عرفان احمد عرفی
پاکستانی عوام کے لیے کسی اور لفظ میں اتنی منظر کشی نہیں جتنی سنسنی اور Sensation لفظ ’’جہاد‘‘ میں ہے۔ یہ لفظ اس قدر تحریک افروز (Provoking) ہے کہ پاکیزگی، نیکی، مہم جوئی اور عملی زندگی کے تمام پہلوؤں کے ساتھ اس کی وابستگی بحیثیت مسلمان فتح مندی اور کامرانی کے تصور سے فوری حظ اٹھانے کا موقعہ دیتی ہے۔ پڑھنے اور سننے والے پر یہ لفظ تاریخی پس منظر کے حوالے سے اپنی تمام تر حسیت، اُنسیت اور نسبت کے سارے باب ایک دم کھول دیتا ہے۔ اس لفظ کے جمال و جلال کے سحر کا یہ عالم ہے کہ فوری طور پر یہ آپ کے لاشعور و شعور کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے۔ خواب آوری سے بیداری کی جانب جھولا جھُلا دیتا ہے اور اس لفظ کا سامع اور ناظر اِس کے سیاق و سباق پر تو بعد میں غور کرتا ہے لیکن اس کے صوتی اور بصری انکشاف پر چونکتا پہلے ہے۔ یہ لفظ فوری طور پر Highly Alert کرنے کی خوبی رکھتا ہے۔ اس میں ’’وارننگ‘‘ اور ’’Realization‘‘ کے تمام اثرات بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائل کرنے اور نصیحت کرنے میں یا دعوت دینے اور توجہ لینے میں اس لفظ سے زیادہ Instant Click کم ہی لفظوں میں ہے۔ خاص طور پر ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد اِس لفظ کے معنی اور تفسیریں اپنی تمام تر جہتوں سمیت اہلِ فکرونظر کے لیے غور طلب اور بحث طلب ہو گئی ہیں۔
البتہ پاکستانی عوام میں اس لفظ کی مقبولیت نئی بات نہیں۔ ’’کاپی رائٹنگ‘‘ اور ’’سلوگن‘‘ میں استعمال کرنے کے لیے اس سے زیادہ موزوں اور پُراثر سہارا شاید کوئی اور نہیں۔ جہاد جہالت کے خلاف ہے کہ اندھے پن کے خلاف، پولیو کے محاذ پر ہے کہ تمباکو نوشی سے درپیش ہے۔ پیغام پہنچانے میں یہ لفظ اپنی ایسی برق رفتاری کا مظاہرہ کرتا ہے کہ تیر کی طرح ذہنوں میں سے اُترتا ہوا دل میں جا کھُبتا ہے۔
اتنا جانا پہچانا اور Self Explanatory لفظ لغت میں شاید ہی کہیں ملے۔ اور اب جبکہ بین الاقوامی میڈیا کے علمبرداروں نے اس لفظ کو اپنے اپنے لہجے اور انداز میں ایک اور ہی سیاسی تناظر میں ادا کرنا شروع کر دیا ہے تو یہ لفظ پروپیگنڈہ کے جس گلوبل رولر کوسٹر کے مزے لے رہا ہے یہ واقعہ اپنی جگہ دل چسپ بھی ہے اور رُجحان ساز بھی۔ بعض موقعوں پر مسلمان معاشرے میں اس لفظ کی صوتی اور بصری دستک سننے اور دیکھنے والے کے وجود میں فوری طور پر عمل پیرا ہونے کے ارادے کا ایک ایسا خودکار جنریٹر آن کر دیتی ہے کہ اُس کا نتیجہ جانبازی سے کم نہیں ہوتا اور اس جان سے گزر جانے کے مرحلے کو لفظ ’’جہاد‘‘ سے بھی بلند مرتبہ اور تمازت بھرے احساسِ تحفظ سے بھرپور لفظ ’’شہادت‘‘ کا رُتبہ مل جاتا ہے۔
۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد جہاد اور شہادت کے لفظوں کی مختلف پرتیں اور گہرائیاں بھی دراصل ماہرینِ لسانیات و بشریات ہی واضح کر سکتے ہیں۔ البتہ ان الفاظ کے فوری معنی اور اثرات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
