پائیلو کوئیلو کی زندگی کی دل چسپ باتیں
از، پیٹریشیا مارٹن مونٹزے بیلسٹروس (ترجمہ: نجم الدّین احمد)
’’پائیلو کوئیلو موجودہ صدی کا سب سے پُر اثر مصنف ہے جسے کچھ لوگ لفظوں کے ’کیمیا گر‘ اور دیگر ثقافتوں کو مجتمع کرنے والے مظہر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ڈیڑھ صد سے زائد ممالک کے قارئین نے اپنی ثقافتوں سے بالا ہو کر اُسے ہمارے عہد کا جوالہ جاتی مصنف بنا دیا ہے۔
چھپن سے زائد زبانوں میں تراجم ہونے والی اُس کی کتابیں نہ صرف بیسٹ سیلرز میں سرِفہرست ہیں بلکہ سماجی وہ ثقافتی بحث کا موضوع بھی بن چکی ہیں۔ اُس کی تحریروں کے خیالات، فلسفہ اور مواد اپنی راہ اور دُنیا کو سمجھنے کے لیے نئے اطور کے متلاشی لاکھوں قارئین کے دِلوں کو چھُوتے ہیں۔
جرمنی کے سب سے باوقار انعام ’بامبی ایوارڈ‘ کی تقسیم کے وقت جیوری نے اُس کے بارے میں کہا: ’’پائیلو کوئیلو نہ صرف سب سے زیادہ پڑھے جانے والا بلکہ آج کے عہد کے مصنفین میں سے زیادہ پُراثر مصنف ہے۔‘‘ (ادارہ)
پائیلو کوئیلو متوسط طبقے کے خاندان میں انجینئر پیڈرو (Pedro) اور گھریلو خاتون لیجیا (Lygia) کے ہاں ۱۹۴۷ء میں پیدا ہؤا۔
سات برس کی عمر میں اُسے رِیو ڈی جنیرو (Rio de Janeiro) میں سان اِگنیشیو (San Ignacio) کے سکول جے سوئٹ (Jesuit) میں داخل کروایا گیا۔ پائیلو کو مذہبی رسومات کی لازمی ادائیگی سے نفرت تھی۔ اگرچہ وہ دُعا کرنے اور اجتماع میں جانے سے نفرت کرتا تھا لیکن اِس کی تلافی موجود تھی۔ اُس نے سکول کے جنوبی رُخ والے برآمدوں میں اپنا صحیح کام دریافت کیا کہ اُسے مصنف بننا ہے۔ اُس نے اپنا پہلا ادبی انعام سکول کی شاعری کے مقابلے میں جیتا۔ اُس کی بہن سونیا (Sonia) بتاتی ہیں کہ اُس نے کیسے مضمون نویسی کا انعام پائیلو کے ردّی کی ٹوکری میں پھینکے ہوے مضمون کو داخل کروا کے جیتا تھا۔
پائلو کے والدین کے اُس کے مستقبل کے حوالے سے منصوبے مختلف تھے۔ وہ اُسے انجینئر دیکھنا چاہتے تھے۔ اُنھوں نے اُس کی ادب کے لیے وقف کر دینے والی خواہشات کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ اُن کے نامصالحانہ روّیے اور پائلو کی ہنری مِلز کی ’ ٹراپک آف کینسر‘ نے اُس کے اندر بغاوت کے جذبات کو اُبھار دیا اور اُس نے خاندانی قوانین کی تحقیر شُرُوع کر دی۔ اُس کے والد نے اُس کے اِس روّیے کو اُس کی ذہنی بیمار کی علامت سے تعبیر کیا۔ جب پائلو سترہ برس کا تھا تو اُس نے اُسے دوبارہ نفسیاتی امراض کے ہسپتال میں داخل کروا دیا جہاں پائلو کو برقی جھٹکوں سے علاج کے متعدّد اَدوار سے گُزرا۔
کچھ ہی عرصے کے بعد پائلو ایک تھیٹر گروپ میں شامل ہو کر بحیثیت صحافی کے کام کرنے لگا۔ اُس زمانے میں خُوش حال متوسط طبقے کے نزدیک تھیٹر اخلاقی گراوٹ کا گڑھ تھا۔ اُس کے ڈرے ہوے والدین نے اپنا فیصلہ اور اُسے دوبارہ پابند نہ رکھنے کا وعدہ توڑنے کا فیصلہ کیا اور اُسے تیسری بار ہسپتال میں داخل کروا دیا۔ جب وہ وہاں سے باہر آیا تو اپنی نجی زندگی کے زیادہ قریب اور اُس میں زیادہ گُم تھا۔ مایُوسی میں ڈُوبے ہوے خاندان نے ایک اَور ڈاکٹر سے رجوع کیا جس نے اُنھیں بتایا: ’’پائلو نہ تو پاگل ہے نہ ہی اُسے کسی نفسیاتی ہسپتال میں ہونا چاہیے۔ اُسے بس اِتنا معلوم ہونا چاہیے کہ دُنیا کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔‘‘ اِن تجربات کے تیس سال بعد پائلو نے ’ویرونیکا مرنے کا فیصلہ کرتی ہے‘ (Veronica Decides to Die) لکھی۔
پائلو کے مطابق:’ ’ویرونیکا مرنے کا فیصلہ کرتی ہے‘ برازیل میں ۱۹۸۸ء میں شائع ہوئی تھی۔ ستمبر تک مجھے بارہ سو سے زائد ای۔میل اور خطوط ملے جن میں اِسی نوعیّت کے تجربات کا بیان تھا۔ اکتوبر میں کتاب میں زیرِ بحث لائے گئے کچھ موضوعات :ذہنی تناؤ، ہراس ، خُود کُشی، ایک کانفرنس میں زیرِ بحث لائے گئے جو قوم کی آواز بن گئے۔ اگلے برس، ۲۲ جنوری کو سینیٹر ایڈُو ارڈو سُپلیسیrdo Suplisy) (Edua نے میری کتاب کے کچھ اقتباسات جملہ ممبران کی حاضری والے اجلاس میں پڑھے اور اُس قانون کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب رہا جو برازیلی کانگریس میں دس سال سے گردش کر رہا تھا یعنی ظالمانہ طور پر ہسپتال میں داخل کرانے کا قانونِ امتناعی۔‘‘
