(اورنگ زیب نیازی)
اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ناصر عباس نیر خوابوں کے صورت گر ہیں۔قدرت نے انھیں نہایت خلاق،فعال اور بے دار ذہن ودیعت کیا ہے۔وہ سوچتے ہیں،خواب دیکھتے ہیں،نت نئے آئیڈیاز تلاش کرتے ہیں اور ان کی تکمیل میں جُت جاتے ہیں،جس کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں،اسے پورا کرتے ہیں۔ان کے آنے سے پہلے اردو سائنس بورڈ ، فروغ اردو کے دوسرے اداروں کی طرح سانسیں لے رہا تھا،ان کے آنے کے بعد گویا شباب پر آ گیا۔دور دراز تک کتابوں کی ترسیل،فروخت،سو (۱۰۰)کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ(جس پر تیزی سے کام جاری ہے)،بورڈ کی سرگرمیوں سے آگاہی کے لیے خبرنامے کے اجر اکے علاوہ ان کا اہم کام سماجی اور سائنسی موضوعات پر ماہانہ لیکچرز کا انعقاد ہے۔اس سلسلے کا پہلا لیکچر لاہور اور گردو نواح میں اچانک نازل ہونے والی’’سموگ‘‘ کے موضوع پر تھا۔اکیس فروری کو جب عالمی سطح پر مادری زبانوں کا دن منایا جا رہا تھا،اسی دن (اتفاق سے) اردو سائنس بورڈ نے ’’زبان کے معیار کا تعین‘‘ کے موضوع پر لیکچر کا اہتمام کیا۔
زبان کے معیار کا تعین کیسے کیا جائے؟یہ بظاہر بہت سادہ لیکن درحقیقت ایک پیچیدہ سوال ہے۔زبان کا دائرہء عمل بہت وسیع ہوتا ہے۔کسی خطے میں بولی؍لکھی جانے والی زبان میں رنگا رنگی اور اونچ نیچ ہوتی ہے۔زبان کے املا،تلفظ،گرامر اور لہجے میں سو فی صد یکسانی اور ہم آہنگی تلاش کرنا بے سود ہے۔ایک خطے ؍علاقے تو کیا ایک شہر کی زبان میں روز مرہ،محاورہ،تراکیب اور سلینگ کی سطح پر انیس بیس کا فرق مل جاتا ہے۔دہلی،لکھنؤ اور پاکستان کے مختلف شہروں میں لکھی اور بولی جانے والی اردو کو بہ طور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ایسے میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ زبان کے معیار کا تعین کیسے کیا جائے؟املا اور تلفظ کے کس معیار کو سند تسلیم کیا جائے؟اور غیر ملکی کسے سند مانیں؟اردو میں اس حوالے سے کچھ انفرادی کوشش ہوئی لیکن بد قسمتی سے کسی مربوط اور منضبط مکالمے کا سراغ نہیں ملتا۔اردو سائنس بورڈ نے اس لیکچر کے اہتمام سے مکالمے کا آغاز کیا ہے۔اس لیکچر کی مہمان مقرر معروف مستشرق ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ تھیں،جو آج کل نجی دورے پر لاہور آئی ہوئی ہیں۔ڈاکٹر کرسٹینا ہائیڈل برگ یونیورسٹی،جرمنی کے جنوبی ایشیائی انسٹیٹیوٹ آف لینگوئجز میں شعبہء اردو کی استاد ہیں۔انھوں نے قراۃ العین حیدر کی ناول نگاری پر پی۔ایچ۔ڈی کی ہے اور بڑی روانی سے شستہ اردو بولتی ہیں۔ڈاکٹر کرسٹینا نے اپنی گفتگو میں جرمن اور اردو زبان کے معیار کو موضوع بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ ۷۱؍۱۸۷۰ء تک جرمنی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا،تب تک جرمن زبان کا کوئی متفقہ معیار نہیں تھا۔مارٹن لوتھر کا ترجمہء بائبل جو بعض حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات کی زد پر بھی رہا،جرمن زبان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔مارٹن لوتھر نے اس ترجمے میں جو زبان استعمال کی بعد ازاں اسے معیار تسلیم کیا گیا،یہ جرمنی کے وسط مغربی حصے کی زبان ہے۔انھوں نے بتایا کہ جرمن قوم کی قوم پرستی نے بھی جرمن زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔انھوں نے مزید بتایا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمن زبان میں بڑی تبدیلیاں رو نما ہوئیں۔بالخصوص امریکی کلچر اور زبان نے جرمن کو زیادہ متاثر کیا۔انٹر نیٹ کی ایجاد کے بعد گلوبلائزیشن کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ اردو کے کچھ الفاظ بھی کسی قدر بدلی ہوئی شکل میں جرمن میں شامل ہوئے ہیں۔لیکن یہ الفاظ براہِ راست اردو سے نہیں آئے بل کہ انگریزی کے راستے جرمن میں داخل ہوئے۔اس کے لیے انھوں نے لفظ ’’بنگلہ‘‘ کی مثال دی جو جرمن میں’’بنگو لو‘‘ بولا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جرمنی کے کئی تعلیمی اداروں میں اردو پڑھائی جاتی ہے،زیادہ تر لوگ تجارتی اور کمرشل بنیادوں پر اردو سیکھتے ہیں،کچھ پاکستانی نژاد ہونے کے ناتے اردو پڑھتے ہیں،بہت کم لوگ ہیں اپنے شوق سے اردو پڑھنے آتے ہیں،یہاں انھوں نے خوشگوار موڈ میں ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ اگر کوئی جرمن لڑکی کسی پاکستانی کے عشق میں گرفتار ہو جائے تو وہ بھی اردو سیکھنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیتی ہے۔
ان کی گفتگو ختم ہوئی تو سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جسے صاحب صدارت ناصر عباس نیر نے کمال مہارت سے ایک طویل مکالمے میں تبدیل کر دیا۔اس لیکچر کے حاضرین میں لاہور کے علاوہ اسلام آباد،ملتان اور مضافاتی شہروں کے اہل قلم،ریسرچ سکالرز اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔نمایاں شخصیات میں ڈاکٹر تحسین فراقی،ڈاکٹر سعادت سعید،اکرام چغتائی،ڈاکٹر نجیب جمال،ڈاکٹر قاضی عابد،اقتدار جاوید،خالد سنجرانی،رفاقت علی شاہد،غفور شاہ قاسم،اشفاق احمد ورک،اعجازالحق،شاہ زیب خان،فرح ضیا،بینا گوئندی ،حماد رسول اور دیگر خواتین وحضرات شامل تھے۔اس بھرپور اور کامیاب لیکچر کے انعقاد پر اردو سائنس بورڈ کے ڈی۔جی اور تمام عملہ مبارک باد کا مستحق ہے۔یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے،دوسرے ادارے بھی اس روایت کو پروان چڑھانے کے لیے کوشش کریں کیوں کہ موجودہ حالات میں علمی،مذہبی،سائنسی،ادبی اور سماجی موضوعات پر مکالمے کی روایت ہی ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