پاکستان کی تعلیمی پالیسی
از، پال شاہد
اگر یہ بات سمجھ لی جائے کہ تعلیم چند مہارتوں اور معلومات کی ترسیل کا نہیں بلکہ وسیع معنوں میں مثبت رویوں کی تشکیل کا نام ہے تو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ دور جدید کے معاشرے میں تعلیم اور نصاب اس قدر اہمیت کے حامل کیوں ہیں۔ اس عمل کی نگرانی ریاستی اداروں کے ذمہ ہوتی ہے۔ ان کا فرض ہوتا ہے کہ تحقیق و مطالعے کو ہر ممکن تعصب و تدفین سے بچائیں تاکہ تعلیم نئی نسل میں وطن سے محبت ، قانون کے احترام اور ملک میں بسنے والی برادریوں کے مابین باہمی احترام کے رویوں کے فروغ کا باعث بنتے ہوۓ اپنا بنیادی مقصد پورا کر سکے۔
معروف فلاسفر، ماہر تعلیم اور ماہر نفسیات جان ڈیوی نے کہا تھا کہ “بُری تعلیم دینے سے نا خواندگی بہتر ہے”۔ 1947ء میں پاکستان کی شرح خواندگی ٪20 تھی جو آج سرکاری عداد و شمار کے مطابق ٪60 ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ شرح خواندگی بڑھنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی رویوں میں تنگ نظری، انتہا پسندی اور عدم برداشت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چناچہ بڑھتے ہوئے ان منفی رجحانات اور خواندگی میں اضافہ کے درمیان گہرے تعلق کو سمجھنے کے لئے کسی غیر معمولی بصیرت کی حاجت نہیں رہتی۔
27 دسمبر 1947ء کو کراچی میں پاکستان ایجوکیشن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ “آپ تعلیم اور اچھی تعلیم کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بیرونی تسلط کے باعث گزشتہ ایک صدی تک ہمارے لوگوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی۔ حقیقی اور جلد ترقی کرنے کے لئے اس مسئلہ کا دیانتداری سے حل تلاش کرتے ہوئے تعلیمی پالیسی اور پروگرام کو عوام کے شعور سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ تعلیم ایسی ہو جو ہماری تاریخ ، کلچر اور جدید تقاضوں اور دنیا میں ہونے والی ترقی سے میل کھاتی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کا مستقبل عوام کو دی جانے والی تعلیم پر منحصر ہے (اور ہونا بھی چاہیئے) اور اُس طریق پر منحصر ہے کہ ہم کس طرح اپنے بچو ں کو پاکستان کے اچھے شہری بناتے ہیں”۔
انہو ں نے مزید واضح کیا کہ “تعلیم کا مطلب صرف حصول علم ہی نہیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی کردار سازی کرنا ہے۔ ہمارے معاشی جسد میں جان ڈالنے کے لئے سائنس اور ٹیکنیکل تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں سائنس ، معاشیات ، شماریات اور انڈسٹری کی تعلیم حاصل کرنا ہو گی۔ یاد رہے ہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہے جو اس سمت میں بہت تیزی سے بھا گ رہی ہے۔ میں تاکید کروں گا کہ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم پر توجہ دی جائے”۔
بعدازاں 1959ءمیں جسٹس محمد شریف کی سربراہی میں بننے والے کمیشن نے مذہبی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے پر معقول اعتراضات کئے لیکن کمزور جمہوری ریاستی نظام، ایک مخصوص ضرورت اور دباؤ میں آ کر، نصاب میں مذہبی عنوانات کے ظواہر کو شامل کرتا گیا۔ مگر دوسری جانب معاشرہ اخلاقیات کے لازمی عنصر کے ضمن میں کمزور ہوتا چلا گیا۔
قومی تعلیم کا ایک ایسا سسٹم متعارف کروایا جائے جس کے ذریعے نصابی جُزیات کے اعتبار سے گورنمنٹ سکولز اور جدید سکولز کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔
علاوہ ازیں مارکیٹ میں اخلاقیات کی درسی کُتب اور سکولو ں میں اساتذہ دستیاب نہیں۔