اُس کے بعد پائلو دوبارہ اپنی تعلیم کی طرف لوٹ گیا اور ایسا دِکھائی دینے لگا جیسے وہ اُسی راستے پر چل نکلا ہے جو اُس کے والدین نے اُس کے منتخب کیا تھا۔ لیکن جلد ہی وہ سب کچھ ترک کرکے واپس تھیٹر چلا گیا۔ یہ ساٹھ کی دہائی تھی اور ہِپّی (Hippy) تحریک دُنیا کے منظر نامے میں ھُوٹ چکی تھی۔ اُس نئے رحجان نے، حتّٰی کہ برازیل میں بھی جہاں اُس وقت فوجی حکومت تھی، جڑیں پکڑ لی تھیں۔ پائلو نے اپنے بال بڑھا لیے اور اپنے ساتھ اپنا شناختی کارڈ رکھنا چھوڑ دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پائلو نے منشیات کا استعمال کیا اور مکمل طور پر ہِپّی تجربے سے گُزرنے کی تمنّا کی۔ لکھنے کے جذبے کے تحت اُس نے ایک رسالہ شُرُوع کیا جس کے صرف دو ہی شمارے نکلے۔
اُسی دوران موسیقار و دُھن ترتیب دینے والے رَال سیکساس (Raul Seixas) نے اُسے اپنے لیے گِیت لکھنے کی دعوت دی۔ اُن کے لکھے ہوے دُوسرے ریکارڈ کو بہت بڑی کامیابی ملی اور اُس کی پانچ لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ پائلو نے بڑی رقم کمائی تھی۔ اُن کا اشتراک ۱۹۷۶ء تک چلا۔ پائلو نے رال سیکساس کے ساتھ ساٹھ سے زائد گِیت لکھے اور اُنھوں نے مل کر موسیقی کا منظر نامہ بدل دیا۔
۱۹۷۳ء میں پائلو اور رَال آلٹرنیٹو سوسائٹی (Alternative Society) کا حِصّہ بن گئے جو سرمایہ دارانہ نظریۂ فکر کی مخالفت کرنے والی تنظیم تھی۔ اُنھوں نے فرد کے حق کا دفاع کیا کہ وہ جو چاہے سو کرے اور کالے جادُو کی تربیّت حاصل کی۔ اُس نے بعد میں اِن تجربات کو ’دی والکریز‘ ۱ (The valkyries) (۱۹۹۲ء) میں بیان کیا۔
اِس عرصے کے دوران اُنھوں نے ’کِرنگ-ہا‘ (Kring-ha) کی اشاعت شُرُوع کی جو مزاحیہ خاکوں کی ایک سیریز تھی جس میں مزید آزادی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ آمریّت نے اُنھیں تخریب کار گردانتے ہوے پائلو اور رَال کو نظربند اور قید کر دیا۔ رَال تو جلد رہا ہو گیا لیکن پائلو کو طویل عرصے تک قید رکھا گیا کیوں کہ اُسے ہی اُن مزاحیہ خاکوں کے پیچھے موجود دماغ سمجھا گیا تھا۔ لیکن اُس کے مسائل یہیں نہیں ختم ہوے۔ اُس کی رہائی کے دو ہی دِن بعد پائلو کو سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوے پکڑ کر فوج کے ایک اذیّت خانے (ٹارچر سنٹر) میں لے جایا گیا جہاں وہ کئی روز تک رہا۔ اُس کے مطابق وہ وہاں موت سے صرف یہ بتا کر بچ سکا کہ وہ پاگل ہے اور پہلے ہی تین بار دماغی امراض کے ہسپتال میں رہ چکا ہے۔ جب اُس کے اغوا کُنندگان کمرے میں موجود ہوتے تو وہ خُود کو جسمانی تکلیف پہنچانا شُرُوع کر دیتا اور بالآخر اُنھوں نے اُسے اذیّت دینا بند کر کے آزاد کر دیا۔
اِس تجربے نے اُس پر گہرا اثر چھوڑا۔ چھبیس برس کی عمر میں پائلو نے فیصلہ کیا کہ وہ ’زندگی‘ کا بہت تجربہ حاصل کر چکا ہے اور اب اُسے ’نارمل‘ ہو جانا چاہیے۔ اُس نے پولی گرام (Polygram) نامی ریکارڈ کمپنی میں ملازمت کر لی جہاں اُسے وہ عورت ملی جس نے اُس کی بیوی بننا تھا۔
۱۹۷۷ء میں وہ لندن چلے گئے۔ پائلو نے ایک ٹائپ رائٹر خریدا اَور لکھنے کا آغاز کر دیا۔ اُسے زیادہ کامیابی نہ ملی۔ اگلے ہی برس وہ برازیل لوٹ آیا۔ جہاں اُس نے ایک اَور رِیکارڈ کمپنی سی بی ایس (CBS) کے ایگزیکٹو کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ ملازمت صرف تین ماہ چلی۔ جس کے بعد وہ اپنی بیوی سے علیحدہ ہو گیا اور اُس نے نوکری چھوڑ دی۔
۱۹۷۹ء میں اُسے ایک دیرینہ دوست کرسٹینا اَوئی ٹی سِیکا (Christina Oiticica) ملی۔ جس سے بعد میں اُس نے شادی کر لی اور اب بھی وہ اُس کے ساتھ ہے۔
اِس جوڑے نے یورپ کا سفر کیا جہاں وہ بہت سے ملک گھُومے۔ جرمنی میں ڈیچاؤ (Dachau) کے ارتکاز کیمپ میں گئے۔ وہاں پائلو کو ایک تصوّر قائم ہؤا جس میں اُسے ایک شخص نظر آیا۔ دو ماہ بعد وہ اُسی شخص سے ایمسٹرڈیم کے ایک کیفے میں ملا اور اُس نے اُس کے ساتھ تجربات و نظریات پر تبادلہ خیال کرتے ہوے کافی وقت گُزارا۔ اُس شخص نے، جس کی شناخت پائلو نے کبھی ظاہر نہیں کی، تجویز دی کہ اُسے واپس کیتھولزم کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔ پائلو نے عیسائیت کی علامتوں والی زبان سیکھنا شُرُوع کر دی۔ اُس شخص نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ پائلو کو سینٹیاگو (Saintiago) کو جانے والی سڑک پر (زمانۂ وسطیٰ کے زائرین کا فرانس اور ہسپانیہ کے بیچ رُوٹ) سفر کرنا چاہیے۔
