چائنہ پاک اکنامک کوریڈور: کیا خطے کا نقشہ بدلنے جا رہا ہے؟

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحبِ مضمون

(نعیم بیگ)

سنہِ۲۰۱۵ء میں دستخط کئے گئے سی پیک کے ۴۶ ارب ڈالرز کے میمورینڈمز آف انڈرسٹینڈنگ پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات اور خطہ کی معاشیات کو ایک نئے رخ پر لے آئے ہیں۔ ان معاہدوں کی یاداشتوں میں اگرچہ ہمہ جہت مالی اور معاشی پہلو پنہاں ہیں تاہم فوری طور پر تین اہم نکات سامنے آتے ہیں جن پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ اولاً پاکستانی حکومت نے اپنی ترجیحات کو جس سادگی سے صرف ان خطوط تک محدود رکھا، جہاں بظاہر نظر آنے والے ملکی مسائل کو حل کیا جانا ضروری تھا وہ ناقابلِ یقین ہیں۔ جبکہ چین نے عالمی تناظر میں جغرافیائی، معاشی اور تزویراتی متقابل (سٹرٹیجک کاؤنٹر ویٹ) کو سی پیک معاہدوں میں ترجیح دی۔ اس نے اس سارے عمل میں اپنے دیگر متوازی اور پہلو بہ پہلو (کولیٹرل) حاصل ہونے والے مفادات کا بھی خیال رکھا۔ گوادر سے چین تک کے لئے روڈ سٹرکچر معاشی راہداری کا نام دیا گیا جسے بعد ازاں سنٹرل ایشیا تک توسیع دے دی جائے گی۔ پاکستان سے گزرتے ہوئے پہلے اسے مغربی روٹ کا نام دیا گیا تاہم سوچی سمجھی سکیم (یہاں صوبائی سوچ، ملکی سوچ پر فتح پا گئی) کے تحت اسے مغربی و سنٹرل پنجاب سے گزار کر دیگر شمال، شمال مغربی اور مشرقی روٹس سے منسلک کر دیا گیا اور کہا یہ گیا کہ ان منسلک روڈ سٹرکچرز کو بھی اسی درجہ پرتعمیر کیا جائے گا جس پر مرکزی شاہراہ بنے گی اور وہ تمام سہولتیں مہیا کر دی جائیں گی جو مرکزی شاہراہ پر میسر ہونگی۔ بہرحال اسے ایک سیاسی بیان کہا جارہا ہے اور دیگر متاثرہ صوبے اس پر اپنے اعتراضات دے چکے ہیں کیونکہ ان شاہراؤں پر سب سے بڑی سہولت انڈسٹریل زونز اور انرجی پاور پلانٹس کی ہے۔ جس پر ہم آگے چل کر گفتگو کرتے ہیں۔

دوئم اہم بات یہ تھی کہ ان معاہدوں کے اصول وضوابط میں وہ تمام معاشی سیکوریٹیز صرف چین نے ہی حاصل کی ہیں۔ جس کی بنیاد پر حال ہی میں آئی ایم ایف کی آبزرویشنز سامنے آئی ہیں۔ ان تحفظات میں ان کی مشاورت نے ایک نئی جہت پیدا کی ہے جسے خود حکومت کے مالی مینجروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو دیکھنا ہوگا۔ ان تحفظات میں جو انہوں نے اپنے ۶.۶ ارب ڈالرز کے ای ۔ ایف۔ ایف ( ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسیلیٹی) توسیع شدہ مالی سہولت پروگرام کے تحت دی ہیں، میں پاکستان سے کچھ دیگر معاملات میں بھی چین کے ساتھ اور ملکی حدود کے اندر کچھ مزید اقدامات کرنے کو کہا گیا ہے۔

جہاں ای۔ایف۔ایف کے تحت پرو گروتھ ریفارمز میں وسیع تر میکرو اکنامک پالیسیز، قرضے کی طویل قابلِ برداشت (سسٹین ایبل) طاقت کا انتظام و انصرام، مرکزی قرضے کی دوران دیگر منسلک چھوٹے معاشی قرضوں کے جنم لینے سے پیدا ہونے والے مسائل اور اینٹی گروتھ عوامل جن سے مجموعی اندرونی ملکی پیداوار(گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ) کی شرح کا کم ہونا اور غیر ملکی تجارت میں دوطرفہ تفاوت ( بیلنس آف پیمنٹ) کا بڑھنا یا زائد ہونایقینی ہے ۔

