(سدرہ سحر عمران)
دنیا کے نقشے میں جب کسی لکیر کا اضافہ ہوتا ہے تو اس کا تسلیم کیا جانا طے ہو جاتا ہے۔ خواہ جبر کی بنیاد پر سرحدیں کھینچی جائیں، یا حقوق خوداردیت کے تحفظ میں ایک نئی شناخت کو قبول کرلیا جائے۔ یہ جغرافیائی بندر بانٹ انسان کی ازلی مجبوری ہے کیونکہ دنیا میں ایسے بھی کئی متنا زع نام ہیں جو ’’آزادی ‘‘ کی شرط پر آپس میں برسر پیکار ہیں۔ ایک طرف قابضین ہیں جو زمین پرچم سمیت ہتھیا لینا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرا ئیل۔۔۔ جو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطین کے سینے پر بیٹھ کر مونگ دل رہا ہے۔ ارض مقدس پر زبردستی یلغار کر کے لا کھوں فلسطینیوں کو زمین بدر کرچکا ہے۔ کئی دہائیو ں سے جاری یہ جنگ محض زمین کے ٹکرے کے لئے بلکہ اس نفرت کی بنیاد پر بھی لڑی جا رہی ہے جو سے جڑتی ہے۔
ایسے ہی کشمیر بھی ہے جو پا کستان کا حصہ تھا لیکن جبراً ہتھیا لیا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ کشمیریو ں کو ختم کر نے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا جا رہا ہے۔ یعنی انسا نیت قابل تکریم نہیں۔ زمین زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ خواہ اس کے بچاؤ کے لئے کئی نسلیں بر با د کردی جائیں۔ کئی لاکھ نیم مردہ انسان، ان کی تباہ حال معیشت، مال و منال سب سے بڑھ کر ان کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ مگر کوئی حق میں بولنے کو تیا ر نہیں۔ یہ وہ مجبور و بے بس لوگ ہیں جو لکیرو ں سے با ہر رہ گئے ۔ اب ان کا کوئی وطن ہے نہ خطہ ۔۔۔یہ لڑنے مرنے کے لئے پیدا ہو تے ہیں ۔اور گولی با ردو کے لئے پروان چڑھتے ہیں۔ فالتو قسم کے لوگ۔۔۔ جو زیادہ تعداد میں مرنے لگیں تو دو چار احتجاجی جلوس ان کے حق میں نعرے بازی کر لیتے ہیں ۔۔۔۔اخبارو ں کو سرخیاں مل جاتی ہیں۔۔۔۔ میڈیا کو چورن ۔۔۔کہا نی ختم
دوسری طرف 1947 ہے جس نے دنیا کے نقشے میں اہم تبدیلی کی ۔۔۔اہم اس لئے کہ مسلمان علیحدہ ہو گئے ۔۔۔۔ ان کی الگ شناخت قا ئم ہو گئی ۔ہندوستان ، ہندوؤں سے بھی آباد رہا اور سینکڑوں مسلمان بھی وہیں رہ گئے ۔ لیکن کہیں نہ کہیں یہ شنا خت سینے میں کھٹکتی رہی ۔۔۔پاکستان ۔۔۔ایک ایسا ملک جو بغیر کسی غل غپا ڑے یا لہو کی ندیاں بہائے معرض وجود میں آسکتا تھا مگر اسے تسلیم نہیں کیا جا نا تھا اس لئے کہیں کہیں سے دھواں اٹھتا رہا۔ مسلمانوں نے آ زادی کی بھاری قیمت چکائی ؟ کیوں چکائی ؟۔۔۔۔ انہیں کیو ں بے دردی سے ما را گیا ؟ آدھے پونے رشتے با قی رہ گئے با قی گڑھو ں میں بھر گئے ۔۔۔۔لاشوں کے انبار پیچھے چھوڑ کر نئے نام سے ایک مملکت وجود میں آ گئی ۔۔۔ مگر اس نفرت کا قلع قمع نہ ہو سکا جو ہندوؤ ں کے دل میں مسلمانوں کے لئے تھی۔