زیارت مکمل کرنے کے ایک سال بعد ۱۹۸۷ء میں پائلو نے اپنی پہلی کتاب ’زیارت (ایک پادری کا روزنامچہ)‘The Pilgrimage (The Diary of a Magus) تحریر کی۔ کتاب زیارت کے دوران اُس کے تجربات اور اُس کی دریافت کہ معمولی لوگوں کی زندگی میں غیر معمولی پن وقوع پذیر ہوتا ہے، کو بیان کرتی ہے۔ اُسے برازیل کے ایک چھوٹے سے اشاعتی گھر نے شائع کیا تھا اور اگرچہ اُس پر بہت کم تبصرے وصول ہوے تھے لیکن اُس کی فروخت خُوب ہوئی تھی۔
۱۹۸۸ء میں پائلو نے ایک اَور نہایت مختلف کتاب ’کیمیاگر‘ (The Alchemist) لکھی۔ یہ نہایت علامتی کتاب اور زندگی کا استعارہ تھی جو اُس کے کیمیا کے مطالعے کے گیارہ برسوں کا عکس لیے ہوے ہے۔ اُس کی پہلی اشاعت کی صرف نو صد کاپیاں بِکیں اور اشاعتی ادارے نے اُسے دوبارہ نہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔
پائلو نے اپنے خواب کی تعبیر کا تعاقب نہ چھوڑا۔ اُسے ایک اَور موقع ملا۔ اُسے ایک قدرے بڑے اشاعتی ادارہ رَاکو (Rocco) ملا گیا جو اُس کے کام میں دِلچسپی رکھتا تھا۔ ۱۹۹۰ء میں اُس نے ’بریڈا‘ (Brida) شائع کی جس میں اُس نے اُس تحفے کا ذکر کیا ہے جسے ہم سب اپنے اندر لیے ہوے ہیں۔ اِس بار اِس کتاب کی اشاعت نے بہت سے اخبارات کی توّجہ حاصل کی اور ’کیمیاگر‘ اور ’زیارت‘ بہت زیادہ بِکنے والی کُتب کی فہرست میں سرِفہرست آگئیں۔ برازیل کی تاریخ میں ’کیمیاگر‘ کی کاپیاں کسی بھی کتاب سے بہت زیادہ فروخت ہوئیں۔ حتّٰی کہ اُس کا نام گینز بُک آف ریکارڈز میں آگیا۔ ۲۰۰۲ء میں پُرتگالی ادبی جریدے ’جرنل ڈی لیٹراس‘ (Jornal de Letras) نے، جس کی ادب اور پُرتگالی ادبی مارکیٹ میں بہت اہمیّت ہے،اعلان کیا کہ پُرتگالی زبان کی زبان کی تاریخ میں اِس زبان میں لکھی جانے والی کسی بھی کتاب سے زیادہ کاپیاں ’کیمیاگر‘ کی فروخت ہوئی ہیں۔
مئی ۱۹۹۳ء میں ہارپر کولِنز (Harper Collins) نے ’کیمیاگر‘ کے پچاس ہزار نسخے شائع کیے جو کسی بھی برازیلی کتاب کی، جو امریکا میں پہلی بار شائع ہوئی ہو، سب سے بڑی تعداد تھی۔اِس کے افتتاح کے وقت ہارپر کولِنز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جان لاؤڈن نے کہا: ’’یہ اِسی طرح ہے کہ آدمی علی الصبح بیدار ہو اور سُورج طُلُوع ہوتا دیکھے جب کہ بقایا ساری دُنیا سو رہی ہو۔ تا آنکہ ہر شخص جاگ اُٹھے اور اِسے دیکھ لے۔‘‘ پائلو کتاب کے بارے میں ہارپر کولِنز کے جوش سے بہت متأثر ہؤا۔ اُس نے کہا: ’’یہ میرے لیے لمحۂ خاص ہے۔‘‘ اُس کے ایڈیٹر نے افتتاح کو یہ کہہ کر ختم کیا: ’’مجھے اُمید ہے کہ اِس کتاب کی اشاعت اِس کی لاطینی امریکی کہانی کی طرح مدّتوں یاد رہنے والی، متحرک اور کامیاب رہے گی۔‘‘
دس برس بعد ۲۰۰۲ء میں جان لاؤڈن نے پائلو کو لکھا: ’’ہماری کمپنی کی موجودہ تاریخ میں ’کیمیاگر‘ کا شمار بہت ہی اہم کُتب میں ہوتا ہے۔ ہم اِس کتاب اور اِ س کی کامیابی پر بے حد نازاں ہیں۔ اِس کی کامیابی کی کہانی کتاب کی کہانی کو ظاہر کرتی ہے۔‘‘ ہارپر کولِنز نے اشاعت کے دسویں برس کے موقع پر پُر عزم مہم کا منصوبہ بنایا جس میں بین الاقوامی کثیر بازاری کا تصوّر اور دُنیا بھر میں کتاب کے بڑھتے ہوے مداحین کے بڑی تعداد کے حلقوں کو کتاب کی فروخت شامل تھے۔
جولیا رابرٹس نے کہا: ’’یہ واقعی موسیقی کی طرح ہے۔ جس طرح وہ لکھتا ہے وہ بہت خُوب صُورت ہے۔ یہ اُس کے پاس ایک ایسا ودیعت ہے جس پر میں سب سے زیادہ حسد کرتی ہوں۔ ‘‘]پائلو کوئیلو: لفظوں کا کیمیاگر، ڈِسکوری نیٹ ورکس؍پولو ڈی امیگم(دستاویزی فلم)[ میڈونا نے جرمن رسالے ’سون ٹیگ ایکٹیول (Sontag-Aktuell) کو انٹرویو دیتے ہوے کہا: ’’کیمیاگر‘ طلسم ، خواب اور خزانوں کے بارے میں ایک خُوب صُورت کتاب ہے جنھیں ہم ہر جگہ تلاشتے ہیں لیکن وہ ہمیں اپنے گھر کی دہلیز پر ملتے ہیں۔‘‘
ریاست ہائے متحدہ میں ’کیمیاگر‘ کی کامیابی اُس کے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز ثابت ہوئی۔ ہالی وُڈ کے متعدّد پروڈیوسروں نے فلم کے حقوق کے حصول میں فوری دِلچسپی کا اظہار کیا جو ۱۹۹۳ء میں وارنر برادرز نے حاصل کر لیے۔
