(آصف مالک)
ہمارے محترم وفاقی وزیر داخلہ اشفاق احمد کے ڈراموں سے بھی طویل اوربورترین مکالموں سے بھرپور پریس کانفرنسیں کرتے ہیں، جن میں مدعا عنقا ہے عالم مری تقریر کا ہوتا ہے۔
موصوف کے طبعی رجحانات تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، دائیں بازو کے رجعتی، قدامت پسند اور مذہبی انسان ہیں، اور مذہب میں بھی غالباً وہی مسلک ان کاہے، جو مقتدر ادارے کا پسندیدہ مسلک ہے، اور جس مسلک کے ماننے والے تین عشروں سے یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے بن کر اعلانیہ اور خفیہ پراکسی وار لڑنے میں مصروف ہیں اور جن کی مصروفیات تزویراتی گہرائی کو دوام بخشنے کا سبب ہیں اور جن کی بدولت امریکہ، یورپ اور ازلی دشمن قرار دیے گئے بھارت کو تو چھوڑیں، افغانستان جیسے ’چٹ بھیے‘ بھی آنکھیں دکھاتے ہیں اور ڈو مور کا تقاضا کرتے ہیں۔حالاں کہ ہوش و خرد رکھنے والے لوگ عرصہ دراز سے نیک و بد حضور کو سمجھاتے آرہے ہیں کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو!
ہمارے محترم وفاقی وزیراعلیٰ نہیں، نہیں، وفاقی وزیر داخلہ کا خاندانی پس منظر بھی خاکی ہے۔ اور یہ گمان بھی نہیں کہ وہ جس طرح انتہا پسندوں کے فراق میں آنسو بہاتے ہیں، وہ ’اوپر‘ سے دباؤ کا نتیجہ ہوگا۔ نہیں جناب! موصوف میں اس حد تک تو منافقت نہیں ہے کہ جو اندر سے ہیں، باہر سے بھی وہی ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب موصوف بیت اللہ محسود کی ہلاکت پر زار وقطار آنسو بہاتے ہوئے فرمارہے تھے کہ یہ ملک و قوم کے مفاد میں اچھا نہیں ہوا۔ ہماری سمجھ میں تو تب بھی نہیں آیا تھا کہ پچاس ہزار ہم وطنوں کے قاتل کی موت ملک و قوم کے مفاد کے خلاف کس طرح ہوسکتی ہے! اب جو، ان کے پیرو مرشد حافظ سعید کو نظر بند کیا گیا ہے، بلکہ دیکھا جائے تو حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے، کیوں کہ آسمان پر ٹرمپ نامی چیل منڈلارہی ہے اور خاکی مرغی نے اپنے چوزے کو پروں میں چھپالیا ہے۔ تو اس نظر بندی نے موصوف پر بہت ہی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، اس معمولی سے اقدام سے موصوف کو جو گہرا صدمہ پہنچا ہے، اس کا اظہار ان کے بیانات سے ہورہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کو بغیر کسی دفعہ کے دہشت گرد کیسے قرار دیا جائے؟
ہماری سمجھ میں تو یہ بات قطعاً نہیں آرہی۔ کیا دہشت گرد تنظیم کا سربراہ دہشت گرد نہیں بلکہ شریف آدمی ہوتا ہے؟ اور موصوف دہشت گرد تنظیم یا دہشت گرد کسے سمجھتے ہیں۔ اس کا ایک اشارہ موصوف کے ایک اور بیان سے ملتا ہے ۔ فرماتے ہیں، ہر داڑھی والا مرد اور ہر حجاب کرنے والی عورت انتہا پسند نہیں ہوتی۔ بہ ظاہر یہ کلیہ مبنی بر انصاف لگتا ہے۔ لیکن جب زمینی حقائق سامنے رکھے جائیں تو دہشت گردی میں نوّے فیصد داڑھی والے مرد یا حجاب کرنے والی عورتیں ہی ملوث نکلی ہیں۔ اورداڑھی اور حجاب کو اگر انتہا پسندی کی علامت نہ بھی قرار دی جائے تو بھی جو مرد داڑھی رکھتا ہے یا جو عورت حجاب کرتی ہے، اس کے اس ظاہر سے اس کے باطن کااندازہ تو ہو ہی جاتا ہے اور اس حلیے کے لوگ انتہا پسندوں اور جہادی دہشت گردوں کے لیے طبعی طور پر نرم گوشہ رکھتے ہی ہیں۔
ہم نے تو سوائے کارل مارکس اور فیڈل کاسترو کے آج تک کوئی داڑھی والا مرد معقول نہیں دیکھا۔ شاید ہمار ے محترم وزیراعلیٰ کے نزدیک دہشت گرد بغیر داڑھی والا مرد اور بغیر حجاب والی عورت ہی ہوسکتی ہے، اسی لیے موصوف فرقہ پرستوں اور جہادیوں کے لیے تو نرم گوشہ رکھتے ہیں،( جیسا کہ حال ہی میں ان کا قول زرّیں آیا تھا کہ دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں میں فرق ہوتا ہے۔ یہ بھی خوب رہی۔ )لیکن بغیر داڑھی والے ٹارگٹ کلرز اور گینگسٹرز کو موصوف کچا چبانا چاہتے ہیں، اور جنھیں ان کے قبیل کے لوگ ’سیکولر دہشت گرد‘ قرار دیتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈرم بجادیا ہے، جسے طبل جنگ بھی کہنا بے جا نہ ہوگا، اور ڈرم کی دھمکی سے مجبوراً ریاستی اثاثے حافظ کو نظر بندی کے نام پر حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے، اور ہوسکتا ہے اس بار عدالت کے ذریعے ماضی کی طرح یہ نظر بندی ختم بھی نہ کروائی جاسکے لیکن موصوف سے اپنے پیرو مرشد کی یہ معمولی سی تکلیف بھی برداشت نہیں ہورہی، اس لیے موصوف نے اپنی خفت اور بے بسی پر پردہ ڈالنے اور خود کو چلبل پانڈے مسٹر دبنگ ثابت کرنے کے لیے اپنی توپوں کا رخ ایک بار پھر ’سیکولردہشت گرد‘ کی طرف کردیا ہے، اور برطانیہ کو لتاڑا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس کیوں بند کیا۔
ایف آئی اے کے ذریعے تڑی لگوائی کہ انٹرپول کے ذریعے ان کے اور ان کے مربیوں کے سب سے معتوب شخص کو پاکستان لائیں گے۔ کیا موصوف کو سمجھانے والا کوئی نہیں کہ جس شخص کے پاس اب نہ پاکستانی پاسپورٹ ہو نہ پاکستانی شناختی کارڈ ، وہ اب ایک برطانوی شہری ہے، برطانوی پاسپورٹ اس کے پاس ہے، تو زمینی حقائق تو یہی ہیں کہ آپ ان کا کوئی ریمنڈ ڈیوس تورہا کرسکتے ہیں اور اپنی سرزمین دندنا کر آنے والے اسٹیلتھ آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر خون کے گھونٹ پی کر خاموش تو رہ سکتے ہیں ، مگر جناب ابھی آپ میں اتنی قوت نہیں کہ آپ ایک برطانوی شہری کو اس کی مرضی کے خلاف پاکستان کھینچ لائیں۔