(مجاہدحسین)
پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے کیونکہ ایک بار پھر اس کے وجود کو شدید خطرات نے گھیر رکھا ہے اور بیرونی دنیا اس کے مستقبل کے حوالے سے کافی متفکر ہے۔تقریباً تین صوبوں کو مرکز سے سنجیدہ شکایات ہیں اور دوصوبوں میں متشدد تحریکیں چل رہی ہیں جبکہ ملک میں نئے صوبے بنانے کے موضوع پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد کے کئی شہروں اور دیہات میں متشدد طالبان اور انتہا پسند ریاستی افواج کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔اس جنگ نے پچیس لاکھ سے زائد شہریوں کو اُن کے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے اور نقل مکانی کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد بے سروسامانی کے عالم میں امدادی مراکز اور خیمہ بستیوں میں پڑی ہے۔طالبان اور اُن کے ساتھی پاکستان کے نہتے اور بے گناہ شہریوں کے خلاف خودکش بم دھماکے کررہے ہیں جن میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ ہزاروں معذور اور زخمی ہوئے ہیں۔کئی مہینوں سے جاری فوجی آپریشن سوات کے علاوہ جنوبی وزیرستان کے پہاڑوں میں بھی جاری ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ چھاپہ مار جنگ کے ماہر طالبان اور انتہا پسند اس جنگ کو طویل عرصے تک جاری رکھیں گے جو پاکستانی ریاست کے لیے عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جاری مذکورہ جنگ پاکستان کی سلامتی اور بقا کی جنگ میں تبدیل ہوتی جارہی ہے کیونکہ طالبان نے پاکستانی ریاست اور اِس کے قوانین کو چیلنج کیا ہے۔
`اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر دہشت پھیلانے والے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔ جب کہ دہشت گرد اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام مذہبی بنیادوں پر ہونے والی قتل وغارت گری کی حمایت نہیں کرتے اور نہ ہی وہ متشدد بنیاد پرستوں کو اجازت دیں گے کہ وہ پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرلیں۔انتہا پسند اور اُن کے ساتھی پاکستان کو ایک ناکام ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور بدقسمتی سے اِنہیں اس مقصد میں کامیابی بھی حاصل ہورہی ہے کیونکہ بحیثیت ملک پاکستان دنیا کے چند پسماندہ اور شورش زدہ ممالک میں شمار کیا جانے لگا ہے اور اس کی بین الاقوامی ساکھ بہت بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بیرونی دنیا پاکستان کو خطرات میں گھرا ہوا ملک سمجھتی ہے جو ایٹمی اسلحہ رکھتا ہے لیکن اس کی معاشی حالت تیزی کے ساتھ ابتر صورت حال کا شکار ہورہی ہے۔تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ ترقی کی شرح 2 فیصد کے قریب ہے جو کہ دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک سے کم ہے۔بہت سے تجزیہ نگاراس بات پر متفق ہیں کہ پاکستانی ریاست ایک مرتبہ پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن اس مرتبہ یہ کام انتہاپسند اور اُن کے ساتھی سرانجام دینا چاہتے ہیں۔
اس سے پہلے 1971ء میں پاکستانی ریاست کو اپنی ٹوٹ پھوٹ کا منظر دیکھنا پڑا تھا، جس کے لیے آج بھی ہم آزردہ ہیں اور ہر سال 16 دسمبر کو سقوط مشرقی پاکستان کے نام سے ایک دوسرے کو کوسنے دیتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ریاست کی اس ٹوٹ پھوٹ کے مجرمانہ عمل کی غیرجانبدارانہ تحقیق کی جاتی اور ہر اُس ذمہ دار کو سزا دی جاتی جو اس جرم میں شریک تھا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا ۔ ایسا اس لیے نہ ہوسکا کہ ملک میں جمہوری اداروں کو پھلنے پھولنے سے روک دیا گیا تھا اور ایسے لوگ پاکستان کے اقتدار پر قابض ہوگئے تھے جن کو آئین اور قانون ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔عملی طور پر قائد اعظم کے تصور پاکستان کی نفی کرنے والوں میں کئی ایسے لوگ بھی شامل تھے جو تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے رفیق تھے لیکن اِن کی اچانک رحلت کے بعد اُنہوں نے اقتدار میں شامل ہونے کے لیے غیر آئینی حربوں کا ساتھ دیا اور پاکستان کو قائد کے خواب کے برعکس ایک جمہوری پاکستان بننے سے روک دیا۔
یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ پاکستان کو دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ کس طرح اُلجھا کر رکھ دیا گیا تاکہ پاکستان کے عوام ایک آزاد اور خودمختار ملک میں اپنا جمہوری حق حاصل نہ کرسکیں۔مفاد پرست جاگیردار اور بالادست طبقات نے فوج کے ساتھ مل کر پاکستان کی نئی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ا ور بدقسمتی سے اس میں کامیاب بھی رہے۔اس کے بعد کیا تھا اسلام آباد میں ایسے حکمرانوں کی فصل تیار ہونے لگی جو عوام کے براہ راست اقتدار سے بدکتے تھے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہر قسم کا حربہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔رفتہ رفتہ پاکستان ایک ایسے ملک کا روپ دھار گیا جہاں ایسی حکومتیں بننا شروع ہوگئیں جن کا کنٹرول غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں تھا۔اس کا نتیجہ یوں برآمد ہوا کہ مفاد پرستوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہوتا گیا اور غیر جمہوری حکمرانوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔
لیاقت علی خان کے اندوہ ناک قتل کے بعد ملک میں ایسے لیڈروں کی بہتات تھی جو اقتدار کے لیے کسی بھی اُصول یا ضابطے کو قربان کرسکتے تھے۔ملک کے بیشتر حصوں میں مذہبی جماعتوں اور مسلکی طور پر منقسم گروہوں کے درمیان کشیدگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ چونکہ مرکز میں یا تو براہ راست فوج اقتدار پر قابض تھی یا پھر ایسے کٹھ پتلی نام نہاد سول حکمران جو مذہب اور مسلک کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کو تیار کھڑے رہتے۔ایوب خان کے مارشل لا کے آغاز تک ملک میں مذہبی و مسلکی بنیادوں پر تقسیم کا سلسلہ شدت اختیار کرچکا تھا۔شوکت اسلام کے جلسوں سے لے کر ختم بنوت کے جلوسوں تک ہر کوئی دوسرے مسلک یا عقیدے کے لوگوں کے لیے حتی المقدور نفرت اور بے زاری کا سامان پیدا کررہا تھا۔اکثر اوقات ہمارے تجزیہ نگار ضیا الحق دور کو فوج میں فرقہ وارانہ اور مذہبی متشدد خیالات کی ترویج کا ذمہ دار قراردیتے ہیں لیکن یہ دعویٰ حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے کیونکہ فوج کے مزاج کو مذہبی رنگ دینے میں1965ء کی پاک بھارت جنگ کا بہت اہم کردار ہے، جس میں بھارت پر پاکستان کی فتح ثابت کرنے کے لیے قومی سطح پر جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔بھارت کے ساتھ جنگ کو مکمل طور پر کفر اور اسلام کی جنگ بنا کر پیش کیا گیا اور اہل پاکستان کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر وہ بھارت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو اِنہیں ذہنی طور پر اپنے آپ کو اسلام کے سنہری دور میں لے کرجانا ہوگا۔یوں ملک میں ایک نئی قسم کی ”ابتدا“ کا کام شروع کیا گیا اور برصغیر پاک وہند پر حملہ آور مسلمان فاتحین کو مبالغہ آمیز خراج عقیدت پیش کیا جانے لگا۔ دوسری طرف پنجاب میں اقلیتی فرقے احمدیوں کو نشانے پر رکھ لیا گیا اور اِن کے بارے میں اس پراپیگنڈے کو عام کیا گیا کہ احمدی نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی سچے پاکستانی۔عقائد کی بنیاد پر ”تقسیم کفر“ کے اس عمل میں سواد اعظم کے ساتھ اہل تشیع بھی شامل ہوگئے اور احمدیوں کے ارتداد کے فتوے جاری ہونے لگے۔سول حکمرانوں کو چونکہ بہت پہلے طاقت ور فوج اور بیوروکریسی ”سیاسی طور پر بانجھ“ کر چکی تھی اس لیے یہ ممکن نہ رہا کہ پاکستان کو مذہبی و مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہونے سے روکا جاسکے۔
ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔وہ سماج جو صدیوں سے کسی مذہبی ومسلکی تفریق کے بغیر ایک ساتھ رہتا چلا آرہا تھا، اس کے تانے بانے بکھر گئے اور مخالف مسالک کو برداشت کرنا ایک ناممکن فعل نظر آنے لگا۔اگر ایک طرف اہل تشیع اور سواد اعظم آپس میں گتھم گتھا تھے اور محرم کے ایام میں مشتعل ہجوموں کو قابو کرنا مشکل تھا تو دوسری طرف احمدیوں کے خلاف تحریک بھی زوروں پر تھی اور اِن کی باضابطہ تکفیر کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا۔ پنجاب کے بعض علاقوں میں عیسائیوں اور دیگر اقلیتی طبقات کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔بالآخر پیپلز پارٹی کی بظاہر روشن خیال حکومت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں احمدیوں کی تکفیر کے بل کو قانون کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
اگرچہ بھٹو کا یہ فیصلہ خالصتاً سیاسی فوائد کے حصول کے لیے تھا لیکن اس اقدام نے ریاست کے آیندہ خدوخال کی نشاندہی کردی۔ بھٹو اپنی اس متذبذ ب کوششوں میں ناکام رہا اور قومی اتحاد کے مذہبی لیڈروں نے فوجی سربراہ کو اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے پر آمادہ کیا اور یوں بھٹو کی نہ صرف حکومت کا خاتمہ کردیا گیا بلکہ اِنہیں بھی ایک متنازعہ مقدمے میں ” مشورہ اور حکم“ دینے کی پاداش میں پھانسی دیدی گئی۔ بھٹو جن کاخیال تھاکہ اُس نے احمدیوں کی تکفیر کے بارے میں”تاریخی“ کارنامہ سرانجام دیا تھا، پاکستان کے عوام اس کا مقدمہ سڑکوں پر لڑیں گے، بالکل غلط ثابت ہوا اور ضیا الحق نے پاکستان بھر کے فرقہ پرستوں اور مذہبی متشدد لوگوں کو کھل کھیلنے کی چھٹی دیدی۔اس طرح پاکستان میں روایتی مذہبی رواداری کے تابوت میں آخری کیل
جنرل ضیا الحق نے ٹھونک دی اورپاکستان کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا۔ ضیا الحق دور میں جمہوری قوتوں اور عوام کے نمایندوں کو دبانے کے لیے ایسے حربے اختیار کیے گئے جن سے ایک طرح سے ”نئی قیادت“ سامنے آنے لگی اور ملک کے بیشتر حصوں میں ایسا کلچراُبھرنے لگا جس میں تشدد اور انارکی کے اجزا بہت نمایاں تھے۔ملک کے بعض حصوں میں لسانی و مذہبی بنیادوں پر تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا ۔غیر آئینی حکمرانوں کو ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو اِن کے ایجنڈے کو کامیاب بنانے میں اِن کا ساتھ دیتے اور جمہوری پارٹیوں کی جگہ ایسی متبادل قیادت کو سامنے لاتے،جو غیر منصفانہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہوکر ایوانوں میں پہنچ جاتی۔اس دوران بعض علاقائی تبدیلیوں نے بھی پاکستان کی سیاسی و سماجی صورت حال پر اپنا اثر ڈالا اور چونکہ پہلے ہی پورے ملک میں ایسی فضا تیار ہوچکی تھی اس لیے بیرونی سرحدوں پر رونما ہونے والے اہم واقعات کو سرحد وں کے اندر نہ صرف پذیرائی حاصل ہوئی بلکہ عقائد کے حوالے سے منقسم سماج نے پوری طرح انگڑائی لی اور بیرونی اثرات کو پورے شدومد کے ساتھ اپنا لیا گیا۔
اس دوران پاکستان میں اوراس کے پڑوسی ممالک میں جو اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں اِنہیں اس طرح دیکھا جاسکتا ہے۔
۱۔ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ اور فوجی آمریت کے دور کا آغاز
۲۔افغانستان پر روسی افواج کا حملہ اور پاکستان پر اس کے اثرات
۳۔ ایران میں انقلاب اور اس کی دوسرے ممالک کو برآمد کی کوشش اور اس کا ردعمل
