کیلئے تھی کہ عیسائی اور مغربی دنیاان کے لہوکی مہک سے اپنے دلوں کی جلن کو مٹاڈالے مغربی تاریخ میں قرون وسطی کی ایک اور تقریب سینٹ اوسوالڈ کے نام سے موسوم ہے ۔اس روز26فروری کوہر چار سال بعد لیپ کے سال کے موقع پر عورتیں کھل کر سامنے آتی ہیں اگر لیپ کاسال نہ ہواور فروری کامہینہ 28تاریخ کوختم ہونے والاہوتو وہ رومن کیتھولک چرچ میں جاکرسینٹ اوسوالڈ کی یاد میں عبادت کرتی تھی ایک اور ایک دن سینٹ جارج کی یاد میں 23اپریل کومنایاجاتاہے جو شیکسپیئر کا یوم پیدائش بھی ہے اس روز گلابوں کے تحفے دیئے جاتے ہیں ۔