(ذوالفقار علی)
پی ایس ایل کو دبئی اور شارجہ سے لاہور منتقل کر دیا گیا۔ اب فائنل کیلئے پشاور زلمی اور کوئیٹہ گلیڈیٹر آپس میں آمنے سامنے ہونگے۔ پشاور اور کوئیٹہ دو ایسے شہر ہیں جن کو سیاسی، سماجی اور ثقافتی محاذوں پر مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ اس قسم کا قضیہ کوئیٹہ گلیڈیٹر اور پشاور زلمی کی ٹیموں کے اندر بھی موجود ہے۔ کوئیٹہ کی ٹیم کے اندر کوئی بلوچ النسل کھلاڑی تو نہیں ہے البتہ اس ٹیم کے اندر دوسری بہت سی قومیتوں کے نامی گرامی کھلاڑی کھیلتے رہے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اُن خطوں سے ہے جنہوں نے نو آبادیاتی نظام کے تحت مقامی باشندوں کا کئی دہائیوں تک استحصال کیا۔
ان اقوام کے کھلاڑیوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق روپیہ پیسہ بٹورا اور جب اُن کو تھوڑا سا خطرہ محسوس ہوا تو وہ کوئیٹہ کی کشتی سے اتر کر اپنے اپنے ملکوں کو سدھار گئے اور ٹیم کی باگ ڈور بلوچستان کے مشہور و معروف اور “محب وطن” بلوچ رہنما کے ہم نام کپتان کے حوالے کر گئے۔ مشکل وقت میں گوری اسٹیبلشمنٹ کا یوں دبے پاوں نکل جانا اُن کی جانی مانی روایت کا خاصہ ہے جس کو انہوں نے اب بھی کر دکھایا۔ مگر ایک کالا جو کسی استعماری طاقت کا کبھی حصہ نہیں رہا وہ اپنے جذبے اور جوش کے ساتھ بطور کوچ آخری پڑاو تک کوئیٹہ کے ساتھ ہے۔ میں جب اسکو دیکھتا ہوں تو مجھے وہ اپنے کیچ مکران کا ہی لگتا ہے۔ ڈریسنگ روم میں اُسکا جذبہ دیدنی ہوتا ہے۔ کبھی وہ کھلاڑیوں سے ہاتھ ملا رہا ہوتا ہے کبھی اُن کو گلے لگا رہا ہوتا ہے کبھی گراونڈ کی طرف دیوانہ وار بھاگ رہا ہوتا ہے تو کبھی ٹیم کو ہارتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہوا بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے وہ مکمل طور پر اپنی ٹیم کے ساتھ جی رہا ہو۔ یہ رویہ انسانوں کے اندر ایسے نہیں آ جاتا بلکہ اس کے پیچھے بہت ساری اہم جُڑتیں (connections) کار فرما ہوتی ہیں۔ عام طور پر جس خطے کے لوگ اپنی اقدار اور مٹی سے جُڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اُن کا اجتماعی و تاریخی کردار غاصبانہ نہیں ہوتا وہ زندگی کی آخری سانس تک زندگی سے بھر پور طریقے سے جُڑے رہتے ہیں۔ اُن کی خوشیاں اور غم فطری ہوتے ہیں وہ بناوٹی یا مکینیکل بالکل نہیں ہوتے اور اُن میں تعلقات کو نبھانے کی صلاحیت بدرجہ اُتم موجود ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس اُن اقوام کے افراد جو اجتماعی طور پر قبضہ گیریت، استحصال اور مشینری تہذیبوں کے وارث ہوتے ہیں یا رہے ہیں وہ ہر پہلو کی ناپ تول(calculative ) کرتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کی زندگی کے اندر خوف، بے بسی، بوریت اور بناوٹی پن بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ فطری دائروں سے کٹے (disconnected) ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر آپ ویو رچرڈسن کے مقابلے میں مکی آرتھر کے افعال و اظہار کا جائزہ لیں تو وہ سپاٹ قسم کا چہرہ لیئے سوچ و بچار میں گُم سُم نظر آتے ہیں۔ اُن کے تاثرات سے ایسے لگتا ہے جیسے وہ لمحہ موجود سے لطف اندوز ہونے کی بجائے آنے والے وقت کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوں۔
اس فکر کے حامل افراد ظاہری طور پر پروفیشنل اور کامیاب ضرور نظر آتے ہیں مگر اندر خانے وہ ایسی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں جو اُن میں اجتماعی طور پر انسانوں سے نڈر، بے باک اور فطری تعلقات جوڑنے میں ہچکچاہٹ پیدا کرتی ہے۔ اسی سوچ میں مبتلا گورے کوئٹہ کی ٹیم سے اپنی وابستگی کو اس نہج پر ثابت نہیں کر سکے جہاں تعلقات کی پرکھ انسانی رشتوں کی بے لوث محبت پر منتج ہوتی ہے۔ اس لئےجب انہیں تھوڑا سا ڈر محسوس ہوا تو وہ اپنی ٹیم کو چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو پدھار گئے۔
آپ پشاور زلمی کے ڈیرن سمی اور دوسرے ” تل وطنی” قسم کے کھلاڑیوں کو دیکھیں تو اُن کا رویہ ، طور اطوار اور سوچنے کا انداز بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کو مشکل مرحلے پر چھوڑ نہیں دیا بلکہ آخری پڑاو تک ساتھ دینے کا یقین دلایا ہے۔ اُنہوں نے سکیورٹی رسک کو اُس نظرئیے اور زاوئیے سے نہیں دیکھا جس نظرئے اور زاوئے سے گوروں کی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیکھا۔
اب اس قضیے میں انسانی فطرت کے دو اہم پہلو اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ پہلو ہے جسمیں ڈر، خوف، بے اعتنائی، خود غرضی، بے وفائی اور حد درجہ احتیاط برتنے کے عوامل زیادہ نمایاں ہیں جبکہ دوسری طرف تعلقات کو نبھانے کی ریت، خطرہ مول لینے کی عادت، مروت اور پیار کے عوامل زیادہ مضبوط ہیں۔
اس نفسیاتی پہلو کو اگر ہم اقوام کی تاریخ، اُن کی کار گُزاری، فطرت کے ساتھ اُن کے برتاو اور روزمرہ کے کام کاج سے جوڑ کر دیکھیں تو انسانی سوچ کے ارتقا اور سمت کا درست تعین کرنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ کیونکہ موجودہ دُنیا کی تہذیبوں سے جُڑے بہت سارے اہم سوال جن کا تعلق انسانی رشتوں، برت برتاو، عزت و احترام ، خوشی و غمی سے ہے ہمیں بطور انسان اپنے بہتر مُستقل کیلئے راستہ متعین کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ خاص کر آج کا انسان جس بیگانگی اور اکیلے پن کا شکار ہے اُسے اپنے ماضی کے تجربوں کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ ٹیکنالوجی کو ثقافتی اور سماجی پہلووں کو مد نظر رکھتے ہوئے زیر استعمال لایا جانا چاہیے ورنہ انسان کا کردار اتنا کم ہو جائیگا کہ وہ اس یلغار کے سامنے بے بسی سے صرف تماشا ہی دیکھ سکے گا۔ جس کا ذکر اس دور کے مشہور اور ذہین انسان سٹیفن ہاکنگ نے مصنوعی دانش کو زیر استعمال لانے پر خبر دار کرتے ہوئے کیا ہے۔