(ذوالفقار علی)
مُبالغوں اور مُغالطوں کی دُنیا میں جینے سے بہتر ہے اپنے اردگرد کےسچ اور ماضی کے تجربات سے سیکھ جائے؛ حقائق کا ادراک کر کے بہتر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ تاکہ زندگی کو بہتر ڈھنگ سے جینے میں کسی مُشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہماری لوک داستانوں اور قصوں میں بہت سے انمول سبق ہیں جن سے استفادہ کر کے ہم اپنی اور دوسروں کی مُشکلات کو کم کر سکتے ہیں۔ کیونکہ عام طور پر قصے اور کہانیاں کسی بھی علاقے کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی اقدار کا آئینہ ہوتی ہیں۔
زمانہ قدیم سےاستحصال اور جبر کی مختلف شکلوں کے اظہار کیلئے جنگل کے مُختلف جانوروں کے کردار سے جوڑ کراُن علاقوں میں بیان کیا جاتا رہا جہاں پر غُلامی اور لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگیاں مُشکلات کا شکار رہیں۔ جنگل کے جانوروں سے جُڑے یہ قصے عام طور پر افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے مُختلف علاقوں میں پروان چڑھےجہاں پر استعماری طاقتوں کے قبضے کی ایک طویل تاریخ ہے۔
رات کو ہمارے بزرگ ہمیں بہت سے قصے سناتے تھے اور ایک قصہ کئی کئی راتوں تک چلتا تھا جن میں اکثر قصے جنگل میں رہنے والوں جانوروں کی آپسی کشمکش اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلق اور برتاؤ پر مبنی ہوتے تھے۔ جن کا عکس اُس وقت کے سماجی اور سیاسی حالات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔
مُجھے اچھی طرح یاد ہے جب جنگل میں شیر، بھیڑیا یا ریچھ شکار پر نکلتے تھے تو ہماری ہمدردی اُن کا شکار بننے والے جانوروں سے بہت زیادہ ہوتی تھی، اور کُچھ دیر بعد ایسے لگتا تھا جیسے شکار ہونے والے جانور ہم خود ہوں۔ اس کیفیت میں ہمارا دماغ ایسی ایسی ترکیبیں سوچنے لگ جاتا تھا جس کی بنا پر کسی طرح کمزور جانور کی جان بچائی جا سکے۔ اس میں اکثر گیدڑ اور لومڑی کا کردار بہت نُمایاں ہوتا تھا جو اپنی ترکیبوں سے طاقتور جانوروں کو چکما دے کر بچ نکلتے تھے۔اور اُن کے بچ جانے کی خوشی میں ہم سکون کی نیند سوتے تھے۔
اگر اجتماعی طور پر گیدڑ اور لومڑی کے کردار کا تاریخ اور مروجہ سماجی پہلو کا جائزہ لیا جائے تو بہت دلچسپ پ(جہتیں اُبھر کر سامنے آتی ہیں۔ گیدڑ کے کردار کو حُکمران اور طاقتوروں نے بزدل کے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔جبکہ لومڑی کو چالاک اور دھوکے باز کے خطابات سے نوازا ہے۔ اب یہاں پر ایک بُنیادی سوال اُبھرتا ہے کہ گیدڑ اور لومڑی جن کو ہم بچپن میں جنگل کے خونخوار جانوروں کے شکار کے ہتھکنڈوں کو ناکام کرنے کے استعارے کے طور پر استعمال کرتے تھے اور کمزور جانوروں کی زندگی کو بچانے کیلئے اُمید کی آخری کرن سمجھتے تھے وہ انسانوں کی اخلاقیات میں اتنے بدنام کیوں ہیں۔
