(ذوالفقارعلی )
خطہ بنیادی طور پر جغرافیائی اصطلاح ہے جس میں کسی مخصوص علاقے کے فطری طبعی خدوخال جیسے پہاڑ، میدان، صحرا، دریا، جنگل، سمندر وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ جُغرافیہ کے سائنسدانوں نے ہماری زمین یعنی ریاست پاکستان میں شامل علاقوں کو موسموں کے اعتبار سے چھ منطقوں یعنی خطوں میں بانٹ رکھا ہے تاکہ ایک نظر میں ان علاقوں کی کی نوعیت کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ پھر یہ تقسیم براعظموں کی شکل میں مزید مُرتکز ہو کر اس زمین کو سات مختلف حصوں میں الگ الگ شناخت سے ظاہر کرتی ہے۔
یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا ہے تو بات مُلکوں کی شناخت میں ڈھل جاتی ہے۔اس کے بعد ہر مُلک کے اپنے اپنے انتظامی ڈھانچے شروع ہوتے ہیں ہمارے مُلک میں صوبہ، ڈویژن، ضلع، تحصیل، یونین کونسل کی حرارکی سے انتظامی ڈھانچے تشکلیل دیئے گئے ہیں۔
اس پورے انتظام کو سنبھالنے اور چلانےکیلئے ریاست اپنی ٹیم منتخب کرتی ہے جسے انتظامیہ کی اصطلاح سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہاں تک تو بات سادہ اور سمجھ آنے والی ہے لیکن اب کوئی بھی خطہ صرف اپنے فطری خدوخال کے لحاظ سے اہم نہیں ہوتا بلکہ اس خطے میں رہنے والے لوگ بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔لوگ یا افراد فطری خدوخال کی طرح جامد نہیں ہوتے بلکہ وہ لمحہ با لمحہ فکری، جذباتی، عقلی اور ثقافتی تبدیلی کے مسلسل عمل سے گُزرتے رہتے ہیں۔
اس عمل کے نتیجے میں مختلف مراحل اور تجربات سے گُزر کر وہ اپنی جیون کتھا سے حاصلات کو یاداشتوں کی پوٹلی میں سنبھال رکھتے ہیں۔ انہی حاصلات کی بُنیاد پر وہ زندگی کی ڈور بُنتے ہیں اور اُسے رشتوں کی گانٹھوں سے مضبوط کرتے جاتے ہیں۔ ان گانٹھوں میں خاندان، ذات، برادری، قبائل اور قوم کے موتی پروئے جاتے ہیں۔ جو ہر انسان کی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہی موتیوں کی مالا سے انسان اپنی شناخت کی بُنائی کرتا ہے۔ یہ ورثہ اگلی نسل کو منتقل ہوتا رہتا ہے اور آنے والی نسل اپنے پُرکھوں کے حاصلات اور دانش کو مد نظر رکھ کر اپنی منزل کا تعین کرتی ہے اور مُستقبل سے نبرد آزما ہونے کیلئے بہتر حکمت عملی کے ساتھ میدان عمل میں اترتی ہے۔ دانش کے اس ورثے کو اگلی نسل کو منتقل کرنے کیلئے زبان کا کلیدی کردار رہا ہے مگر اس عمل کو استعماریت نے آزادی سے پنپنے نہیں دیا۔ کالونیل ازم، ماڈرنائزیشن اور گلوبلائزیشن کے پھندے لگا کر مقامی رنگا رنگیوں کی دانش، یاداشتوں، حاصلات ، ثقافتوں، زبانوں اور جُڑتوں کو پھانس کر منافع کی منڈی میں فروخت کیا اور کیپیٹلزم کی بُنیاد پر عارضی طاقت اکٹھی کر لی۔
فطری رجحانات اور انسانی ارتقا کو جب مارکیٹ اکنامی کے زیر اثر لایا گیا تو سماجی دھاگوں سے بُنے ہوئے معاشرے کمزور ہونے لگے۔ ڈویلپمنٹ اور ترقی کے موٹے موتے جال میں آدی واس لوگوں اور زمین زادوں کو سب سے پہلے پھنسایا گیا۔دریں اثنا روحانی، ثقافتی اور جذباتی رشتوں کو معاشی رشتوں کی اصطلاح میں بدل دیا گیا اور کہا گیا کہ تمام رشتے معاشی ہوتے ہیں۔ یہاں سے ایک ایسے سماجی بگاڑ کا آغاز ہوا جس نے دُنیا کی ہیئت کو بدل کے رکھ دیا۔ کییپیٹلسٹ بلاک، سوشلسٹ بلاک، نیو ورلڈ آرڈر، تیسری دُنیا اور شیطانی تثلیث کی ہتھکڑیاں سماج کو پہنا دی گئیں۔
اس فضا نے مختلف طبقات کے اندر انجانے خوف کی فضا پیدا کر دی۔ جس پر قابو پانے کیلئے اسلحے کی دوڑ شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے اور طرہ یہ کہ اس پیش رفت پےاتراتا پھرتا ہے جو انسان کے اندر کی سفاکیت کی غماض ہے۔