آپ پاکستانی سینما کے حوالے سے جب اس لفظ ’’جہاد‘‘ کو پائیں گے تو سب سے پہلا سوال جو ذہن میں ابھر سکتا ہے وہ پاکستانی معاشرے میں سینما کی اہمیت کے حوالے سے ہے۔
کیا تاریخ میں پاکستانی سینما معاشرہ سازی میں کبھی کوئی کردار ادا کر سکا ہے یا پاکستانی سینما کا معیار اِس اہمیت کے لائق ہے جو وہ مستقبل میں کسی بھی سطح پر پاکستانی فلم بین طبقے کے قومی یا نظریاتی رجحانات پر اثرانداز ہونے کا امکان رکھتا ہے؟
پاکستانی سینما کا معیار اور قومی و بین الاقوامی تناظر میں پاکستانی معاشرے کی رجحان سازی اپنی جگہ لیکن سینما کا میڈیم جس پُرزور انداز میں لفظوں سے ذہنوں پر ضرب کاری کا فریضہ انجام دے سکتا ہے، شاید ہی کوئی اور میڈیم اس قوت کا حامل ہو۔ پھر دیکھنا یہ ہے کہ اندھیرے میں پراسس ہو کر اندھیرے میں Exhibit ہونے والا یہ میڈیم اپنے ناظرین اور سامعین کی سائیکی پر اثرانداز ہوتا ہے یا اُن کی موجودہ نفسیات کی نمائندگی کرتا ہے اور کس حد تک کرتا ہے۔ فلم بین طبقہ بھلے معاشرے کی اقلیت ہی ہو مگر سوسائٹی کی اکثریت کا مطالعہ کرتے ہوئے اُسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات کے حق میں خاصی مدلّل گفتگو ہو سکتی ہے کہ کمرشل فلم اپنے دَور اور سوسائٹی کا پرتو ہوتی ہے اور وہ سوسائٹی کی اُس وقت کی ڈیمانڈ کے مطابق ہوتی ہے۔ ڈیمانڈ سے مراد یہاں وہ ادھوری خواہشیں اور محرومیاں ہیں جو خواب اور فسوں (فینٹسی) میں پناہ ڈھونڈتی ہیں۔
کسی حد تک یہ کہا جا سکتا ہے کہ کمرشل فلم کسی بھی قوم کی اجتماعی نفسیات کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ گزشتہ ۶۰ برس میں پاکستانی سینما کا تاریخی جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ سینما کی تعریف اور تاریخ پر سرسری بات کی جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ سینما کی سوسائٹی میں کیا اہمیت ہے اور اس کی اہمیت اور کردار کی سطح کیا ہے۔
سینما تفریح اور پیغام رسانی کا مؤثر ترین ذریعہ گردانا جاتا ہے۔ سینما تھیٹر میں چند گھنٹوں کے طے شدہ دورانیے میں جس طرح آڈئینس کو صوتی اور بصری حصار کی گرفت میں لا کر تفریح کے شوگر کوٹڈ کیپسول میں بات پہنچائی جاتی ہے، اتنی منظم رسائی کسی اور میڈیم میں نہیں۔ کتاب اگر مارکیٹنگ کی کامیاب حکمتِ عملی کے نتیجے میں آپ کے باس بِک کر آ بھی جائے تو آپ کے اختیار میں ہے آپ اُسے پڑھتے ہیں یا نہیں، اور اگر پڑھتے ہیں تو جانے کس صفحے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اگرچہ سینما تھیٹر سے بھی کسی بھی وقت اٹھ کر باہر آنے کا اختیار ہوتا ہے مگر اس بات کے امکانات اس لیے کم ہوتے ہیں کہ عام طور پر سینما ہال میں آنے والے گروپ کی شکل میں ہوتے ہیں اور سارے گروپ کا ایک ہی وقت پر ایک ہی سین سے ایک ساتھ اُٹھ کر باہر جانے پر متفق ہونا پھر بھی اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اوّل تو کتاب کی آڈئینس سینما کی آڈئینس سے بہرطور تعداد اور تناسب میں کم ہوتی ہے، ناظرین بہرطور قارئین اور سامعین کے مقابلے میں اکثریت میں ہیں۔ اس لیے کہ ناظر ہونے میں دماغ کا کم سے کم استعمال ہوتا ہے۔ صرف محسوسات اور جذبات کی عارضی سی تحریک ہی ردّعمل کے لیے بہت ہے۔
