(قاسم یعقوب)
میں اکثر ایسے سوالات کا سامنا کرتا ہوں:
’’کیا ہم شعوری طور پر کوئی نئی زبان بنا سکتے ہیں،کیاہمارے خطے میں اب کسی نئی زبان بننے کا امکان ہے؟ اورایک پرانی زبان مر کیوں جاتی ہے؟‘‘
میں کون ہوتا ہوں جوکسی نئی زبان کے ظہور کو روک سکے البتہ ان سوالات کا آخری حصہ مجھے پریشان رکھتا ہے کہ پرانی زبانیں مر کیوں رہی ہیں۔ کوئی زبان کبھی بھی مر نہیں سکتی جب تک اُس کے بولنے والے زندہ ہیں یعنی جب تک وہ پریکٹس میں ہے، یونہی وہ زبان پریکٹس سے نکلے گی مر تی جائے گی۔ کسی زبان کا طاقت ور اور کمزورہونا ایک اور مسئلہ ہے، وہ اس کے بولنے و الوں کی طاقت سے جڑا ہوتا ہے۔اگر ہم پاکستانی خطے کی بولے جانے والی زبانوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ بہت سی زبانیں ایسی ہیں جو مر رہی ہیں اور ان کو زندہ رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ انھیں پریکٹس میں لایا جائے۔
ایک زبان کتنا بڑا ’’انسانی سرمایہ ‘‘ہے ہمیں اس کا احساس شاید اس لیے نہیں ہوتا کیوں کہ ہم زبانوں کے بننے کے عمل سے آگاہ نہیں۔صدیوں پر محیط عرصہ انسانی محنت (جذبات، اظہارات، علمیات، رسمات)سے زبان کی تشکیل کرتا ہے۔ایک زبان اصل میں انسان کی جہان بینی(World view)ہے ۔ایک انسان اپنے اندر کس طرح سوچتاہے ،کس طرح اپنے آپ کو باہر پیش کرتا ہے۔ زبان سماج کاوہ لبادہ ہے جس کے سہارے وہ فطرت کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش میں رہتا ہے۔
پاکستان جیسے خطے میں بہت سی زبانیں بولی جارہی ہیں۔ کچھ زبانوں کے بولنے والے زیادہ تعداد میں موجود ہیں جیسے سندھی، پشتو،سرائیکی، پنجابی اور بلوچی جب کہ بہت سی زبانیں مقامی زبانیں ہی بن کے رہ گئی ہیں جن میں براہوئی، توروالی، گاؤری،وغیرہ۔ان زبانوں کے درمیان ایک مشترکہ ثقافتی زبان کے طور پر اُردو زبان رائج ہے۔اُردو زبان بھی اسی خطے کی زبان ہے۔اسی خطے کے باشندوں نے بنائی،یہیں کا کلچر اپنے اندر نفوس کیے ہوئے ہے۔اُردو پر مقامی زبانوں کے کلچر کے بہت سے اثرات موجود ہیں۔الفاظ اور محاورات کامقامی استعمال بھی عام ہے۔
سوال یہ تھا کہ یہ زبانیں کیوں مر رہی ہیں ؟
زبانیں اس لیے مر رہی ہیں کہ اُن کے بولنے والے کم ہورہے ہیں، ’’پڑھی لکھی نسل‘‘ اپنے بچوں سے اپنی ’’گنوار‘‘ اور علاقائی (محدود) زبان بولنا پسند نہیں کر رہی ، بین الااقوامی زبانیں اُن کے سر پر سوار ہو چکی ہیں، کیوں کہ طاقت ور زبان مقامی زبانوں کو بے دخل کرنے کے لیے مراعات کا سہارا لیتی ہیں، یہ مراعات اُن زبانوں میں ہونے والی طاقت (معاش)کی سرگرمی ہے۔ ایک نسل اس طاقت کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے اور یوں کمزور زبان کی ضرورت مزید کم ہوتی جاتی ہے۔ پاکستان کی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُردو اور انگریزی نے اس خطے کی مقامی زبانوں پر بے پناہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ مقامی زبانیں تقریباً ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔مقامِ افسوس ہے کہ ہماری نئی نسل اپنے ثقافتی ورثے سے تقریباً نابلد ہو چکی ہے۔ وہ خوب کی تلاش میں سب سے پہلے اپنے ورثے کی سب سے اہم ’’چیز‘‘ زبان کو خیرباد کہتی ہے اور پھرکچھ اور کرتی ہے۔اگر یہی صورتِ حال مزید پچاس ساٹھ جاری رہی تو آپ دیکھ سکیں گے کہ پاکستان کی مقامی زبانوں کو بولنے والے چند ہزار افراد بھی نہیں ملیں گے اور جو بول رہے ہوں گے وہ ان زبانوں میں ٹوٹ پھوٹ اورافراط و تفریط کے اتنے قائل ہو چکے ہوں گے کہ ان زبانوں کی اصل جاننا بھی مشکل ہوگا۔
