(سھل شعیب ابراھیم)
معروف تاریخی شخصیات کی تفہیم اور مطالعہ تاریخ کی تعبیرات میں نفسیاتی مطالعہ بہت دلچسپ ثابت ہو سکتا ھے بشرطیکہ اس مجوزہ مطالعہ کے لیۓ ممکنہ ضروری تفاصیل
مستند شہادت کے ساتھ میسر ہو سکیں۔اس حوالے سے کسی شخص کی یاداشتیں،ڈائری ،خطوط،انٹرویوز،تحریریں،قریبی دوستوں اور اہل خانہ سے حاصل شدہ معلومات اور تصویری نقوش سے اخذ شدہ رحجانات کا ریکارڈ کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ھے۔نفسیاتی مطالعہ کبھی بھی کار سہل نہیں ہو سکتا کہ تن آسانی سے نتائج مرتب کیۓ جا سکیں۔اگر تاریخیت اور سیاسیات سے گہرا شغف رکھنے والا ذہین طالب علم نفسیاتی رموز پر عبور رکھتا ہو تو یہ نۓ مطالعات معنی خیز و معنی فشاں مباحث کو جنم دیں گے ۔نو آبادیاتی عہد اور جدید زمانے کے تارخ ساز لوگوں کے بارے بالعموم معلومات بنیادی اور براہ راست مآخذات سے ممکن ہوتی ہیں۔لہذا اسے جامعاتی اور غیر جامعاتی تحقیق کا موضوع بننا چاہیۓ۔اگرچہ اس نوع کے مطالعہ مروجہ جذبات پرور رحجانات کے لیۓ سازگار نہیں ہو سکتے کہ اس سے بت شکنی بھی ہو سکتی ھے جس کے لیۓ ہم کم ہی تیار ہو پاتے ہیں۔
چوہدری رحمت علی پاکستان کی تاریخ کے معروف لوگوں میں سے ہیں جن کو سرکاری سطح پر تو کم ہی تسلیم کیا گیا مگر لفظ “پاکستان” وضع کرنے کے حوالے سے عوامی سطح پر مقبولیت حاصل رہی۔دستیاب تاریچی ذرائع کے بکھرے زاویوں سے ان کا جو نقش ابھرتا ھے اس سے یہ واضح ہو باتا ھے کہ وہ ہر لحاظ سے ایک آئیڈیلسٹ تھے۔ہر چیز کو مثالیت پسندی کے آئینہ میں دیکھنے کے عادی اور زمان و مکان کی حدود سے بے نیاز خواب دیکھتے تھے۔دنیاداری کے تقاضوں خاص کر سمجھوتہ اور مصلحتوں سے گریزاں رہے اور یوں آل انڈیا مسلم لیگ کے فیوڈل سیٹ اپ میں جگہ نہ بنا سکے ۔۔۔یہ بھی اہم پہلو ھے کہ چوہدری رحمت علی خود کو سب سے برتر سمجھتے تھے اور ان کی طاقتور انا(ایغو) ہمیشہ دوسرے مسلم لیگی زعما کے ساتھ برابری کی سطح پر چلنے میں آڑے رہی۔۔ان کے حوالے سے موجود یاداشتوں سے پتہ چلتا ھے کہ وہ خود کو مقام امتیاز پر فائز ےمجھتے تھے اور یوں ان کی قریبی شخصی مماثلت غالب شکن شاعر یاس یگانہ چنگیزی سے بھی قائم ہرتی نظر آتی ھے۔۔
لفظ”:پاکستان ” سے ان کی جذباتی وابستگی اور رومان نظر آتا ھے ۔وہ ہمیشہ اس عدم تحفظ کا شکار رہے کہ کوئ اور راہنما یہ کریڈٹ نہ لے لے یا ان کے بغض میں کسی اور کو یہ کریڈٹ نہ دے دیا جاۓ۔اس عدم تحفظ یا شدید بد گمانی کے پس منظر میں دو پہلو تھے کہ مسلم لیگی قیادت ان کے آیئڈیا اور انہیں نظر اندار کر رہی تھی اور دوسری طرف ان کے وضع کردہ نام پاکستان کو اخبارات میں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا تھا۔لہذا مسلم لیگی رویوں کی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار بھی رہے اور مسلم لیگ سے شاکی بھی رہے۔ ۔۔۔۔۔علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں سے فاصلہے پر رہے اور اقبال و جناح کے بارے میں ان کے ریمارکس میں سردمہری،جھنجھلاہٹ،غصہ کی ملی جلی شبہیہ ابھرتی ھے ۔ان کے خطوط سے زودرنج ہونے کا تاثر بھی تقویت پاتا ھے۔احساس کمتری اور خلل عظمت کے حوالے سے بھی ان کا نفسی مطا لعہ بے حد اہم ہو سکتا ھے۔