مذہبی بنیاد پر ایک دوسرے سے اس قدر بیزاری کہ آ ج تک پا ک بھارت جنگ کے بگو لے اڑتے آ رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پا کستا ن کشمیر کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی آ زادی کا خواہاں ہے جو غلط بھی نہیں۔ لیکن بھارت کی شدت پسند ی کو کیا نام دیا جائے ؟ اس کی پاکستان سے نفرت کی کوئی خاص وجہ بظا ہر تو سمجھ نہیں آتی۔۔۔ہے بھی توکیا اس کا خاتمہ ممکن نہیں ؟ اب تک پاکستان کو ہضم کیو ں نہیں کیا گیا۔۔۔۔اس کو توڑنے کی باتیں کی جاتی ہیں ؟ ۔۔۔اس کے خلا ف ہرزہ سرائی ۔۔۔صرف مٹھی بھر شدت پسندو ں کی مرضی اور بغض و عناد ۔۔۔بھارت جیسی وسیع وعریض مملکت کو اپنے لوگو ں کے مسائل، وسائل، معیشت و سماجی ذمہ داریو ں سے نبرد آ زما ہونا چا ہئے یا اس کے لئے یہ زیا دہ بہتر ہے کہ وہ اسلحے کے زور پر پا کستا ن کو آ نکھیں دکھا تا رہے۔
جب کبھی صورتحال بہتر ہوتی ہوتی ہے تو امن کی آ شا کے نام پر چرا غ روشن کئے جاتے ہیں۔ دوستیاں ، میل ملاپ ۔۔۔ بگڑتی ہے تو سب سے پہلے پا کستانی فنکارو ں کو بوریا بستر گول کرنے پر لگا دیا جا تا ہے۔ یعنی عزت کا کوئی پیمانہ ہی نہیں ہے ۔۔۔ دل میں تو کینہ ہے۔ اس منافقانہ روش پہ کب تک چلا جائے گا؟ پاکستان مخالف فلمیں۔۔۔بیانات ۔۔۔سرخیاں۔۔۔اور گیدڑ بھبکیاں ۔۔گویا نہ اگلتے بن رہی ہے نہ نگلتے ۔۔۔۔کبھی ویزے تو کبھی پانی بند کر نے کی دھمکیاں ۔۔کئی دہائیوں سے جاری اس سرد جنگ کی چنگاریا ں نئے سرے سے آگ پکڑتی ہیں تو ہمسائیگی کے سارے قاعدے، ضابطے دھرے کے دھرے رہ جا تے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت ابھی تک دنیا کے نقشے میں تبدیلی کو قبول نہیں کر پا یا ۔۔۔وہ پا کستان کو مجبورا برداشت کر رہا ہے۔ لیکن کیوں ؟ ۔۔۔
خصوصًا مودی سرکار کو پاکستان سے کیا پرخاش ہے ؟ بیس با ئیس کروڑ لوگ کیوں اس کی آ نکھ میں کھٹک رہے ہیں ۔۔۔ اسے کسی نتیجے پر ہی پہنچنا ہے تو امن پسندی سے کشمیر کے حق کو تسلیم کر ے ۔کیا اس کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ قتل و غارت گری اور دہشت کو فرو غ دیتا رہے گا۔ اپنے وطن میں بھی وہ مسلمانوں کو آ گ کے جہنم میں دھکیلتا رہا ہے اور اب بھی یہی کھیل کھیلنا چاہتا ہے ۔۔۔۔کیا تمام ہندوستانی یہی چاہتے ہیں؟ جو شیوسینا جیسی محدود ذہنیت کو پروموٹ کر تے ہیں۔ اسے وزارت کی کرسی پر بٹھا کر جمہوری نظام کی ہنسی اڑائی گئی ہے۔ طاقت کے نام نہاد نشے نے اس کی آ نکھیں گہنا دی ہیں اسی لئے تو وہ پاکستا ن کو نیست و نا بود کرنے کے خواب دیکھتا ہے ۔۔۔سرحدو ں سے بارودی چھیڑ چھاڑ ۔۔۔لاشوں کے دو چار تحفے اور جب اپنی دم پر پا ؤں پڑتا ہے تو اس کی بلبلاہٹ دیکھنے لا ئق ہو تی ہے۔ پھر اس کا رویہ اس بھینسے کی طرح ڈکرانے لگتا ہے جو سرخ کپڑا دیکھ لے۔
لیکن کیا پا کستان اس کے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے؟ یقیناًکبھی نہیں ۔۔۔ تو بہتر نہیں بھارت کو چاہئے کہ وہ پا کستان سے نفرت کی بجائے اس کی محبت میں مبتلا ہو جائے۔ اس کے لئے اسے اپنے ظرف کو بھی بڑ ا کرنا ہو گا دل کو بھی۔۔۔گرچہ مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ۔۔۔۔