5 جولائی1977ء کو فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کردیا اورنوے دن کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔بعد میں اُس نے اپنے اعلان کو خود ہی رد کردیا اور ملک میں آئین کے مطابق انتخابات کروانے سے انکار کردیا۔ضیا الحق نے ملک کی روشن خیال سیاسی پارٹیوں کو شدید تعصب کا نشانہ بنایا اور چن چن کر ایسے افراد کو اپنی کابینہ اور بعد میں مجلس شوریٰ میں شامل کرنے لگا، جو کسی صحت مند جمہوری عمل پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ضیا الحق نے بھٹو مخالف تحریک قومی اتحاد کے نفاذ اسلام کے نعرے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور ملک میں اسلامائزیشن کے عمل کو خاص طبقات کی بیخ کنی اور بعض مسالک کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔اس کی سب سے خوفناک مثال زکوٰة وعشر آرڈی نینس کا اطلاق تھا جس نے ملک کی شیعہ آبادی کو مشتعل کردیا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ شیعہ اقلیت نے ”تحریک نفاذ فقہ جعفریہ“ کے نام سے ایک خالصتاً فرقہ وارانہ تنظیم کو فعال کیا اور مخالف مسالک کے ساتھ کشیدگی میں شامل ہوگئی۔دوسری طرف ضیا انتظامیہ نے جنوبی پنجاب اور دیگر علاقوں میں دیوبندی مسالک کی تنظیموں کی امداد کا سلسلہ شروع کیا اور انجمن سپاہ صحابہ نام کی تنظیم مقابلے پر آگئی اور پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ کو شدومد کے ساتھ شروع کردیا گیا۔
حدود آرڈے نینس اور اس طرح کے کئی متنازعہ حکم نامے جاری ہوئے اور پاکستان کے سماج کا نقشہ تبدیل ہونے لگا۔اقلیتوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کی حکمت عملی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔توہین سے متعلق قوانین کو نئے سرے سے مرتب کیا گیا اور اِن میں ایسی شقیں شامل کی گئیں جنہیں مخالف مسالک اور اقلیتوں کے خلاف آسانی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا تھا۔سیاسی مخالفین کو سزا دینے کے لیے کوڑوں کی سزا ئیں سنائی گئیں ۔غرض مارشل لا انتظامیہ نے ہر اُس حربے کا ستعمال کیا جس کی مدد سے وہ اپنے مخالفین کا قلع قمع کرسکتی تھی۔
ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے فوج میں خطیب بھرتی کرنے کے لیے درکار تعلیمی اہلیت کو نرم کردیا گیا اور مذہبی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کی اسناد کو یونیورسٹی کی اسناد کے برابر درجہ دے دیا گیا۔صرف 1982ء سے 1984ء تک ہزاروں ایسے افراد کو فوج میں کھپایا گیا جن کے پاس صرف مدارس سے عربی فاضل اور اس جیسی دیگراسناد تھیں۔اس عمل نے ایک پیشہ ورانہ فوج کا مزاج تبدیل کرکے رکھ دیا اور متشدد مذہبی خیالات کے حامل فرقہ پرستوں کی ایک بہت بڑی تعداد افواج پاکستان کی تربیت کرنے لگی۔
اس دوران پڑوسی ملک افغانستان پر روسی افواج نے حملہ کردیا۔ پاکستان جو افغانستان کے اندرونی معاملات میں ایک طویل عرصے سے دخیل تھا اور اسلام آباد ہمیشہ اس طرح کی کوششوں میں مصروف تھا کہ کابل میں روس نواز حکومتوں کو زچ کیا جائے، اس کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا ۔واضح رہے کہ اس دوران پاکستان کی ایک بڑی مذہبی جماعت کے طلبہ ونگ کا ایک پورا شعبہ کابل میں کمیونسٹوں پر حملوں میں مصروف تھا اور دونوں ممالک میں کشیدگی پائی جاتی تھی۔جیسے ہی روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں امریکا اور اس کے مغربی حواری اِنہیں روکنے کے لیے متحرک ہوگئے اور پاکستان کو مجاہدین کا بھرتی مرکز قرار دیدیا گیا۔