ریاست ہائے متحدہ میں اشاعت سے قبل ’کیمیاگر‘ ہسپانیہ اور پُرتگال کے چھوٹے چھوٹے اشاعتی گھروں سے شائع ہو چکی تھی۔ ہسپانیہ میں ۱۹۹۵ء تک یہ کتاب بیسٹ سیلر نہیں بن سکی۔ سات سال بعد ہسپانوی پبلشرز گِلڈ نے لکھا کہ ’کیمیاگر‘ (ایڈیٹوریل پلانیٹا) ہسپانیہ میں ۲۰۰۱ء میں سب سے زیادہ بِکنے والی کُتب میں سرِفہرست رہی ہے۔ دُوسری طرف ہسپانوی اشاعتی گھر پائلو کے تمام کام کو ۲۰۰۲ء میں دوبارہ متعارف کروانے کی فقیدالمثال تیاری کر رہا تھا۔ پائلو کوئیلو پُرتگال میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا مصنف ہے(ایڈیٹوریل پرگامِنو)، جس کے دس لاکھ سے زائد نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔
۱۹۹۳ء میں مونیکا این ٹیونز (Monica Antunes) نے، جو ۱۹۸۹ء سے اُس کی پہلی دو کتابیں پڑھنے کے بعد پائلو کے ساتھ اشتراک میں کام کر رہی تھی، بارسلونا میں کارلوس ایڈیو رینجل(Carlos Eduardo Rangel) کے ساتھ مل کر پائلو کے حقوق کی فروخت کا مِشن لے کر ایک ادبی ایجنسی سانت جورڈی ایسو سی ایڈوس(Sant Jordi Associados) کو تشکیل دیا۔
اُسی سال مئی میں، ریاست ہائے متحدہ میں ’کیمیاگر‘ کی اشاعت کے بعد، مونیکا نے بے شمار پبلشر غیر معمولی کاوں کو ٹائٹل کی پیشکش کی۔ سب سے پہلے ناروے کی ایکس لِبرس (Ex-Libris) نے حقوق حاصل کیے۔ جس کے پبلشر اَوئی وِنڈ ہیگن (Oyvind Hagen) نے مونیکا کو لکھا: ’’کتاب نے مجھ پر بے حد اور مسلسل اثر چھوڑا ہے۔‘‘ چند روز بعد، نئے نئے وجود میں آنے والے فرانسیسی اشاعتی گھر این کیریئر ایڈیشنز (Anne Carriere Editions) نے مونیکا کو لکھا: ’’یہ ایک حیرت انگیز کتاب ہے اور میں اِسے فرانس میں بیسٹ سیلر بنانے کے لیے ہر جتن کروں گا۔‘‘
ستمبر ۱۹۹۳ء میں ’کیمیاگر‘ آسٹریلیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب تھی۔ دی سِڈنی مورننگ ہیرلڈ (The Sydney Morning Herald) نے دعوٰی کیا: ’’یہ اِس سال کی بہترین کتاب اور لامحدود فلسفیانہ حسن کا سحر انگیز نمونہ ہے۔‘‘
اپریل ۱۹۹۴ء میں’کیمیاگر‘ فرانس میں این کیریئر ایڈیشنز نے متعارف کروائی۔ اِسے معجزانہ تبصرے ملے اور قارئین اِس کتاب کے لیے وحشی ہو گئے۔ جس نے اِسے بیسٹ سیلرز کی فہرست میں بلند کر دیا۔ کرسمس سے دو روز قبل این کیریئر نے مونیکا کو تحریر کیا: ’’کرسمس کے تحفے کے طور پر میں آپ کو فرانس کی بیسٹ سیلر فہرست بھیج رہا ہوں۔ ہم سرِفہرست ہیں۔‘‘ ’کیمیاگر‘ فرانس کی ہر فہرست میں پہلے نمبر پر پہنچ گئی، جہاں یہ مسلسل پانچ برس تک جمی رہی۔ فرانس میں اپنیمیابی کے بعد پائلو کی کُ
پھیل جانے والے یوروپی مظہر بننے کے لیے خالص ادبی دُنیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔
اُس کے بعد ہی پائلو کوئیلو کے چھؤں ناولوں کا فرانسیسی میں ترجمہ ہؤا اور ہر ایک کئی کئی ماہ تک بیسٹ سیلرز فہرست میں اوّل نمبر پر رہا۔ حتّٰی کہ اُس کے پاس تینوں ٹائٹل بہ یک وقت رہے۔
’دریائے پیڈرا کے کنارے بیٹھ کر میں رویا‘ (By the River Piedra I Sat Down and Wept) کو ۱۹۹۴ء میں راکو (Rocco)نے شائع کیا۔ اِس کی اشاعت نے پائلو کی بین الاقوامی حیثیت پر مہر ثبت کر دی۔ اِس کتاب میں پائلو نے نسوانی رُخ کی سیاحت کی ہے۔
۱۹۹۵ء میں اٹلی میں ’دریائے پیڈرا کے کنارے بیٹھ کر میں رویا‘ بوم پیانی (Bompiani) نے شائع کیا اور فوراً ہی یہ ناول بہت زیادہ بِکنے والی کُتب کی فہرست میں سرِفہرست پہنچ گیا۔ اگلے برس پائلو کو دو باوقار اطالوی اعزازات ’دی سپر گرنزین کیوور بُک ایوارڈ (The Super Grinzane Cavour Award) اور فلیانو انٹرنیشنل ایوارڈ (Flaiano International Award) سے نوازا گیا۔
۱۹۹۶ء میں ایڈیٹوریل آبجی ٹیوا (Objetiva) نے دس لاکھ ڈالر پیشگی ادا کر کے اُس کی کتاب ’پانچواں پہاڑ‘ (The Fifth Mountain) کے حقوق حاصل کر لیے۔ اِس سے قبل اِتنی بڑی رقم کسی برازیلی مصنف کو ادا نہیں کی گئی تھی۔ اِسی برس پائلو کو Chevalier des Arts et des Letters بنایا گیا اور فرانسیسی وزیرِ ثقافت فلپ دوستے بلیزی (Philippe Douste-Blazy) نے بیان دیا: ’’آپ لاکھوں قارئین کے ’کیمیاگر‘ بن چکے ہیں۔ آپ کی کتابیں نیک مقصدیت لیے ہوے ہیں کیوں کہ وہ ہمارے خواب دیکھنے کی صلاحیّت اور تلاش کی تمنّا کو متحرک کرتی ہیں۔‘‘ ۱۹۹۶ء ہی میں پائلو کو یونیسکو کے پروگرام ’روحانی میلان اور بین الثقافتی مکالمے‘ کا مشیرِ خصوصی مقرر کیا گیا۔