میں نے پہلے ایک ترکیب استعمال کی ’’انسانی سرمایہ‘‘ اگر اسے انسانی لوک ورثہ‘‘(Human Heritage)کہیں تو زیادہ وضاحت ہو جائے گی۔یہ ہمارا ہی نہیں، پوری انسانیت کا ’’لوک ورثہ‘‘ ہیں ، ہم سب نے اس کے لیے کام کرنا ہوگا۔
پچھلے دنوں مجھے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ ’’پاکستانی زبانیں‘‘نے کچھ لیکچرزکے لیے بلایا۔ یہ میرے لیے ایک یاد گار اور نہایت قابلِ احترام تجربہ تھا ۔ عزیز دوست واجد تبسم اس شعبے میں نہایت سرگرم ہیں ۔ میں نے تو ’’علم لسان‘‘ پر کچھ ابتدائی باتیں کرنا تھیں مگر میں اس دوران شعبے کے ایک نئے تعارف سے گزرا۔پہلے دن میں نے زبان کی تکنیکیات پر گفتگو کی ، چوں کہ زبان کا عمل دنیا بھر کی زبانوں میں ایک سا ہے اس لیے مجھے کلاس میں بیٹھے طالب علموں کی مقامی زبانوں اور علاقوں کا کچھ تعارف نہ ہو سکا۔ اگلے دن پھر مجھے اس کلاس میں جانا تھا، کلاس میں جانے سے پہلے میں نے ان طالب علموں کو محترم ضیا بلوچ (لیکچرر)کے ساتھ کینٹین کے ایک کونے میں ٹیبل کے اردگرد محوِ گفتگو دیکھا، ضیا بلوچ سے ملنے اُن کے پاس بیٹھ گیا، میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں پنجگور، مکران، چاغی، گوادر، لورالائی، تربت اور خضدار سے آئے ہوئے طالب علموں کا مجمع تھا۔یہ سب اسلام آباد کی ٹھنڈی فضاؤں میں محبت بانٹتے ، ہنستے اور مسکراتے محوِ گفتگو تھے، بلوچ صاحب کا تعلق خود بلوچستان سے ہے مگر وہ پنجابی گھر والی کی وجہ سے وفاق کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
جب میں کلاس میں گیا تو مجھے واجد تبسم صاحب نے تعارف کروایا کہ یہاں پشتو، براہو،ی، سرائیکی، شنا، گلگتی، پہاڑی ، سندھی وغیرہ تقریباً ہر زبان سے تعلق رکھنے و الے طالب علم موجود ہیں۔ اور صرف تعلق ہی نہیں رکھتے بلکہ ان زبانوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔میں کئی دیر سوچتا رہا کہ یہ تو وہ کام ہے جوپاکستان میں ریاست،نظریہ پاکستان اور مذہب( اللہ معاف) بھی نہیں کر سکاجو یہ شعبہ کتنے چپکے چپکے سے کرتا جا رہا ہے۔ اس بھائی چارے،محبت اور صوبائیت سے نفرت کا درس توشاعری، فنون اور جمالیات کے فن پارے بھی نہیں پھیلا سکے جو یہ شعبہ کر رہا ہے۔واقعی یہ یونیورسٹی سہی معنوں میں ’’وفاق‘‘ کی علامت ہے۔
