(عبدالغنی شہزاد )
لاہور اور سہون شریف کے بالخصوص اور دیگر شہروں کے بالعموم دلخراش سانحات نے پاکستان کو ہلا کرکے رکھ دیا اتنے بڑے صدمے کے بعد قومی وحدت اور اجتماعیت کی ذیادہ ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم وہ قوم ہیں ،کوئی جل رہا ہوتا ہے دوسرے کواس کی آگ پر سگریٹ سلگانے کی فکر رہتی ہے ۔۔۔ لاہور سانحے میں ملوث افراد کے بارے میں پوری تاکید اور تکرار سے وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے یہ تاثر دینے کی بھر پورکوشش کی کہ دہشت گردوں کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے جہاں ان کی حریف جماعت پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور ان کے دہشت گردوں نے پنجاب کو نشانہ بنایا اس کے بعد پنجاب حکومت کے آفیسران کی ایماء پر دہشت گردی کے خلاف احتیاطی تدابیر کے اطلاع ناموں اور سرکلر میں پٹھانوں اور ان کے مخصوص کاروبار کاذکر کرکے ان پر کھڑی نظر رکھنے کی استدعاکی گئی تھی اس کے بعد سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کی جانب سے پٹھانوں کی پکڑدھکڑ کی ویڈیو وائرل ہوئی جس نے تیل پر جلتی کا کام کیا ، اس پر قومی سیاستدانوں، دانشوروں نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس تعصبانہ عمل کو قومی وحدت کے خلاف قراردیا اس قسم کی عصبیت کے بارے میں
معروف تاریخ دان ابن خلدون نے قبائلی معاشروں کے خدوخال بیان کرنے کے دوران 146عصبیت145 کی اصطلاح پہلی دفعہ استعمال کی تھی۔ نسلی، لسانی، رنگت اور برادری کی بنیاد پر انسانوں کے بیچ تفریق تاریخ کا حصہ ہے ۔ کئی سو سال قبل یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد انسانی مساوات اور جمہوریت کا علم بلند ہوا لیکن حقیقی مساوات کی جانب نوع انسانی کی پیش رفت کا عمل تاحال جاری ہے ۔ سیاہ فام باشندوں کو غلا م رکھنے کی حامی ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہو یا نسلی برتری کا علم بردار جنوبی افریقہ، عقل و فہم کے دریچے وا ہونے میں کچھ وقت تو لگتا ہے ۔ سیاست میں جمہوری بندوبست انسانی مساوات کی بنیاد پر قائم ہے اور تفریق کی گنجائش اس بندوبست میں موجود نہیں۔ برصغیر پاک وہند میں تفریق کی ایک شکل ذات پات یا برادری کی بنیادپر امتیاز کرنا ہے ۔ اس تفریق کی جڑیں ہندوستانی معاشرے کی تاریخ میں پیوستہ ہیں۔ ویسے پنجاب کے رویے کے متعلق چھوٹے صوبوں کے خدشات پہلے سے ہیں اور میاں نوازشریف پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ صرف لاہور ہی کو پاکستان سمجھتے ہیں ان کو پشاور ،کراچی اور کوئٹہ سے دل چسپی نہیں ہے ۔۔۔
اس سے قبل بھی حکومت کی جانب سے تقسیم کئے گئے پمفلٹ میں پھٹانوں یا بلوچوں کے حلیے والی تصاویر کی اشاعت پر سینٹ میں سینیٹر حافظ حمداللہ نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلبی کی تھی ، اگر حکومتی سطح پر نسلی اورقومی تعصبات کو ہوادینی ہے تو پھر تاریخ میں” جاگ پنجابی جاگ ” سندھودیش “جناح پور”آزاد پختونستان ” آزاد بلوچستان “کا نعرہ بلند کرنے والوں کو غدار کیوں کہا گیا ؟ پاکستان تمام اقوام کا مشترکہ گھر ہے ،یہ ایک حسین گلدستہ کی مانند ہے ،ہر پھول کی خوشبو الگ الگ ہے اور ایک جسم کی مانند ہے ، اور پاکستان کے اغراض ومقاصد اور سلوگن میں اس قسم کے بدبودار نعروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔۔ کون سا ایسا پاکستانی ہوگا جو اصغر سودائی کے اس نعرے سے واقف نہ ہوگا کہ پاکستان کامطلب کیا لاالہ الااللہ ، اس نعرے کے بارے میں قاعد اعظم نے کہاتھا “تحریک پاکستان “میں 25فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے اس نظم کے کچھ الفاظ یوں ہیں پنجابی ہو یا افغان
مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان
ایک رسول اور ایک خدا
پاکستان کامطلب کیا ؟
لاالہ الااللہ ۔۔۔
اس ملک کے بنانے اور چلانے میں تمام اقوام کی قربانیاں شامل ہیں لیکن پشتون ایک ایسی قوم ہے جس کے بارے میں ایک دوست کا کہنا ہے کہ
