(سعد الرحمن ملک)
سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق بارہ ہزار قبل مسیح میں کل دنیا کی آبادی ایک کروڑ نفوس پر مشتمل تھی۔ 1650ء میں یہ آبادی ساڑھے چون کروڑ ہو گئی۔ 1750ء میں یہ تعداد 27کروڑ اسی لاکھ ،1850ء ایک ارب سترہ کروڑ دس لاکھ تھی اور 1950 ء میں یہ آبادی دو ارب پچاس کروڑ تک جا پہنچی۔ 2011ء میں انسانی آبادی نے سات ارب کا ہندسہ عبور کر لیا اور اب پاپولیشن ریفرنس بیورو کی تازہ ترین رپورٹ میں تعین کیا گیا ہے کہ 2050ء تک دنیا کی آبادی میں دس ارب تک اضافہ ہوجائے گا جبکہ اگلی صدی تک یہ تعداد سو لہ ارب تک پہنچ جائے گی۔موجودہ دور میں دنیا کی آبادی اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی ہے کہ اس اضافہ آبادی کو دھماکہ خیز اضافہ آبادی( Population Explosion) کا نام دیا جا رہا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنا، ان کے لیے روزگار اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا دنیا کے لیے ایک گھمبیر مسئلہ کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔
کثرت آبادی کے مسئلہ کو سماجی علوم بالخصوص معاشیات اورسماجیات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس موضوع پر سب سے پہلے تھامس مالتھس نے 1978ء میں ایک مضمون شائع کیا جو بعد میں علم آبادیات کی بنیاد بنا۔ مالتھس کا کہنا ہے کہ انسانی آبادی میں اضافہ جیو میٹریکل (Geometrical)انداز میں ہوتاہے جیسے 2۔4۔8۔16 جبکہ اس کے بالمقابل غذائی اجناس کی پیداوار ارتھمیٹکل (Arithmetical) انداز میں ہوتی ہے جیسے 1۔2۔3۔4۔5۔مالتھس کے مطابق انسانی آبادی ہر 25 سال میں دوگنا ہوجاتی ہے جبکہ زرعی پیدوار میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہوتا۔یعنی کسی ملک کی آبادی 2000ء میں ایک ایک کروڑ تھی تو وہ 2025ء میں دو کروڑ ہوجائے گی۔ اس لئے اگر آبادی کے اضافہ کی رفتار پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تودنیا کو سخت بحرانی حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔
ایسے ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے جہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کامسئلہ انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ہمارے سیاستدان اور دانشور حضرات دہشت گردی، مہنگائی ، توانائی کا بحران اور بے روزگاری کو پاکستان کے بڑے مسائل قرار دیتے ہیں لیکن کثرت آبادی کا مسئلہ جو ان تمام مسائل کی جڑ ہے اس کی طرف کبھی خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔قیام پاکستان کے وقت مغربی پاکستان کی کل آبادی تین کروڑ بیس لاکھ تھی جو اس وقت چھ گنا بڑھ چکی ہے۔اس وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جس کی آبادی ایک محتاط اندازہ کے مطابق اٹھارہ کروڑ ہے۔پاکستان کی آبادی میں سالانہ چالیس لاکھ نفوس کا اضافہ ہورہا ہے۔اگر آبادی بڑھنے کی یہی رفتار رہی تو 2050ء تک پاکستان 35 کروڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن جائے گا۔ پاکستان میں آبادی میں اضافہ کی شرح دو فیصد ہے جو بھارت ،سری لنکا، ملائشیا اور بنگلہ دیش سے بھی زیادہ ہے۔کثرت آبادی کی وجہ سے اس وقت ملک میں 44فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ آبادی کا پانچواں حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ تعلیمی سہولیات کے فقدان کے باعث 46فیصد سے زائد بالغ آبادی نا خواندہ ہے۔
آبادی میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی مسائل، صحت کی ناکافی سہولیات، غذائی قلت،توانائی کا بحران، کرپشن اور غربت جیسے مسائل نے پاکستان کی معاشی و معاشرتی ترقی کو تباہ کر دیا ہے۔ آبادی میں بے ہنگم اضافہ کی وجہ سے سٹریٹ کرائمز، چوری، ڈکیتی، اغو اور قتل و غارت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔دہشت گردی، شدت پسندی ، طلاق اورخود کشیوں کی بڑھتی ہوئی شرح بھی آبادی میں اضافہ کے مضمرات میں شامل ہیں۔