آئی ایم ایف کے سامنے اس وقت دو عوامل سامنے ہیں ایک تو انہیں پاکستان کی مجموعی اندرونی ملکی پیداوار میں ای۔ ایف۔ایف کے دوران ۵. ۲ فیصد اپنے تسلسل سے اوپر چاہیے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ موجودہ جی۔ڈی۔پی جو ۲.۴ فیصد کی شرح پر ہے بڑھ کر ۷.۶ فیصد کی سطح پر آئے تاکہ ان کے قرضوں کی واپسی کی ممکنہ صورت حال نہ صرف برقرار رہے، بلکہ ملکی معاشی صارفی ماحول کسی بھی قیمت پر مستحکم رہے۔ ایسی صورت میں آئی ایم ایف ملکی برآمدات میں روپیہ کی معینہ شرح کو کچھ کم کرنے کو بہتر سمجھتا ہے تاکہ ملکی برآمدات بڑھ سکیں۔ ان سارے تحفظات کا بظاہر مطلب یہ ہے کہ وہ ۲۰۵ ارب روپے کا ریوینیو کا اضافی ہدف حاصل کیا جائے جس کا وعدہ پاکستان کر چکا ہے جو فی الحال ممکن نہیں نظر آتا۔ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ اگر حکومتِ پاکستان اور اسکی خزانہ منسٹری ان اہداف کو حاصل نہیں کر پاتی تو وہ سی پیک کے ان عوامل کو شروع ہی سے بے عملی اور بیڈ گورننس اور کسی حد تک بد دیانتی سے دوچار کر دے گی اور تقاضا کرتی ہوئی سی پیک’’ گیم چینجر‘‘ کی صورت میں سامنے نہیں آ سکی گی۔

یہ تحفظات کا وہ پہلا چہرہ ہے جوآئی ایم ایف اپنے اس ریویو میں ظاہر کرتا ہے۔ دوئم اس کا کہنا یہ ہے کہ طے شدہ معاہدوں کی رو سے پروجیکٹ مینجمنٹ پر ابھی تک طے نہیں ہو سکا ہے۔ کون کس وقت کیا کرے گا؟ یہاں کون اور کس وقت سے مراد وہ انتظامی معاملات ہیں جن میں سیکوریٹی کے معاملات جو پہلے ہی عسکری قوتوں کے سپرد ہیں، کے علاوہ کہاں کہاں وہ متعلقہ محکمہ جات جو بظاہر عسکری نہیں لیکن اپنی قوت وہیں سے حاصل کرتے ہیں جیسے ایف۔ ڈبلیو ۔او اور آرمی ویلفیر ٹرسٹ جو کسی نہ کسی صورت سی پیک میں اپنے کردار کے متمنی ہیں۔ آئی ایم ایف بظاہر اس پروجیکٹ کے خدوخال بالکل واضح دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے جو تاحال طے نہیں ہو پا رہے ہیں ممکن ہے کہ درونِ خانہ سول ملٹری تعلقات پر ان عوامل کا اثر بھی ہو لیکن ایسی کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔

یہاں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس سارے عمل میں شریف حکومت وہی پروجیکٹس شامل کر سکی ہے جو ان کی ترجیحات میں سرِ فہرست ہیں جن کے سیاسی مقاصد تو ہو سکتے ہیں لیکن انٹرنل ریٹ آف انٹرسٹ اور معاشی اشاریے کوئی سند نہیں دیتے۔ مثلاً اس مکمل سی پیک پیکج میں جو ۴۶ ،ارب ڈالرز کاہے میں ۳۵ ارب کے آئی پی پی پروجیکٹس ہیں۔ موجود ملکی انرجی کی صورتِ حال کے تحت ایسا ممکن ہے کہ اس عمل کے تحت انرجی کی ملکی پیداوار بڑھ جانے سے ملکی سپلائی کا ریٹ بھی بڑھ جائے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کس قیمت پر؟

اور سامنے کی بات ہے کہ اس وقت ملک میں انرجی کی ڈیمانڈ اور سپلائی میں اتنا تفاوت نہیں جتنا شور کیا جاتا ہے اور حقیقی وجہ وہی آئی پی پیز ہیں جنہیں موجودہ حکومت نے چارج سنبھالتے ہی ۱۸۰ ارب کی فوری ادائیگی کر دی تھی اور وہ کون لوگ تھے ؟سبھی جانتے ہیں۔ اور اب بھی اس تفاوت میں آئی پی پیز اپنا حصہ جب چاہے نان پیمنٹ پر روک دیتی ہے۔ یہی وہ خدشات ہیں درحقیقت جو آئی ایم ایف کو لاحق ہیں۔