پاکستان دنیا بھر کے متشدد مذہبی افراد اور جماعتوں کے لیے پُرکشش ملک قرار دیا گیا اور سی آئی اے نے پاکستانی حکمرانوں کی مدد سے پوری دنیا سے مجاہدین بھرتی کیے اور انہیں افغانستان پر حملہ آور روسیوں کے مقابلے پر لے آئی۔ملک میں مذہبی مدارس کا پورا جال بچھادیا گیا اور عرب ممالک کی دولت کو مجاہدین کی بھرتی اور تربیت پر صرف کیا جانے لگا۔پاکستان میں افغانستان کی جنگ کو مقدس جہاد کا نام دیا گیا اور لاکھوں نوجوانوں کو اس میں حصہ لینے کے لیے تربیت فراہم کی گئی۔آج دنیا بھر میں جنہیں دہشت گرد اور انسانیت کے بدترین دشمن قرار دیا جاتا ہے ،اِنہیں پوری دنیا سے کھینچ کھینچ کر پاکستان لایا گیا اور مسلح جنگ کی تربیت دی گئی ۔افغان جنگ نے پورے پاکستان کا مزاج تبدیل کرکے رکھ دیا۔ کشمیر جہاد کے نام پر پاکستان میں آئی ایس آئی نے مسلح گروپوں کو تربیت فراہم کرنے کا کام بھی شروع کردیا۔
اِسی اثنا میں ایک اور پڑوسی ملک ایران میں شہنشاہ کا تختہ اُلٹ کرمذہبی قوتیں برسر اقتدار آگئیں۔ایران میں انقلاب کو مسلم دنیا کی طرف سے حمایت حاصل ہوئی۔ نئے مسلکی حکمرانوں نے پوری مسلم دنیا میں خانہ فرہنگ نام کے ادارے کھولے اور تشیع لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ ایرانی انقلاب کو برآمد کرنے کا کام شروع کردیا۔پاکستان کے تمام صوبائی مراکز میں خانہ فرہنگ ایران کے نام سے مراکز کھولے گئے جو مقامی اہل تشیع کو امداد فراہم کرنے لگے۔پاکستان جو پہلے ہی مخصوص مسالک کی مسلح تربیت میں مصروف تھا اس نے خانہ فرہنگ کی اشاعت دین کی کوشش کو فرقہ وارانہ تبلیغ سمجھا اور یوں پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ پوری شدت کے ساتھ لڑی جانے لگی۔تقریباً تین دہائیوں میں صرف پاکستان میں لڑی جانے والی اس فرقہ وارانہ جنگ میں ہزاروں افراد کو قتل کردیا گیا۔مخالف کو گھات لگا کر قتل کرنے سے لے کر مذہبی عبادت گاہوں پر خودکش حملوں تک جاری اس جنگ و جدل نے پاکستان کا حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اورآج پاکستان میں ایسے علاقے بھی پائے جاتے ہیں جہاں مخالف مسلک کے کسی شخص کو دیکھتے ہی گولی مار دی جاتی ہے یا اس کو سرعام ذبح کر دیا جاتا ہے۔ملک کے تمام اہم اداروں میں مسلکی تقسیم کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
گیارہ ستمبر 2001ء کو جب امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتوں کو خودکش حملوں میں تباہ کیا گیا تو ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کی توجہ پاکستان اور افغانستان پر مبذول ہوئی اور اِن ممالک میں پائے جانے والے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مراکز کو دنیا کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔لیکن دوسری طرف پاکستان اور افغانستان اس حوالے سے بہت سا سفر طے کرچکے تھے۔افغانستان کے غالب حصوں پر طالبان کا قبضہ تھا اور پاکستان اپنے وجود پر پلنے والی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ہاتھوں عاجز آچکا تھا۔ طالبان اورپاکستان کے درمیان چونکہ دوستانہ تعلقات تھے اس لیے پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی پر ہمیشہ یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ طالبان کی نہ صرف اصل خالق تھی بلکہ اس نے طالبان کو ہر طرح کی امداد فراہم کی۔
گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد پاکستان پر امریکا کی طرف سے دباؤ بڑھا دیا گیا کہ وہ طالبان کے ساتھ نہ صرف اپنے تعلقات ختم کرے بلکہ طالبان اور ان کی پناہ میں موجود القاعدہ قیادت کو نشانہ بنانے میں اس کی مدد کرے۔ پاکستان میں ایک فوجی آمر پرویز مشرف برسراقتدار تھا جس نے پاکستان کو بین الاقوامی تنہائی سے بچانے کے لیے اور ملک کی دگرگوں معاشی حالت کو سہارا دینے کے لیے امریکی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
