(تنویر احمد ملک)
شریف خاندان جس کی قسمت کا فیصلہ پانامہ کیس سے جڑے ہوئے فیصلے سے نتھی ہے فی الحال پیش آمدہ مضمرات کو پی ایس ایل فائنل کے لئے ملک بھر میں جنم لینے والے جوش و خروش کے نیچے دبا ہوا دیکھ کر شاید خود فریبی کے اس سحر میں مبتلا ہے جس سے انسان دنیا و مافیہا سے بے خبر اور لا تعلق ہو جاتا ہے۔پاکستا ن میں پی ایس ایل فائنل کی صورت میں کرکٹ کی آمد ایک خوش آئند پیش رفت ہے لیکن اس پر خوشی و مسرت کے جس کو ہ ہمالہ پر ہم چڑھ گئے ہیں وہ کچھ صائب نہیں کیونکہ ڈومیسٹک کرکٹ کی ایک جدید اور کمرشملائز صورت کو ہم بین الاقوامی کرکٹ کا ایسا ایونٹ قرار دینے کے خبط میں خواہ مخواہ مبتلا ہو چکے ہیں۔اس فارمیٹ کی کرکٹ میں چند غیر ملکی کھلاڑیوں کی خرید و فروخت کے ذریعے ہم اسے کیسے ایک بین الاقوامی کرکٹ کا ایک میگا ایونٹ قرار دے سکتے ہیں اس کے بارے میں پیرانہ سال شہر یار خان اور ہمہ وقت متحرک اور مستعد نجم سیٹھی صاحب کچھ گل افشانی فرمائیں تو کچھ پتا چلے۔ شریف خاندان جوپانامہ کیس کی صورت میں اپنی سیاسی زندگی کے سب سے مشکل اور پر پیچ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے وہ پی ایس ایل فائنل کو اپنی سیاسی بقا کے لئے شاید ایک نسخہ اکسیر سمجھ کر اسے حرزجاں بنا چکے ہیں کہ وہ اس کے بل بوتے پر آنے والے ایام میں مصائب کی ان کٹھنائیوں کو عبور کر سکیں جو ان کے خلاف کسی فیصلے کی صورت میں آسکتا ہے جو پانامہ کیس میں بیسیویں سماعتوں کے بعد معزز جج صاحبان کی جنبش قلم کا منتظر ہے۔شریف حکومت شاید اس کیس میں کسی ایسے فیصلے کے بارے میں بھانپ چکی ہے کہ جس میں ان کے لئے سیاسی طور پر خطرناک صورت حال مضمر ہو سکتی ہے۔معزز جج صاحبان کے دوران سماعت ریمارکس سے درون خانہ سیخ پا ہونے والے نواز لیگی ترجمان زبان سے مٹھاس کے بول بولنے پر طوعاً و کرہاً مجبور تو ہوتے تھے لیکن وہ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ اب آسمانی قوتوں کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسی قوت ہے جو شریف خاندان کو کلی طور پر اس مالی کرپشن سے کلین چٹ دے دے جو انہوں نے تیس برس قبل اقتدار میں آنے کے بعد حکومتی مناصب کے بے جا اور غلط استعمال کے ذریعے کی۔ملک میں حا لیہ ایام میں وقو ع پذیر ہونے والے دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے بظاہر پانامہ کیس سے توجہ بانٹنے میں شریف خاندان کی مدد کی تو دوسری جانب پی ایس ایل فائنل کو لاہور میں منعقد کر کے وہ قوم کا ایسے کھیل تماشوں کے ذریعے دل بہلانے کابیکار اور ازکا ر رفتہ نسخہ استعمال کر رہے ہیں جو شاید ماضی میں تو اکسیر ثابت ہو سکتا ہے لیکن اب اس کی افادیت شاید کچھ معنی نہیں رکھتی۔پانامہ کیس اب اپنے منطقی انجام کو تقریباً پہنچ چکا ہے جس کے لئے پوری قوم کی نگاہیں اس پردے پر ٹکی ہوئی ہیں کہ جو عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے سرکانا ہے۔پانامہ کیس کی سماعت کے دوران شریف خاندان جس طرح قبر کے اندر لیٹے ہوئے اپنے والد گرامی کو اس کیس میں گھسیٹ لایا اس نے بطور فرزند میاں نواز شریف کے کھاتے میں کوئی نیک نامی کے موتی نہیں نقش کئے ۔ کچھ اسی طرح جب انہوں نے اپنے فرزندوں کے کھاتے میں اس سارے دولت و جائیداد میں ڈال کر اسے ان کی خالصتاً اپنی کمائی قرار دیا تو یہ یقین واثق ہو گیا کہ سیاست او ر اقتدار کے بے رحم و بے مروت کھیل میں انسانی رشتوں کو اپنے مقاصد کے لئے کیسے استعمال میں ڈھالا جا سکتا ہے ۔جب میاں نواز شریف کے وکیل بیرون ملک جائیداد و دولت کو ان کے صاحبزادوں کی کمائی دے رہے تھے تو مولانا بھاشانی یاد آگئے۔ ایوب خان کے مقابلے میں جب فاطمہ جناح صدارتی انتخابات ہار یں تو شکو ک و شبہات نے جنم لیا کہ مولانا بھاشانی ایوب خان سے راتوں رات مل گئے تھے۔ انتخابات کے بعد جب ولی خان، محمود علی قصوری، اربا ب اسکندر نے ایک دن مولانا بھاشانی کو گھیر لیا ۔ انہوں نے مولانا سے پیسے لینے کی بابت استفسار کیا۔ مولانا جواب دینے کی بجائے ٹالتے رہے۔
ارباب اسکندر نے کہا مولانا آپ نے پیسے لئے ہیں‘‘
بھاشانی نے کہا کہ ’’کیا ثبوت ہے‘‘۔
ارباب نے کہا’’جن لوگوں نے پیسے دیے ہیں وہ کہتے پھر رہے ہیں‘‘۔
مولانا بھاشانی نے کہا،’’کیا کہتے ہیں وہ؟‘‘
’’وہ کہتے ہیں ان سے آپ نے پیسے لئے ہیں۔‘‘
’’ہم نے نہیں لیا۔ لڑکا لوگ نے لیا ہو گا‘‘۔ یہ کہہ کر مولانا بھاشانی نے اپنی بات ختم کر دی
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.