یہ شعبہ 1998میں شعبۂ اُردو سے الگ کر کے بنایا گیا، جس میں 2004سے ایم فل اوراب کچھ عرصہ سے پی ایچ ڈی کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ یہاں سے موصول ہونے والی ڈگری کو ’’پاکستانی زبانیں‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ یونیورسٹی مقامی افراد کو مرکز میں لانے اور اُنھیں اُن کی زبانوں کے ساتھ قبول کرنے کا احترام بھی کر رہی ہے۔نہ صرف مقامی زبانوں کو قبول(Own)کر رہی ہے بلکہ مقامی زبانوں کے ماہرین بھی پیدا کر رہی ہے تاکہ اُن زبانوں کے تحفظ اور بقا(procurement and Protection) کے لیے بھی’’ عملی ‘‘کام کیاجائے۔ عملی اس لیے کہ باتیں تو ہمارے (کانفرنسوں والے بابو) سکالرز بہت کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔
اس شعبے میں جن زبانوں کی تعلیم اور اُن پر تحقیق کروائی جا رہی ہے اُن میں براہوی، شنا،سرائیکی، پنجابی،بلوچی،سندھی،پہاڑی، ہندکو،گوجری،کشمیری،بلتی، بروشسکی،کھوار، اوروخی وغیرہ شامل ہیں۔ اس یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام صرف گذشتہ چھ سات سالوں میں میاں محمد بخش، شاہ لطیف، بابا فرید، رحمان بابا،خوشحال خان خٹک، سچل سرمست، وارث شاہ، سلطان باہو، شاہ عبدالطیف بھٹائی پر سمینیار بھی منعقد ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ ’’قائد اعظم پاکستانی زبانوں کے آئینے میں‘‘ کے نام سے ایک قومی سیمینار بھی منعقد ہوا جس میں بانئ پاکستان کی پاکستانی کلچر کے زمرے میں تقاریرکا جائزہ لیا گیا اور مقامی زبانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔یہ وہ تصور ہے جس میں قومیت کے تصور کو پرونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
۱۔ یہ شعبہ مقامی کلچر کو قریب لا رہا ہے۔
۲۔ علاقائی تفاوتیں(Disparities)جو مسلکی سطح پر، ثقافتی سطح پر یا علاقائی سطح پر ہی کیوں نہ ہوں ، سب کو ختم کر رہا ہے۔
۳۔ شراکت داری کے اہتمام سے مختلف پاکستانی خطوں کے افرادکو باہمی گفتگوو شنید کا موقع دے رہا ہے۔ شاید ’’مکالمہ‘‘ ہی واحد حل ہے ہمارے مسائل کا۔
۴۔ مقامی اور علاقائی زبانوں کی نہ صرف حفاظت کر رہا ہے بلکہ ان کو معیاری بنانے کے لیے بھی ماہرین بھی پیدا کر رہا ہے۔یوں سب سے بڑے انسانی لوک ورثے کی حفاظت اور ترقی و ترویج کا اہم کام بھی اس شعبے کے ذمے ہے۔
۵۔ مقامی ثقافتی اقدار کے رکھوالے ہمارے بزرگ، ہماری دانش گاہیں یعنی ہمارے لوک صوفی اور شعرا پر جتنا اہم کام اس شعبے کے تحت ہُوا ہے کسی بھی ثقافتی انجمن یا تنظیم کو وہ نصیب نہیں ہُوا۔
اس سلسلے میں یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر شاہد صدیقی صاحب کی توجہ اور رہنمائی بھی قابل دید رہی۔ میری اُن کے ساتھ اس شعبے کے متعلق گفتگو رہی۔ انھوں نے اس لوک ورثے کی حفاظت پر صدرِ شعبہ عبداللہ جان عابدکی بہت معاونت کی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ لوگ جو معاشرے میں سیاست، علاقائیت،مذہب، ثقافت کے نام پر نفرت، تفاوت اور بے یقینی پھیلا رہے ہیں انھیں اس طرح کی سرگرمیوں کی طرف لایا جائے۔ انھیں سکھایا جائے کہ محبت اور بھائی چارا ہی انسانوں کے درمیان آخری زندہ علامت کے طور پر موجود ہے، اُسے بھی ختم نہ کرو۔ ایک دوسرے کے قریب آنے سے مکالمہ جنم لیتا ہے اور مکالمہ ہی ہمیں ایک دوسرے کو اپنے اندر قبول کرنے کی توفیق دیتا ہے۔سیاست دانوں سے اکتائے ہوئے عوام کے لیے اس طرح کے پیغامات بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