اس پہلو کو اگر ہمارے سیاسی بیانیے کے تناظر میں جانچنے کی کوشش کی جائے توجو چیز اُبھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس بیانیے اور اخلاقیات کو تخلیق کرنے میں مُختلف شکلوں میں جبر اوراستحصال کا شکار ہونے والی عوام کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہ بیانیہ کمزوروں اور بچھڑے ہوئے طبقات کا نہیں ہو سکتا جس میں ہمیں گیدڑ اور لومڑ کی زندگی سے نفرت سکھائی جاتی ہے اور ہمیں حُکمران طبقے کی طرف سے اخلاقیات اور سماجیات کی درسی کتابوں میں “گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے” اور چالاک لومڑی کے قصوں سے اس چیز پر تیار کیا جاتاہے کہ ہم بڑے ہو کر خونخوار بنیں۔ ہمارے ذہنوں کو شیر اور شاہین کے کردار کیلئے تیار کیا جاتا ہے تاکہ ہم کمزوروں پر لپٹ سکیں، جھپٹ سکیں اور اُن کو مار کر اپنی بہادری کی دھاک بٹھا سکیں۔ یہ سوچ کسی نہ کسی حد تک تشدد اور لوٹ کھسوٹ کی ترجمان ہے جس کا عکس ہماری اجتماعی زندگی میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اسی تناظر میں اگر ہم پاکستان اور انڈیا کے عوام اور حُکمران طبقات کے آپسی تعلق کا سطحی سا جائزہ لیں تو ہمیں جنگل کے رشتوں میں پنپنے والے کرداروں کی وقعت کا اور سیاسی سمت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ جنگ پر مبنی اس پالیسی سے کس طبقے کے کتنے مفادات وابستہ ہیں اس کا پتا چلتا ہے۔ کیونکہ ان ریاستوں کو چلانے والے آج بھی قتل و غارت کے سامان پر کھربوں روپے کا بجٹ خرچ کر کے عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ طاقتور طبقے کا مائنڈ سیٹ آج بھی اسی انداز کا ہے جو صدیوں پہلے ہوا کرتا تھا۔ وہ آج بھی شکاری ہیں اور ہم اُن کے شکار!
اگر عمومی طور پر پوری دُنیا کے حُکمرانوں کی ترجیحات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اسلحے سے جُڑی جدید ٹیکنالوجی کے ناموں سے پتا چلتا ہے کہ آج بھی وہ اپنے پُرکھوں کی جنگی پالیسیوں سےکتنی محبت کرتے ہیں۔ بڑے بڑے میزائل، ٹینک، آبدوزیں اور جنگی جہاز ماضی میں قتل و غارت سے جُڑے کرداروں کے نام پہ رکھے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں اس سے بڑی بد نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے چوک چوراہوں کے نام تبدیل کر نے کے علاوہ اُن پر ڈمی میزائل اور جنگی جہاز سجا دئیے گئے تاکہ ہم ان کو دیکھ کے ان کے عادی ہوتے رہیں۔
ہمارے ذہنوں اور نفسیات میں ایک خطر ناک چیز ٹھونس دی گئی ہے جس کے اثرات ہمارے بچوں پر اور ہماری نو جوان نسل پر بہت گہرے ہو چُکے ہیں۔ اس کا اندازہ مُجھے پچھلے دنوں ہوا جب پاکستان اور انڈیا کے بارڈر پر شدید ٹینشن چل رہی تھی اور میرے ایک دوست کی بچی شام کو اسکول سے گھر آئی تو وہ دعا مانگ رہی تھی کہ یا اللہ! انڈیا، پاکستان کی جنگ ہو جائے۔ میرے دوست نے بچی کو بُلایا اور پوچھا بیٹا تم جنگ کی دعا کیوں مانگ رہی ہو تو اُس بچی نے کہا ہماری ٹیچر نے آج ہمیں کلاس میں کہا ہے کہ اس بار انڈیا کی پوزیشن بہت کمزور ہے اگر پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہوئی تو پاکستان انڈیا کو ہرا دے گا اور ہم انڈیا پر قبضہ کر لیں گے۔ اس لئے میں چاہتی ہوں جلد سے جلد جنگ ہو۔ اُس بچی کو کیا خبر کہ جنگ کی ہولناکیاں کیا ہوتی ہیں۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی کہاں پے کھڑی ہے اور ہمارے بچوں کی نفسیات کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا جا رہا ہے!