(مغل کبیر)
تلخ سہی مگر حقیقت یہی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے مذہب کے نام پر تشکیل پانے والی ایک قوم کے طور پر ہندوستان کے اندر سے ایک نیا ملک پاکستان نکال لیا۔ لیکن افسوس کہ نئے ملک کے قیام کے ساتھ ہی مسلمان قومیت کی قُبا کواتارکر پھینک دیا گیا اور پہلے کی طرح بنگالی، پنجابی،سندھی، بلوچی،پشتون اور کشمیری مسلمانوں کی صورت ایک دوسرے کے رزق،رتبے اور عزت کے دشمن ہوگئے۔بنگال جس نے ہندوستان میں رہتے ہوئے سب سے پہلے الگ وطن کی کوششوں کا آغاز کیا۔
پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے پاکستان سے بدظن ہوا اور بنگلہ دیش بناکر الگ جھنڈااور ڈنڈا حاصل کر لیا، بانی پاکستان کے صوبے سے ذوالفقار علی بھٹو اٹھا تو اس نے اس صوبے سے قومیت کا کارڈ کھیلنا شروع کیا جس کی صوبائی اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان کے قیام کی قرارداد پاس کی تھی،وہ صوبہ جہاں پاکستان کے حق میں ریفرنڈم ہوا وہاں سے پاچاخان سرحدی گاندھی کے روپ میں پاکستان کے درپہ ہوگیا، بلوچ سرداروں کو سرداری ختم ہونے کا احساس ستانے لگا تو انہوں نے ’’گریٹر بلوچستان‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔
پنجاب چوں کہ صدیوں سے افغانی اور ترک حملہ آروں کی آماجگاہ بنا رہا تھا اس لئے اس نے پاکستان کی پناہ میں سُکھ کا سانس لیا کہ اب اس کو بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھ بار بار لٹنا نہیں پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ اس صوبہ نے اپنی زبان اور ثقافت تک کو پاکستان کے نام پر قربان کردیا۔ کشمیر کا ذکر کیا کروں کہ انہیں ابھی مکمل آزادی نہیں ملی،مل گئی تو پتہ چلے گا کہ ان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔سیاسی اور علاقائی تقسیم کے علاوہ یہاں کے مذہبی رہنما بھی اپنے اپنے کُوفہ، دمشق اور مدینہ کی جنگ لڑرہے ہیں ، مدارس کی طویل فصیلوں کے اندرقتل وغارت گری کی تربیت گاہیں قائم ہیں۔ اور تو اور رحمت العالمینﷺ کی یوم پیدائش ان کے لئے اقرارو انکار کا حل نہ ہونے والا مسئلہ بن کر رہ گیا ہے،دوسروں کو مردود قراردینے کے لئے ہرمولوی کے پاس کوئی نہ کوئی دلیل ہے۔دلائل کی پٹاری میں ہر ایک کا اپنا ’’اسلام‘‘ بند ہے۔ ایسے میں پاکستان صرف دفاعی افواج تک محدود ہوکر رہ گیا ہے،
جہاں تک پاکستان کے وفاق کا تعلق ہے تو اس کی حدود’’ اسلام آباد‘‘سے باہر دکھائی نہیں دیتیں!
تکلیف دہ امر تو یہ ہے ملک پاکستان پر گزشتہ75 برس سے وہی خان دان نسل درنسل حکومت کررہے ہیں، جنہوں نے ہندوستان کے غیر ملکی حکمرانوں کی ملازمت اور غلامی میں قیام پاکستان کی بھرپور مخالفت کی ، وہ سب ایک دوسرے کے عیوب کی بنا پر ایک دوسرے کو بلیک میل کرکے جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کا سندھ کارڈ اب ایک اور زیادہ خطرناک سندھی کے ہاتھ میں آچکا ہے، پاچا خان کی اولاد حکومت کی کئی باریاں لگا کر بھی ناراض ہے ، پنجاب پر گزشتہ تیس سال حکومت کرنے والے خاندان کی خواہش حکمرانی اب اگلی نسلوں میں منتقل ہورہی ہے ،گویا ہم سب ان کے خاندانی غلام ہیں اور ان کو انتخابات میں اپنا حاکم بنانے کے لیے انہیں جتوانا بھی ضروری ہے۔
عمران خان اس لئے کچھ حلقوں کو اچھا دکھائی دے رہا ہے کہ اس کو ابھی حکومت نہیں ملی،وہ انفرادیت پسند ہے ،اس کی زندہ مثال پاکستان کرکٹ ٹیم ہے کہ اس نے ورلڈ کپ کا فائنل ضرور جتوایا لیکن قومی ٹیم کو کبھی ایسی ٹیم نہیں بننے دیا کہ اس کے بعد بھی وہ کوئی دوسرا ورلڈ کپ پاکستان لا سکے کیوں کہ اس سے اس کی انفرادیت زَد میں آتی تھی ،ٹیم کو وسیم اکرم جیسے جواری کے ہاتھ دے کر چلا گیا۔
جس کو،منہ زور میڈیا نے ’’سونگ کا سلطان‘‘ بنا دیا ہے۔