ناظر ہونے کے لیے خواندگی کی شرط نہیں اور نہ ہی اہلِ فکر ہونا ضروری ہے، جبکہ اشاعتی ذرائع ابلاغ کے اپنی آڈئینس سے یہ ابتدائی مطالبے ہیں۔ براڈکاسٹنگ کا میڈیم بھی اگرچہ اپنا پھیلاؤ کچھ کم نہیں رکھتا اور اکثریت کی توجہ کھینچ لیتا ہے مگر وہ اپنی ٹارگٹ آڈئینس کی صرف ایک حِس تک رسائی رکھتا ہے جبکہ بصری ذرائع ابلاغ ایک سے زیادہ حسیات پر یکبارگی وار کرتے ہیں۔
سماجی تناظر میں سینما کا سب سے اہم کردار معاشرے کے مختلف طبقوں اور مکاتیبِ فکر کو ایک وقت میں ایک ہی چھت کے نیچے اور ایک ہی سکرین کے سامنے جمع کرنا ہے۔ چند گھنٹوں کے لیے سوسائٹی کی مختلف کلاسز سے آئے ہوئے لوگ ایک ہی بات ہر ہنس رہے ہوتے ہیں اور اگلے ہی لمحے ایک ہی بات پر رو بھی پڑتے ہیں۔
اجتماعی ردّعمل اور بے ساختہ فیڈبیک کا اس قدر یگانگت بھرا مظاہرہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سینما سے پہلے تھیٹر کا انسٹی ٹیوشن صرف Elite کلاس کے لیے مخصوص تھا اور نوٹنکی یا مداری کے تماشے میلوں اور عرسوں میں عام اور غریب لوگوں کو Cater کرنے کے لیے خدمت پر مامور تھے۔ مگر فلم واحد ایجاد تھی جس نے ایسی ڈفلی بجائی کہ غریب اور امیر، خواندہ اور ناخواندہ، دانش ور اور کند ذہن سب ایک ہی وقت میں مجمع لگا بیٹھے۔ سکرین پر تیزی سے بدلتے ہوئے منظر اور منظروں میں دکھائی دیتی وسعتیں، گہرائیاں اور جزئیاتی تفصیلیں رونما ہوتے واقعات کو اصلی زندگی کی بپتاؤں سے کہیں زیادہ حقیقی اور عظیم بنا دیتی ہیں۔ پھر زندگی کے حقیقی تجربے سے کہیں زیادہ پھیلاؤ کے ساتھ سوچ سے بھی بڑی سکرین پر تصوراتی دنیا کا جیتا جاگتا منظر اپنے ناظر کو مثبت منفی ہر طرح کے اثرات کی زَد میں لا سکتا ہے۔ اُس پر برس ہا برس سے سینما کا میڈیم نسل در نسل بصیرتوں اور بصارتوں پر اپنے سائے منتقل کرتا آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہجوم کو قائل کرنے کی صلاحیت جو سینما کے پاس ہے وہ کسی سیاسی یا مذہبی ایوان کے پاس نہیں۔ حتیٰ کہ پیروں فقیروں کے آستانے بھی ایک ہی ساعت میں سینکڑوں دلوں پر اس طرح اپنا غلبہ نہیں جما سکتے جس طرح فلم کا کوئی سا ایک گرپنگ سیکوئنس (Gripping Sequence) آڈئینس کی روح کو ایک ہی Frequency پر چھُو لیتا ہے۔
