چپ کی پولیٹیکل اسٹیٹمنٹ : وطن سے محبت پر بھی سنسرشپ کا پہرہ ہے
(یاسر چٹھہ)
اس مضون میں ایسا کچھ نہیں کہ آپ اس میں سے شروع میں ہی کچھ ڈھونڈنا شروع کردیں۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ بہت ساروں کو آخر تک بھی کچھ نا مل پائے؛ پڑھنے سے نیکیاں ملنے کی بھی کوئی مساوات (equation) موجود نہیں، لہٰذا دیکھ لیجئے کہ وقت اور ایمان اجازت دیتے ہیں کہ نہیں۔ ہاں چند ایک کو البتہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو پل کے لئے بس، آہستہ آہستہ دو گام ساتھ چلئے۔ ڈیجیٹل گھڑیوں اور موبائل فونوں کے وقتوں سے چاند اور ستاروں کے وقتوں میں ہجرت کرنے لگے ہیں۔
ہندسوں میں وقت یاد کرنا مشکل لگ رہا ہے۔ گاؤں میں جو لوگ پیدا ہوتے ہیں ان کا تاریخوں کا ریکارڈ واقعات اور یاد داشت کے کارتیسی نظام میں بندھا ہوتا ہے۔ آج کل کہیں وہ چلن بدل نا گیا ہو؟ پر شاید اتنا نہیں بدلا۔ نصیر احمد ناصر کی گاؤں کے باسیوں پر ایک خوبصورت نظم بھی کچھ اسی قسم کا حوالہ دیتی ہے شوق دل کے لئے نقل کرتے ہیں:
دیہاتیوں کا گیت
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہمارے خوابوں کے پیٹ کبھی نہیں بھرتے
چاہے ہم زندگی بھر نیند پھانکتے رہیں
شہروں میں تنہا ہوتے ہوئے بھی خوش رہنا
ہمارا المیہ نہیں جینیاتی مجبوری ہے
ہم ملاقاتوں کے اتنے حریص ہوتے ہیں
کہ ملنے والوں کی آنکھیں بھی
بسکٹوں کی طرح چائے میں ڈبو ڈبو کر ہپ کر جاتے ہیں
درخت اور جھاڑیاں
ہمارے جسموں پر اگی ہوئی
اور فصلی بوٹیاں
دور دور تک ہمارے اندر پھیلی ہوتی ہیں
اور آکاس بیلیں
ہماری روحوں سے لپٹی
ہماری ہریالی پر پلتی رہتی ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہم ہر حال میں زندہ رہتے ہیں
اور موت کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے
خدا کو عینی گواہ بنا لیتے ہیں
اور عمر بھر ضمانتوں پر ہوتے ہیں
اور گھروں کے دروازے اونچے رکھتے ہیں
تا کہ ہوا سیدھی گزر سکے
اور ہسپتالوں میں جانے سے گبھراتے ہیں
اور میتیں سرد خانوں کے بجائے
برآمدوں اور دالانوں میں رکھتے ہیں
اور ہماری عورتیں
محرابوں اور ستونوں کے ساتھ لگ کر آنسو بہاتی ہیں
اور ناشتوں میں انڈوں اور پراٹھوں کے انبار لگا دیتی ہیں
اور مرنے والوں کی یادیں
ابھاروں کی طرح سینوں سے لگا کر رکھتی ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
جہاں ہم ہیں
وہاں آسمان کم اور زمین زیادہ ہے
کھیت، پگڈنڈیاں اور راستے ہیں
ٹبے، کھائیاں، پڑیاں اور ٹھیکریاں ہیں
کیکروں، پھلاہیوں اور بیریوں کی چھدری چھاؤں میں
سمٹ کر سوئی ہوئی دوپہریں ہیں