اُسی برس جرمنی میں ’کیمیاگر‘ ڈایوجینیس (Diogenes) نے شائع کی۔ اِس اشاعت نے ۲۰۰۲ء میں ۳۰۶ سے زائد ہفتوں تک ’Der Spiegel‘ کی بیسٹ سیلر لسٹ میں رہنے کے بعد تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔
۱۹۹۷ء میں فرینکفرٹ بُک فیئر، پائلو کے پبلشروں نے ڈایو جینیس اور سانت جورڈی کے ساتھ مل کر اُس کے اعزاز میں ایک کاک ٹیل پارٹی کا اہتمام کیا۔ جس میں ’پانچواں پہاڑ‘ کو بین الاقوامی سطح پر بھرپُور انداز میں متعارف کروانے کا اعلان کیا گیا۔ جس پر مارچ ۱۹۹۸ء میں فرانس میں ایک بڑے واقعے کے ساتھ عمل ہؤا۔ پائلو کو سیلون ڈُو لیور (Salon du Livre) میں بڑی کامیابی ملی۔ اُس نے ساتھ گھنٹے سے زائد وقت کتابوں کو دستخط کرنے میں گُزارا۔ اُس کے فرانسیسی پبلشر این کیریئر نے اُس کے اعزاز میں لوور میوزیم (Louvre Museum) میں عشائیہ دیا جس میں سینکڑوں معروف شخصیات اور صحافیوں نے شرکت کی۔
۱۹۹۷ء میں پائلو نے اپنی غیر معمولی کتاب ’روشنی کے جنگجو کا قلمی نسخہ‘ (Manual of the Warrior of Light) تحریر کی۔ جس میں اُن فلسفیانہ خیالات کو جمع کیا گیا ہے جو ہمیں روشنی کے جنگجو کو اپنے ہی اندر دریافت کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ کتاب لاکھوں قارئین کے لیے حوالہ جاتی کتاب بن چکی ہے۔ یہ سب سے پہلے اٹلی میں بوم پیانی نے شائع کی جہاں اِسے بے تحاشا کامیابی ملی۔
۱۹۹۸ء میں ’ویرونیکا مرنے کا فیصلہ کرتی ہے‘ سے پائلو دوبارہ بیانیے کی طرف لوٹ آیا۔ اِس کتاب نے بہترین تبصرے وصول کیے۔
جنوری ۲۰۰۰ء میں اَمبرٹو ایکو (Umberto Eco) نے ’فوکس‘ کو انٹرویو دیتے ہوے کہا: ’’مجھے کوئیلو کا تازہ ناول بہت پسند آیا۔ اِس نے حقیقتاً مجھے اندر سے چھُو لیا۔‘‘ سِنیاڈ او کونر (Sinead O’Conor) نے ’دی سنڈے انڈیپینڈنٹ‘ کو بتایا: ’’میں نے ’ویرونیکا مرنے کا فیصلہ کرتی ہے‘ جیسی حیران کُن کتاب کبھی نہیں پڑھی۔‘‘
پائلو نے ۱۹۸۸ء کے موسمِ بہار میں ایشیا اور موسمِ خزاں میں ایشائی یورپ کے ممالک کا کامیاب دورہ کیا۔ اُس کا سفر اوریئنٹ ایکسپریس پر استنبول سے شُرُوع ہو کر صوفیہ (بلغاریا) سے ہوتا ہؤا رِگا (لیٹویا بالٹک ریاستوں) میں ختم ہؤا۔
پائلو کوئیلو کا چکرا دینے والا سفر جاری رہا۔
’لائر‘ (Lire) میگزین (مارچ ۱۹۹۷ء) نے اُسے ۱۹۹۸ء کا دُنیا بھر کا دُوسرا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا مصنف قرار دیا۔
۱۹۹۹ء میں اُسے باوقار اعزاز ’کرسٹل ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ ورلڈ اکانومِک فورم کے مطابق: ’’پائلو کا اہم ترین کارنامہ زبان کے ذریعے معتدبہ ثقافتوں کو باہم متّصِل اور ادغام کرنا ہے، جو اُسے اِس انعام کا واضح طور پر حقدار بناتا ہے۔‘‘ پائلو ۱۹۹۸ء تا امروز ورلڈ اکانومِک فورم کا مدعو رُکن ہے۔ ۲۰۰۰ء میں اُسے بورڈ آف شواب فاؤنڈیشن (Board of Schwab Foundation) میں سوشل انٹرپرینئیرشِپ کے لیے تعینات کیا گیا۔
۱۹۹۹ء میں فرانسیسی حکومت نے اُسے Chevalier di I’Ordre National de la Legion d’Honneurمقرر کیا۔
اُسی برس پائلو نے ’ویرونیکا مرنے کا فیصلہ کرتی ہے‘ کے ہمراہ بواِیناس ائیرز بُک فیئر (Buenos Aires Book Fair) میں شریک ہؤا۔ پائلو کی وہاں موجودگی کا ردِّعمل فقیدالمثال اور نہایت جذباتی تھا۔ تمام ذرائع ابلاغ متفق تھے کہ کسی اَور مصنف نے اِتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی طرف نہیں کھینچا۔ وی اینڈ آر (V&R) کی لڈیا ماریا (Lidia Maria) نے ہمیں بتایا ’’گزشتہ پچیس سال سے کتاب میلے جو لوگ کام کر رہے تھے، اُنھوں نے اِس سے قبل ایسا واقعہ نہیں دیکھا تھا۔ حتّٰی کہ اُس وقت بھی نہیں جب بوجیس (Borges) حیات تھا۔ یہ واقعی غیرمعمولی بات تھی۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں دوبارہ کبھی کسی مصنف کو ایسا ردِّعمل پاتے دیکھوں گی۔ پائلو کے لیے لوگوں کی توصیف کے بیان کے لیے الفاظ قاصر ہیں۔‘‘ دستخطوں والے روز لوگ مقررہ وقت سے چار گھنٹے قبل قطار بنانا شُرُوع ہو گئے اور میلے کے ڈائریکٹر نے عام حالات کی نسبت زیادہ دیر سے اُسے بند کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ کوئی بھی مایُوس نہ لوٹے۔
