پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اور مذہبی اقلیتیں

اقلیتیں

خالد میر

کسی معاشرے میں انسانی حقوق کا شعور اس کی سیاسی ثقافت اور جمہوری تجربے سے بندھا ہوا ہوتاہے، پاکستان میں سیاسی ثقافت روز اول سے کمزور رہی ہے معروف معنوں میں جمہوری اداروں کی حقیقی بالادستی کبھی قائم نہیں ہوسکی جمہوری عمل کی عدم موجودگی میں انسانی ترقی کا معیار ناگزیر طور پر انحطاط و کا شکار ہوتا ہے انسانی ترقی کے بنیادی اشارے کیا ہیں : تعلیم ،صحت عامہ ،شہری سہولتیں انفرادی آزادیاں اور فیصلہ سازی میں عوام کا بالادست کردار جب ان شعبوں میں کسی ملک کی صورتحال زوال پذیر ہوتی ہے تو وہاں کے عوام کا سیاسی سماجی شعور بھی متاثر ہوتا ہے ۔ اور یہ سارے نسانی حقوق صرف ایک جمہوری نظام میں محفوظ ہوسکتے ہیں اگر ہم اپنی جدوجہد سے جمہوری نظام کو تقویت نہیں پہنچا رہے ہیں یا ادارہ سازی کے کام میں حصہ نہیں ڈال رہے تو ساری کاوش بے کا رہوجائے گی۔
پھر ہم نے پاکستان کو ایک اکائی تصور کرلیا جو یہ کبھی بھی نہیں تھا بلکہ مختلف اکائیوں کی وحدت تھا اور ہراکائی کو اس کو سیاسی اقتصادی سماجی اور ثقافتی حق دینے سے مسلسل انکار کیاگیا ۔جمہوریت انسانی حقوق میں سرفہرست ہے اور جمہوری نظام میں مختلف قومیتیوں کے حقوق کاتحفظ بھی انسانی حقوق میں شامل ہے لیکن ہمارے پاس ابھی تک ایسا پیمانہ نہیں جس سے ہم وفاق اور اکائیوں کے رشتے کو انصاف کی سطح پر استوار کرسکیں۔ان عوامل کی وجہ سے ریاست زوال کا شکار ہے، قانون کی بالادستی نہیں ، سب کو قانون کاتحفظ حاصل نہیں، امیراور غریب کےلئے قانون مختلف ہیں ، ایک اور دوسرے خطے کے قانون میں فرق ہے ، مسلمان اورغیر مسلم شہری کے لئے قانون الگ ہے، مراد اور عورت کے لئے قانون الگ الگ ہے، اگر قانون کی بالادستی ختم ہوجائے تو ریاست کمزور ہوکر بنیادی فرائض بھی پورے نہیں کرسکتی۔ اس زوال میں ایسی ریاست اپنے کام کےلئے صرف جبر پر انحصار کرتی ہے ،یہ ریاست دیتی کچھ نہیں صرف لیتی ہے، بجلی ٹیلی فون گیس وغیرہ کے بل لیتی ہے ٹیکس لیتی ہے مگر تعلیم ،نوکری، عزت ،تحفظ کچھ نہیں دیتی ،ریاست کے زوال نے انسانی حقوق کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے ۔
پاکستان میں چونکہ عوام کی اکثریت انسانی حقوق کی تعلیم سے ہی آشنا نہیں ہے اس لئے اس کیلئے یہ جاننا ممکن ہی نہیں کہ ملک کے اندر ان کے حقوق کی کس سطح پہ پامالی ہورہی ہے ۔ ملک کا آئین اور بین الاقوامی ہیومن رائٹس چارٹر انہیں کیا حقوق دیتا ہے جو ریاست اور حکمرانوں نے غصب کررکھے ہیں۔
اگرچہ حقوق انسانی کا عالمی اعلامیہ (UDHR) اور آئین پاکستان مذہبی تعصبات اور دیگر امتیازات کے خاتمے کیلئے پر عزم ہیں مگر ان تعصبات کے خاتمے کیلئے حکومت پاکستان نے کوئی عملی اقدامات نہ کئے۔

اقوام متحدہ کا عالمی اعلامیہ اعلان کرتا ہے کہ ” کسی ریاست ‘ ادارے ‘ افراد کے گروہ یا فرد کی طرف سے کسی کے ساتھ مذہب اورعقیدے کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک روانہیں رکھا جائے گا “ ( دفعہ 1-) ۔ اسی طرح 1973ءکے آئین پاکستان میں مذہبی اور دیگر تعصبات کے متعلق یہ کہا گیا ہے ” ریاست شہریوں کے مابین مذہبی ‘ نسلی ‘ قبائلی فرقہ وارانہ صوبائی تعصب کی حوصلہ شکنی کرے گی“( دفعہ 33-)۔
مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے بارے میں آئین پاکستان میں یوں لکھا ہے :” ریاست وفاقی وصوبائی ملازمتوں میںمعقول نمائندگی دیتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق ومفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے گی“( دفعہ 36-)۔ اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں جہاں نہ صرف اقوام متحدہ کے عالمی اعلامیہ کے مشمولات کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ آئین پاکستان کو ” چند صفحات کا کتابچہ سمجھتے ہوئے اس کے تقدس کوبھی پامال کیا گیا۔
1973ءکے آئین کا سرسری جا
ئزہ لینے سے ملک میںفروغ اسلام کی سرگرمیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ برتے جانے والے تعصبات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
ذیل میں آئین پاکستان 1973ءکی وہ دفعات پیش کی جارہی ہیں جن کا تعلق صرف مذہب اسلام کی تبلیغ اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی رویے سے ہے:
دفعہ (1):” مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہوگی جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا“۔ چنانچہ اس دفعہ کے تحت پاکستان کو” اسلامی جمہوریہ “ قرار دے کر ملک میں بسنے والے یکساں حقوق کے حامل شہریوں کو اسلامی اور غیر اسلامی کے خانوں میں تقسیم کردیا گیا جس نے ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے اندر عدم تحفظ کو جنم دیا۔
دفعہ (2):” اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا“ آئین کی یہ دفعہ دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کو قومی دھارے ہی سے الگ کردیتی ہے۔
دفعہ (2):” اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا “ آئین کی یہ دفعہ دیگرمذاہب کے پیروکاروں کوقومی دھارے ہی سے الگ کردیتی ہے۔
دفعہ (41):” کوئی شخص اس وقت تک صدر کی حیثیت سے انتخاب کا اہل نہیں ہوگا تاوقتیکہ وہ کم از کم 45 سال کی عمر کا مسلمان نہ ہو۔
آئین کی یہ امتیازی اور جانب دارانہ دفعہ مذہبی اقلیتوں کو بالواسطہ دوسرے درجے کا شہری قرار دے کر نہ صرف انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتی ہے بلکہ یہ پاکستان میں قائم نام نہاد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ بھی ہے۔
دفعہ (227) میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے لئے مندرجہ ذیل متن پیش کیا گیا ہے۔” میں ( نام ) صدق دل سے حلف اٹھاتاہوں کہ میںمسلمان ہوں اور وحدت وتوحید قادر مطلق اﷲ تبارک وتعالیٰ کتب الٰہیہ جن میں قرآن پاک خاتم الکتب ہے نبوت حضرت محمد ﷺ بحیثیت خاتم النبین جن کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا روز قیامت اور قرآن پاک اور سنت کی جملہ مقتضیات وتعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں“۔
اس دفعہ میں وزیراعظم کے حلف نامے کا متن وطن سے وفاداری کا عہد کرنے کی بجائے اسلامی عقائد پر کاربند رہنے کا اظہار کرتاہے حلف نامے کے اس متن کا مقصد غیر مسلموں کیلئے ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہونے کے تمام ممکنہ آئینی راستے بند کرنا ہے کیونکہ ایسے حلف نامے کی موجودگی میں کسی غیر مسلم کا وزارت اعظمیٰ یا صدارت کا حلف اٹھانا تو درکنار اس بارے میں کوشش کرنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تعصب کا یہ رویہ 21 ویں صدی میں بھی جاری ہے گرجا گھروں ہسپتالوں میں بم دھماکے مسیحی تعلیمات کے فروغ پر پابندی اور غیر قانونی گرفتاریاں سیاسی حقوق کا فقدان اور مسیحی نکاح کی بے حرمتی اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔
