(رپورٹ: انہماک فورم)
سوشل میڈیا اور تیز ترین انٹرنیٹ سروس کی بدولت پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں جدت آچکی ہے۔ ہر کام مختصر اور جامع کرنے کی جدوجہد جاری ہے ایسے میں اردو ادب میں بھی ایک صنف کا اضافہ ہوا جس کو مائکرو فکشن یا مائکروف کہا جاتا ہے اس کا آغاز کیوں کرنا پڑا ؟
قاری کے پاس وقت کی کمی مگر پڑھنے کی لگن موجود ہے ادب کسی ایک ملک ، ریاست یا مذہب کی جاگیر تو ہے نہیں اس لیے جب سے دنیا بنی ہے تب سے تجرباتی اور تحقیقی نشستیں ہوتی رہی ہیں اور مثبت تبدلی کو اپنا حصہ بنایا جاتا رہا ہے اردو ادب میں ایک نئی صنف کا متعارف کرایا جانا حیران کن نہیں ۔وقت کی ضرورت اور ترقی یافتہ لوگوں کے ساتھ چلنے کے لیے ہم کو اپنے ادب میں جدت اور نئے پن کی ضرورت تھی جو مائکروفکشن یا مائکروف نے پوری کی ہے
۔ سید تحسین گیلانی صاحب آف ساوتھ آفریقہ نے دن رات اردو ادب کے لیے لگاتار محنت کی اور مائکروفکشن کا ایک پودا سوشل میڈیا پر لگایا ۔جس کا نام انہماک انٹرنیشنل فورم و جریدہ ہے ۔آج سے پہلے یہ صرف سوشل میڈیا تھا محدود تھا جہاں دن رات اس پر مائکروفکش کے لیے کام جاری تھا اور پوری دنیا کے ادباء اس گروپ کا حصہ ہیں اور روز بحث و مباحثہ بھی ہوتا ہے باہمی مشاورتی کمیٹی اور تمام ادباء کے پرزور اپیل پر سید تحسین گیلانی صاحب نے اپنے آبائی شہر بورےوالہ میں اردو ادب میں پہلی مائکروفکشن کانفرس کا انعقاد کیا جس میں پورے پاکستان سے ادباء نے شرکت کی ۔ اپنی قیمتی راے کا اظہار کیا اور نیک مشوروں سے نوازا ۔اس کے علاوہ مائکروفکشن کی صنف کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اس کو اردو ادب میں باقاعدہ شامل کرنے کا اعادہ کیا ۔
اب سوال تھا ۔مائیکرو فکشن کیسا ہو اور تعداد کتنی ہو ۔علامتی یا تجریری کیسا ہو؟
ایسا فکشن جو مختصر الفاظ میں اپنی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک پورا خیال، کہانی یا کردار کو سامنے لائے جہاں قاری اس کی تفہیم میں کسی طور پر ابلاغ کی بھول بلیوں میں نہ کھو جائے بلکہ مرکزی خیال کی ترسیل اس کے ذہن میں تصویر کی طرح ابھر جائے۔ ہاں اسی طرح علامتی کہانیوں میں استعاروں کا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ اسکا ابلاغ مکمل ہو ۔
مائکروفکسن دراصل الفاظ کی ایک خاص تعداد کا نام نہیں بلکہ کسی بھی کہانی کو مکمل تصویر کرتے ہوئے ادیب الفاظ کی ایک خاص مقدار کے اندر ہی اسے تجسیم کرے۔ دوسرے لفظوں میں کہانی کو الفاظ کی ایک مخصوص مقدار کے اندر ہی سمونا ادیب کی ہنر مندی ہے۔
میں نے زندگی میں بے شمار سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات میں کبھی بطورسامع تو کبھی مقرر کی حیثیت سے شرکت کی مگر ”انہماک انٹرنیشنل فورم”کے زیر اہتمام 27نومبر کو اروما ریسٹورنٹ ہال بورےوالہ میں منعقدہ اپنی طرز کی ایک انوکھی تقریب کی میزبانی کا موقع ملا جس کی یاد دل کے گلستان کو بہت دیر تک اپنی منفرد خوش بو سے مہکاتی رہے گی۔یہ کانفرنس اور ادبی مقالمہ انہماک انٹرنیشنل فورم کے زیر اہتمام ہونے والے مائکروفکشن کانفرنس کے نام سے منعقد کیا گیا جس میں قلمکاروں کے ساتھ ساتھ سینئر اور تجربہ کار ادباء نے بھی پاکستان بھر سے شرکت کی۔