یوں ایک مرتبہ پھر پاکستان اور افغانستان ساری دنیا کے لیے مرکز توجہ بن گئے۔لیکن اس دوران نہ صرف پاکستان میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا تھا بلکہ افغانستان میں بھی انتہا پسند اپنے آپ کو مضبوط کرچکے تھے۔پہلی افغان جنگ کے بعد پاکستان میں انتہاپسندوں
نے ریاستی اداروں کی مدد سے نہ صرف اپنے آپ کو مضبوط بنایا بلکہ ہزاروں مدارس، مراکز اور تربیتی مراکز ان کے پاس تھے جہاں وہ انتہا پسندوں کی نئی فصل تیارکرنے میں مصروف تھے۔جہاد کشمیر، جہاد افغانستان،جہاد بوسنیا اور کئی دوسرے جہادوں میں مصروف رہ چکے انتہا پسند اب پوری طرح ”جہاد پسند“ بن چکے تھے، جنہیں کسی پُرامن طرز زندگی کی طرف لانا ناممکن تھا۔
نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کی ریاست کمزور ہے اورانتہا پسند طاقت ور ہیں۔پاکستان کے سماج کی شکل تبدیل ہوچکی ہے اورپاکستان کو بیرونی دنیا میں ایک ایسے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جس کے تقریباً تمام شعبوں میں انتہا پسندوں اور مذہبی متشدد لوگوں کا غلبہ ہے۔گزشتہ قریباً دو دہائیوں کے دوران ریاست کو چیلنج کرنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اورریاست کے تصور کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری کے حامل اداروں اور عہدوں کا لاغر پن بڑھا ہے۔ پہلے ہم نے افغان جنگ میں اپنی خدمات پیش کرکے ایسے عناصر کو اپنے ہاتھوں سے مضبوط کیا جو ریاست کے خلاف ہی پلٹنے والے تھے پھر ہم نے ناقص طرز ِعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے عناصر کو مالی و عسکری حوالے سے مضبوط کیا جنہیں ہم کمزور حکومتوں کو ڈرانے کے لیے اسمبلیوں میں استعمال کرتے تھے۔ ایوانوں میں خصوصی طور پر قائم رکھی گئی کمزور عددی برتری کو دھمکانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے فرقہ پرست عناصر کی پشت پناہی کی تاکہ ناپسندیدہ قانون سازی کرنے یا حد سے تجاوز کرجانے والی کسی بھی حکومت کو نکیل ڈالی جاسکے۔ اِس کے ساتھ ساتھ لسانی و علاقائی سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو محض اِس لیے ”تمام سہولیات“ فراہم کی گئیں کہ وہ بوقت ضرورت ان سے استفادہ کیا جاسکے۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ ان مقاصد کے لیے وقتی طور پر تیار کیے گئے گروہوں اور جماعتوں نے جب خود اپنی طاقت ظاہر کرنے کی کوشش کی تو ہمیں اُن کے خلاف آپریشن کرنا پڑے اور قوم کو ”باور“ کروانا پڑا کہ یہ لوگ وطن دشمن اور سماج دشمن تھے۔ ریاست نے اپنے دائمی مخالفین اور اپنی بقا کے دشمنوں کو خود اپنی گود میں پالا ہے۔ اسی لیے جب ریاست کو کسی بیرونی دباؤ یا لالچ کے تحت اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑتی ہے تو اس کے سابق طفیلی اُس کے ساتھ ٹکراؤ پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
سوات اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان اور اُن کے ساتھی پاکستان میں اپنی آخری جنگ لڑ رہے ہیں او راُنہیں پاک فوج کے ہاتھوں اُن کی توقع سے بھی زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پاکستانی ریاست کے دشمن طالبان دہشت پسندوں کے خلاف اِس جنگ میں سول حکومت اور فوج کے تال میل میں پاکستان کے عوام کی بھرپور حمایت بھی شامل ہے جس کی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف جاری اس آپریشن میں نتائج ماضی کی ایسی تمام کوششوں سے مختلف ہیں، جو تخفظات کے غلاف میں لپیٹ کر کیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں دہشت گردوں کے ساتھ نبٹنے کی حکمت عملی میں بہت سے سقم تھے اور اِسے کسی ایک فریق کی بھی مکمل حمایت حاصل نہ تھی۔ اس طرح کے آپریشن انتظامی کھینچا تانی کی فضا میں ہر قسم کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیے جاتے جن سے حتمی فائدہ دہشت گرد اور اُن کے ساتھی اُٹھاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ طاقت اور سفاکی کے ساتھ ریاست اور اس کے عوام کے خلاف سرگرم ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کو گزشتہ قریباً آٹھ برسوں میں جتنا نقصان دہشت گردوں اور اُن کے ہر قسم کے ساتھیوں نے پہنچایا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ دہشت گردوں نے کھربوں روپے کی املاک کو نہ صرف تباہ کیا ہے بلکہ پاکستان کی اندرونی و بیرونی ساکھ کو بھی کچل کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں سے پاکستان میں متاثر ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جب کہ پاکستانی سماج کو بھی دہشت گردی اور فرقہ واریت نے بہت حد تک زہر آلود کیا ہے، جس کے اثرات زائل ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ پاکستان میں مضبوط ہونے والی اس عسکریت پسندی نے نہ صرف پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی کئی برس پیچھے دھکیل دیا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔
اس دوران پاکستانی سماج میں عسکریت پسندی نے بھی اپنی جڑیں مضبوط کیں اورزندگی کے قریباً تمام شعبوں میں عسکری مزاج رکھنے والوں نے ”کامیابیاں“ حاصل کیں۔ حتیٰ کہ پنجاب کے کئی اضلاع میں مختلف سیاستدانوں نے اپنے مخالفین کے قلع قمع کے لیے باقاعدہ ایسے مسلح گروہ تشکیل دیے جنہیں”فورس“ کا نام دیا گیا۔لاتعداد مذہبی تنظیموں نے لاکھوں ایسے نوجوانوں کو مسلح تربیت فراہم کی جن کا تعلق غریب خاندانوں سے تھا اور وہ مناسب ملازمتیں حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اِس دوران ملک کے کونے کونے میں مسلح مذہبی اجتماعات کو فروغ حاصل ہوا جہاں سرعام اسلحہ کی نمائش کی جاتی جو مہم جو مزاج کے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا باعث بنتی۔ دوسری طرف ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ میں مذہبی عسکریت پسندی کی طرف مائل افراد کا غلبہ ہونے لگا۔ حساس اداروں میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی جو اپنے پڑوسی ممالک میں افراتفری مچانا چاہتے تھے۔ میڈیا ایسے لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا جو اعلیٰ ملازمتوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد معاشرے کو ایک خاص قسم کی تطہیر کے عمل سے گزارنا چاہتے تھے۔ چونکہ عام لوگوں تک اپنے متشدد خیالات پہنچانے کے لیے سب سے اہم ذریعہ اخبارات اور رسائل تھے اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے ملکی اخبارات میں ایسے لکھاریوں اور کالم نگاروں کا ہجوم نظر آنے لگا جو نہ صرف بھارت کو غارت کرنے کے درپے تھے بلکہ اُن کی نظر میں امریکا اور اسرائیل ایسے دو ناپسندیدہ ممالک تھے جو پاکستان کو محض ایک ایسی نظریاتی مسلم ریاست ہونے کی وجہ سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں جو اسلامی دنیا کی راہنمائی کے لیے بالکل تیار ہے۔
دوسری طرف خالصتاً جہادی لکھاریوں کی بھی ایک کھیپ دیکھتے ہی دیکھتے تیار ہوگئی جو ملک کے چاروں صوبوں سے شائع ہونے والے جہادی رسائل اور ہفت روزہ اخبارات میں جہاد کشمیر کی فضیلتوں کو بیان کرتی اور کشمیر میں گوریلا کارروائیوں کے ایسے مبالغہ آمیز قصے اِن جرائد میں شائع کیے جاتے جن کے سامنے جاسوسی اور مہم جوئی کی کہانیوں کے لیے مشہور ڈائجسٹ اور رسالے ہیچ ثابت ہوئے۔ متشدد مذہبی تنظیموں پر پابندی لگنے سے پہلے صرف پنجاب میں سات ایسی مذہبی تنظیمیں سرگرم تھیں جن کے جھنڈوں پر کلاشنکوف اور تلواروں کے مخصوص لوگو بنے ہوئے تھے۔ اِن تنظیموں نے پورے ملک کی دیواروں پر جہاد کی ترغیب والے اشتہارات لکھ دیے ۔ اِن میں کچھ ایسی تنظیمیں بھی شامل تھیں جو بھارت اور امریکا کے خلاف جہاد کے ساتھ ساتھ ملکی ”محاذ“ پر بھی سرگرم تھیں اور پاکستان کو اپنے مسلکی مخالفین سے پاک کرنا چاہتی تھیں۔ اِن تنظیموں نے ہر نمایاں نظر آنے والی جگہ کو فرقہ وارانہ نعروں کے لیے استعما ل کیا اور مخالف مسالک کی تکفیر کو نمایاں کرنے کے لیے سٹیکر اور بینروں کا بھی سہارا لیا گیا۔