دائمی انتظار میں حنوط کی ہوئی ملگجی شامیں ہیں
اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارتا بچا کھچا وقت ہے
ہم دیہاتی لوگ ہیں
شام و پگاہ کا تصور ہم سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا
رات اگر آنکھوں سے دیکھی جا سکتی
تو ہم سے بینا کون ہے
یہ تو دلوں، دروازوں، دریچوں اور گلیوں سے گزرتی ہے
اور اساروں پساروں میں پھیل جاتی ہے
اور دن اگر طلوع ہوا ہو
تو ہم عینک کے بغیر بھی اسے دیکھ لیتے ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
گاؤں کی دھول اور درختوں کی چھال
ہر جگہ ہمارے ساتھ رہتی ہے
مٹی کا قرض یک مشت ادا ہوتا ہے
اسے قسطوں میں نہیں اتارا جا سکتا
یہ وہ کھاتہ ہے
جس میں جانے کتنے قرنوں کے ڈپازٹس ہیں
صدیوں کے واؤچر ہیں
تہذیبوں کے ورثے ہیں
کتبے اور نسب نامے ہیں
زمان و مکاں کا جمع خرچ ہے
تاریخ کے پنے ہیں، مزروعوں کے رجسٹر ہیں
خاندانوں کے خسرے ہیں، کھیوٹ اور کھتونیاں ہیں
مواضع اور پٹوار خانے ہیں
جسموں، روحوں، رشتوں، خوابوں اور یادوں کے بٹوارے ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہم جانتے ہیں
دھرتی ہم سے اور کچھ نہیں
ہمارے کالبوت واپس مانگتی ہے!
(نصیر احمد ناصر، نظم “دیہاتیوں کا گیت”)
خیر وقت کی پیمائش کا تو نصیر احمد ناصر صاحب نے بھی اس نظم میں کوئی راست حوالہ نہیں دیا، بجز یہ کہ ہم اپنے ماضی کے کچی مٹی کے ایوانوں میں وقت گزارنے کو اثاثہ جانتے ہیں، لیکن انہوں نے ہم دیہاتیوں کے کچھ خوبصورت اوصاف اپنے خوبصورت اور لطیف انداز سے گنوا دیئے ہیں۔ بہرحال وقت کا اندازہ تو کرنا ہے۔ ہممم، پرائمری اسکول کی کسی جماعت میں ہونگے۔ اسکول کی عمارت میں اینٹیں تو پکی تھیں پر آپسی طور جڑی گارے سے ہوئیں تھیں۔
چار دیواری؟ اس وقت تو لگتا تھا کہ سارا جہاں ہمارا ہے، چین و عرب ہمارا ہے۔ چاردیواری مغرب اور مشرق کی سمتوں میں تو واضح تھی؛ مشرق کی طرف گاؤں تھا اور مغرب کی طرف نہر تھی۔ (اس نہر اور اس کی ہمارے گاؤں کی معاشرت و سماج کے متعلق اہمیت کے متعلق کسی دن ضروت لکھیں گے۔) مطلب یہ کہ مشرق و مغرب کے طرفین تو اسکول کی سرحدیں ان دو کنکریٹ حوالوں اور نشانوں نے متعین کردی تھیں۔ دکھن اور پربت ( یعنی شمال و جنوب کی جانب نیلے آسمان کی تاحد نظر کناریاں سرحدیں تھیں۔
