(قاسم یعقوب)
یہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے حکومتِ وقت نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی گردن کا سریا نکال کے اُس کے گلے کے لیے رسّی کا بندوبست کرنے کا حتمی فیصلہ کیا تھا۔ اس ضمن میں عدالتِ عظمیٰ نے نہایت اہم فیصلہ کیا اور تین ججز پر مشتمل ایک بنچ بنا دیا گیا جو مشرف پرHigh Treasonment کیس کوکسی انجام سے دوچار کرے گا۔ یہ ایک نہایت احسن فیصلہ تھا اور پوری قوم اس انتظار میں تھی کہ دیکھیں اس پہاڑ کے کھودنے سے کیا نکلتا ہے۔ چوہا نکلنے کی شنید بھی تھی اور آتش فشاں کے پھٹنے سے المناک حادثے کی پشین گوئی بھی ستارہ شناس کر رہے تھے۔ خیروہ کوئی آتش فشاں ثابت نہ ہُوا وہ تو چوہا ہی نکلا، وہ بھی مرا ہُوا۔۔۔۔۔ اس بنچ کو ایک حکم کے تحت نیشنل لائبریری اسلام آباد کے احاطے میں قائم کر دیا گیا۔ یونہی لائبریری کو عدالت کی jurisprudence قرار دیا گیا، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے اس کا انتظام سنبھال لیا اور لائبریری دیکھتے ہی دیکھتے کسی ملک کی سرحد پر بنی فوجی چھاؤنی کاسا منظر بنا دی گئی۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہے اور جن کو پتا ہے انھوں نے توجہ نہیں دی کہ سابق ڈکٹیٹرمشرف کا ٹرائل جس خصوصی عدالت کے سپرد تھا وہ اپنا بنچ ایک لائبریری میں لے کر بیٹھی تھی۔ مشرف کوآرٹیکل 6 کے تحتHigh Treasonment سزا ملے یا نہ ملے مگراس دوران ا پنے تہذیبی اعصاب کا امتحان ایک لائبریری دے رہی تھی۔ جی ہاں یہ ایک لائبریری ہی تھی اور ایک خوفناک منظر پیش کر رہی تھی۔ جس دن سے یہاں عدالت منتقل ہوئی ، لائبریری کو آہنی تاروں اور بارود سے محفوظ بنانے کے لیے لوہے کے بڑے بڑے بیرئیرز سے جکڑ لیا گیا تھا۔ کسی بھی طرف سے اور کسی بھی اوقات میں اس لائبریری میں داخلہ نہ صرف ممنوع تھا بلکہ اتنا خوفناک بھی کردیا کہ اگر اجازت مل بھی جائے تو اندر جاتے جاتے جتنی جگہوں پر تلاشی لی جاتی اور جس طرح کے حفاظتی مناظر سے گزرنا پڑتا ، کتاب کا نازک قاری برداشت نہیں کر سکتاتھا۔ عدالت تو ہفتے میں ایک دن ہی سماعت کرتی ہے مگر لائبریری کے دروازے پورا ہفتہ بند رہتے ہیں۔
اس لائبریری کا نام نیشنل پبلک لائبریری ہے جو ایک طرح کی پاکستان کی مرکزی لائبریری بھی ہے۔ لائبریری میں ۵۰۰ قارئین بیک وقت مطالعہ کے لیے بیٹھ سکتے ہیں اس کے علاوہ اس میں ۱۵ تحقیقی کمرے، ایک بڑا آئڈیٹورئم جس میں ۵۰۰ افراد کی گنجائش موجود ہے اور مائکروفلمز کی نمائش کے لیے بڑے ڈیجیٹل کمرے بھی دستیاب ہیں۔
یہ لائبریری پہلے پہل ۱۹۵۱ میں قائم ہوئی مگر اس کا پہلا نام لیاقت میمورئیل لائبریری تھا جو کراچی میں بنائی گئی۔ اسلام آباد کے نقشے کی منظوری کے وقت اس کو اسلام آباد شفٹ کر دیا۔ اور ساتھ ہی اس کا نام بھی نیشنل لائبرری کر دیا گیا۔ آپ اس سے بھی اندازہ لگائیں کہ اس وقت کتاب اور کتاب دوستی کی کتنی اہمیت تھی کہ اسے عین اسلام آباد کے ریڈ زون یعنی سب سے اہم عمارتوں کے زون میں رکھا گیا ۔کس کو خبر تھی کہ اس لائبریری کے آس پاس اور عین بیچ میں اس طرح دھرنے اور ٹرائل ہوں گے۔
ISSBنمبرز کا ریکارڈ اور پاکستان بھر کی لائبریریوں کا بالواسطہ تعلق بھی اسی لائبریری سے رہتا ہے۔ لائبریری مارگلہ کے پہاڑوں کے دامن میں ،عین وزیرِ اعظم سیکٹرایٹ کے عقب میں واقع ہے۔ وزیرِ اعظم سیکٹرایٹ اور لائبریری کا درمیانی فاصلہ کوئی ۵۰میٹرز تک کا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت کی کاروائی کے دوران وزیر اعظم نواز شریف اپنی کھڑکی سے اس لائبریری کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوں اور دعاؤں کے ساتھ درود کا ورد بھی کرتے ہوں۔میرا اس لائبریری میں کئی دفعہ جانا ہوا ہے۔ نہایت شاندار عمارت اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع اس لائبریری میں عوامی دخل پہلے بھی بہت کم تھا۔ بہت کم لوگ اس طرف کتاب پڑھنے اور کسی تحقیقی کام کی نوعیت سے جاتے تھے۔ لائبریری کا ایک بہت بڑا شاندار ہال بھی ہے جس میں شہر کے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے تقریبات کا اہتمام کرتے رہتے ہیں جو ریڈ زون میں ہونے کی وجہ سے ان دنوں بالکل ختم کر دی گئیں ہیں۔ کچھ سال پہلے اکادمی ادبیات پاکستان کی ایک ادبی کانفرنس بھی یہی منعقد ہوئی تھی۔ نیشنل لائبریری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نایاب کتب، نقشہ جات، مخطوطات، اخبارات و رسائل کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جوایک آرکائیو میں محفوظ ہے۔
اگرمجھ سے پوچھا جائے تو میں مشرف کے ٹرائل کی خبروں کی نسبت کتابوں تک رسائی کوترجیح دوں گا۔ٹرائل کے دوران مجھے بھی ایک دفعہ نیشنل لائبریری کی طرف جانے کا اتفاق ہُوا تھا مگر مجھے بہت پہلے ہی یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ لائبریری آج کل بند ہے۔ میرے استفسار پر کہ کتنے دن یہ ظلم ہوتا رہے گا تو جواب ایک خاموش لاعلمی کے شکل میں نموددار ہوا۔اب کی صورتِ حال ویسی تو نہیں مگر میں تب سے میں ایک روحانی کرب میں مبتلا ہوں کہ ہم کیسی قوم ہیں جو سابق ڈکٹیٹر کو کٹہرے میں لانے کے لیے ایک لائبریری کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ انتخاب بھی یقیناً کسی بیوروکریٹ کا ہوگا جس کو کسی کتاب کلچر سے واسطہ نہیں ہوتا مگر افسوس اس قوم اور ان ججز پہ جنھوں نے لائبریری کی قربانی کو قبول کر لیا۔میں لائبریری میں گزارے اپنے گذشتہ لمحات کو یاد کرنے لگا کہ کتابوں کے ان مجموعوں میں کیا یہی لکھا ہوگا کہ آہنی باڑوں کے حصار میں عدالت کا روسٹرم سجا دیا جائے اور پھر انصاف کیا جائے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ لفظ ومعنی کے رشتوں کو قتل کر کے ناانصافی کے لاشے پر انصاف کا ڈھول پیٹ رہا ہے۔
اصل میں یہ لائبریری یا عدالت کا نوحہ نہیں یہ تو کتاب کلچر اور اُن قدروں کی موت کا نوحہ ہے جو رفتہ رفتہ قوم کے بدن سے آخری سانسوں کی طرح موت بن کر لپٹتا جا رہا ہے۔کتاب، لفظ اور معنی کی یہ تکون آثارِ قدیمہ کی طرح مٹی کی تہوں میں چھپتی جا رہی ہے۔ صدیوں بعد ہمارے ملبے سے ہماری نام نہاد قدروں کی بازیافت ہو گی۔ ہم نے شرمندہ ہونا تو سیکھا نہیں لہٰذا وقت بھی ہمارے ساتھ کچھ بھی کر جائے ہمیں احساس تک نہیں۔ ہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ جہاں انسان خزاں میں پتے جھڑنے کی طرح سڑکوں کے کنارے مارے جاتے ہوں وہاں یہ تہذیب یافتہ رشتہ داری کون نبھاتا ہے۔نیشنل لائبریری کی عمارت جس خوف میں رہی، عین ممکن ہے وہ میرا اپنا خوف ہو اور لائبریری شاید ان دیوہیکل مصروف عمارتوں میں رہنے کی عادی ہو چکی ہو۔ جو قوم اپنے کتب خانوں کو ٹرائل کورٹ بنا کر غیرمعینہ مدت تک کے لیے بند کرسکتی ہے وہ ایک ہی حکم سے پوری لائبریری کے وجود کا بھی انکارکر سکتی ہے اور یہاں کسی سرکاری دفتر کو کھول کر ’’زندگی آموز سرگرمی‘‘ کا آغاز بھی کر سکتی ہے۔ لائبریری اسی لیے خاموش اور مطمئن کھڑی یہ ظلم دیکھ رہی ہے اور اپنی بقا کی جنگ میں مصلحت پسندی کا شکار ہو چکی ہے۔ مجھے بھی یہ لائبریری کہہ رہی ہے کہ کتاب کلچر کے اس نوحے کو ماتم کی حدوں تک پہنچانے سے باز رہو۔ ہاں مجھے اُمید رکھنی چاہیے کہ کسی روز نیشنل لائبریری کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے ایسے کھلیں گے جیسے لائبریری کا حق سب پر ہوتا ہے ۔ انشا اللہ میں اس مکمل آزادی کی خبر ملتے ہی پہلے دن وہاں جاؤں گا اور کتابوں پر جمی گرد جمع کر کے لاؤں گا اور اس سے ایک چراغ بنا کراپنی خواہش کی بے حس رُتوں کو روشنی کا لمس دوں گا۔