آئی ایم ایف اس بات کی یقین دہانی پاکستان سے چاہتا ہے کہ وہ چین اور مقامی اشتراک کنندہ سرمایہ داروں سے اس پر مکمل تحفظ حاصل کریں کہ ان آئی پی پیز کی بجلی کا کیا ریٹ ہوگا؟ دوسرے لفظوں میں کس ریٹ پر بجلی خریدی جائے گی اور ان کی سالانہ شرح تناسب پیداوار اور قیمت کا تعین کیسے ہوگا؟ اور شرح بڑھوتری میں کونسے مینجمنٹ ضوابط طے ہونگے؟

cpec-nha

ملکی سطح پر ابھی حال ہی میں حکومت سے ۵.۳۲ فیصد انرجی کی قیمتیں بڑھائی ہیں اگر سالانہ شرح بڑھوتری یہی رہی تو چین اور مقامی آئی پی پیز کے معاشی مفادات کا تحفظ تو ہوگیا لیکن پاکستان کے معاشی اشاریے کہاں پہنچیں گے؟ جبکہ یہ معاہدے ساورن گارنٹی کے ساتھ ہیں جو ملکی معاشیات کو تہ و بالا کر دیں گے۔ اس سارے عمل میں مقامی اشتراک کن پارٹیوں کا ہے یہ بھی دیکھنا ہوگا؟

اسی ضمن میں ٹرانسمیشن کے بارے میں دیکھنا بھی از حد لازم ہے۔ کیا پاکستان کی حکومتی سطح یا واپڈا کی یا منسٹری آف پاور کے لیول پر کوئی ایسی قابل عمل تجویز پڑی ہے جس سے حالیہ بجلی کی ٹرانسمیشن طاقت ( ۱۶۰۰۰ میگا واٹ) میسر ہے، کو بڑھائے جانے کا کوئی پروجیکٹ زیرِ بحث یا زیرِ تکمیل ہے؟ کیا ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ موجودہ سسٹم میں ہی مزید بجلی داخل( اِن پُٹ) کر دیں گے۔ یہ وہ بیڈ گورننس کے معاملات ہیں جن سے سی پیک اپنی افادیت جلد ہی کھو دے گا۔

سی پیک میں جیسے راقم نے شروع میں عرض کیا کہ کئی ایک غیر مرئی ( انٹییج ایبل) پہلو ہیں جنہیں سمجھنا اس مضمون کی ضرورت ہے۔ سرفہرست، اخراجات کا ایک ممکنہ لیکن فی الحال خفیہ پہلو یہ ہے کہ سی پیک سیکورٹی اخراجات، جو ایک وسیع بجٹ کے متقاضی ہیں، کو کہاں سے پورا کیا جائے گا۔ سیکورٹی کے نام پر گوادر میں بندرگاہ سمیت تا اختتام سرحدی حدود پاکستان پورے روٹ کو مہیا کیا جانے والا انتظام لا محالہ عسکری ادارے ہی کریں گے۔ لیکن کیا نئی فورس کا قیام عمل میں لایا جائے گا؟ یا موجودہ فورس سے کام لیا جائے گا جو بوجہ موجودہ جنگی حالات ناممکنات ہی میں سے ہے۔ علاوہ ازیں اس ضمن میں آئی ایم ایف کی ایما پر اسمبلی میں ایک قانون بنام پی پی پی ( پبلک پرائیویٹ پارٹرشپ) زیر بحث ہے جس میں مقامی یا غیر ملکی پرائیویٹ سیکٹر کو حکومتی گارنٹی ( ساوَرن گارنٹی) کا نہ دیا جانا مقصود ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پرائیویٹ سرمایہ کاری کو پرائیویٹ ہی سمجھا جائے۔ کیونکہ حکومتی سطح پر گارنٹی صرف ریاست کے قائم رہنے پر قابل عمل ہوتی ہے۔ جبکہ غیر ساورن گارنٹی یا مورٹگیج پرائیوٹ طور پر کیش کرائی جا سکتی ہے۔

یہ وہ سارے اقدامات ہیں جو آئی ایم ایف اپنی ریویو رپورٹ میں حکومت پاکستان کو پیش کر چکا ہے جو بظاہر اپنے قرض کی خواہی اور اس کے مفادات کی تصویر نظر آتے ہیں لیکن ان میں کچھ اندیشہ ہائے دیگر بھی ہیں۔ اب ہم اس پورے معاملے میں ان تمام دیگر عالمی حقائق کو بھی زیرِ بحث لاتے ہیں جو اس ضمن میں قابل غور ہیں۔

