پدرسری سماج اور عورت بطور مصنفہ
از، سبین علی
پدر سری سماج نے جو دنیا بھر میں کئی صدیوں سے رائج ہے عورت کو مرد سے کم تر مخلوق سمجھنا شروع کیا تو اس کو عقل، علم، فہم و فراست کے درجے سے رفتہ رفتہ خارج کرنا شروع کر دیا۔ پھر کبھی ماضی میں ایک ایسا وقت آیا ہوگا جب سماجی رویوں اور تضحیک سے اکتا کر عورت نے اپنے احساسات و محسوسات کو مردوں کے سامنے بیان کرنا ہی چھوڑ دیا ہو گا۔ اسی لیے اسے ہمیشہ ایک پہیلی قرار دیا جاتا رہا کہ عورت ذات کی پیچیدگیوں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ قدیم متعصب افکار، فرسودہ مذہبی بیانیے، چڑیلیں قرار دینا، ادب آرٹ حتی کہ مونا لیزا جیسی شاہ کار پینٹینگ بھی اس احساس کو مزید تقویت دیتی رہیں کہ عورت کو سمجھنا آسان نہی۔
لیکن کسی بھی مرحلے پر اسے خود کو بیان کرنے یا سمجھانے کی سعی نہ کرنے دی گئی۔
اگر انسانی معاشرت و ثقافت سے بڑھ کر اظہار بیان و ادب کی بات کی جائے تو ماضی میں اور آج بھی عورت کا قلم کے ذریعے اپنے یا دیگر خواتین کے محسوسات کا اظہار پدرسری سماج میں بہت سے لوگوں کی نظر میں نا پسندیدہ قرار پاتا ہے۔ پدرسری سماج میں عورت کے مختلف کرداروں اور رشتوں کے لیے الگ الگ طرز کے سانچے و معیار مقرر ہیں۔ ان مروجہ پیمانوں اور سانچوں سے ہٹ کر اس کی شخصیت کی بطور انسان شناخت ابھی تک کم یاب ہے۔ پ
درسری سماج عورت کو ایک ذہن سے زیادہ ایک جسم یا ایک کموڈٹی کے طور پر زیادہ پسند کرتا ہے۔ علی عباس جلالپوری ایک جگہ لکھتے ہیں کہ “مرد ذہین اور سنجیدہ لڑکیوں سے دور بھاگتے ہیں اس سے ان کے احساس بر تری کو ٹھیس لگتی ہے” یہ عمومی مشاہدہ ہے کہ مرد عموماً اپنے بگ باس کے طور پر عورت کی بجائے مرد کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے آیا پدرسری سوچ کو یہ ٹھیس کسی ٹیلنٹڈ اور ذہین مصنفہ سے بھی لگ سکتی ہے جو اپنی صنف کے مسائل کے ساتھ ساتھ نہ صرف جنسیات بل کہ سماجی اقتصادی و معاشرتی مسائل پر لکھنا شروع کر دے؟
مصنفین کسی کی معاشرے کے حساس ترین افراد اور عکاس ہوتے ہیں۔ (ملاحظہ کیجیے: ہم کیوں لکھتے ہیں؟) معاشرے کے سبھی افراد سمیت اپنے درون کے محسوسات کی ترسیل بھی کر سکتے ہیں۔ ایسے میں عورت کا بطور مصنفہ کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اس اہمیت کے با وجود وہ مصنفہ ایک الگ طرز سے سماجی دباؤ کو برداشت کرتی ہے جن سے میل رائٹرز کا عموماً واسطہ نہیں پڑتا۔ چلیں اردو ادب کی تاریخ کھنگالتے ہیں۔
اورنگ زیب عالم گیر کی بیٹی زیب النساء مخفی شاعری کرتی تھیں مگر اس زمانے میں ان کا ذکر بطور شاعرہ کہیں نہیں ملتا۔ اس بارے میں فرانسیسی مستشرق گارسیں دتاسی نے لکھا ہے کہ:
”میں نے زیب النساءکی اردو نظمیں دیکھیں اور پڑھی ہیں۔“
لیکن بطور شاعرہ زیب النساءزیبی مخفی کا ذکر اُس کے اپنے زمانے میں ممکن نہ تھا۔