ستمبر میں پائلو نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ ’کیمیا گر‘ کی اشاعت کے بعد سے اُس کی تمام کُتب نے فروخت میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اسرائیل میں کتابوں کے سٹوروں کے ایک سلسلے کے مالک اِری سٹیمزکی (Eri Stematzky)نے ہمیں بتایا: ’’میں نے اِس سے قبل اِتنی طویل قطار نہیں دیکھی اور میں صرف یہ خواہش کرتا ہوں کہ ایسا دِن بھی آئے جب لوگ کسی اسرائیلی مصنف کے لیے یُونہی قطار میں لگے ہوں۔‘‘
مئی ۲۰۰۰ء میں پائلو نے ایران کا دورہ کیا۔ ۱۹۷۹ء کے بعد ایران کا سرکاری دورہ کرنے والا وہ پہلا غیر مسلم تھا۔ اُسے بین الاقوامی مرکز برائے مذاکرات مابین تہاذیب(International Centre for Dialogue among Civilizations) نے مدعو کیا تھا۔ اُس کے دورے سے قبل ہی ایک اندازے کے مطابق اُس کی کتابوں کے لاکھوں چوری شُدہ نسخے فروخت ہو چکے تھے (ایران نے کبھی بھی انٹرنیشنل کاپی رائٹ ایگریمنٹ پر دستخط نہیں کیے)۔ اُس دورے کے بعد سے پائلو واحد غیر مسلم ہے جس نے اپنی کُتب کے اعزازیے وصول کیے۔ وہ کبھی تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اُسے مغرب سے اِس قدر دُور دراز اور مختلف سرزمین پر ایسا گرم جوش استقبال ملے گا۔ ہزاروں ایرانی اُس کے دستخط حاصل کرنے اور اُس سے گفتگو کرنے آئے۔ پائلو کے اپنے الفاظ میں: ’’مجھے بہت سے تحائف ملے، مجھے بہت سا پیار ملا۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ مجھے اپنے کام کی سمجھ ملی اور اِس چیز نے مجھے اندر سے چُھو لیا۔ میرے لیے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ میری رُوح مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکی تھی۔ میری کتابیں وہاں موجود تھیں اور لوگوں میں مجھے اپنے ایسے دیرینہ دوست ملے جن سے میں کبھی نہیں ملا تھا۔ اُس اجنبی سرزمین پر میں نے خُود کو اجنبی نہیں محسوس کیا۔ یہ کوئی ایسی چیز تھی جو میرے اندر سرایت کر گئی تھی اور جس نے میرے اندر اپنی مسرت بھر دی تھی، جسے میں نے ہر شے سے زیادہ محسوس کیا کہ آتش دان کے رُوبرو بیٹھ کر کسی بھی انسان کے ساتھ مکالمے کا امکان موجود ہوتا ہے۔ ایران نے مجھے دِکھایا کہ یہ ممکن ہے۔‘‘
ستمبر میں ’شیطان اور آنسہ پرم‘ (The Devil and Miss Prym) بہ یک وقت اٹلی میں بوم پیانی، پُرتگال میں پرگیمینو (Pergaminho) اور برازیل میں آبجیکٹو (Objective) نے شائع کی۔ افتتاح کو موافق بنانے کے لیے پائلو نے دُنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کو ریو ڈی جے نیریو (Rio di Janerio) میں اپنے گھر سے درجنوں انٹرویو دیے۔ ۱۹۹۶ء میں پائلو کوئیلو اور اُس کی بیوی کرسٹینا اَوئی ٹی سِیکا نے انسٹی ٹیوٹو (Instituto)بنائی جس سے پائلو کوئیلو پہلی بار عوامی شخصیت بن گیا۔ یہ ادارہ برازیل میں غیر مراعات یافتہ طبقے بالخصوص بچوں کو مدد اور مواقع فراہم کرتا ہے۔
پائلو کو جرمنی کے نہایت باوقار اور قدیمی اعزاز ’بامبی۲۰۰۱ء‘ سے نوازا گیا۔ منصفین کی رائے میں : پائلو کوئیلو کا اِس یقین میں کہ ہر انسان کی منزل اور تحفہ یہ ہے کہ وہ سیاہ دُنیا میں ’روشنی کا جنگجو‘ بن جائے، نہایت گہرا انسانی پیغام ہے۔ ایسا پیغام جو خاص طور پراُس برس رُوح کو چیر ڈالنے والے اثرات کا حامل تھا۔
پائلو نے پہلی بار کولمبیا کا سفر بوگوٹا (Bogota) بین الاقوامی کُتب میلے کے موقع پر ۲۰۰۱ء میں کیا۔ ہزاروں لوگ اپنے دیوتا کی آمد کے منتظر تھے۔ اُس نے ایک پاپ سٹار سے بڑھ کر پذیرائی حاصل کی۔ پائلو نے لوگوں کو صبروتحمّل کا مظاہرہ کرنے کو کہا کہ ہر شخص کی کتاب پر دستخط کیے جائیں گے۔ پانچ گھنٹوں بعد چار ہزار کُتب دستخط ہو کر بِک گئیں۔