ایک بات ہمیں اچھی لگے یا نہیں، حقیقت اور سچ یہ ہے کہ عالمی منظر نامہ میں پاکستان صرف جنوب مغربی ایشیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی تھوڑی بہت اہمیت یوں ہے کہ وہ عالمی طورپر ایٹمی قوت رکھے جانیوالے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ اس دنیا میں کیا کرنا ہے؟ کیسے کرنا ہے؟ اور کیوں کرنا ہے یہ کام عالمی طاقتوں کا ہے ہم اس میں وہی کردار ادا کرتے ہیں جو ہمیں سونپا جاتا ہے۔ ہمیں چار و ناچار انہی ضوابط کی پاپندی کرنی ہے جو کہے جائیں گے۔ بڑی طاقتوں کے تزویراتی مقاصد، عالمی وسائل کی بندر بانٹ، ان کے حصول کی کوشش اور کشمیر جسے ایشیائی مسئلہ سمجھا جاتا ہے، سے ہمیں کیسے نبٹنا ہے ہمیں ان طاقتوں کے نفسیاتی حربوں سے سمجھنا ہوگا۔ ہمیں ان تزویراتی متقابل کے دائرہ کار کو کو طاقت کے توازن جیسی اصطلاحات سے ان نتائج تک پہنچنا ہے جو عمومی طور پر چھپے رہتے ہیں۔ بین الاقوامی طرزِ فکر میں دنیا میں طاقت اور وسائل کے حصول کے لئے ہر خطہ میں تزویراتی متقابل تلاش کر لیا جاتا ہے۔ اسی لئے پاکستان کی حقیقی ضرورت اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک خطے میں انتشار کا موسم خطے کو دباؤ میں رکھے گا۔ کیونکہ بدلتی دنیا میں یہی عالمی طاقتیں دوسرے آپشن بھی کھُلے رکھتی ہیں۔ لہذا کشمیر سمیت مسائل کم ہو سکتے ہیں حل ہونے کی تمنا ابھی دور ہے۔

چین اس ضمن میں ایران کو باقاعدہ سی پیک میں شمولیت کی دعوت دے چکا ہے اور اس پر کام بھی ہو رہا ہے۔ اس طرح طالبان کے ساتھ حالیہ ’دوحا ‘ملاقات میں جہاں امریکہ افغانستان میں امن کی صورت کو بہتر بنانا چاہتا ہے وہیں وہ انڈیا کے ساتھ اِسی برس دوطرفہ دفاعی معاہدے میں شامل ہوتا ہے کہ جہاں کسی ملک پر حملے کی صورت میں مکمل دفاعی ساتھ دیا جائے گا۔ اب بظاہر یہ کوشش چین کے خلاف نظر آتی ہے لیکن کسی ایسی صورت میں جہاں انڈیا اپنے مفادات کے برتے پر اگر دوسرے ہمسایہ ملک سے جنگ چھیڑ دے تو امریکہ لا محالہ اپنے دفاعی معاہدے کی لاج رکھے گا۔ موجودہ صورتِ حال میں ہمارے تین ہمسایہ ممالک میں سے دو مکمل طور پر ہماری خارجہ پالیسیوں کے خلاف ہیں۔

مغرب میں ایران اور اسکے پیچھے گلف کی ریاستیں ابھی اپنے آپ کو الگ رکھے ہوئے ہیں لیکن کسی بھی آڑے وقت میں ان سے کچھ توقع رکھنا بیکار ہے۔ صرف ایک طاقت چین ہے جو اس وقت تزویراتی مفادات سے زیادہ معاشی مفادات کی قائل ہے اور پورے سی پیک میں اس کی توجہ اس جانب رہی ہے۔ روس کی افواج کے ساتھ حالیہ فوجی مشقیں اور ہونے والی آذر بائیجان کے ساتھ فوجی مشقیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ ہم عسکری سطح پر روابط بڑھا رہے ہیں اور غیر روایتی روابط اسی وقت بڑھائے جاتے ہیں جب خطرات سنگین ہو۔ ایسی صورت میں پنجاب کے اندر سے سی پیک روٹ کا گزرنا بہت سے عوامل اور مستقبل کی عالمی سازشوں کا راز کھولتا ہے۔

آئی ایم ایف کے ان تحفظات میں بین السطور جو خدشات بیان کئے گئے ہیں وہ قابل غور ہیں۔ بلاشبہ انوسٹمنٹ فیز میں ایسا ماحول بنتا ہے جب قرضہ دینے والے ممالک اپنے تئیں قرض خواہ کو ممکنہ ہارویسٹینگ ( بیج کی فراہمی، پانی کا بروقت مہیا کرنا ، کھاد کی فراہمی و دیگر پسٹیسائیڈز کے چھِڑکاؤ وغیرہ ) سہولیات کا اعتماد دیتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں لیکن جب فصل کی کٹائی یا ریکوری کا وقت آتا ہے تو سادے کاغذوں پر دستخط کِسان کی جان کو آ جاتے ہیں اور کبھی کبھار قرض خواہ کی بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ انفرادی شکل میں تو قرض خواہ پر عدالت کی ڈگری بجلی بن کر گرتی ہے، لیکن جب معاملہ ملکوں کا ہو تویہی عمل ان کی شکست و ریخت کا باعث بنتا ہے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