اس یادگار تقریب کے روح رواں انہماک انٹرنیشنل فورم کے بانی جناب سید تحسین گیلانی تھے جو ایک منجھے ہوئے ادیب ،شاعر،نثر نگار اور مائکرو فکشنسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ شفیق،درددل رکھنے والے اور ملنسار انسان بھی ہیں،نئے لکھنے والوں سے مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں اور قدم قدم پر راہنمائی بھی کرتے ہیں،
جب مہمان اروما ریسٹورنٹ بورےوالہ پہنچے تو سب سے پہلے سید تحسین گیلانی ، نا چیز احمر اکبر ، قاری محمد ساجد نعیم میگزین ایڈیٹر ماہنامہ نداے گل نے گرمجوشی سے معانقہ کیا ۔
تقریب سے پہلے مہمانوں طعام کا اہتمام کیا گیا ۔نظامت کے فرائض زعیم رشید اور عرفان شہود صاحب نے انجام دیئے۔ سٹیج کو کانفرس کی خوبصورت پینا فلیکس سے سجایا گیا تھا،اسقبالیہ پرموجود انتہائی خوش مزاج اور متحرک نوجوان آنے والے کو خوش آمدید کہہ رہے تھے
پروگرام کی ترتیب ایسی رکھی گئی تھی کہ کہیں بھی یہ دل کش تقریب کسی تعطل کا شکار نہیں ہوئی جس پر منتظمین کو داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ اس کانفرس کی ایک اور انوکھی بات یہ تھی کی نئے لکھنے والوں میں خواتین شامل تھی۔ اس کانفرس نے یہ اعتراض بھی ختم کر دیا کیا کہ ادبی محفلوں میں خواتین شرکت نہیں کرتیں۔اس پُروقار تقریب نے یہ بھی باور کروایا کہ ادبی تقاریب اگر صرف خانہ پری ،قیام و طعام اورفوٹوسیشن تک محدود نہ ہو ں اور خواتین کے وقار واحترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو خواتین بھی بھرپور شرکت کرتی ہیں۔
محفل میں شرکت کرنے والے معروف قلمکار وں کے نام کچھ یوں ہیں:
اے غفار پاشا ( صدر محفل ) رانا غضنفر عباس ( عارف والا ) محمود فریدی ( عارف والا ) طارق سندھی( عارف والا )
مرید خاور عباس ( میلسی ) جواد حسنین بشر ( اسلام آباد )
ذکا اللہ شیخ ( سرگودھا ) مافات رضا ( لاہور )
محمدزبیر مظہر پنوار ( حاصل پور ) باسط آذد ( چنیوٹ )
قاری ساجد نعیم ( لاہور ) شہزاد شاکر ( لاہور ) ہارون الرشید ( لاہور) عقیل عباس ( منڈی بہاؤالدین )
عرفان شہود ( عارف والا )
مقامی ادباء ۔ فرح خان ، عبدالسلام دانش ، زعیم رشید ، اقبال غوری ندیم صابر ، عمران حیدر مدحر، عادل شہزاد ، بشارت علی راحل، احمر اکبر
تلاوت قرآن پاک کے بعد معروف نعت خواں سید لیاقت حسین گیلانی صاحب نے بڑے خوبصورت انداز میں کی اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے،
یہ پورے پاکستان کے لکھاریوں کا واحد اور انوکھا پروگرام جو انہماک انٹرنیشنل فورم کے زیر سایہ ہوا تھا جس میں جہاں اردو ادب کے چمکتے ستارے جو اس وقت اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر سینئیر بن چکے ہیں،ان کے زیر سایہ 50 سے زائد نئے لکھنے والے بھی موجود تھے ،میں نے اب تک کی زندگی میں کہیں بھی اتنے لکھنے والے ایک چھت کے نیچے نہیں دیکھے،ویسے تو منجھے ہوئے لکھاری کسی کی تعریف تک کرنا گوارہ نہیں کرتے لیکن اس پروگرام میں جہاں نئے لکھنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کی وہیں پر راہنمائی کے لیے بہترین طریقہ کار اور اپنے تجربات بھی بتائے۔
ہال میں بورےوالہ کی روایتی گرمی اپنے جوہردکھارہی تھی،لیکن شرکاء کے حوصلے بھی قابل دید اور قابل داد تھے،