ذرا بعد کے دور میں جھانکیں تو میر محمد تقی میر نے اپنی کتاب نکات الشعراء میں اپنی ہی شاعرہ بیٹی بیگم کا تزکرہ ہی نہیں کرتے کیونکہ عورت کے جذبات و احساسات کو مردانہ سماج میں کسی سطح پر بھی عیاں ہونا قابل قبول نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اے آر خاتون نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بیسوں اصلاحی و نسائی ناول تحریر کیے مگر کبھی سماج کے سامنے نہیں آئیں نہ ہی انکی کوئی تصویر دستیاب ہے بہت سے لوگ ان کے مکمل نام ” امت الرحمن خاتون” تک سے ناواقف تھے۔
پاکستان کی معروف افسانہ نگار “گھنٹی” جیسے شاہ کار افسانے کی خالق نیلوفر اقبال خالد قیوم تنولی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں:
“در اصل خاتون لکھاری اگر تدبر سے کام نہ لے اور گھر اور ادبی سرگرمیوں میں توازن نہ رکھے تو جلد یا بدیر گھر یا ادبی کیریئر میں سے ایک کو چن لینے والا مرحلہ آ جاتا ہے۔ اِدھر توازن بگڑا اُدھر شوہر بِدکا۔ وہ تو غنیمت ہوا کہ میں افسانہ نگار تھی، اگر شاعر ہوتی اور عشقیہ یا ہجر و فراق کے شعر کہتی تو میاں نے کہنا تھا کہ بھئی ہم تو یہ بیٹھے ہیں سامنے۔ تم کس کے ہجر کے گیت گا رہی ہو۔ شکر ہے بچت ہو گئی … وگرنہ شاعری کا فائدہ ہی کہا اگر عشقیہ شعر بھی نہ کہہ سکیِں۔”
نیلوفر اقبال پاکستانی سماج میں عورت کے بطور مصنفہ کردار پر بین السطور بہت کچھ کہہ گئیں۔ گھر اور ادبی کیرئیر میں سے ایک کو چننے کا یہ افسوس ناک مرحلہ کئی خواتین مصنفین اور شاعرات کی زندگی میں آیا۔ نسیم سید جو خود ایک عمدہ تانیثی شاعرہ، مترجم اور افسانہ نگار ہیں اپنی سوانحی یاد داشتوں میں لکھتی ہیں کہ وہ بچپن سے ہی گھر والوں اور سکول میں استانیوں کی حوصلہ شکنی کے باوجود لکھتی رہیں۔ اعزازات و انعامات بھی حاصل کرتی رہیں مگر خانگی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی انہیں لکھنے پڑھنے کا سلسلہ موقوف کرنا پڑا وہ ایک جگہ (ایک زندگی سے کچھ ورق از، نسیم سید) لکھتی ہیں:
“مگر شادی کے بعد پتا چلا کہ شریف عورتیں شاعری نہیں کرتیں، مشاعروں میں نہیں جاتیں، کتابیں نہیں پڑھتیں وغیرہ وغیرہ۔ خیر یہ ایسا زندگی اور موت کا مسلہ بھی نہیں تھا سو سرکا دیا خود کو ایک طرف”
لیکن جب ان کے میاں دوسری شادی کر کے گوری کو پیارے ہوئے تو وہ علیحدگی کے بعد گھر جاب اور اولاد کی ذمہ داریوں کے با وجود لکھتی ہیں۔ پروین شاکر علیحدگی کا دکھ سہتی ہیں، سیمین درانی نظم “تم ہو ہی کیا فقط ایک عضو” لکھ کر معتوب قرار پاتی ہیں۔
پرانی اقدار میں کچھ بدلاؤ ضرور آیا عورتوں کو بطور مصنفہ گھر اور خاندان کی طرف سے حوصلہ افزائی ملنے لگی، مگر بیرونی اور سماجی دباؤ ہنوز برقرار ہے۔ پدر سری سماج عورت کو بطور ایک کموڈیٹی کے تو قبول کرتا ہے بطور ایک بہتر پراڈکٹ، پروان بھی چڑھاتا ہے۔ مگر شعور افکار اور اظہار کی برابر آزادی دینے کا خواہاں نہیں ہے۔ اس کی اعلٰی تعلییم پروفیشنل ڈگریاں مناسب رشتے کی تلاش میں بہتر امیج پیش کرنے کی سعی بنا دی گئی ہیں۔ ادبی حلقوں میں اس پر مشاعروں میں شو پیس بننے کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور یہ الزام اسے شو پیس پراڈکٹ بنا کر پیش کرنے والا سماج ہی اس پر عائد کرتا ہے۔ تو دوسری طرف ادبی حلقات میں شرکت، مباحث و محافل میں شرکت، واقفیت و سماجی تعلقات کی سیڑھیوں کو اس کے ادبی مقام کے لیے ضروری بھی خیال کیا جاتا ہے۔