جسٹس جاوید اقبال نے زندہ رود میں لکھا ھے کہ” چوہدری رحمت علی کی پاکستان نیشنل موومنٹ کیمبرج تک ہی محدود رہی ،اس کا نام کبھی مسلم ہند میں سننے میں نہیں آیا۔”لفظ پاکستان کی ہندوستانی اخبارات میں پذیرائ کے سبب یہ بات قرین قیاس نہیں لگتی ۔زندہ رود میں کچھ خطوط شامل ہیں جو چوہدری رحمت علی نے اپنے رفقاۓ تحریک کو لکھے۔مثال کے طور پر ایک جگہ اپنے رفعق تحریک خواجہ عبدالر حیم کو لکھتے ہیں “میکلوڈ روڈ کے مست (یعنی اقبال) کی جانب سے ایک لفظ بھی موصول نہیں ہوا۔”(خط محررہ 11 اپریل 1933) یعد ازاں چوہدری رحمت علی کو گماں گذرا کہ پاکستان کا سارا کریڈٹ ہی اقبال اپنے نام لے رہے ہیں۔اس لیۓ 1935 کو خواجہ عبدالرحیم کو خط میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔”آپ کو میرے وہ الفاظ یاد ہوں گے جو میں نے انہیں (اقبال کو) کہے تھے کہ پاکستان موومنٹ کی ممبری کےلیۓ آپ کو اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک آپ سر کے خطاب سے دستبردار نہ ہو جائیں۔۔۔۔۔معلوم ہوتا ھے حضرت آواز کی تکلیف کی وجہ سے دیگر تمناؤں سے مایوس ہو بیٹھے ہیں،اس لیۓ ہم عاجزوں کی طرف دست درازی فرما رہے ہیں۔اگر میں نے انہیں اس سرقہ کا مجرم پایا تو مجھے کتاب میں ان تمام گفتگوؤں کا چلاصہ درج کرنا ہوگا جو اس سلسلہ میں حضرت کی دردناک کمزوریوں کی داستاں ہیں۔”(خط محررہ 14 اکتوبر 1935 بحوالہ زندہ رود)
اس مکتوب سے ایک طرف تو چوہدری رحمت علی کے زود رنج ہونے کا تاثر قائم ہوتا ھے،دوسرے وہ علامہ اقبال کے مزاج شناس بھی معلوم نہیں ہوتے ورنہ ایسے جملے تحریر کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔چوہدری رحمت علی چاہتے تھے کہ پاکستان نیشنل موومنٹ کسی نامور قیادت میں چلائ جاۓ،اس سلسلہ میں اقبال سے بھی رابطہ کیا گیا مگر علامہ کی خاموشی نے چوہدری رحمت علی کو رنجیدہ کردیا کیونکہ اقبال اور ان کی شاعری کا سحر نوجوانان ہند پر طاری تھا ،اگر وہ ساتھ دیتے تو چوہدری رحمت علی کی “پاکستان سکیم”کو بے پناہ مقبولیت کے ساتھ ساتھ سیاسی قوت ملنے کا امکان قوی ہو جاتا۔۔۔۔مگر یہ وہ زمانہ تھا جب علامہ اقبال مسلم لیگ کے معاملات میں بہت دلچسپی لے رہے تھے اور اپنی توقعات محمد علی جناح سے وابستہ کر چکے تھے جو ہندوستان کے معروضی حالات میں مسلمانوں کا مقدمہ بہتر انداز میں لڑ سکتے تھے ۔مسٹر جناح ایک طویل عرصے سے ہندوستان کی عملی سیاست میں نہ صرف حصہ لے رہے تھے بلکہ ابتدا ہی سے صف اول کے رہنما کے طور پر شناخت قائم کر چکے تھے۔چوہدری رحمت علی کسی طرح بھی قائداعظم کی قیادت میں کام کرنے کو تیار نہیں تھے ۔اس لیۓ تحریک پاکستان کے زمانے میں قائد اعظم کی بے پناہ مقبولیت کے دور میں چوہدری رحمت علی کلی طور پر گوشہ نشینی کی طرف راغب رہے کیوں کہ وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ سمجھتے تھے کہ ان کی سکیم اور پروگرام کو مسلم لیگ نے چرا لیا ھے ۔دوسری طرف مسلم لیگ کی قیادت نے کیمبرج کے طالب علم کو ہمیشہ طالب علم ہی سمجھا اور پہلی صف میں جگہ نہ دی۔
یہ کچھ بنیادی اشارے ہیں ۔اگر ان کے خطوط ،ڈائری ،تقاریر،میسر حالات زیست کے دستاویزی ریکارڈ کو ان کی معاصر تاریخ کے تناظر میں مطالعہ کیا جاۓ تو نفس فہمی کی کئ جہتیں سامنے آئیں گی۔