معیشت پر بے پناہ بوجھ پڑنے سے تعلیم، زارعت، صحت غرض تمام شعبے کسمپرسی کا شکار ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ملکی وسائل ناکافی ہوچکے ہیں ۔ملکی نظام چلانے کے لیے ہم ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور یورپی یونین سے قرضہ لینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ہماری فی کس آمدنی ایک ہزار دو سو ڈالر سالانہ ہے جبکہ اعداد و شمار کے مطابق ہربچہ 600ڈالر کا مقروض ہے ۔ پاکستانی آبادی کا 63فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ایک خوش آئند امر ہے لیکن کثرت آبادی کی وجہ سے نوجوان ترقی کے ثمرات سے محروم ہورہے ہیں۔ملک میں بے روزگاری کی شرح سات فیصد ہے جبکہ نوجوانو ں میں یہ شرح د وگنی ہے۔
“چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ ” کے زریں اصول پر عمل کرتے ہوئے چین ، جاپان اور روس سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک نے آبادی کے جن پرکافی حد تک قابو پالیا ہے۔لیکن پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے۔ زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے والدین بچوں کی تعلیم وصحت کے علاوہ دیگر بنیادی ضروریات پوری نہیں کر پاتے جس کے نتیجہ میں یہ بچے تعلیم سے محروم ہوکر ملک وقوم کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔
دیگر شعبوں کی طرح خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں بھی حکومتی سطح پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔پاکستان میں اس وقت تولیدی صحت کی صرف 40 فیصد سہولیات میسر ہیں جبکہ مانع حمل طریقوں کا استعمال صرف 35 فیصد ہے جس کی وجہ سے آبادی کے سیلاب کے آگے بند باندھنا مشکل ہوچکا ہے۔ آبادی میں ہوشربا اضافے کی ایک بڑی وجہ جہالت اور جنسی تعلیم کا فقدا ن ہے۔اس ضمن میں عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے میڈیا اپنا فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔تعلیمی نصاب میں گھر کی اقتصادیات اور آبادی کے متعلق مضامین شامل کیے جائیں جن میں اعداد و شمار کے ساتھ بچوں کو سمجھایا جائے کہ آبادی کس طرح گھریلو معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے ۔
ضعیف الاعتقادی اور ضبط تولید کی مخالفت کے باعث پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا مشکل معلوم ہوتا ہے جس کے لیے حکومت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مربوط ، منظم اور مدلل کوششوں کو فروغ دے۔ علمائے کرام اور مذہبی سکالرز حکومتی تعاون کے ساتھ اس معاملہ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں کم عمری میں شادیاں عام ہیں جو زچہ و بچہ کی صحت کے مسائل کے علاوہ آبادی کے بوجھ میں اضافہ کا بھی باعث بنتا ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ کم عمری کی شادیوں کے خلاف موجود قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے۔
جب تک اپنی ملکی آبادی کے متعلق مکمل معلومات نہیں ہوں گی ہم اس پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کرسکتے ۔چونکہ ہمار ے ملک میں 1998ء کے بعد سے مردم شماری نہیں ہوئی اس لیے کثرت آبادی پر قابو پانے کے لیے مردم شماری وقت کی اہم ضرورت ہے۔پاکستان میں آبادی کے اضافہ کی ایک اہم وجہ ملکی سرحدوں کا نرم ہونا بھی ہے۔گزشتہ تیس سال کے عرصہ میں لاکھوں افغان بغیر کسی دستاویز کے پاکستان آئے اور یہاں مستقل طور پر آباد ہوگئے۔اسی طرح بنگالیوں، ہندوستانیوں اور مشرق وسطیٰ سے آنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد پاکستان میں رہائش پذیر ہے۔اس لیے ہمیں خاندانی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ اپنے سرحدی نظام کو بھی مضبوط بنانا ہوگا ۔حکومت کو چاہیے کہ پاپولیشن کمیشن کی ازسر نو تشکیل کرتے ہوئے مختلف سرگرم این جی اوز اور بہبود آبادی کے پروگراموں میں مصروف تمام اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے مانیٹرنگ کا نظام قائم کرے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے پیچھے کارفرما عوامل کا سدباب کے لیے عملی اقدامات کرے۔