پاکستان کے سماج کی یہ ترکیب سازی صرف مذہبی جماعتوں کی خالصتاً ذاتی ”کاوش“ نہیں تھی بلکہ اس میں ملک کے کئی اہم اور طاقت ور خیال کیے جانے والے اداروں نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ آج کل ٹی وی اور اخبارات میں جمہوریت پسندی کے نعرے لگانے والے اور روزانہ جمہوریت کے بارے میں بھاشن جاری کرنے والے مدبرین حتیٰ کہ سیاستدان بھی سماجی سطح پر عسکریت پسندی کے فروغ کی کوششوں میں شامل تھے، جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ متشدد مذہبی تنظیموں کی مدد سے اقتدار میں آجائیں گے۔ بعض ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی عہد ے داران بھی پوری قوت کے ساتھ اس کوشش میں تھے کہ ملک کی مسلح مذہبی تنظیمیں اور جماعتیں انہیں”سرپرست“ کے طور پر قبول کر لیں گی اور بعض کو تسلیم بھی کیا گیا۔
بدقسمتی سے یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ پاکستان اسلام مخالف اشرافیہ کے زیراقتدار ہے، جس کو ہٹانا عین ثواب ہے۔ آج بھی پاکستان کے بڑے شہروں میں ایسے لاتعداد متشدد الخیال مذہبی لیڈر اور خطیب سرگرم ہیں جن کے خیال میں پاکستان اپنی اسلامی شناخت کھو رہا ہے۔ اگر اِن تمام مذکورہ بالا اوصاف کی حامل تنظیموں، شخصیات، جماعتوں اور افراد کی رائے لی جائے تو اس کا حاصل یہ ہوگا کہ صوبہ سرحد کے طالبان اور انتہاپسند ملک کو صالح قیادت فراہم کرنے کے لیے برسر پیکار ہیں۔ اُصولی طور پر یہ جنگ پاکستان اور اُس کے سماج کی بقا کی جنگ ہے اگر خدانخواستہ اس جنگ میں متشدد انتہاپسندوں کو فتح حاصل ہوتی ہے تو اس کا مطلب ریاست کا خاتمہ ہے۔ مذکورہ بالا اذہان کے مالک لوگ ملک کے طول وعرض میں گھات لگائے بیٹھے ہیں اور اس تاک میں ہیں کہ کب ریاست کمزوری کا شکار ہو اور وہ اِس کے اقتدار پر قبضہ کرلیں۔
آج پاکستان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے اوراس کے وجود کے مخالفین اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ملک کے کئی شہروں میں
خودکش حملے ہو رہے ہیں۔ دہشت گرد عام لوگوں،اپنے مخالفین،سکیورٹی اداروں اور غیر ملکیوں پر حملے کررہے ہیں۔میریٹ ہوٹل پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری قریباً ختم ہوچکی ہے اور اس کی معیشت انتہائی دگرگوں ہے۔ بیرونی دنیا پاکستانی ریاست کو لاحق شدید سے خوفزدہ ہے اور اس اندیشے کا شکار ہے کہ پاکستان کے انتہا پسند اس کے ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر کیا بنے گا۔اس طرح کے خدشات اُس وقت حوصلہ شکن صورت حال پیدا کر دیتے ہیں جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے انتہائی طاقت ور اداروں میں انتہا پسندوں کے ساتھی موجود ہیں اور اُن کی مدد بھی کررہے ہیں۔انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بارے میں عوامی آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ میڈیا میں بھی انتہاپسندوں کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی مخالفت کرتی ہے۔آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اگر انتہا پسندوں کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوا تو اس کا وہی حال ہوگا جو آج عراق اور افغانستان کا ہے، جن کی سرحدیں تو اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن اندرونی طور پر یہ ممالک ٹوٹ چکے ہیں اور انتظامی طور پر بدحال ہیں۔