(احسان اللہ خالد)
پاکستان میں قائم’’ پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن ‘‘کے سکولوں کے ترک عملے کو فوری ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق پاک ترک سکولوں میں کام کرنے والے ترکی شہریوں میں ترک اساتذہ کی تعداد 108ہے جب کہ ان اساتذہ کے بچوں اور متعلقہ انتظامیہ عملے کی کل تعداد450کے لگ بھگ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ترک رہنما فتح اللہ گولن کی تنظیم ’’ ہزمت فاؤنڈیشن‘‘ کے زیرِ اہتمام چلائے جاتے ہیں جو ترکی میں فوجی بغاوت میں مبینہ طور پر ملوث پائے گئے تھے۔ فتح اللہ گولن اس وقت امریکہ میں پناہ گزیں ہیں اور ترکی حکومت کو شدت سے مطلوب ہیں۔ ترکی حکومت بغاوت کی کاری ضرب سے بچنے کے بعد گولن تحریک کو ہر طرح سے کچلنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کر رہی ہے جو جنگ میں جائز تصور کیا جاتا ہے۔
یہ ساری کارروائی پاکستان کے دورے پہ آنے والے ترکی صدر طیب اردگان کے ’’اعزاز‘‘ میں کی گئی ہے، اس سے پہلے بھی ترکی حکومت کی سفارش پہ اگست میں ترکی انتظامی عملے کو سکولوں کی پرنسپل شپ سے نکال دیا گیا تھا۔اب سنا ہے کہ یہ ادارے ’’معارف فاؤنڈیشن‘‘ کو دیے جائیں گے جسے ایک این جی او کے طور پر رجسٹر کر لیا گیا ہے۔
یہ خبر ایک افسوس ناک خبر ہے گو کہ ترکی اساتذہ کی طرف سے اس فیصلے کو مقامی عدالتوں میں چیلنج کر دیا گیا ہے مگر بحیثیت قوم جتنا احترام کی صدر کو دیا جانا مقصود ہے اس سے بڑھ کے ان مہمان اساتذہ کی عزت بھی ہم پر فرض ہے۔ ترکی حکومت کے دباؤ پہ ان کو اس طرح نکال دیا جانا کسی طور بھی احسن عمل نہیں۔ یہ صرف ترکیوں کی توہین نہیں بلکہ پوری تدریسی کمیونٹی کی توہین ہے۔ دیکھا یہ جانا چاہیے کہ کیا کسی ملک کے اندرونی جھگڑے کو اپنے ملک کی ثقافتی و تہذیبی اقدار پر مسلط کر دینا چاہیے؟کیا پاکستان کی خود مختاری اتنی جلدی اپنا موقف بدل سکتی ہے؟ کیا ترکی اساتذہ کسی سازش میں ملوث تھے؟ یہ اُن کی سرگرمیاں گولن بغاوت میں شریکِ کار رہی ہیں؟ یہ ایک فیصلہ خودساختہ اور ترکی صدر کے دباؤ سے عمل پذیر ہُوا ہے جو کسی طور بھی درست نہیں۔
پاک ترک سکول کوئی ایک دم سے قائم نہیں ہوئے، یہ ادارے نوے کی دہائی سے کام کر رہے ہیں اور ان کا کردار ہر حوالے سے ملکی سالمیت کے حق میں رہا ہے بلکہ تہذیبی اقدار میں ان کی شمولیت مقامی اداروں سے بڑھ کے رہی ہے۔
حکومت کے اس فیصلے نے تعلیمی اقدار کو بری طرح ٹھیس پہنچائی ہے،۔ اساتذہ اور بچوں کی اس ملک بدری کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے چیلنج کرنے والوں میں بہت سے والدین بھی شامل ہیں۔امید کی جا سکتی ہے کہ پشاور ہائی کورٹ اس سمت درست فیصلہ دے گی ۔ حکومت کے اربابِ اختیار کو بھی اساتذہ کی اس توہین آمیز سلوک پہ نوٹس لینا چاہیے اور اس فیصلے کو فی الفور واپس لینا چاہیے۔
ترک اساتذہ کے ویزوں کو توسیع دی جانی چاہیے ۔ ان ویزوں میں ایسے امیدوار بھی ہیں جو1996سے توسیع ہوتے آ رہے ہیں۔ اُن کو یک دم ختم کر دینے سے اُن کے مجموعی خدمات کو بری طرح رد کر دیا گیا ہے۔
اگر ترک صدر مہمان ہیں تو ترکی اساتذہ بھی ہمارے مہمان ہیں، ان کی یوں بے عزتی اور یوں ملک بدر کرنے کے اقدام نے پوری قوم کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