شیخ محمد ہاشم
طبی سائنس میں مسلسل تحقیق، طب کے شعبے کا لازمی جزو ہے ۔لیکن جس مرض سے دوسروں کے متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہو تو اُس پر تشویش اور تحقیق کی ضرورت اہم صورت اختیار کر لیتی ہے۔کسی شخص کا ذہنی مریض ہونا بھی ایک تشویش ناک بات ہوتی ہے ۔ذہنی مریض وبائی مرض میں مبتلا مریض تو نہیں کہلاتا،لیکن اس کی سوچ معاشرے کے لئے وبائی ضرور ثابت ہو سکتی ہے ۔خاص طور پر ایسا ذہنی مریض شخص جو کسی ملک کے اہم عہدے پر فائز ہو اورجس نے ملک و قوم کی قیادت کرنی ہو ۔ وہ شخص ملک اورمعاشرے کے لئے کتنا خطرناک ثابت ہو سکتاہے اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اُس کا ایک جملہ ،ایک فیصلہ اور ایک عمل قوم کی تقدیر کو ترقی سے تنزلی کی جانب دھکیل سکتا ہے۔تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔مثلاًہٹلر کی مثال لے لیجئے ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم میں جنگی و مذہبی جنونیت کے مرض میں مبتلا ہو کر ایک عظیم قوم کو جنگی جنونی ذہنیت کی بھینٹ چڑھا دیا تھا ،مزید یہ کہ ہٹلر کی مذہبی جنونیت نے بھی دنیا کو مذہبی جنونیت کی طرف دھکیل دیاتھا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ تاریخ سے پھر بھی سبق نہیں سیکھا گیا۔یہ ہی وجہ ہے کہ وقت کا پہیہ ایسے مرض میں مبتلا افراد کا راستہ نہیں روک سکا ۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ حالیہ دنیائے سیاست میں ایسے قبیل کے کئی ذہنی مریضوں نے آج بھی دنیا کو جنگ وجدل اور جہل میں جھونکنے کی ٹھان رکھی ہے ۔
سب سے پہلے میں دُنیا کے سب سے بڑے ذہنی مریض بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بات کرنا ضروری سمجھوں گا ۔ جس کی تمام تر صلاحیتیں،اس کا تمام تر عمل،اس کے تمام ترفیصلے اس بات کی غمازی کرتے تھے کہ ہندوستان کی بقاء پاکستان اور مسلمانوں کی مخالفت میں ہے۔اس کی سوچوں کا منبع پاکستان کو دہشت گرد قرار دینا اور ہندوستان سے مسلمانوں کا خاتمہ ہے ۔اس تعصب پرست ذہنی مریض حکمران نے اپنے سیاسی کیریر کو صرف بنیاد پرستی تک محدود رکھاہوا تھا ۔وزیر اعلیٰ گجرات سے لے کر بھارتی وزیر اعظم کے اہم عہدے پر فائز ہونے تک اُس نے مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک رکھا ہوا تھا، اُس کی دُنیا اور سیاسی تاریخ شاہدہیں۔ ایسے ذہنی مریضوں کی ایک سوچ مشترک ہوتی کہ کہ وہ اپنی منفرد سوچ کی حمایت میں، خود پر کی جانے والی تعمیری تنقید کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ جب ان کی اپنی منفرد سوچ کو سیاسی و ریاستی طاقت میسر آتی ہے تو وہ طاقت کے نشے میں سیاسی مخالفین اور اقلیتوں پر عتاب بن کر نازل ہوتے ہیں۔ اپنے حریف کو کچلنے کی خبط، اُنھیں انتہائی پستی کی جانب لے جاتی ہے ۔
یہی کچھ مودی دور میں دیکھنے میں آیاجب مسلمانوں کا بیدردی سے قتل عام اس شک کی بناء پر کیا گیا کہ مسلمانوں نے گائے کا گوشت (بیف) اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے ۔ہندوستان صرف ہندو کا ملک ہے ۔ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ اس مریضانہ سوچ نے دیگر مذاہب سے متعلقہ افراد میں بھی تشویش کی لہر دوڑا دی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ ایک ذہنی مریض کے بر سر اقتدار ہونے کے بعدہی اس سوچ نے پنپنا شروع کیا۔ اس سوچ کے سامنے، جب تعمیری سوچ کے حامل دانشوروں،شاعروں،سول سوسائٹی فنکاروں کی ایک بڑی تعداد نے مودی کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی ٹھانی، تو مودی کی سوچ ریت کی دیوار ثابت ہونے لگی۔ جب مایہ ناز آرٹسٹوں ،دانشوروں نے اپنے اعزازات واپس کرنا شروع کر دیئے تھے ۔ سب سے پہلے جواہر لعل نہرو کی بھانجی نیانترا سہگل نے یہ کہہ کر اپنا ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا کہ”اس وقت (بی جے پی) کی حکومت ایک متعصب حکومت ہے جس کی ہندوستان میں قطعی گنجائش نہیں”۔مشہور و معروف شاعر من موہن صاحب نے بھی اپنا ایوارڈدو معروف مصنفین کے دلخراش قتل کے بعد کیا اور کہا کہ ہندوستان میں “آزادیِ اظہار رائے کو کچلا جا رہا ہے ،جو ایک سیکولر ملک پر بد نما دھبا ہے”۔ بی جے پی سرکار کی ذہنی پسماندگی کی سوچ پر آخری کیل ٹھونکنے کا کردار بہاریوں نے الیکشن میں مودی سوچ کو رد کرکے ثابت کر دیا تھا۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ اس طرح کے ذ ہنی مریض ایک دن تنہا رہ جاتے ہیں۔ بہار کے الیکشن کے بعد نریندر مودی بھی تنہا ہو گیا تھا۔ مودی کے حمایتیوں نے بھی مودی کو ذہنی مریض قرار دینا شروع کردیاتھا۔ آخرکار مودی کو خود اپنی سوچ کے متعلق سوچنا پڑا۔