ستمبر ہی میں اُسے لندن میں بارڈرز بُک شاپ پر کتابیں دستخط کرنے کا ایک اَور حیرت انگیز موقع ملا۔ اِیونٹس (Events) کے مینیجر فِن لارنس (Fin Lawrence) کے مطابق: ’’پائلو کا اپنے نئے ناول ’شیطان اور آنسہ پرم‘ کو دستخط کرنے کا واقعہ بلا شبہ سال کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔‘‘ جس میں پانچوں برِّاعظموں کے لوگوں (جاپان، پاکستان، انگولا، امریکا اور جملہ یورپی ممالک) شرکت کی۔ نومبر میں اُس نے میکسیکو کا سفر کیا جہاں گوڈا لیجارا (Guadalajara) کُتب میلے میں اُس کی آمد کا ہزاروں قارئین نے گھنٹوں انتظار کیا۔
۲۰۰۲ء کے آغاز میں پائلو نے پہلی بار چین کا دورہ کیا اور شنگھائی، بیجنگ اور نان جِنگ جا کر متعدّد شُدنیات میں حِصّہ لیا جن میں کتابوں کو دستخط کرنا اور قارئین سے ملاقاتیں شامل تھیں۔
۲۵ جولائی ۲۰۰۲ء کو پائلو برازیلی اکادمی ادبیات (ABL) کا اکیسواں سربراہ منتخب ہؤا۔ اکادمی کا، جس کا ہیڈ کوارٹر ریو ڈی جینیریو میں ہے، مقصد برازیلی زبان و ثقافت کا تحفظ ہے۔ اُس کے انتخاب کے بعد اور اگلی رات پائلو کو اپنے قارئین کی جانب سے تین ہزار سے زائد پیغامات وصول ہوے اور وہ ملک بھر کے ذرائع ابلاغ کی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر آیا تو لوگوں نے خُوشی سے نعرے لگائے۔ لاکھوں قارئین کے دلوں کی دھڑکن ہونے کے باوجود مخصوص ادبی نقادوں نے ہمیشہ اُسے مسترد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکادمی میں اُس کا داخل ہونا نہایت اہم سماجی واقعہ تھا۔
۲۸ اکتوبر کو پائلو نے مثالی دُنیا اور اعتقاد کی تعریف میں تقریر کرکے اے بی ایل میں اپنا چارج سنبھال لیا۔ اپنی تقریر کے دوران اُس نے اپنے پیشرو معیشت دان رابرٹو کیمپوس (Roberto Campos) کے قول کو دھرایا: ’’تندئ تیر نشانے کی عظمت کو بڑھاتی ہے۔‘‘ اور اِس میں اضافہ کیا: ’’اکثر اوقات جب میں نے نقادوں کی بے جا تِیکھی تنقید کو محسوس کیا تو میں نے اِس قول کو یاد رکھا۔ میں نے اُس خواب کو بھی یاد رکھا کہ میں ہار نہیں مانوں گا اور ایک دِن برازیلی اکادمی ادبیات میں داخل ہو کر رہوں گا۔‘‘
ستمبر ۲۰۰۲ء میں پائلو نے حقیقتاً سنسنی کو جنم دیا جب اُس نے روس کا قصد کیا۔ جہاں اُس کی پانچوں کُتب ’شیطان اور آنسہ پرم‘ سرِفہرست اور ’کیمیاگر‘ ’روشنی کے جنگجو کا مینوئل‘ ’ویرونیکا مرنے کا فیصلہ کرتی ہے‘ اور ’پانچواں پہاڑ‘ علی الترتیب سب سے زیادہ بِکنے والی کُتب تھیں۔ صرف پندرہ ایّام میں اُس کی کتابوں کے اڑھائی لاکھ سے زائد نسخے روس میں فروخت ہوے جس سے ایک سال میں نسخوں کی فروخت کی تعداد دَس لاکھ سے تجاوز کر گئی۔MDK کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر کے مطابق: ’’پائلو کے دستخطوں کی تعداد پہلے کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ ہم نے اُس سے پہلے اُس سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو اپنے محبوب مصنف کے دستخط لینے کے لیے آتے ہوے نہیں دیکھا تھا۔ ہم دستخط کرنے اور پڑھنے کے لیے اپنی کتابوں کی دکان پر خاصا بڑا انتظام کرتے ہیں اور ہمارے ہاں اُس سے پہلے بھی معروف مہمان آتے رہے ہیں جیسے روسی صدر جناب یلسن اور گوربا چوف لیکن اُس سے قبل لوگ اتنی بڑی تعداد میں کبھی نہیں آئے تھے۔ یہ حقیقتاً ناقابلِ یقین تھا۔ MDK کو سینکڑوں قارئین کو واپس بھجوانا پڑا جو اُس عظیم الشّان ہجوم کا حِصّہ بننا چاہتے تھے۔‘‘
اکتوبر ۲۰۰۲ء پائلو نے فرینکفرٹ میں ’کلب آف بڈاپسٹ پلینٹیری آرٹس ایوارڈ ۲۰۰۲ء‘ اور میونخ میں ’دی بیسٹ فکشن ایوارڈ ۲۰۰۲ء‘ وصول کیا۔
نومبر میں مصنف نے سیکینڈے نیویّن ممالک کا دورہ کیا اور اَوسلو میں بُک سٹور ٹینم کارل جوہان (Tanum Karl Johon) اور راک فیلر ]بوک بیڈٹ (Bokbadet) ٹی وی پروگرام کے لیے[ کے ساتھ ساتھ ہیل سِنکی (Helsinki) میں اکیڈمک بُک سٹور اور سٹاک ہوم کے این کے بُک سٹور کی رنگا رنگ تقریبات میں شرکت کی۔
پائلو نے ہمیشہ اپنے پبلشروں کی مکمل دِلی حمایت کو شمار کیا ہے۔ اُس کی کامیابی اُس کی کتابوں تک محدود نہیں بلکہ اُس کی کامیابی کا دائرہ دِیگر ثقافتی و سماجی حدود تک وسیع ہے۔
