(حُر ثقلین)
امریکی کانگریس میں ایوانِ نمائندگان میں دہشت گردی سے متعلق ذیلی کمیٹی کے صدرٹیڈ پو نے وہاں ایک بل پیش کیا ہے جس کے تحت مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کرنے ولا ملک قرار دیا جائے۔اس بل کے تحت 90دن کے اندر صدر ٹرمپ کو جواب دینا ہوگا کہ پاکستان بین الاقوامی دہشت گردی کو سپورٹ کرتا ہے یا نہیں۔اس کے 30دن بعدوزیر خارجہ کو ایک تفصیلی رپورٹ بھی دینا ہو گی جس میں یا تو انہیں پاکستان کو دہشت گردی کاکفیل ملک قرار دینا ہو گا یا یہ بتانا ہو گا کہ کیوں پاکستان کو اس زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا ۔اس بل میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اس نے برسوں سے امریکہ کے دشمنوں کا ساتھ دیا ہے اور ان کی مدد کی ہے۔اسامہ بن لادن کو اسی نے پناہ دی ہے اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ اسی کا گٹھ جوڑ ہے۔ٹیڈ پو کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کافی ثبوت ہیں کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ نہیں ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ ہمیشہ سے رہا ہے۔کبھی دوستی کے ترانے گاے گے کبھی بے وفائی کے گلے شکوے کیے گے۔امریکہ کو اس خطے میں جب پاکستان کی ضرورت ہوئی تو اس نے پاکستان کو گلے لگایا اور جب مطلب پورا ہوا تو اس سے منہ موڑ لیا۔امریکہ میں جس جماعت کا صدر ہو ہر شعبے میں اسی جماعت کی پالیساں لاگوہوتی ہیں۔وہاں جب ڈیموکریٹس کا صدر ہوتا ہے تو امریکہ کے دنیا کے بارے میں عزائم خطرناک ہوتے ہیں وہ طاقت اور جنگ کے بل بوتے پر باقی دنیا پر اپنی دھاک بیٹھانا چاہتا ہے۔ان ادوار میں امریکہ نے دوسرے ملکوں میں تباہی اور دہشت پھیلائی ہے۔یہی ڈیموکریٹس پاکستان میں مارشل لاء کے حامی بھی رہے ہیں اور آمروں کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات بھی رہے ہیں ۔جب ضیا الحق نے 1977میں مارشل لگایا تو اس وقت امریکہ میں جمی کارٹر صدر تھا۔اسی طرح 1999میں مشرف کے مارشل لاء کے دوران امریکہ میں بل کلنٹن کی حکومت تھی ان دونوں امریکی صدور کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے تھا۔ان ادوار میں امریکہ نے افغانستان میں جنگی مداخلت کی اور اسے اپنے بیس کیمپ کے لیے ایک ہمسایہ ملک کی ضرورت تھی جو پاکستان کی شکل میں دستیاب تھی۔ان دنوں ادوار میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کی پاکستان نے بھاری قیمت چکائی ہے۔پہلے دور میں تیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کیا جو اب تک اٹھائے ہوئے ہے۔پاکستان اس وقت سے مختلف شکلوں کی دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ہزاروں جانیں قربان کیں۔معیشت تباہ ہوئی۔امریکہ کے دشمن اب پاکستان کے دشمن ہیں اس پر سات سمند وار کرنا ناممکن ہے مگر پاکستان ان کے لیے آسان ہدف ہے۔پاکستانی فوج دہشت گردوں کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ رہی ہے جس سے اس کے فوجیوں کو اب نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ان غیر فلاحی اور غیر ترقیاتی امور پر خرچ ہو جاتا ہے۔ہر آنے ولادن پاکستان کے لیے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت امریکہ میں ریپبلیکن صدر ٹرمپ کی حکومت ہے۔یہ جماعت ماضی میں پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی رہی ہے مگر اب امریکی کانگریس میں پاکستان مخالف آوازوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔یہ ایک افسوس ناک امر ہے۔امریکہ کی ہی وجہ سے ایک دہشت گردی کے شکار ملک کو دہشت گردی کا کفیل ملک قرار دیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ریپبلیکنس کی پالیسی میں تبدیلی با آسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔اس تبدیلی کا پاکستان درک نہیں کر پا رہا ہے۔ امریکہ میں پاکستانی سفیرسے زیادہ حسین حقانی کی آواز بلند ہے جو پاکستان کے لیے مشکلات کا سبب بن رہی ہے۔ یہ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کی علامت ہے۔ملک میں وزیر خارجہ کے نہ ہونے کے یہ نقصانات ہوتے ہیں۔اب بھی پاکستان کے پاس دو سے تین ماہ کا وقت ہے۔وہ امریکہ میں حکمران جماعت کے ارکانِ کانگریس سے رابطہ کرے۔انہیں اس بات پر قائل کرے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ملک ہے اور وہ اس کے خلاف تنہا جنگ لڑ رہا ہے۔امریکہ اور باقی دنیا نے اسے اس جنگ میں دکھیلا ہے اور اب وہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں۔اگر پاکستان اس جنگ میں کمزوری دیکھاتا ہے تو امریکہ کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔پاکستان کو اس وقت امریکہ اور باقی دنیا کے تعاون کی شدید ضرورت ہے۔ٹیڈ پو جیسے ارکان کو پاکستان آنے کی دعوت دی جائے تاکہ وہ حقیقت جان سکیں۔پاکستانی مجلسِ شوریٰ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گالی گلوچ اور مکے کی سیاست سے ہٹ کے ذرا امریکی کانگریس میں پیش ہونے والے بلوں اور کیے جانے والے مباحثوں پر بھی توجہ دے۔اسے اپنے ہاں بھی ایسی بحث کرنی چاہیے تاکہ امریکہ کو یہاں سے درست معلومات اور پیغام جائے۔اگر پاکستان کی جمہوری قوتوں نے ریپبلکنس کی تبدیل ہوتی ہوئی سوچ کا ادراک نہ کیا اور بروقت اقدامات نہ کیے تو انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ ایک اور مارشل لاء اور نظریہ ضرورت ان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