مختصر یہ کہ سینما ہال میں بیٹھا ہوا فلم بین گویا ایک ایسی بند مٹھی کا شکار ہوتا ہے جہاں پہلے سے کوئی جگنو دائرے کاٹنے کے عمل میں سرگرم ہے۔ ٹریب ہوا شخص اُس جگنو سے پھوٹتی روشنی میں اپنے زندہ ہونے کی تائید ڈھونڈ لیتا ہے۔ گویا فلم بین اور فلم کا باہمی ناطہ اپنائیت اور Privacy کی اس حد تک گہرا اور اَٹوٹ ہو سکتا ہے۔ ان امکانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فلم کا میڈیم کس قدر دیرپا اثرات کا موجب ہو سکتا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتے منظر اور واقعات کے گزرتے چلے جانے کا الوژن، ناظرین کو نہایت غیرمحسوس انداز میں اپنے گھیراؤ میں لے آتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے وہ اپنا آپ بھی ان واقعات کا ایک حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ زندگی سے عظیم تر اور حقیقت کے جبر سے مبرّا فلمی واقعہ Instant Click تو ہوتا ہی ہے مگر یہ سیلف ڈسکوری کا ایک انوکھا ٹول بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ جذبات اور احساسات کا ایسا کتھارسس جو دیومالائی کہانیوں سے بھی کہیں زیادہ پُرکشش اور دوستانہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم کے آتے ہی تھیٹر اور دوسرے براڈکاسٹنگ میڈیمز کی شہرت میں قدرے کمی آ گئی اور عوام نے جوق در جوق سینما تھیٹرز میں آ کر اتنی آسان اور آرام دہ تفریح کو ترجیح دینا شروع کر دیا۔
فلم ایک ایسا کمرشل ادارہ ثابت ہو گیا جس میں پروپیگنڈہ اور تفریح کا ہر پہلو اپنی بھرپور پروجیکشن اور مکمل خوبصورتی کے ساتھ ایکسپوز ہونے لگا۔ لہٰذا بہت جلد بزنس کمیونٹی نے اس میں دل چسپی لینا شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے سوسائٹی کے عظیم سرمایہ کار اس کی پروڈکشن میں اپنا سرمایہ اور خدمت لے کے میدان میں اتر آئے۔ یہ فلم ساز طبقہ معاشرے کی اُس ذہین ترین اقلیت سے تعلق رکھتا ہے جس کے لیے سوسائٹی کے حالیہ اور مستقبل کے رجحانات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا۔
ہمارے جیسے ملکوں میں یہ وہ ملامتی صوفی ہوتے ہیں جو بظاہر تو ملنگوں کے بھیس میں بے ضرر ہوتے ہیں، لیکن ان کی بُکل کے اندر جتنے بھی چور آ چھپتے ہیں وہ بھی کسی کو پکڑائی نہیں دیتے۔
فلم بنانا خالص تخلیقی کام ہر گز نہیں ہے۔ یہ بحث کہ فلم فنونِ لطیفہ کی ہی کسی صنف کے زمرے میں آ سکتی ہے، ابھی تک کسی خاطر خواہ نتیجے پر نہیں پہنچی۔ فلم چونکہ ایک ٹیم ورک ہوتا ہے اور یہ کسی چیلنجنگ کاروباری مہم سے کم نہیں ہوتا، اس لیے اس میں تخلیقیت سے کہیں زیادہ ہنرکاری کا عمل دخل ہوتا ہے۔ البتہ ہنرکار یعنی کرافٹ مین کا تخلیقی ہونا بہت حد تک ضروری ہے۔ صرف تخلیقی آدمی فلم کے شعبے میں بُری طرح ناکامی کا سامنا کر سکتا ہے اور اسی طرح صرف کرافٹ مین بھی فلم سازی کے لیے ناکافی ہے۔
فلم ساز کے لیے ضروری ہے کہ وہ حسِ جمالیات کے ساتھ ساتھ تقریباً تمام فنونِ لطیفہ سے آگاہی بھی رکھتا ہو۔ کسی حد تک فلم ساز اور آرکیٹکٹ کے کام کو ایک جیسا کہا جا سکتا ہے کہ دونوں اپنے کام میں تکنیک اور جمالیات کا ایک ساتھ مظاہرہ کرتے ہیں۔