متعدّد تھیٹر کمپنیوں نے اُس کے کام میں ڈرامائی اور شاعرانہ بالقُوَّۃ کو دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر ’کیمیاگر‘ کو چن کر پانچوں برِّاعظموں میں مختلف ڈرامائی تشکیلوں مثلاً میوزیکل، ڈانس تھیٹر، پتلی تماشوں، ڈرامائی تقریروں، اوپیرا وغیرہ میں پیش کیا گیا ہے۔ دِیگر کام جنھوں نے ڈرامائی تخیّل کو اپنی پکڑ میں لیا اُن میں ’ویرونیکا مرنے کا فیصلہ کرتی ہے‘، ’دریائے پیڈرو کے کنارے بیٹھ کر میں رویا‘ اور ’شیطان اور آنسہ پرم‘ شامل ہیں۔
اِس کے ساتھ ساتھ کتابوں اور دُوسرے مواد کی ایک سیریز ہے جو مصنف اور اُس کے کام سے متعلّق ہیں جن میں ڈائریاں، کیلنڈر، رسائل و جرائد، اپائنٹمنٹ بکس، آرٹ بکس، حتّٰی کہ مصنف کے تعاون سے تیار کی گئی تین الیکٹرونک گیمز: دی پِلگرم، دی لیجنڈ اور دی سیکرٹس آف ایلامٹ(دی آرکسل گِلڈ) شامل ہیں۔
پائلو کی ذرائع ابلاغ میں مستقل موجودگی کو مضامین اور اخباری کالموں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں میں اُس نے تمام اہم اخبارات و رسائل کے لیے بڑی تعداد میں مضامین اور آرٹیکل تحریر کیے ہیں۔
مارچ ۱۹۹۸ء میں اُس نے برازیلی اخبار ’اوگلوبو‘ (O Globo) میں ہفتہ وار کالم لکھنا شُرُوع کیا۔ قارئین میں اُس کی تحریریں اِس قدر کامیاب تھیں کہ سانت جورڈی (Sant Jordi) نے دِیگر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی اُنھیں شائع کرانا شُرُوع کر دیا۔ چار سالوں سے اخبارات اب بھی اُس کے کالم شائع کر رہے ہیں مثلاً میکسیکو میں ’ریفارما‘ (Reforma) ۔
اُس کے کالم دُوسرے بہت سے اخبارات و جرائد کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے اٹلی کے ’کوریئر ڈیلا سیرا (Corriere della Sera) ، سپین کے ’ایل سیمانل‘ (El Semanal)، یونان کے ’تا نیا‘ (Ta Nea)، جرمنی کے’ٹی وی ہورن+سے ہن‘ اور ’ویلٹ ایم سانٹیگ‘ (Welt am Sonntag)، ایسٹونیا کے ’اینا‘ (Anna)، پولینڈ کے ’زِیویرسیاڈلو‘ (Zwierciadlo)، ایکواڈور کے ’ایل یونیورسو‘ (El Universo)، وینزویلا کے ’ایل نیشنل‘ (El Nacional)، کولمبیا کے ’ایل ایسپیکٹاڈور‘ (El Espectador)، اور تائیوان کے ’دی چائنا ٹائمز ڈیلی‘ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
وہ انٹر نیٹ پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ پائلو نے 365مختصر مضامین کی ایک سیریز بھی شائع کی ہے جنھیں روزانہ کے پیغام کی شکل میں درج ذیل انٹرنیٹ پورٹیل پر شائع کیا گیا ہے: وائی نیٹ (عبرانی)، آرسی ایس (اطالوی)، یو او ایل (پُرتگالی) اور ٹیرا (Terra) (ہسپانوی)۔ پائلو نے ایک نیوز لیٹر ’دی مینوئل آف آن لائن‘ بھی ایجاد کیا ہے جس کے تیس ہزار خریدار ہیں۔
پائلو اپنی زندگی کے بارے میں بہت سی دستاویزی فلموں، ڈِسکوری نیٹ ورکس کی ’پولو ڈی اِمیجم‘ (Polo de imagem)(لاطینی امریکا اور سپین)، زیڈ ڈی ایف (جرمنی) اور Unknown Planet (روس)، میں بھی سامنے آیا ہے۔ دِیگر پروگراموں میں اُسے زیارتیں کرتے ہوے (آرٹی ای، آئرلینڈ) یا سفر کرتے ہوے (این ایچ کے اور ایچی(Aichi)، جاپان) فلمایا گیا ہے۔ وہ برازیلی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں دِیگر دستاویزی فلموں (پروڈکشنز ایسکیپ ورٹ، کینیڈااَ ور فرانس)میں بھی آیا ہے۔
ٹی وی کے ’انفارم سیمانل‘ (سپین، ۲۰۰۱ء)، ’کیو اینڈ اے‘ (سی این این ۱۹۹۹ء) اور ’ہارڈ ٹاکس وِد ٹِم سیبسٹیان‘ (بی بی سی، ۱۹۹۹ء) جیسے بین الاقوامی چینلوں پر اُس کے متعلّق مختلف انٹرویو اور پروگرام بھی نشر ہوے۔
پائلو نے اِسی معیار کے ذرائع ابلاغ کے مختلف جرائد کو مثلاً ’دی نیویارکر ٹائمز‘ (یو ایس اے)، ’ایل پیس‘ (سپین)، ’ڈر سپیجل‘ (جرمنی)، ’لے مونڈے‘ اور ’ایکسپریس‘ (فرانس) ، ’کوریئر ڈیلا سیرا‘ اور ’لا ریپبلکا‘ (اٹلی) اور دُوسرے لاتعداد ، بے شمار انٹرویو بھی دیے ہیں۔
***
۱ valkyrie : نورس متھالوجی (Norse Mythology) یعنی سیکنڈے نیویّن ممالک کی دیومالا میں والکریز اُن دوشیزاؤں کو کہتے ہیں جو ہَوا میں اُڑتی ہیں اور جنگ میں قتل ہونے والے بہادروں (Heroes) کو وال ہلا (Valhalla) میں لے جاتی ہیں۔ وال ہلا وہ عظیم الشّان عمارت ہے جہاں میدانِ جنگ میں بہادری کے جوہر دکھاتے ہوے مرنے والے بہادروں کی وہ دوشیزائیں مِلک بنتی ہیں اور اُن بہادروں کو اَوڈِن (Odin) یعنی خدائے بزرگ برتر کو خُوش آمدید کہتے اور اُن کی ضیافت کرتے ہیں۔(مترجم)
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.