اسکول کی سرحدوں کے تعین و عدم تعین کے بیچوں بیچ بتاتے چلیں کہ اسکول کی آدھی تعمیر شدہ عمارت جو آدھی ہی رہی، تاوقتیکہ کچھ برسوں کے مون سون نے اور دور سے آنے والے پانیوں نے اسے پہلے ایک تہائی کیا، پھر ایک چوتھائی اسکول کر دیا، پھر سنا یہ اسکول ختم ہوگیا۔ بالکل اسی طرح جیسے اسکول کے جنوب کی جانب کے ایک درخت، مشرق کی طرف کے ایک اور درخت اور شمال کی جانب کے دو درخت جانے چند سالوں میں کس کی نذر ہوگئے۔ ہاں جی ہم انہیں ایک ایک، دو دو کرکے گنتے ہیں، گنتی یا نثر خراب نہیں، بس دل والےہونے کا وہم ہے؛ اور دل اب بھی کب سائنسی تعقل پسندی کے پاؤں پڑتے ہیں۔
گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں، اورجب تک بیتنا شروع ہوتے ہوتے آخری ہفتے تک نہیں پہنچتی تھیں لگتا تھا کہ کتنی زیادہ ہوتی تھیں؛ پورے تین مہینے! لیکن کم بخت ختم بھی ہوجاتی تھیں۔ آج تک سمجھ نہیں آیا اچھے وقت تیز گھوڑوں پر سوار ہوکر کیوں آتے ہیں۔ ہنننمم۔۔۔
چھٹیوں کے بعد جب ہم اسکول واپس آتے تو وہ ہمارے دوست جو ہمیں اپریل اور مئی کے مہینوں میں اپنے سایے والی چھتری مہیا کرتے تھے، ایک ایک کرکے ختم ہوتے گئے۔ ان درختوں کا ایک ایک کرکے گم ہونا آج بھی معلوم نہیں ہو پایا کہ ان درختوں کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیوں میں کیا ہوجاتا تھا۔ اب کے سالوں خود بھی ایک سرکاری کالج میں کام کرتے ہیں۔ یہاں پر پچھلی کچھ گرمیوں کی چھٹیوں سے واپس آتے ہیں تو ہر بار کوئی ایک نا ایک درخت کم ہوجاتا ہے۔
ایک بار تو قیامت ہی ہوگئی؛ ایک سال تعطیلات کے بعد واپس آئے تو لگ بھگ بارہ درختوں کو غائب کردیا گیا تھا۔ یہ غائب شدگی بالکل اسی طرح کی گئی جیسے ہمارے ملک کے مختلف حصوں سے سوچنے والے انسان غائب ہوتے ہیں۔ اسلام آباد ہماری اسلامی جمہوریہ کا درالخلافہ ہے۔ اس میں میں بھی درخت بالکل انسانوں کی طرح غائب ہوتے ہیں؛ ان پر بڑے بڑے الزام لگتے ہیں، ایک بار تو کسی عالم نے فرمایا یہ شجر تو ہے ہی شجرممنوعہ (قیامت سے پہلے پہلے علمائے جمہور جو من بھائے کہہ سکتے ہیں) اور پھر بس وہ شجرغائب؛ اور آپ شور کرنا چاہیں تو آپ بھی یا تو “سہولت کار” یا سیدھے سیدھے سماجی “بول” و براز کا شکار ہوسکتے ہیں۔ آپ کے رشتے دار، آپ کے رفیق کار سب آپ کے اندر سے ایسی ایسی خباثتیں دریافت کر لائیں گے کہ آپ کے منکر نکیر بھی حیران اور پریشان رہ جائیں۔ شہر کا شہر تو طرح طرح کے افسانوں کے ہاتھوں مکمل مسلمان ہوا پھرے گا ہی پھرے گا۔ فی الوقت لمحہ موجود کی بات کرتے ہیں۔ سانسیں زہر مار کرتے جاتے ہیں، آخر عملیت پسندی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔
خدا رے خدا، بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ کہاں اپنے گاؤں کے اسکول کے وہ گمشدہ درخت اور کہاں اپنے موجود مقام کار(workplace) کے جادوگروں کے ہتھے چڑھے درخت!