عملی زندگی میں فلم کا سب سے اہم کردار اِس کی نوسٹیلجک اہمیت ہے۔ اس دَور کا ہر بینا شخص اپنی زندگی میں ایک فلم یا کسی بھی فلمی دور سے اپنی دیرینہ تصوراتی وابستگی ضرور رکھتا ہے۔ فلم نہ صرف سیلف ڈسکوری کا باعث بنتی ہے بلکہ اپنی اصلیت سمجھنے کے عمل میں بھی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ تجزیاتی اور تحقیقاتی تناظر میں کسی معاشرے کی تاریخ کا تعیّن کرنے میں ڈاکیومینٹری فلم کی اہمیت اپنی جگہ مگر فیچر یا کمرشل فلم سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
تیس اور چالیس کی دہائیوں میں مشترکہ ہندوستان کا سینما بھی اپنا ایک نمایاں مقام رکھتا تھا اور اس کے اثرات سے نہ صرف شائقینِ فلم غیر محفوظ تھے بلکہ پریس اور براڈکاسٹنگ کے ذریعے اس کی پہنچ اُن لوگوں تک بھی تھی جو ٹکٹ خرید کر تھیٹر میں نہیں آتے تھے۔ ہندوستانی فلم کا سب سے زیادہ مثبت اور بارُسوخ پہلو اِس کا میوزک تھا۔
فلمی ستارے مشترکہ ہندوستان میں اپنی ہردلعزیزی اور شہرت کے باعث ملکی سطح پر جس اہمیت اور مقام کو انجوائے کرتے تھے، شاید سیاستدان، کھلاڑی، شاعر اور ادیب اوردوسرے شعبوں کے رول ماڈلز بھی اتنا گلیمر اور اتنی عوامی پسندیدگی کو تجربے میں نہ لاتے ہوں۔ موسیقی سے وابستہ فنکار بھی فلم کی ہی وجہ سے اس سٹارڈیم سے لطف اندوز ہوتے۔ تقسیم کے بعد مشترکہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے بہت سے تکنیک کار اور مختلف شعبوں میں معاونت سرانجام دینے والے تجربہ کار، ہنرمند اور موسیقار اور اداکار بمبئی سے لاہور آ گئے۔ لاہور، جو موسیقی کے حوالے سے برصغیر کا پہلے سے ہی ایک بڑا گڑ تھا اور پنچولی سٹوڈیو میں فلمیں بھی بنا کرتی تھیں۔ ۱۹۴۸ء میں پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ یہیں بنی اور یوں پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ کا آغاز ہو گیا۔ شروع میں صرف لاہور کے سٹوڈیوز میں فلمیں بنتی رہیں، پھر ۵۰ کی دہائی کے آخر میں اور ۶۰ کی دہائی کے دوران کچھ عرصہ تک کراچی میں بھی فلم سازی شروع ہوئی، لیکن زیادہ دیر تک پنپ نہ سکی، البتہ لاہور ہی پاکستان فلم انڈسٹری کا مرکز بن گیا۔
قوم جن تاریخی ادوار سے گزری ہے اُس کی جھلک کمرشل فلموں میں بھی دکھائی دیتی رہتی ہے۔ فلم ساز تاریخی اور قومی سطح کے بڑے موضوعات کو اپنی کہانیوں کا حصہ بناتے رہتے ہیں، یہ بھی شائقینِ فلم کو متوجہ کرنے اور سینما تک لانے کا کامیاب اور آزمودہ حربہ ہے۔
یہ طے ہے کہ فلم تاریخ کا رُخ نہیں موڑتی بلکہ تاریخ فلم میں اپنی جھلک دکھاتی ہے، بھلے جھوٹی ہی سہی۔ فلم تو اپنے موجودہ دَور میں بھی سوسائٹی کے رویوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتی، اور نہ ہی کوئی نمایاں رجحان سازی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ البتہ سوسائٹی فلم کے رجحانات متعیّن کرتی ہے۔ فلم سوسائٹی کو دیکھتی ہے، سوسائٹی فلم کو نہیں دیکھتی۔ فلم سوسائٹی کا بائی پروڈکٹ ہے نہ کہ سوسائٹی فلم کی اخلاقیات سے جنم لیتی ہے۔