پاکستان میں لسانی نسلی مذہبی اورسیاسی اختلاف کی بنیاد پر ملک کے مختلف خطوں اور طبقوں میں تشدد کے رحجان کی سنگین صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ہم نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر نہ صرف ٹھنڈے دل سے غور فکر کریں بلکہ اپنی معاشی سیاسی اورتہذیبی زندگی م؛ں اےسی تبدیلیاں لانے کی بھی کوشش کرےں کہ تشدد کے اس رحجان پر قابو پایا جاسکے اور ہم اطمینان سے قوم زندگی کو امن تخلیق اورتعمیر کے راستوں پر گامزن کرسکیں۔
پاکستان کو قوموں کی برادری میں باعزت مقام دلوانے اور ایک عظیم ملک بنانے کیلئے ریاستی امور اورمذہبی معاملات کو ایک دوسرے سے الگ الگ رکھنا وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سفارشات مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں۔
1: اقلیتوں کیلئے ایک آزاد اور مستقل کمیشن قائم کیا جائے تاکہ مذہبی امتیاز کے خاتمے اور سماجی ہم آہنگی کو ممکن بنایا جاسکے۔
2: مذہبی اقلیتوں کی صورتحال پر نظررکھنے کیلئے غیر جانبدار انکوائری کمیشن قائم کیا جائے۔
3: آئین پاکستان اور ریاستی قوانین میں شامل تمام امتیازی دفعات کو ختم کیا جائے۔
4: اقرباءپروری بدعنوانی اور نام نہاد اسلامائزیشن نے اقلیتوں کے لئے ملازمتیں حاصل کرنا انتہائی مشکل بناڈالا ہے لہٰذا اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میںمذہبی اقلیتوں کی تعداد بڑھانے کیلئے مناسب اقدامات کئے جائیں۔
5: اقلیتوں کے مذہبی عقائد کے تحت سرانجام پانے والے نکاح کو قانونی تحفظ دیا جائے تاکہ نکاح کا احترام بحال رہے نیز دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو جبری طور پر مسلمان بنانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
6: پاکستان ایک کثیر المذہب ملک ہے جس کی تاریخ ماضی میں کئی مذاہب سے جاملتی ہے لہٰذا ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو یکساں حقوق اور احترام دیا جائے کسی ایک مذہب یا فرقے کو مہیا کی جانے والی مراعات معاشرے میں تفرقے اور تنازعات کا سبب بنتی ہیں۔
7: غیر مسلم طلباءکیلئے اسلامیات کو لازمی مضمون قرار نہ دیا جائے نیز سائنس ریاضی معاشرتی علوم مطالعہ پاکستان تاریخ اور دیگر مضامین میں سے اسلامی تعلیمات شامل کرنے سے گریز کیا جائے تاکہ تعلیم صرف تعلیم رہے اسلامی تعلیم نہ بنے۔
8: حکومت کا یہ فرض ہے کہ تمام ذرائع ابلاغ کو اقلیتوں کے خلاف منافرت اور تعصب کے رجحان سے پاک کرے نیز مسلم اکثریت کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی اقلیتوں کو بھی ذرائع ابلاغ میں یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔
اب ہرطرف انسانی حقوق کی بات ہورہی ہے، لوگ اس کے متعلق سوچ تے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور کچھ عمل کی رہ پر بھی گامزن ہے اسی حوالے سے “ساﺅتھ ایشیای پارٹنرشپ © ” SAP پاکستان بھی راہِ عمل پر گامزن ہے اور پاکستان میں انسانی حقوق پاسداری اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لئے بر سرِ پیکار ہے اگرچہ اس ضمن میں ان کی کوشش سمندر میں قطرے کی مانند ہے لیکن پھر بھی ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ ایک دن ضرور آئے گا جب انکی ، ہماری اور آپ کی کوششیں رنگ لائیں گی۔