ہمارے اس اسکول کے مغرب میں ایک بہت بڑی نہر ہوتی تھی۔ یہ نہر اب بھی قائم ہے۔ اس کا نام قادرآباد بلوکی رابطہ نہر ہے۔ یہ نہر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے مغربی دریاؤں میں سے ایک کے پانی کو ایک دوسرے بھارت کے ہاتھ چلے جانے والے مشرقی دریا کی گود میں ڈالتی ہے۔ بہرحال ہمارے اسکولی زمانہ میں ہمیں یہ صرف اپنی نہر لگتی تھی، پانی جدھر مرضی دے آتی تھی۔ اسکول سے آدھے دن کی جو بریک ہوتی تھی اسے اردو میں تو شاید “تفریح” پیریڈ کہنا مقصود ہوتا ہوگا، پر ہم اور ہمارے ہم جماعتئے اسے کچھ “تفری” کہہ کر ہی کام چلا لیتے تھے۔ یہاں جماعتئے سے مراد کوئی صالحین نا لیجئے گا، بیچارے خواہ مخواہ گنہگار ہو جائیں گے۔
جونہی اس “تفری” کی گھنٹی بجتی ہم دوڑتے دوڑتے اس نہر کی طرف بھاگتے۔ پر کیوں بھاگتے تھے؟ دو وجہوں سے: ایک تو اس نہر کی پٹری پر کوئی نا کوئی نا خودکار اور زیادہ دفعہ بے خود انجن کی گاڑی دیکھنے کی تفریح؛ اور دوسری وجہ اس نہر میں بہتے ہوئے آنے والے مختلف موسموں کے پھل جن کو کنارے پر لاتے لاتے آدھ گھنٹے کی “تفری” کا وقت ایڈوینچر بھرا گزرتا۔ یہ ایک مشترکہ کارروائی ہوتی اور اس طرح قابو آنے والا کینو، خربوزہ یا تربوز سب یار دوست مل کر کھاتے۔ اس وقت تک ہم ابھی لبرل نہیں ہوئے تھے اور نا ہی Survival of the Fittest کا شکار ہوئے تھے۔ کافی مزیدار ٹھنڈا ہوتا تھا ہمارا اس طرح پکڑا ہوا شکار۔
ایک دوسری تفریح بھی ہوتی تھی۔ یہ کوئی دو ایک سال ہی زیادہ میسر رہی۔ اس دوران یہ ہوا تھا کہ شاید جنرل ضیاالحق کے دور میں ضرب مومن نام کی جنگی مشقیں شروع ہوئیں۔ ہمارے اسکول کے مغربی سرے کی طرف اس نہر کی پٹڑی پر سے فوجی بھائیوں کی گاڑیاں گزرتی تھیں۔ ہم سارے قطار میں کھڑے ہوکر انہیں سیلیوٹ کرتے تھے، وہ آگے سے ہاتھ ہلا کر ہماری محبتوں اور لطافتوں کا جواب دیتے تھے۔ اس وقت دل میں فوجی بننے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ آہا، وہ خوبصورت بچپن۔
اب ہم بڑے شہر میں رہتے ہیں۔ ہمارے پاس سے فوجی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اب ہم سیلیوٹ کرنے کی پرانی یاد کو تازہ کرتے ہیں، لیکن صرف stream of consciousness میں۔ اس 21 مارچ کی بات ہے۔ کشمیر ہائی وے، اسلام آباد پر ہماری گاڑی کے پاس سے ایک فوجی گاڑی گزری۔ ہمارے ساتھ گاڑی میں ہمارا بیٹا تھا وہ ہاتھ اٹھا کر سیلیوٹ مارنے لگا تو ہم نے روکا کہ مبادا اس پر خود کش حملہ آور کے خیال سے کہیں کوئی سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (SOP) کی کی پیتل کی چیز نا آ پڑے۔ اور ہمارے برقی اور موم کے کاغذ نما پرنٹ میڈیا نے تو ہم سب کو بغیر کسی شک و شبہہ کے دہشت گرد قرار دے دینا تھا۔ افسوس کہ اب محبتوں پر بھی حالات نے سفاک عقلیت کی سنسرشپ لگا دی ہے۔ اپنے آپ سے بے گانگی کا سفر اتنی جلدی جلدی طے کرتے جانا ہمارا نصیب ہوچکا ہے! بہت برا ہوگیا ہے۔ بات ختم کرتے ہیں؛ چپ کی پولیٹیکل اسٹیٹمنٹ بھی ہوتی ہے۔