پوسٹ اسلام ازم اور مسلم دنیا
(خورشید ندیم)
سیاسی اور فکری قیادت کے افلاس نے ہمیں جس خطرے سے دوچارکر دیا ہے، افسوس کہ بہت کم لوگوں کو اس کا احساس ہے۔
پولیٹیکل اسلام کے زیرِ اثر، بیسویں صدی میں جو تحریکیں برپا ہوئیں، اُن کی کوکھ سے القاعدہ اور داعش نے جنم لیا۔ یہ تحریکیں اپنی تاریخ کے دوسرے دور میں اس فکری سرمایے سے محروم ہوگئیں جو حالات میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیتا اور ان کی روشنی میں نیا لائحہ عمل مرتب کرتا۔ ان تحریکوں کے پاس القاعدہ کے بیانیے کا کوئی توڑ نہیں تھا۔ یوںان کے فکری پس منظر نے انہیں القاعدہ جیسی جماعتوںکا خاموش رفیق بنا دیا۔ انہیں یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ امریکہ کے خلاف انہوں نے نفرت کا جو بیانیہ اختیارکیا اور مسلمانوں کے مسائل کے اسباب جس طرح خارج میں تلاش کیے ہیں، اس کا ناگزیر نتیجہ ایک انتہا پسندانہ بیانیے کا ظہور ہے۔ سید منور حسن ایک دیانت دار آ دمی ہیں۔ انہوں نے وہ حجاب برقرار نہیں رکھا جو دوسرے لوگ مصلحت یا فکری کم مائیگی کے پیش ِ نظر اتارنے پر آ مادہ نہیں تھے۔ انہوں نے خاموش رفاقت کو اعلانیہ حمایت میں بدل ڈالا۔ مجھے کوئی حیرت نہیں ہوگی اگر آنے والے دنوں میں داعش کو اسی تحریک کے نوجوانوں سے رضا کار ملیں۔
آج پوری مسلم دنیا میں صرف ایک استثنا ہے۔ یہ تیونس کے راشد غنوشی اور ان کی جماعت ‘النہضہ‘ ہے۔ انہیں اس بات کا پوری طرح ادراک ہو چکا ہے کہ اگر اسلامی تحریک کو زندہ رہنا اور داعش سے محفوظ رکھنا ہے تو اس کا واحد راستہ پولیٹیکل اسلام سے قطع تعلقی ہے۔ وہ اب شعوری طور پر ‘پوسٹ اسلام ازم‘ (Post Islamism) کے عہد میں داخل ہو چکے۔ النہضہ کے ایک راہنما سعید فرجانی کا توکہنا ہے کہ ‘اسلام ازم‘ کا انتقال ہو چکا (Islamism is dead)۔ فرجانی کبھی انقلابی تھے۔ انہوں نے ایک دور میں صدر زین العابدین کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے ایک بغاوت کو بھی منظم کیا تھا۔ ان کے خیال میں اس کی ضرورت اُس وقت تھی جب زین العابدین کا استبدادی دور تھا۔ اب تیونیسیا میں جمہوریت ہے۔ ایک آئین ہے جو قانونی طور پر پارٹی پولیٹکس کی ضمانت دیتا ہے۔ یوں اب جمہوری طریقے سے اقتدار تک پہنچنا ممکن ہے۔ اس فضا میں ‘سیاسی اسلام‘ ایک بوجھ ہے۔
راشد غنوشی اسلام ازم کو مردہ تو نہیں کہتے مگر فرجانی کی تائید کرتے ہیں کہ انہیں خود کو دوسرے مسلمانوں سے ممتاز نہیںرہنا چاہیے۔گویا وہ مسلم سماج میںکسی الگ شناخت کے قائل نہیں رہے۔ وہ مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق پر جو کچھ لکھ چکے، وہ سیاسی اسلام کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ النہضہ نے اپنی حکمتِ عملی میں ایک اور اہم تبدیلی یہ کی ہے کہ انہوں نے جماعتی فورم سے دعوت کی سرگرمیاں ختم کر دی ہیں۔ اب ‘النہضہ‘ مکمل طور پر ایک سیاسی جماعت ہے۔ یہ بھی اسلامی تحریکوں کی روایت سے واضح انحراف ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ النہضہ نے شعوری طور پر ایک ‘بعد از اسلام ازم‘ کے دور میں قدم رکھ دیا ہے۔
افغانستان کی جنگ میں اپنی تمام صلاحیتوں کو کھپا دینے کے نتائج، جب القاعدہ کی صورت میں سامنے آئے تو اس وقت لازم تھا کہ اسلامی تحریکیں اپنے طرزِ عمل اور فہمِ دین پر نئے سرے سے غور کرتیں۔ ان کے لیے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ وہ اس نئے منظر نامے سے خود کو الگ رکھتے ہوئے، کس طرح مسلم سماج کے فکری، سیاسی اور سماجی مطالبات کا جواب دے سکتی ہیں۔ اپنے فکری افلاس کے باعث وہ ایسا نہ کر سکیں۔انہوں نے تنظیمی حد تک، خود کو القاعدہ سے دور رکھنا چاہا مگر اس کے بیانیے کے وکیل بنی رہیں۔ انہوں نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ اگر وہ اس بیانیے کی تائید کریں گے تو تنظیمی فرق عملاً بے معنی ہو جائے گا۔ ان سے متاثر نوجوان القاعدہ کا رخ کریں گے۔ افسوس کہ اس کے واضح شواہد سامنے آنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے طرزِ عمل میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ انہیں اندازہ نہیں کہ وہ اب بھی داعش کے لیے نرسری کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ چونکہ ریاست کے اداروںنے بھی قومی مفاد کے نام پر اس بیانیے کی تائید جاری رکھی ہے، اس لیے دونوں نے مل کر پاکستان کو جہاں لاکھڑا کیا ہے، وہ انتہائی تشویش کا باعث ہے۔