جب دفاعی سازوسامان کی بُنیاد پر ریاستوں کے کردار کا تعین ہونے لگا تو مقامی اخلاقیات ، میل ملاپ، رشتے اور برت برتاو کو پسماندگی کی چولی پہنا دی گئی تاکہ جارحیت کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔ کیونکہ مقامیت کی کوکھ سے جنم لینے والی سوچ کبھی جارحانہ نہیں ہوتی نہ ہی وہ قبضہ گیریت کو بڑھاوا دیتی ہے۔ اس تناظر میں اخلاقیات اور سماجیات کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا گیا جن کا مقصد معاشی اور انسانی وسائل کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنا تھا۔
اس سفاکیت کے دیو نے ہزاروں زبانوں، ثقافتوں اور تہذیبوں کو چند سالوں میں نگل لیا۔ بہت سےدھرتی واس صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور باقی ماندہ ذہنی اور جسمانی غلام کی شکل میں زندہ رہتے ہیں۔ اب ان کی یاد میں دن منائے جاتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے جو تباہ کرتے ہیں وہی دن مناتے ہیں۔
یہ حرارکی عالمی سطح سے لے کر مقامی سطح تک معاشرے کے مختلف طبقات کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس دھندے میں مختلف ممالک کی حکومتوں سے لیکر بڑے بڑے ادارے پوری شد و مد کے ساتھ ملوث ہیں۔ ہماری ریاست کی ہی مثال لےلیجئے۔
ریاستی جبر کی یہ شکلیں آپ کو دھرتی واس اور زمین زادوں کے ساتھ زیادہ شدت اور سفاکیت کے ساتھ نظر آئیں گی۔ بڑی بڑی باتوں کو تو چھوڑیئے اپنی ماں بولی میں بات تک کرنا پسماندگی سمجھا جاتا ہے۔ جیسےسرائیکی اپنے گھر میں سرائیکی نہیں بول سکتا کیونکہ نصاب میں بچے کے ذہن میں بٹھا دیا گیا کہ آپکی زبان پسماندہ ہے، اسی طرح پنجابی، ہندکو، دری، پشتو، بلوچی، پوٹھوہاری، کشمیری کتنی زبانیں ہیں جو ہمارے نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں یا جن کو عزت دی جاتی ہے۔ سندھی ایک ایسی زبان ہے جس کو کسی نہ کسی حد تک نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔
جب یہاں کے باسی اپنی شناخت کی بات کرتے ہیں تو اُن کو انتظامی تقسیم کا لالی پاپ دے کر آپس میں لڑا دیا جاتا ہے۔ ریاست جو اوپر بیان کئے گئے مقدمے میں استحصال کی شراکت دار ہے اس کے ہرکارے درس دیتے پھرتے ہیں کہ لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر حقوق کی بات مت کرو، اس سے ریاست کمزور ہوتی، معاشرے میں تقسیم گہری ہوتی ہے۔ میری نظر میں یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے جس کے پس پردہ لوگوں کو ایسے کل پُرزے کے طور پر بحال رکھنا ہوتا ہے جو ریاست کے استحصالی کردار کو قبول سکیں۔
اس کی تازہ مثال سرائیکی خطے سے تعلق رکھنے والے عوام کے حقوق کی ہے جو جب بھی اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو اُن کو درج بالا ہتھکنڈوں سے چُپ کروا دیا جاتا ہے تاکہ اختیارات کو تخت لاہور اپنے تصرف میں رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عرصے تک لوگوں کو اُن کے بُنیادی ثقافتی، سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم کرتا رہے۔ اس استحصال میں اکیلا تخت لاہور یا ریاست پاکستان ملوث نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ پوری دُنیا میں جزوی یا کُلی طور پر موجود ہے جس کی وجہ سے عالمی طور پر قومی تحریکوں کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو آنے والے وقت میں کافی خونریز جنگوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