پشتون بھی کمال کے لوگ ہیں جنگ عظیم ہو تو تاج برطانیہ کو یہی دکھائی دیتے ہیں جو لڑ سکتے ہیں تاج برطانیہ کی خاطر بلاوجہ مرنے کو پشتون حاضر ہیں۔ جہازوں کے جہاز بھر کر پشتون سات سمندر پار بھیجے جاتے ہیں اور یہ جہاز تابوت اور بہادری کے تمغے لے کر پلٹتے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ ہوتا ہے تو باقاعدہ فوج کے انگریز کمانڈرز لڑنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسے میں بس بہادر پشتون قبائلی ہی لڑ سکتے ہیں۔ مرنے کو پشتون حاضر ہیں۔ ان کے لشکر جا جا کر لڑتے ہیں۔ جو سامنے آتا ہے اسے بہادری سے مار ڈالتے ہیں اور خوب مال غنیمت کماتے ہیں۔
کمیونسٹوں کو خیال آتا ہے کہ سرمایہ دار غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں تو پھر مرنے کو پشتون حاضر ہیں۔ پشتون ہی ان کے لئے بندوق اٹھاتے ہیں۔ امریکیوں کے کہنے پر سعودی توجہ دلائیں تو باقی ماندہ پشتونوں کو خیال آتا ہے کہ روسی تو ملحد اور خدا دشمن ہیں، اگر لڑنا ہی ہے تو خدا پرست امریکیوں کے ساتھ مل کر لڑنا چاہیے ، ثواب کے علاوہ ڈالر بھی ملتے ہیں۔ مرنے کو پشتون حاضر ہیں۔ یوں غریبوں کے لئے لڑنے والے پشتون اور خدا کے لئے لڑنے والے پشتون ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگتے ہیں۔
روسی شکست کھا کر چلے جاتے ہیں تو عرب مجاہدین توجہ دلاتے ہیں کہ اصل دشمن تو امریکی ہیں۔ جو پشتون یہ ہدایت پانے سے انکار کر دیتے ہیں وہ مار دیے جاتے ہیں۔ امریکہ پر نائن الیون کا حملہ ہو جاتا ہے ۔ امریکہ بدلے میں پشتونوں پر حملہ کر دیتا ہے ۔ پشتون ایک بار پھر مرنے کو حاضر ہیں۔ کچھ امریکہ سے لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں اور کچھ امریکہ کے لئے لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔
پھر بعض قبائلیوں کو خیال آتا ہے کہ جو امریکہ کا یار ہے وہ غدار ہے ۔ وہ مرنے کو پھر حاضر ہو جاتے ہیں اور پاکستانی ریاست سے ہی لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ افغانستان نہیں ہے جہاں لڑنا آسان ہو۔ جس علاقے میں لڑائی ہو رہی ہے وہ پشتونوں کا اپنا گھر ہے ۔ یوں ہزاروں پشتون مر جاتے ہیں اور لاکھوں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
مرنے کے شائق بعض پشتون ملک بھر میں خودکش دھماکے کرتے ہیں کہ ہم تو مرنے کا لطف لیتے ہی ہیں، باقیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں۔ جو پشتون مرنے سے بچنے کے لئے اپنے گھر چھوڑ کر پناہ لینے کو مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں، وہ پھر زد میں آ جاتے ہیں۔ ایک طرف ان کو طالبان مارتے ہیں اور دوسری جانب ریاست ان کو دہشت گرد سمجھنے لگتی ہے ۔
اب تو سنا ہے کہ یہ حکم بھی نکلا ہے کہ خودکش بمبار غریب پشتون محنت کشوں کے روپ میں پھر رہے ہیں ان پر خاص نظر رکھی جائے ۔ حکم دینے والے بھی مجبور ہیں کہ انہوں نے دہشت گردوں کو روکنا ہے جو یہی حلیہ بنا کر گھوم رہے ہیں اور یہ غریب پشتون بھی مجبور ہیں کہ انہوں نے روزی روٹی کمانی ہے ۔
جس شدت سے روزانہ دہشت گردی کی رپورٹیں آ رہی ہیں اور ساتھ ہی خودکش حملہ آوروں کے نام اور تصویر دیے جاتے ہیں، تو اس کے بعد کہیں پنجاب اور سندھ کے عوام بھی ہر پشتون کو پکا دہشت گرد نہ سمجھنے لگیں۔ کہیں خوفزدہ لوگ ویسی ہی وحشت نہ دکھانے لگیں جیسے کہ ہماری تاریخ میں وہ بارہا دکھاتے رہے ہیں۔ نفرتوں کا سودا زیادہ بکنے لگا تو پھر کیا ہو گا؟ یاد رہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پشتون آبادی والا شہر پشاور یا کابل نہیں بلکہ کراچی ہے ۔ بے شمار پشتون پنجاب کے شہروں میں روزی کماتے دکھائی دیتے ہیں۔ پشتونوں کو اگر ان علاقوں میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی راسخ علامت بنا دیا گیا تو انجام کیا ہو گا؟ تصور کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے تو مہاجر کیمپوں میں رہنے والے مجبور پشتونوں کو دیکھ لیں۔ کہنے کا مقصد یہ کہ پوری دنیا میں پشتون ہر موڑ پر تختہ مشق ہیں ۔۔۔