ہاں اس میں شک نہیں کہ فلم اپنی انڈسٹری اور اُس کے Parallel ملتے جلتے بزنس کے رجحانات پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک فلم دوسری فلموں کے رجحانات بدل دیتی ہے، اس سے زیادہ فلم کا کوئی قابلِ ذکر کردار نہیں ہے۔ اگرچہ میڈیا میں یہ پروجیکشن ہوتی رہتی ہے کہ فلاں فلم نے فلم بینوں کو دوبارہ سینما تھیٹرز کی طرف رُخ کرنے پر مجبور کر دیا، وغیرہ۔ اس میں شک نہیں کہ دوسرے کمرشل اداروں کے مقابلے میں سینما میں لوگوں کو لے کر آنا یقیناًایک چیلنجنگ اور انوکھا کارنامہ ہے، مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ سینما میں دراصل وہی آڈئینس لوٹ کر آتی ہے جو کچھ عرصہ کے لیے ناپسندیدہ فلموں کی وجہ سے آنا بند کر دیتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فلم کبھی بھی کتاب یا شاعری کے مجموعے کی طرح انقلابی ثابت نہیں ہو سکی۔ البتہ بعض مثالوں میں سنجیدہ تھیٹر نے یہ کردار ادا کیا ہے اور بہت حد تک موسیقی کے غیرمعمولی کارناموں نے اپنے پُر اثرانداز سے عوام کے دلوں پر دیر تک حکمرانی کی ہے اور اُن کی روح میں اتر کر دلوں کو گداز بھی دیا ہے۔
فلم میکنگ میں زیادہ سے زیادہ جو معرکہ آرائی ہے وہ فلم بینوں کو ایک سے زیادہ مرتبہ تھیٹر تک لانے میں ہے۔ پاکستان کی فلم ٹریڈ میں اُس فلم نے سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے جسے شائقینِ سینما بار بار دیکھنے آتے ہیں۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں کامیاب فلمی ہدایتکاروں کی فہرست میں سے اکثریت اُن ہنرمندوں کی ہے جنہوں نے کسی بھی انسٹی ٹیوشن سے سینما فوٹوگرافی کی باقاعدہ پیشہ ورانہ ٹریننگ حاصل نہیں کی، مگر وہ عوام کی نبض کی ہر رفتار کو سمجھ لینے کا ایسا ڈھنگ جانتے ہیں کہ نہایت محدود وسائل کے ہوتے ہوئے بہت زیادہ کامیاب کمرشل فلم بنا کر منافع سازی کے ریکارڈ توڑ دیتے ہیں۔ پاکستانی سینما میں ۱۹۴۷ء کے فسادات اور ۱۹۶۵ء کی جنگ کے علاوہ مغلیہ دور کی جنگی، سیاسی، رومانی اور عشقیہ کلاسیکل داستانوں پر فلمیں بنائی گئی ہیں۔ شروع کے دور میں بہت سنجیدہ اور لیجنڈری ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں نے اپنی تخلیقی نگارشات سے فلموں کے آرٹسٹک پہلو کو اُجاگر کیا۔ احمد ندیم قاسمی، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، منیر نیازی، قتیل شفائی، جوش ملیح آبادی،حبیب جالب، سیف الدین سیف، حتیٰ کہ اشفاق احمد، احمد بشیر اور ممتاز مفتی جیسے قلمکار بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو گئے۔ تب خالص فلمی لوگ بھی اپنے تعلیمی پس منظر اور ثقافتی تربیت کے حوالے سے خاصی سنجیدہ کمٹمنٹ کے پاسدار تھے۔ سنتوش کمار، عنایت حسین بھٹی، علاؤ الدین، محمد علی، مصطفی قریشی، ریاض شاہد، خلیل قیصر، نثار بزمی، ضیا سرحدی، شریف نیّر، اعجاز درانی، خواجہ خورشید انور، مسعود پرویز، شوکت حسین رضوی، ڈبلیو زیڈ احمد، پرویز ملک، وحید مراد، سہیل رعنا، حتیٰ کہ اداکاراؤں میں نورجہاں، بہار بیگم، نیلو بیگم، ریشماں، حسنہ روزینہ، خاصی Well Groomed دکھائی دیتی تھیں۔ وہ اداکارائیں اور رقاصائیں جن کا تعلق ریڈلائٹ ایریا سے تھا، اپنے علاقے کے مہذب ترین اور وضع دار خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ طلعت حسین، طارق عزیز، ضیا محی الدین، راحت کاظمی، عثمان پیرزادہ اور ثمینہ پیرزادہ جیسے تعلیم یافتہ لوگ بھی پاکستان فلم انڈسٹری میں نظر آنے لگے۔ اکثر فلمیں معروف ادبی ناولوں اور افسانوں پر مبنی ہوتی تھیں اور تاریخی اور کاسٹیوم فلموں کا تحقیقی اور علمی معیار خاصا بہتر ہوتا تھا۔
حب الوطنی دنیا کی ہر فلم انڈسٹری کا پاپولر موضوع رہا ہے۔ قومی اور سیاسی نظریات کا پرچار بھی مارکیٹ میں Commodity کی طرح بیچنا ایک آرٹ ہے اور اسے کامیابی سے لانچ کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ تفریح کی آڑ میں عوام کی اکثریت کو اُن کے ایمان اور نظریاتی جاگیروں اور روحانی وراثتوں کا آئینہ دکھانا دیکھنے میں تو آسان لگتا ہے مگر جب آپ اسے خود کرنے بیٹھتے ہیں تو جان جاتے ہیں کہ یہ کتنا جان جوکھوں کا کھیل ہے۔
کمرشل آرٹ کے تمام شعبوں میں فلم واحد پروڈکٹ ہے جس کے صارفین اس کے تجزیہ نگار اور ناقدین بھی ہوتے ہیں اور بغیر کسی کوالیفکیشن کے فلم کے پراجیکٹ پر اپنی ماہرانہ ججمنٹ دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ مگر فلم میکنگ کتنا دشوار شغل ہے، اِس کا اندازہ فلم میکنگ کے کسی بھی شعبے میں ذرا سی وابستگی پر ہی ہو جاتا ہے، آپ کی ساری دانش وری اور تخلیقی صلاحیتیں دھری رہ جاتی ہیں۔ اس لیے کہ فلم Conceive کرنا بالکل اور بات ہے اور فلم شوٹ کرنا اس کے برعکس۔ خیال کے پرندے پر کیمرے کے تیر سے نشانہ باندھنا آسان نہیں۔ زیادہ مثالوں میں یہ نشانہ خطا ہو جاتا ہے۔ فلم بین چونکہ فلم کو اپنی Creative Imagination کی آنکھ سے دیکھتا ہے اس لیے اسے اپنی توقعات اور فینٹسی کے درمیان کی لکیر دکھائی نہیں دیتی اور وہ ذہنی تفریح کے اس کھیل کو صرف اور صرف تصور کی آنکھ سے پرکھتا ہے۔ اور بہت آسانی سے فلم میکر کی مہینوں یابرسوں کی محنت کو ایک منٹ میں رَد کرنے کا مجاز ہو جاتا ہے اور اس خوش گمانی کاشکار ہو جاتا ہے کہ اگر وہ یہ فلم بناتا تو ایسی بنا لیتا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فلم میکر بہرطور فلم بنانے کے ساتھ ساتھ رِسک لینے کے عمل سے بھی گزر رہا ہوتا ہے۔ اب جہاں اس رسک کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اُسے تجرباتی اور جرأت مندانہ کوشش کا نام دے دیا جاتا ہے، Parallel Cinema کی بنیاد یہی جرأت تھی۔
(جاری ہے)
ابھی بات محض شروع ہی ہوتی لگ رہئ ہے بہرحال جتنا کچھ بھی کہا گیا ابھی تک زیادہ مربوط نہیں بنا بلکہ بکھراو کا شکار ہے۔۔۔۔