سید تحسین گیلانی نے سب سے پہلے اپنا مقالہ پیش کیا جا میں انہوں نے
مائکرو فکشن کیوں ؟ اور اس کی ایک الگ صنف ہونے پر تمہیدی گفتگو کے ساتھ دلائل سے بات کرتے ہوئے شرکاء کے سامنے سوال بھی رکھا اور مقالے میں اس بات پر زور دیا کہ یہ افسانچہ / منی منی سٹوری / اور فلیش فکشن سے الگ صنف ہے جس کی شکل انگریزی ادب سے جدا ہے اور اردو میں اس کی اپنی پہچان ہے ۔ انہوں نے مائکرو فکشن کو ایک ایسا تخلیقی بیانیہ قرار دیا جو بیک وقت داستان کا رنگ ، افسانے کا فسوں ، ڈرامے کا مکالمہ ناول کی چاشنی اور نظم کا آہنگ لیے ہو ۔یعنی مجموعی حیثیت میں ایک گندھا ہوا متن جس کی ہر سطرسے کہانی پھوٹے ۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک انہماک فورم پر تجرباتی نشستوں میں 800 سے زائد مائکرو فکشن کی مثالوں کا سامنے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ بڑی تعداد میں ادباء اس صنف میں طبع آزمائی کر رہے ہیں ۔
اسلام آباد سے تشریف لائے ہوئے معروف افسانہ نگار سکالر جواد حسنین بشر نے بھی اپنے مقالے میں اس صنف کی اہمیت پر زور دیا اور اس صنف کو عالمی ادب میں ایک بہترین اضافہ قرار دیا ۔
چنیوٹ سے آئے معروف نقاد ادیب باسط آذد نے انتہائی پر مغز گفتگو کی اور فلسفیانہ انداز میں اس صنف کی اہمیت کو قارئین کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے زور دیا کہ نئی اصناف کا اردو میں شامل ہونا اور اس پر ریسرچ کرنا ہم ادباء کی ذمہ داری ہے ۔
رانا غضنفر عباس صاحب نے بھی بھرپور عالمانہ انداز میں انگریزی ادب کا حوالہ دیتے ہوئے مائکرو فکشن کو اردو میں خوش آمدید کہا اور منتظمین کی کاوشوں کو سراہا اور اپنا بھرپور مقالہ پیش کیا ۔معروف افسانہ نگار کالم نگار محمود فریدی صاحب نے اپنے مخصوص فکاہیہ انداز میں اس صنف پر عمدہ کالمانہ گفتگو سے محفل میں نئی روح پھونک دی ۔
علاوہ ازیں
طارق سندھی ۔ محمد زبیر مظہر پنوار ، مافات رضا ، شہزاد شاکر ، قاری ساجد نعیم ، زعیم رشید اور مرید عباس خاور صاحب نے اپنے اپنے مقالے پیش کیے اور رد تردید کے ساتھ بات کو آگے بڑھایا ۔
پروگرام کے صدر استاد و شعراء معروف قانون دان ادیب شاعر محقق اے غفار پاشا صاحب تھے،جنہوں نے اپنے خطاب میں جہاں اردو ادب کے دفاع کی بات کی وہیں اتنا خوبصورت پروگرام سجانے والوں اور اس میں شریک ہونے والوں کی بھرپور تعریف بھی کی اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو مبادک باد دی ۔جناب سید تحسین گیلانی اور ان کی ساری ٹیم کی کوشش وکاوش کو سراہا اور کامیاب اور پر وقار تقریب کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کیا اور آئندہ بھی اس قسم کے پروگراموں کے انعقاد پر زور دیا۔اور انہوں نے کہا کہ اس کثیر تعداد میں پورے پاکستان سے سکالرز کا اکٹھے ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ صنف تیزی سے اپنا مقام بنا رہی ہے ۔
تقریب کے تمام مہمانوں کو خصوصی یادگاری مائکرو فکشن نمبر ماہنامہ نداے گل سے نوازا گیا ۔
پروگرام کے آخر میں سب مہمانوں کا فوٹو سیشن ہوا ۔اس یاد گار تقریب پر انہماک انٹرنیشنل فورم کو تہہ دل سے مبارک باد ۔
ماشاءاللہ ۔۔
انہماک کے مدیر اعلی سید تحسین گیلانی صاحب، انکی کی ٹیم اور تمام شرکاء کو دلی مبارک باد۔
شکریہ ایک روزن