ادبی محافل سے بوجوہ دور رہنے والی مصنفاؤں کو اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے تجربات درون خانہ ہیں۔ یہیں سے زاویۂِ نگاہ میں اختلاف پیدا ہوتا ہے میل ڈومیننٹ کلچر جس زاویے سے تصویر کو دیکھ رہا ہے وہاں سے چھ کا ہندسہ لکھا نظر آتا ہے جب کہ جس طرف سے ایک مصنفہ اسی تصویر کو دیکھ رہی ہے اسے نو لکھا نظر آتا ہے۔ بطور ایک مصنفہ میں یہ کہنا چاہوں گی کہ آپ بھلے اسے نو تسلیم نہ کریں مگر اتنا تو تسلیم کیجیے کہ جس زوایے سے ایک مصنفہ دیکھ رہی ہے وہاں سے نو ہی نظر آئے گا۔
ایک قدرتی صلاحیت سے بہرہ ور مصنفہ کے لیے لکھتے رہنا گویا حیات ہے۔ کئی مصنفائیں جنہیں سماج کے دباؤ کے سامنے اپنے خاندان سے اخلاقی حمایت ملی تو وہ یہ حق ملنے پر اپنے خاندان کی کتنی شکر گزار رہیں اس کی انتہائی مثال بانو قدسیہ تھیں جو تا عمر اپنے شوہر اشفاق احمد کی ممدوح رہیں۔ ہر موقع اور مقام پر انہیں فوقیت دی یہاں تک کہ اس معاملے میں ان پر ادبی حلقوں ہم عصر ادیبوں اور دیگر لوگوں کی جانب سے سخت تنقید بھی کی گئی۔ لیکن ایک عورت ہونے کے ناطے جب اس احساس کے پس منظر میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہوں تو اس تشکر کے پیچھے کئی تلخ و شیریں حقائق اور نفسیاتی وجوہات جنگلی بیل کی مانند الجھی ہوئی نظر آتی ہیں جن کا ادراک مردانہ زاویہ نگاہ سے بہت مشکل ہے۔
یہ وہ دور نہیں جب عورت کی عقل کو چٹیا کے پیچھے بندھا قرار دیا جائے یا اسے فساد کی جڑ، کم تر و کم عقل مخلوق قرار دیا جائے۔ آنے والے وقت میں سماجی شعور کے ارتقاء کے ساتھ جہاں مجموعی طور پر بہتری کی صورت نظر آ رہی ہے امید ہے کہ یہ دھند چھٹے گی اور مرد اور عورت دونوں اظہار میں یکساں آزادی و سہولیات حاصل کر سکیں گے اور نتیجتاً ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ کر ایک بہتر سماج کی تشکیل میں ممد و معاون ہوں گے۔
خواتین مصنفاؤں کے لیے یہ چند حروف خراج تحسین کے طور پر:
اس نے بڑی روشن راہوں پر
آنکھوں میں پہاڑوں جیسا عزم لیے
آگے بڑھنے کی سعی کی
تو دیو قامت افکار
تہذیب و تمدن کے لمبے چوغے پہنے
علم و ہنر کے سارے ستون
راستوں پہ قابض ملے
سرسراتی سرزنش
ریت رواج کے لامبے سائے
صبح صادق کے بیچ حائل ہوئے
فلک کی وسعتوں کو
جب دقیق فلسفوں پہ پلے
باز و کبوتر بانٹ چکے
تو پانیوں کی راہوں میں
تعصبات کے مگرمچھ
گھات لگا کر بیٹھ گئے
مگر پھر بھی وہ عالی ہمت
ہر راہ گرز پہ
بڑھتی جائےسبین علی
ماشااللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوب صورت تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