افغان جنگ کے بعد، اسلامی تحریکوں کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ نئے عہد کے مسائل کا ادراک کرتے اورفکری تجدید کے ساتھ اپنی حکمتِ عملی کو بھی ایک جمہوری معاشرے سے ہم آہنگ بناتے۔ وہ یہ جانتے کہ پولیٹیکل اسلام کی تعبیر میں مضمر قباحتوں نے کس طرح اسلام اور مسلمانوں کے لیے مسائل کو جنم دیا ہے۔ انہیں اگر مسلم سماج کی نظری شماخت کو برقرار رکھناہے توبدلتے حالات میں اس کے لیے نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ یہ حکمت ِ عملی وہی ہے جو النہضہ اور راشد غنوشی نے ا ختیار کیا ہے۔ تیونس وہی ملک ہے جہاں سے عرب بہار کا آ غاز ہوا تھا۔ اس کے بعد النہضہ نے کس طرح زندگی کا ثبوت دیا، وہ اس وقت تمام اسلامی تحریکوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ اپنی پرانی روش پر قائم رہتے۔ دنیا کو اہلِ اسلام اور اسلام دشمن قوتوں کی تقسیم کے حوالے سے دیکھتے۔ مسلمانوں کے مسائل کے اسباب خارج میں تلاش کرتے اور مسلمانوں میں خود احتسابی کی روایت پیدا کرنے کے بجائے، انہیں خارجی دشمن کے خلاف اشتعال دلاتے۔ پاکستان سمیت اکثر مقامات پر ان تحریکوں نے یہی کیا۔ اس روش پر اصرارکا یہ نتیجہ ہے کہ ان تحریکوں کے نو جوان داعش کے بیانیے کو قبول کرتے جا رہے ہیں۔ یہ سوچ کس طرح اس تحریک میں جگہ بنا رہی ہے، شاید خود اس تحریک کی قیادت کو بھی اندازہ نہیں۔
النہضہ نے اب جو طرزِعمل اختیار کیا ہے، میں سالوں سے پاکستان میں بھی اسی کی وکالت کر رہا ہوں۔ میں نے بارہا لکھا ہے کہ 1973ء کے آئین کے بعد، پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اب ایسی سیاسی جماعتیں قومی ضرورت ہیں جو اس آئین کے دائرے میں ریاست کو درپیش مسائل کا حل پیش کریں۔ اسی طرح میں نے کئی بار یہ لکھا کہ د عوت کو سیاست سے الگ کیا جائے۔ دعوت اور سیاست کے مطالبات ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ یہاں اس بات کو سننے والے کان تھے نہ سمجھنے والے دماغ۔ اس کا نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔ اسلامی تحریک داعش کی نرسری بنتی جا رہی ہے۔
یہ المیہ محض ایک تحریک کا نہیں، پورے سماج کا ہے اور ریاست کا بھی۔ افسوس یہ ہے کہ ریاست کے اصل پالیسی سازوں کو بھی اس کا ادراک نہیں ہے۔ اس وقت داعش کا مرکز مشرقِ وسطیٰ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا سے لوگ وہاں جمع ہو رہے ہیں۔ یہ رخ معکوس بھی سکتا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو پاکستانی سماج شاید اس مزاحمت کا اظہار نہ کر سکے جو ضروری ہوگا۔ فکری بیانیہ اگر مو جود ہی نہیں تو مزاحمت کیسی؟ اگر ہے بھی تو ابلاغ کی سطح پر اس کی پزیرائی نہیں۔ ابلاغ کے ذرائع جن کے ہاتھ میں ہیں، ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جس کااپنا ایجنڈا ہے اور وہ کسی متبادل بیانیہ کا قائل نہیں۔ دوسرا وہ ہے جو مادی فوائد سے بلند تر ہوکر، ملک و قوم کے پہلو سے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔
ہمارا المیہ دو چند ہے۔ فکری افلاس کے ساتھ سیاسی افلاس بھی ہے۔ کوئی ایک سیاسی راہنما ایسا نہیں جوروزمرہ کے سیاسی مفادات سے بلند ہو کر دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ملک میں جتنا ہیجان ہوگا، یہ جمہوری اور سیاسی قوتوں کے لیے موت کا پیغام ہوگا۔ داعش کے لیے سب سے سازگار ما حول وہی ہے جہاں سیاسی خلفشار ہو اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ سماج میں اس کے نظری حامی بھی موجود ہوں۔ قوم جب فکری اور سیاسی بے مائیگی کا شکار ہو جائے تو پھرکان، دل اور دماغ اسی طرح بندہ ہو جاتے ہیں۔