دور حاضر کا دوسرا ذہنی مریض امریکن ریپبلکن پارٹی کا صدارتی اُمیدوار “ڈونلڈٹرمپ”نظر آرہا ہے۔ جو صدارتی کرسی کے حصول کی خاطر اپنی منفرد مسلم مخالف سوچ کو فروغ دینے کی بھر پور کوششوں میں مشغول رہا۔ اُس کی یہ سوچ ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھی اور اب ہی ہے۔ وہ جس انداز سے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزاور انتہا پسندی پر مبنی تقا ریرکر رہا تھا، اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ امریکہ اوردنیا و انسانیت کو تاریک غاروں میں دھکیلنے کی خواہش رکھتاہے۔ ٹرمپ کا یہ جنون اس کے ذہنی مریض ہونے کی عکاسی کرتا ہے ۔ چند روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق میں ہلاک ہونے والے مسلمان امریکی فوجی افسر ہمایوں خان کی والدہ کا مذاق اڑایا تھا۔جس کے ردعمل میں ٹرمپ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس طرح کے ذہنی مریضوں میں یہ خاص بات دیکھنے میں آتی ہے کہ، وہ انفرادی سو چ رکھتے ہیں ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ، ان کی یہ جنونی کیفیت پوری دنیا کو کس مقام پر لا کر کھڑا کر سکتی ہے۔لیکن سیاست کوعوام کی خدمت کی نظر سے دیکھنے والی فکر ، ان ذہنی مریضوں سے ہمیشہ نبرد آزما رہتی ہے۔ڈیمو کریٹک پارٹی کی نامزد صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن ذہنی مریض ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھیں۔ امریکن میڈیا نے بھی اس ذہنی مریض کی ذہنی پسماندگی کو خوب اجا گر کیا ۔یہ ہی وجہ تھی کہ گزشتہ دنوں ٹرمپ پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں پر خوب برسا۔
دُنیا کے دونوں ذہنی مریضوں کا بر سر اقتدار ہونا تشویش کا باعث تو ضرور ہے ،لیکن ان دونوں ملکوں میں قدرے مشترک بات یہ ہے کہ ان ذہنی مریضوں کو منتخب کرنے والے اُن کے عوام تھے جو اُس سےبھی بڑھ کر تشویشناک عمل ہے۔
مورخہ 25جنوری2017کوڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اُٹھانے کے بعد پہلا صدارتی حکم جاری کیا ہے۔ امریکہ کی جنوبی سرحد پر میکسیکو کے ساتھ دیوارتعمیر کی جائے ،تاکہ غیرقانونی آمدورفت کو روکا جائے اور تارکین وطن کو ملک بدر کیا جائے۔مزید تشویشناک بات یہ ہے امریکہ کے ذہنی مریض نے بھارت کے ذہنی مریض کو امریکہ کے دورے کی دعوت دے ڈالی ہے۔امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں چین عالمی سطح پر معاشی اور عسکری میدان میں خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔جس کے پس منظر میں امریکہ ،بھارت کے ساتھ معاشی اور عسکری تعاون کا خواہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کیا متعصب ڈونلڈ ٹرمپ کا حشر بھی نریندر مودی جیسا ہونا ہے۔یا ،پھر امریکہ میں ایک ذہنی مریض کی سوچ پروان چڑھتی ہے اور دوسرے ذہنی مریض کو بھی تقویت بخشتی ہے۔
ڈونلڈٹرمپ حکومت کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن خاص طور سے مسلم ممالک سے امریکہ آنے والوں سے امریکہ میں بڑی دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہے۔ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کے لئے بھی یہ نوشتہ دیوار ہے ۔پاکستان کو امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کے ساتھ اپنے اندرونی حالات کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہوگی ۔ اس مخصمے کا تدارک کرنے سے قبل ہمارے لئے غور وفکر کا پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو ذہنی مرض میں مبتلا ہیں ؟ذہنی مرض دراصل پیامِ مرگ ہے۔